مہوش علی
لائبریرین
اس مضمون میں بہت زیادہ باتیں وہ ہیں جن سے میں مکمل متفق ہوں۔
دہشت گردی اور اس کی وکالت کرنے والے.....سویرے سویرے…نذیرناجی
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=319729
پہلے سوچیں مسمار ہوتی ہیں۔ پھر معاشرتی رشتے مسمار ہوتے ہیں۔ نظام اخلاقیات مسمار ہوتا ہے۔ اعتبارات مسمار ہوتے ہیں۔ادارے مسمار ہوتے ہیں اور پھر ریاست مسمار ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنا ملک معرض وجود میں آنے کے صرف 23 سال بعد یہ سارا عمل نہ صرف ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ اسے جھیلنے کے اذیت ناک تجربے سے بھی گزرے ہیں۔ 69ء میں باقاعدہ ایک وزارت قائم کر کے سوچوں کی مسماری کا عمل شروع کیا گیا۔ اطلاعات و نشریات کی وزارت میں ایک شعبہ قومی سلامتی کے امور کے نام سے قائم کیا گیا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے میڈیا اور رائے عامہ کی ساری ان آوازوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو کہیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ ان آوازوں نے ایسی تمام سوچوں کو مسمار کرنا شروع کر دیا جن میں کوئی دلیل‘ منطق‘ سوجھ بوجھ‘ دانش یا دور اندیشی پائی جاتی تھی۔ دلائل کو مذہبی حوالوں‘ فریب کاری پر مبنی حب الوطنی کے بناؤٹی جذبوں‘ مصنوعی قوم پرستی کے تصورات اور نفرت پر مبنی سیاست سے آلودہ کر کے ایسی فضا پیدا کر دی گئی‘ جس میں عام آدمی کے لئے سچائی تک پہنچنا ناممکن ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کے کروڑوں عوام کو غدار قرار دے دیا گیا۔ ان کے حق میں آواز اٹھانا حب الوطنی کے منافی ٹھہرا۔ ان کی منتخب قیادت کو غدار کہہ کر مسترد کر دیا گیا اور جس کسی نے ان کے حق اقتدار کو تسلیم کرنے کی بات کی‘ اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان میں ہمارے بزرگ عبداللہ ملک بھی شامل تھے۔ میں نے مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج کشی کے منصوبے کی مخالفت کی تو اس وقت مغربی پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ٹکا خان نے مجھے غیرمحبت الوطن لکھا۔ بعد میں انہی کی قیادت میں ڈھاکہ پر فوج کشی کی گئی۔ آج اس فضا کو یاد کر کے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا ہم سب پاگل ہو گئے تھے؟ ہم بحیثیت قوم سچائی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے تھے؟ اگر انتخابات نہ ہوتے تو یقین جانیئے کہ ہم چند لوگ جو سچائی تک پہنچنے کی جستجو میں رہتے تھے۔ اندھیروں کے سامنے بے بسی محسوس کرنے لگے تھے۔ ہمیں اپنے آپ پر شک ہونے لگا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے شاید ہم ہی غلط ہوں اور جسے ہم جھوٹ کا کارخانہ سمجھ رہے ہیں۔ شاید وہی سب کچھ ٹھیک ہو۔ لیکن جب انتخابات منعقد ہوئے تو ہم کیا؟ ان میں کامیاب ہونے والے بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ پاکستان کے عوام نے ریاست‘ میڈیا اور رائے عامہ کی نمائندگی کا ڈھونگ رچانے والی ساری طاقتوں کے مسلط کئے ہوئے‘ فریب کاریوں کے تانے بانے کو ادھیڑ کے رکھ دیا۔ جنہیں غدار کہا گیا ہوا تھا وہ 90 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ اور جنہیں کافر کہا گیا تھا مغربی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت نے انہیں منتخب کر لیا۔ عوام کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے‘ مقتدر قوتوں نے میڈیا اور سنگینوں کے بل بوتے پر کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنسر نافذ کر دیا گیا۔ آزادی صرف انہیں حاصل تھی‘ جو جھوٹ ‘ فریب اور ظلم کی طاقتوں کے ترجمان بنے ہوئے تھے۔جس کسی نے سچ لکھنے کی کوشش کی اسے شرمندہ اشاعت ہونے کا موقع نہیں گیا گیا۔ زبانیں بند تھیں۔ قلم گنگ تھے۔ مشرقی پاکستانی عوام کا خون بہانے والوں کے قصیدے لکھے جا رہے تھے اور جو لوگ یہ کہنے کی جسارت کرتے کہ ان مظالم کے نتیجے میں ملک کا بچنا محال ہو جائے گا۔ ان کے خلاف میکاولیانہ دہشت گردی شروع کر دی جاتی۔ کچھ خوف زدہ ہو کر بیٹھ گئے اور جو اس کے باوجود آواز اٹھانے کے گنہگار ہوئے ‘لائق تعزیر ٹھہرے۔
آج زمانہ بھی مختلف ہے۔ حالات بھی مختلف ہیں۔ جھوٹ بھی اور طرح کے ہیں۔ سچائیاں بھی اور طرح کی ہیں۔ لیکن مذہب ‘ جذباتیت‘ دلیل و منطق کی پامالی اور سچ لکھنے کی کوشش کرنے والوں کی کردار کشی کے انداز وہی ہیں‘ جن کا مشاہدہ ہم نے تاریکی کے اس دور میں کیا تھا۔ اس وقت ساری دنیا اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے‘ ان دہشت گردوں کی مذمت کر رہی تھی۔ جنہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج کشی کی تھی اور یہاں مغربی پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہم سب لوگ ان دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر تھے۔ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ساری دنیا جھوٹی اور گمراہ ہے۔ سچے صرف وہ دہشت گرد ہیں جو مشرقی پاکستان میں اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور آج فاٹا کی کمین گاہوں میں بیٹھے چند دہشت گرد‘ ساری دنیا میں اسی طرح بے گناہوں کو مارنے کے منصوبے بناتے ہیں‘ جیسے 1970ء میں اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے دہشت گرد‘ مشرقی پاکستان کے بے گناہوں کو مارنے کے لئے بنایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی ہم نے اسلام اور حب الوطنی کے نام پر ان دہشت گردوں کی وکالت ہوتے دیکھی اور آج پھر ایک نئی طرز اور نئی ڈکشن کے ساتھ فاٹا میں بیٹھے دہشت گردوں کی وکالت ہوتے دیکھتے ہیں۔ آج پھر دنیا دہشت گردوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ مگر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ دنیا جھوٹ بول رہی ہے۔ امریکہ‘ سپین‘ برطانیہ اور اٹلی میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے اسی انجام کے مستحق تھے۔ کیونکہ وہ سب اسلام کے دشمن ہیں۔ چونکہ امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا۔ اس لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ والوں کو دنیا میں ہر جگہ نشانہ بنائیں‘ خواہ وہ جارحیت کے حامی ہیں یا مخالفین۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا۔ لیکن دہشت گردوں نے ہماری طرف بھی اپنا رخ کر لیا اور گذشتہ چند سال کے دوران جتنے پاکستانی اور مسلمان بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ ان کی تعداد یورپ اور امریکہ میں مارے گئے کافروں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ درست موقف رکھتے ہیں۔ سارا قصور امریکہ کا ہے۔ اگر وہ اپنی فوجیں عراق اور افغانستان سے واپس بلا لے تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ مگر عراق‘ افغانستان اور پاکستان کے جن بے گناہ شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی فوجیں کونسے اسلامی ملک میں بھیج رکھی ہیں؟ دنیا ہمیں کہتی ہے کہ آپ اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے اڈے ختم کریں۔ ہم سات برس سے ایسا نہیں کر پا رہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ان علاقوں سے ہماری ریاستی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ ہمارے ہم وطن مسلح دہشت گردوں کے سرمائے اور ہتھیاروں کے یرغمالی بنے ہوئے ہیں۔ وہ زبردستی ان کی آبادیوں میں ٹھکانے بناتے ہیں اور انہیں وہاں سے بھاگنے بھی نہیں دیتے اور جب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بیرونی یا پاکستانی افواج میزائل یا راکٹ پھینکتی ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ پاکستانی افواج نے بالکل اسی طرح قبائلی علاقوں کے یرغمالی عوام کو بچانے کی کوشش کی۔ جس طرح کسی سکول یا گھر کے یرغمالی بنائے ہوئے بچوں یا اہل خانہ کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اتحادی افواج اور امریکہ کی طرف سے بار بار مطالبے کئے گئے کہ ہم پر حملے کرنے والوں کا راستہ روکیں۔ ہماری افواج نے اپنے شہریوں کے تحفظ کی خاطر مختلف طریقے اختیار کئے تاکہ ہماری آبادیوں سے دہشت گرد نکل جائیں۔ اس سلسلے میں مذاکرات ہوئے۔ معاہدے ہوئے۔ وعدے وعید کئے گئے۔مطالبوں کے مطابق رعایتیں دے دی گئیں۔لیکن دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں ہوئے۔برطانیہ والے کہتے ہیں کہ وہاں دہشت گردی کرنے والوں کی جڑیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پائی گئی ہیں۔ افغانستان والے کہتے ہیں کہ ان کے ہاں دہشت گردی کرنے والے قبائلی علاقوں میں رہتے ہیں۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں رپورٹیں دیتی ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ہمارے قبائلی علاقوں میں ہیں۔ خود ہماری سکیورٹی ایجنسیاں تسلیم کرتی ہیں کہ دہشت گرد قبائلی علاقوں میں سرگرم ہیں۔ باجوڑ اور سوات میں وہ ہماری سکیورٹی فورسز سے باقاعدہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ سارے قبائلی علاقوں میں فرائض انجام دینے والے سکیورٹی اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں اور ہلاک اور اغوا کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز پاکستان کے علاقوں میں اپنی ریاست کی عملداری قائم کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ جبکہ دہشت گرد ان کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اس مزاحمت کا حق انہیں دنیا کا کونسا قانون‘کونسا اخلاق‘ کونسے ضابطے اور کونسے اصول دیتے ہیں؟ اس کے باوجود ان کی وکالت ایسے انداز میں کی جاتی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے خطرے کی نشاندہی کرنے والے سب لوگ پاگل نظر آتے ہیں۔ امریکہ‘ چین‘ برطانیہ‘ سپین‘ اٹلی‘ افغانستان سب پاگل ہیں۔ سب اسلام کے دشمن ہیں۔ سب مسلمانوں کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ صرف ہم سچے ہیں۔ ہم کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ دنیا ہمارے سامنے جوابدہ ہے۔ ہم نے 1970ء میں بھی یہی سمجھا تھا۔ مگر جھوٹ بولنے والی دنیا کے سامنے ہماری سچائی کو ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ آج ہم پھر اپنی سوچی ہوئی سچائی کو‘ اپنی بنائی ہوئی سچائی کو ‘ اپنی تراشی ہوئی سچائی کو‘ دنیا سے منوانے پر مصر ہیں۔ ہماری سوچ میں اصلی سچائی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ہم اس عمل میں داخل ہو چکے ہیں جس کے دوران۔ پہلے سوچیں مسمار ہوتی ہیں۔ پھر معاشرتی رشتے مسمار ہوتے ہیں۔ نظام اخلاقیات مسمار ہوتا ہے۔ اعتبارات مسمار ہوتے ہیں۔ادارے مسمار ہوتے ہیں اور پھر ریاست مسمار ہو جاتی ہے۔