ام عبدالوھاب
محفلین
بہت زبردست،معلوماتی تحریر۔!!!!!!
18 ستمبر 2017
- سلمیٰ حسین
- ماہر طباخ، دہلی
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
دہی کو کبھی بانس کی ٹوکری میں جمایا جاتا تھا تو کبھی مٹی کے برتن میں اور اب اسے مشین سے بھی بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے
ہندوستان کے ہر حصے میں دہی روز مرہ کے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تمل ناڈو کا دہی چاول ہو یا کشمیر کی یخنی، بنگال کا دوئی ماچ ہو یا مہاراشٹر کا سری کھنڈ، لکھنؤ کا قورمہ اور دہی سے بنے ان گنت رائتے اور دہی بڑے دسترخوان کی زینت ہیں۔ روز مرہ کے کھانوں میں دہی کی ایک کٹوری کے بغیر کھانا مکمل نہیں سمجھا جاتا۔
عصر حاضر میں دہی کا استعمال بہت عام ہے اور دکانیں ہر طرح کے دہی کے ڈبوں سے بھری رہتی ہیں کیونکہ گھر میں دہی جمانے کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے یا صرف گاؤں دیہات تک محدود ہے۔ ہندوستان کی تاريخی کتابوں اور ہندو مذہب کی کتابوں میں بھی دہی کے استعمال کا ذکر ہے۔
گو دہی کا استعمال عام تھا لیکن اسے پھینٹ کر چھاچھ بنائی جاتی تھی۔ آج بازار میں مسالہ چھاچھ دستیاب ہیں لیکن ارتھ شاستر اور رگ وید میں بھی مسالہ چھاچھ کا ذکر پایا جاتا ہے۔ دہی میں شہد یا شکر، کالی مرچ اور دارچینی ملا کر شربت تیار کیا جاتا تھا جو ہزار گنوں سے پر تھا۔
ہاضمہ آور ہونے کے ساتھ ساتھ جسم کی حرارت کو بھی برقرار رکھتا تھا۔ آیوروید رات کے وقت دہی کے استعمال سے پرہیز بتاتا ہے۔ چرک سمہیتا میں ایک دلچسپ بات نظر آئی ہے کہ دہی جمانے کی ہنڈیا کو اناج کے ڈھیر میں رات بھر رکھ دین اور صبح کو اس کا استعمال کریں، دہی حلوے کی طرح جمی نظر آئے گی۔
سنہ 1125 میں راجہ سومیشور اپنی کتاب 'مانو سولاسیا' میں لکھتے ہیں کہ دہی کو رائی کے دانوں سےبگھار کر استعمال کرنے سے اس کے فوائد مزید بڑھ جاتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
دہی کی مذہبی اہمیت بھی ہے اور ہندوؤں کے دیوتا کرشن کی یاد میں پورے ملک میں دہی کے مٹکے پھوڑنے کی روایت کو نبھایا جاتا ہے
راوی کا کہنا ہے کہ انگریزی دواؤں کے مروج ہونے سے پہلے کلکتے اور بنگال کے ڈاکٹر ٹائیفائڈ کا علاج مشٹی دہی سے کیا کرتے تھے کیونکہ یہ وٹامن سے سرشار ہوتی ہے۔ آئین اکبری میں ابوالفضل نے کئی ایک پکوانوں کا ذکر کیا ہے جس کا لازمی جزو دہی ہے۔ ترش دہی گوشت کے ریشوں کو توڑ کر ملائم بناتا ہے اس لیے دہی کو کچے پپیتے اور لیموں کے رس پر فوقیت حاصل ہے۔
ہندی کے معروف شاعر سورداس نے دہی کی کچھ اس طرح تعریف کی ہے:
'کڑا پکڑت موری، ای دہی پھینٹت ہے
بھلا کے نا آؤں شیام تورے نگری'
کیرالا اور کرناٹک میں بھی دہی کھانے کا ایک لازمی جز ہے۔ کیرالہ کا 'اویال' موسمی ترکاریوں اور دہی کا لاجواب امتزاج ہے۔ اسی طرح کرناٹک کا 'ماجے گے تھلی' دہی اور دال کا پکوان ہے۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
دہی کا استعمال کھانے کے علاوہ مٹھائیوں میں بھی ہوتا آیا ہے
ہندوستان میں مغلوں نے فن طباخی کو نئی شکل دی اور یہاں کے سادہ کھانوں کو مرغن بنایا۔ وہ اپنے ساتھ نہ صرف خشک میوے اور زعفران لے آئے بلکہ دہی کے استعمال کو بھی ایک نیا انداز دیا۔
اگر ہندوستان کی قدیم روایتوں میں دہی میں ترکاریاں اور سبزیاں ملا کر کھانے کا ذکر ملتا ہے تو مغل بادشاہ کے ہنرمند باورچیوں نے دہی سے اس قدر عمدہ رائتے بنائے جس کا مفصل ذکر جہانگیر کے عہد میں لکھے ایک نسخے 'ایوان نعمت' میں ملتا ہے۔
دہی بانس کی ٹوکری میں جمائی جاتی تھی۔ بانس کی ٹوکری کی تہہ میں انگشت بھر چوڑی یعنی چار روز پرانی دہی لیپ دی جاتی تھی پھر شکر ملا دودھ دہی کا چمن ملا کر اس پر ڈالا جاتا تھا پھر ملائی کی ایک موٹی تہہ۔ ٹوکری کو گرم جگہ پر رکھ کر نیچے ایک برتن رکھ دیا جاتا تھا کہ پانی اس میں گرتا رہے اور دہی جم جانے پر استعمال ہو۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
انڈیا کے چھپن بھوگ میں دہی سے بنا رائتہ بھی اہمیت کا حامل ہے
عصر حاضر میں بازاروں مین پھلوں کے رس سے بنائی دہی کے ڈبے ملتے ہیں لیکن مغل عہد میں ان کا چلن عام تھا۔ ایک پیالے میں چار یا پانچ رنگ اور مختلف ذائقوں کے دہی جمائے جاتے تھے جن میں زعفران دہی اور مختلف پھلوں کے رس کے دہی بادشاہ کے خاصے مین شامل ہوتے تھے۔
دہی ہزار بیماریوں کا علاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک دہی ہمارے ساتھ ہے۔ نہ صرف پیر بلکہ جواں سال بھی اسے بڑے چاؤ سے کھاتے ہیں۔ اس میں کیلشیم، فولاد، زنک، پوٹاشیم، فاسفورس، میگنیشیم پایا جاتا ہے جو انسانی جسم کی صحت کے لیے ضروری عناصر ہیں۔
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔
سیما آپی بہت کمال لکھا ہے
دہی ایرانیوں کی ایجاد ہے۔پرانے زمانے میں جب لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے تو خوراک کیلیئے دودھ والے جانور بھی ساتھ لے لیتے تھے،جہاں پڑاؤ کیا وہاں جانوروں کا دودھ دھو کر پی لیا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ دودھ پینے کی بجائے مشکوں میں بھر لیا گیا تاکہ جب پیاس لگے تو پانی کے طور پر استعمال کیا جا سکے،جب ضرورت پڑی تو دودھ جم چکا تھا۔چنانچہ اسے کھا لیا گیا۔شام تک لوگوں نے محسوس کیا کہ اس دن انہوں نے زیادہ سفر کیا اور انہیں تھکان بھی کم ہوئی،بھوک پیاس بھی کم لگی۔انہوں نے اور دودھ دھو کر وہی دہی والی مشکوں میں ڈال دیا جو دوپہر تک پھر جم گیا، پھر وہ کچھ بچا کر دودھ میںملانے لگے۔
یوں دہی ایجاد ہوئی اور ہم تک پہنچی۔تاہم یہ میرے علم میں نہیں کہ دہی کتنی صدیوں سے ہماری خوراک کا حصہ ہے۔
دہی کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات جو مجھے معلوم ہے وہ یہ کہ دہی مذکر بھی ہے اور مونث بھی۔اسے دونوں طرح بولا جا سکتا ہے۔