گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ویرانہ رہے گا نہ دل آباد رہے گا
سودا ہے جسے عشق کا وہ شاد رہے گا
شاد
ویرانہ رہے گا نہ دل آباد رہے گا
شکست و ریخت یوں کر کے قبول بیٹھے ہیں
اٹھ چلے شیخ جی تم مجلس رنداں سے شتاب
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھینہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے
اپنے مہمان کو ہنستے ہوئے رخصت کرتے
مبہم الفاظ میں ہم نے تجھے کیا لکھا ہے
تو کبھی روبرو آتا تو وضاحت کرتے
ھم نے غم کو بھی محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے
تسلسل
شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہےنہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے
اپنے مہمان کو ہنستے ہوئے رخصت کرتے
مبہم الفاظ میں ہم نے تجھے کیا لکھا ہے
تو کبھی روبرو آتا تو وضاحت کرتے
ھم نے غم کو بھی محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے
تسلسل
چڑھتے سورج کی مدارات سے پہلے اعجازاٹھ چلے شیخ جی تم مجلس رنداں سے شتاب
ہم سے کچھ خوب مدارات نہ ہونے پائی
جی میں منظور تھی جو آپ کی خدمت گاری
سو تو اے قبلۂ جات نہ ہونے پائی
خواجہ میر درد
مدارت
غنیم سے بھی بھی عداوت میں حد نہیں مانگیکروں کیا غیر کا شکوہ یہ خوبی اپنی قسمت کی
جو اُس بیدرد ظالم نے محبت میں عداوت کی
عداوت
خیرات طلب خاک بہ سر خاک نشیں ہیںخیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں
اسحاق وردگ
خیرات