دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
نہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے
اپنے مہمان کو ہنستے ہوئے رخصت کرتے
مبہم الفاظ میں ہم نے تجھے کیا لکھا ہے
تو کبھی روبرو آتا تو وضاحت کرتے
ھم نے غم کو بھی محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے

تسلسل
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا

ساغر صدیقی

روایا ت
 
نہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے
اپنے مہمان کو ہنستے ہوئے رخصت کرتے
مبہم الفاظ میں ہم نے تجھے کیا لکھا ہے
تو کبھی روبرو آتا تو وضاحت کرتے
ھم نے غم کو بھی محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے

تسلسل
شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
وہ چاہتے ہیں آگ نہ بھڑکے دھواں رہے
لیل و نہار پہلے جو تھے اب کہاں رہے
ہاں یاد ہے کہ تم بھی کبھی مہرباں رہے

مہرباں
 
اٹھ چلے شیخ جی تم مجلس رنداں سے شتاب
ہم سے کچھ خوب مدارات نہ ہونے پائی
جی میں منظور تھی جو آپ کی خدمت گاری
سو تو اے قبلۂ جات نہ ہونے پائی
خواجہ میر درد

مدارت
چڑھتے سورج کی مدارات سے پہلے اعجاز
سوچ کتنے چراغ اس نے بجھائے ہوں گے

چراغ
 
خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں
اسحاق وردگ

خیرات
خیرات طلب خاک بہ سر خاک نشیں ہیں
ہم اک زمانے سے تیرے غم کے امیں ہیں
دنیا کے تقاضے جو نبھائیں تو کہاں تک
ہم لوگ ادھورے ہیں مکمل تو نہیں ہیں

لوگ
 
Top