دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

1
یاد چشم سرمگیں میں شب کو گر آتی ہے نیند
صورت مرغ نہاں آنکھوں سے لڑ جاتی ہے نیند
خواجہ وزیر لکھنوی

نہاں
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے گہاں لا الہ الا اللہ
علامہ اقبال
صنم
 

سیما علی

لائبریرین
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے گہاں لا الہ الا اللہ
علامہ اقبال
صنم
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں​

جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تراُدل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا ملےگا نماز میں

آشنا

 
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں​

جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تراُدل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا ملےگا نماز میں
آشنا

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
فیض احمد فیض
مہربان
 

سیما علی

لائبریرین
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
فیض احمد فیض
مہربان
چمن کی رنگینیاں سمٹ کر، مرے تخیّل پہ چھاگئی ہیں
مجھے برنگِ بہار، پھر کوئی مہرباں یاد آرہا ہے

جہاں کہ اذنِ سجود پا کر جبیں کو میں نے اٹھا لیا تھا
قدم قدم، پر شکیبؔ، مجھ کو وہ آستاں یاد آرہا ہے

شکیب جلالی
آستاں
 

سیما علی

لائبریرین
جہاں کہ اذنِ سجود پا کر جبیں کو میں نے اٹھا لیا تھا
قدم قدم، پر شکیبؔ، مجھ کو وہ آستاں یاد آرہا ہے

شکیب جلالی
آستاں
اس سنگ آستاں پہ جبین نیاز ہے
وہ اپنی جانماز ہے اور یہ نماز ہے

ناساز ہے جو ہم سے اسی سے یہ ساز ہے
کیا خوب دل ہے واہ ہمیں جس پہ نازہے

ناساز
 

سیما علی

لائبریرین
اس سنگ آستاں پہ جبین نیاز ہے
وہ اپنی جانماز ہے اور یہ نماز ہے

ناساز ہے جو ہم سے اسی سے یہ ساز ہے
کیا خوب دل ہے واہ ہمیں جس پہ نازہے

ناساز
منہ ہے کچھ اترا سا بھرائی ہوئی آواز ہے
خیر تو ہے کیا مزاج دشمناں ناساز ہے

کل اسی سے جنگ ہے کچھ آج جس سے ساز ہے
اور پھر تم کو اس اپنی دوستی پر ناز ہے

صفی اورنگ آبادی

دوستی
 

سیما علی

لائبریرین
منہ ہے کچھ اترا سا بھرائی ہوئی آواز ہے
خیر تو ہے کیا مزاج دشمناں ناساز ہے

کل اسی سے جنگ ہے کچھ آج جس سے ساز ہے
اور پھر تم کو اس اپنی دوستی پر ناز ہے

صفی اورنگ آبادی

دوستی
یہ لُطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے

نحیف ضَو کو عَجب طرح تقویت دی ہے
اندھیرے ڈھونڈ کے لائے ہو روشنی کے لیے
شکیب جلالی
نحیف
 

سیما علی

لائبریرین
یہ لُطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے

نحیف ضَو کو عَجب طرح تقویت دی ہے
اندھیرے ڈھونڈ کے لائے ہو روشنی کے لیے
شکیب جلالی
نحیف
تن نحیف کی خاطر ردا نہیں مانگی
بہت دنوں سے خدا سے دعا نہیں مانگی

خود اپنی لاش کو اپنے لہو سے ڈھانپا ہے
ہری رتوں سے گلوں کی قبا نہیں مانگی

چھتوں پہ پیاس پڑاؤ کیے رہی لیکن
سیاہ بخت گھروں نے گھٹا نہیں مانگی
نیاز حسین لکھویرا

گھٹا
 

سیما علی

لائبریرین
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا

گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی

گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی
تو بے جان مٹی میں جان آ گئی

زمیں سبزے سے لہلہانے لگی
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی

جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل
عجب بیل پتے عجب پھول پھل

ہر اک پیڑ کا یک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا اک نیا رنگ ہے

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن پڑا

ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹی کے پر
اسمعیل میرٹھی
ڈھنگ
 
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا

گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی

گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی
تو بے جان مٹی میں جان آ گئی

زمیں سبزے سے لہلہانے لگی
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی

جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل
عجب بیل پتے عجب پھول پھل

ہر اک پیڑ کا یک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا اک نیا رنگ ہے

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن پڑا

ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹی کے پر
اسمعیل میرٹھی
ڈھنگ
خود میں مگن تھے لوگ کوئی بے خودی نہ تھی
دیوانگی کا ڈھونگ تھا دیوانگی نہ تھی
ظفر اکبر آبادی
لوگ
 

سیما علی

لائبریرین
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا

گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی

گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی
تو بے جان مٹی میں جان آ گئی

زمیں سبزے سے لہلہانے لگی
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی

جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل
عجب بیل پتے عجب پھول پھل

ہر اک پیڑ کا یک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا اک نیا رنگ ہے

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن پڑا

ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹی کے پر
اسمعیل میرٹھی
ڈھنگ
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

خواجہ میر درد

آن
 

سیما علی

لائبریرین
خود میں مگن تھے لوگ کوئی بے خودی نہ تھی
دیوانگی کا ڈھونگ تھا دیوانگی نہ تھی
ظفر اکبر آبادی
لوگ

کچھ لوگ جو حاصل ہوں گنوائے نہیں جاتے
اس طرح خزانے تو لٹائے نہیں جاتے

امرت تری باتوں کا ہی کافی ہے اجل کو
یوں زہر پیالے تو پلائے نہیں جاتے
محمد عثمان شاکر

امرت
 
کچھ لوگ جو حاصل ہوں گنوائے نہیں جاتے
اس طرح خزانے تو لٹائے نہیں جاتے

امرت تری باتوں کا ہی کافی ہے اجل کو
یوں زہر پیالے تو پلائے نہیں جاتے
محمد عثمان شاکر

امرت
ہم بھی امرت کے طلب گار رہے لیکن
ہاتھ بڑھ جاتے ہیں خود زہر تمنا کی طرف

ہاتھ
 
Top