فیصل عظیم فیصل
محفلین
صد فی صد متفق ۔ میری رائے میں بھی ایسا ہی ہےآپ یوں کہہ لیں کہ توہم پرست معاشروں میں دینی و دیگر بزرگوں کے نام سے ایسی روایات گھڑی گئیں جو ان کے توہمات کو تقویت پہنچاتی تھیں۔
صد فی صد متفق ۔ میری رائے میں بھی ایسا ہی ہےآپ یوں کہہ لیں کہ توہم پرست معاشروں میں دینی و دیگر بزرگوں کے نام سے ایسی روایات گھڑی گئیں جو ان کے توہمات کو تقویت پہنچاتی تھیں۔
جی بالکل ایسا ممکن ہے ۔۔۔
جی اب ٹریک پر ہیں آپ۔ ۔ ۔آپ یوں کہہ لیں کہ توہم پرست معاشروں میں
میں نے یہاں سے پڑھا تھاحوالہ: Reference؟
جھاڑ پونچھ کر لی ہے۔ ذرا چیک کر کے بتائیں کہ نیا تھیم ٹھیک لگ رہا ہے۔ کچھ لکھنے کی بھی کوشش کی لیکن ہمیشہ کی طرح رائٹرز بلاک کا شکار ہوں۔چیک کرنے کے بجائے لکھ ماریے۔
اور کچھ نہیں تو نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا تقابلی جائزہ ہی لے لیجے۔ کافی ساری پوسٹس ہو سکتی ہیں۔
جو آپ کی دانست میں توہمات ہوں وہ کسی دوسرے کے عقائد بھی ہو سکتے ہیں۔توہمات کو پالنا ہی نہیں چاہیے۔
ہم لوگ الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمیں ہر چیز کو اسلام کی نظر رو سے دیکھنا چاھئیے اگر اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں تو پھر دل میں کھٹکا بھی نا ہونا چاھئیے بلکہ اطمینان سے بلی کو گزر جانے دیا جائے ۔یہ جو کالی بلی اور نحوست اور قینیچی اور لڑائی کا قصہ ہے تو میں انہیں توہمات سمجھتا ہوں، یہ الگ بات کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔ مجھے جب کبھی کالی بلی نظر آ جائے تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ میری راہ نہ کاٹنے پائے اور خالی قینچی نہیں چلائی کہ اس سے خوف آتا ہے، اب بھی! ان توہمات کے اثرات کس قدر دیر پا، گہرے اور سنگین ہوتے ہیں!
انسان کی ایک عمر تو ان سے جان چھڑانے میں لگ جاتی ہے۔
طلاق یافتہ عورتوں کے قریب نہیں جانے دیتی بوڑھی عورتیں کنواری بچیوں کو کہیں اُن کا سایہ نا پڑ جائے۔
یہ بھی سُنا تھا کہ گھر کی چوکھٹ پر کوا آکر کائے کائے کرے تو کوئی مہمان آنے والا ہوتا ہے ۔۔۔
کالی بلی سے ہمیں کبھی کوئی وسوسہ لاحق نہیں ہوا۔ اگر بلی ہم سے تیز چل رہی ہو تو ہمیں اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ آگے سے گزر جائے۔مجھے جب کبھی کالی بلی نظر آ جائے تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ میری راہ نہ کاٹنے پائے
ویسے مہذبانہ انداز تو یہ ہی ہے کہ کسی کے بھی گھر پر جایا جائے تو پہلے بتادیا جائے بلکہ اُس سے اجازت لے لی جائے کہ آپ نے کہیں جانا تو نہیں ہے آپ مصروف تو نہیں ہیں ۔آج کل فون کا زمانہ ہے یہ کام بہت ہی آسان ہے فون کر کے یا میسیج کرکے اجازت لی جاسکتی ہے ۔یہ بات بھی خوب ہے۔
ہم نے بچپن میں اس کا کئی بار تجربہ کیا ہے، واقعی جب کوئے آ کر کائیں کائیں کرتے تھے تو کوئی نہ کوئی مہمان آ جاتا تھا۔ پہلے زمانے کے مہمان بھی سرپرائز ہوا کرتے تھے۔ آنے سے پہلے فون کرتے تھے اور نہ ہی میسج کرکے بتاتے تھے (کیونکہ تب فون وغیرہ کا استعمال عام نہیں تھا)۔ ایسے مہمانوں سے مل کر بہت خوشی ہوتی تھی۔
تاہم ہم کووؤں کے اس طرح آنے اور اُس پر مہمانوں کے آ جانے کو محض حسنِ اتفاق ہی سمجھتے تھے۔