دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں


تحریر:عبیداللہ عبید،

دینی تعلیم اور پھر اس کے لیے مدارس کا قیام ،معاشرے کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ؟ میرے خیال میں ، اس سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے ۔ہمارے ہاں دینی تعلیم کا نظام پوری کامیابی سے رواں دواں ہے لیکن کچھ عوامی حلقے اورکالم نگاروں کی اکثریت اس سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے اس لیے وہ اس نظامِ تعلیم کے بارے میں سرے سے معلومات نہیں رکھتے یا ناقص ہوتے ہیں ۔دینی مدارس کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے کچھ کالم نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہوتاہے کہ وہ ضد اور تعصب کے عینک چڑھائے ہوتے ہیں ۔ناقص معلومات جیسی صورتِ حال کا مشاہدہ مجھے روزنامہ آزادی کے مستقل اور قابلِ قدر کالم نگار پروفیسر سیف اللہ خان کی تحریر سے ہوا جو 25فروری 2012ءکو ” اسلامی مدارس کے لیے یونیورسٹیوں کی ضرورت “ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔پروفیسر صاحب کی تحریر میں اگر چہ تعصب اور ضدقسم کی کوئی بات ہرگزنہیں ہے۔ ہاںوہ دینی طبقوں کے لیے دل میں محبت اور شفقت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی مزید وضاحت کے لیے ان کی خدمت میں کچھ گزارشات 8نکات کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں۔

:1مدارس کی جس ملک گیر تنظیم کا ذکر انہوں نے اپنی تحریر میں کیا ہے اس کا نام تنظیم المدارس نہیں ”وفاق المدارس العربیہ پاکستان“ ہے ۔

:2دینی مدارس کی یہ مذکورہ ملک گیر تنظیم ،امتحانی بورڈ کی شکل میں ملک بھر کے تقریباًساڑھے تیرہ ہزار مدارس کے تعلیمی ماحول اور امور کی نگرانی کرتی ہے۔کم و بیش بارہ تیرہ لاکھ طلباو طالبات ان مدارس میں دینی اور دنیوی علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔تقریباًپچپن /چھپن ہزار اساتذہ ان مدارس میں پڑھاتے ہیں ۔یہ تنظیم ابتداءً 1957ءکو ملتان میں قائم کی گئی تھی اور آج تک اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔

:3ہمارے محترم پروفیسر صاحب اس تنظیم کی کارکردگی کے بارے میں کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں اور وفاق کی کارکردگی پر کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں ”یہ تنظیم پورے ملک کے اسلامی مدارس کی دیکھ بھال کررہی ہے جوکہ یقینا ناممکن اور تصوراتی بات ہے “۔پروفیسر صاحب اس امر کو شاید اس لیے ناممکن سمجھ رہے ہیں کہ وہ عصری مدارس وکلیات (schools and colleges) کا مشاہدہ کرچکے ہیں جو کسی تعلیمی بورڈ کی زیر ِنگرانی کام کرتے ہیں ۔میرا خیال ہے (لیکن اس پر مجھے اصرار نہیں )کہ وہ دینی مدارس کے انتظام و انصرام سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ورنہ اس خدشے کا اظہار بالکل نہ کرتے ۔بہرحال ان کے علم میں اضافے کی غرض سے یہ بات سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دینی مدارس سادگی اور حریت پر مبنی مزاج کے باوجود وفاق المدارس کے کڑے اصول وضوابط کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور وفاق المدارس نامی یہ تنظیم ان کی نگرانی اور تعلیمی امور کی دیکھ بھال جس منظم طریقے سے کرتی ہے اس کا موازنہ حال ہی میںقائم پرائیویٹ بورڈ(آغاخان ایجوکیشن بورڈ) سے کیا جائے تو یہ مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ کارکردگی کے لحاظ سے ان بوری نشینوں کے قائم کردہ بورڈ کا پلہ بھاری ہے۔(آزمائش شرط ہے)۔آئے دن اکثر تعلیمی بورڈوں میں کرپشن اور بوٹی مافیا کی خبریں ہمارے قومی اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور وفاق کے یومِ تاسیس سے آج تک ایسی چھوٹی خبر بھی سامنے نہیں آئی حالانکہ اس نظامِ تعلیم کے ناقدین اس قسم کاسنہرا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ایک تلخ حقیقت پیش کررہا ہوں اگرناگوارِ خاطر نہ ہواور حقیقت سے آنکھیں نہ چرائی جائے تو ہمارے اربابِ تعلیم دینی مدارس کے انتظام وانصرام کرنے والے اس بورڈ کا غور سے مطالعہ کریں اوراجنبی تعلیمی نظریات درآمد کرکے نت نئے تجربات کرنے کی بجائے اس کی روشنی میں تعلیمی بورڈ وں میں اصلاحات کا عمل جاری کریں تاکہ اس قوم کا کچھ بھلاہوکیونکہ ہمارا وقت ، سرمایہ اور صلاحیتیں ان تجربات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔

:4پروفیسر صاحب کی تحریر میں چوتھا محلِ نظر نکتہ وفاق المدارس کے اسناد کے اجرا کے تاریخی پسِ منظر کا ہے۔وہ لکھتے ہیں ”غالباًجنرل ضیاءکے دنوں میں سرکاری ملازمین میں تعلیم کے فروغ کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو درکار تعلیم سے زیادہ کے حصول پر اضافی تنخواہ دینے کا رواج ہوگیا “۔ ”اس سلسلہ میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ اسکولوں اور اوقاف میں تعینات دینیات کے اساتذہ اور خطیبوں کے اسلامی اسناد کو جدید تعلیم کے کن اسناد کے برابر تسلیم کیا جائے تاکہ یہ سرکاری ملازمین بھی اضافی تنخواہوں سے مستفید ہوسکیں “۔پروفیسر صاحب کے الفاظ نقل کرنے کے بعد، اب اِن اسناد کے اجرا کا تاریخی پسِ منظر، مختصر طور پر بیان کیاجاتاہے۔1982ءتک دینی مدارس کے فضلاءکو ناخواندہ اور پرائمری پاس شخص کو خواندہ تسلیم کیا جاتا تھااورحقائق کچھ یوں تھے ( اب بھی ہیں )کہ صرف عصری جامعات سے ایم اے اسلامیات/عربی کی ڈگری حاصل کرنے والے سندیافتہ افراد کا مبلغِ علم (علمی استعداد) دینی مدرسوں میں پڑھنے والے دوسرے یا تیسرے درجے کے طالب علم سے بھی کم ہوتا تھا۔اس حقیقت کو اصحابِ درد محسوس کررہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ دینی مدارس کے سند کو اس کاشایانِ شان مقام دلایا جائے اس لیے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق مرحوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ اس سند کو ایم اے اسلامیات/عربی کے مساوی قراردیا جائے۔اس نے ازخود کچھ فیصلہ (آرڈیننس )جاری کرنے کی بجائے یہ معاملہ یوجی سی (University Grants Commission) کے حوالے کیا۔ یوجی سی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا اور اس پر غور وخوض کے لیے ملک بھر کے اہم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور ماہرینِ تعلیم کو اسلام آباد بلایا تاکہ مدارس کے نصابِ تعلیم کا ناقدانہ جائزہ لیا جاسکے ۔ تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماءنے اس اجلاس میں مدارس کی نمائندگی کی ۔طویل مشاورت کے بعد ان ماہرینِ تعلیم نے متفقہ طور پر یہ سفارش کی کہ دینی مدارس کے آخری سند کو کم ازکم ایم اے (اسلامیات اور عربی) کے مساوی تسلیم کیاجائے۔ بالآخر ان سفارشات کی روشنی میں یوجی سی(جس کی نیابت کے فرائض اب ہائر ایجوکیشن کمیشن نامی ادارہ اداکررہاہے)نے نوٹیفیکیشن نمبر:80198CAD128مورخہ:17نومبر1982ء� �و جاری کرکے یہ حقیقت ملکی تاریخ میں پہلی بار تسلیم کرلی کہ شہادة العالمیہ کے سند کا حامل قابلیت و لیاقت میں ایم اے اسلامیات/عربی کے مساوی ہے ۔اسناد کے لیے مذکورہ معیار کسی سیکشن آفیسر کی دَین نہیں بلکہ یوجی سی کی کڑی شرائط پر پورا اترنے کے بعد حقیقت کا اعتراف ہے ۔الغرض شہادة العالمیہ کو ایم اے کے مساوی تسلیم کرتے وقت تنخواہوں میں اضافے یا الاونسوں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا بلکہ انگریز کے عہد سے جاری ناانصافی پر مبنی رویے کا ازالہ مقصود تھا۔

’’ جاری ‘‘
 


:5پروفیسر صاحب کی تحریر میں پانچواں نکتہ جو وضاحت کا محتاج ہے وہ ان کے اس جملے سے عیاں ہے ”وفاق المدارس کے اسناد پر تعیناتیاں غیر قانونی ہوسکتی ہیں “۔جب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن /ہائر ایجو کیشن کمیشن ایک سند کی حقیقت اور واقعیت کو تسلیم کرچکے ہیں تو پھر اس کی بنیاد پر تعیناتی کس طرح غیر قانونی ہوگی؟یہ بات کچھ پلے نہیں پڑی۔

:6پروفیسر صاحب کی تحریر میںچھٹا نکتہ جس کی وضاحت یہاں کی جاتی ہے ،وہ ان کا یہ شکوہ ہے کہ عموماً دینی مدارس ایک دوکمروں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔دراصل مخصوص تعلیمی اداروں پر لکھنے سے پہلے ان کے مزاج ، ماحول اور تاریخی پسِ منظر کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے ۔یہاں ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ ماضی بعید نہیں قریب کی بات ہے کہ ریاستِ سوات کے زرین عہد میں دینی تعلیم کا جوطریقہ کار تھاکہ مسجد میں ایک مدرس ہوتا ، طلباءکا بورڈنگ ہاوس یہی مسجد ہوتی ۔چٹائیوں پر استاد اور شاگرد دونوں دینی ودنیوی علوم کی درس و تدریس میں مشغول ہوتے ۔مسجد کے صحن میں تفسیر،حدیث ، قانون ، اصولِ قانون، عربی /فارسی زبان و ادب ، منطق و فلسفہ اور حساب و جیومیٹری کے علوم پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے۔ایک مسجد جو عموماًایک کمرے /ہال پر مشتمل ہوتی اتنے سارے علوم کی پڑھائی کی برداشت رکھتی تھی اور آج بھی اکثر مدارس کی یہی صورتِ حال ہے کہ مسجد کے ایک کونے میں تفسیر کی کلاس ، دوسرے میں عربی زبان و ادب اور تیسرے کونے یا صحن میں فلکیات کی تدریس ہوتی ہے ۔علم کی نشر و اشاعت میں مکان کو نہیں دیکھا جاتا ۔مسلم علما اور سائنسدانوں کی زندگیاں شہادت دیتی ہیں کہ درخت کے نیچے ،دریا کے کنارے ، چاند کی روشنی میں اور چراغ کی لو پر کتابوں کا مطالعہ کرکے دنیا میں نام پیدا کیا ۔

:7ان کا ایک گلہ یہ بھی ہے کہ مدارس کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار دینی مدارس کے بے روزگار سندیافتہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ منتظمین فضلا بھی نہیں ہوتے اور مدرسے چلا رہے ہیں ایسے لوگوں کو انہوں نے ”بے روزگار غیر تکمیل یافتہ نوجوان“ کے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ مدارس کے منتظمین /اساتذہ کرام کو بے روزگار کہنا درست نہیں اگرچہ یہ اساتذہ انتہائی کم تنخواہوں پر پڑھاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے روزگار ہیں اور درس وتدریس ہی ان کے حصولِ رزق کا واحد وسیلہ ہے ۔دینی علوم کی نشرو اشاعت ان کا مقصدِ حیات ہے اور اس کے علاوہ وہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی ہاتھ پاوں مارتے ہیں ۔ مدارس کے تمام سندیافتہ دینی یا عصری تعلیم کے شعبوں میں واپس نہیں کھپتے بلکہ وہ عصری مدارس کے فضلا کی طرح زندگی کے دیگر شعبے بھی اختیار کرتے ہیں جس میں وکیل ، تاجر ، صحافی ، میڈیکل ٹیکنیشن، سرمایہ کار، مترجم اور بیرونِ ملک قیمتی زرِ مبادلہ کمانے والے شامل ہیں ۔ہاں اگر کوئی فاضل نوجوان دینی علوم کی اہمیت کو حقیقی ضرورت جان کر اس کے لیے اپنی زندگی وقف کردے تو کوئی ایسا شخص جو مدارس سے خداکے واسطے بیر رکھتا ہوا یسے فاضل کوبے روزگار سمجھ بیٹھے تو کوئی باک نہیں لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ پروفیسر سیف اللہ خان صاحب جیسا صاحب ِ علم اسے مقصدکے ساتھ مخلص، علم کا پیاسااور دینی علوم کی خدمت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والا کہے گا۔

کچھ مدارس ایسے ضرور ہیں جن کے اربابِ انتظام واقعتا دینی علوم کے فاضل نہیں ہیں لیکن اس سے یہ مفہوم ہرگز نہیںلیا جاسکتا کہ انہوں نے بیروزگاری کی وجہ سے یہ عہدہ قبول کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان اصحابِ خیر نے دینی علوم کی اہمیت کے پیشِ نظر مدارس کے قیام کو ضروری سمجھا اور اس کے لیے اپنی آمدنی کا ایک حصہ وقف کرکے مدارس قائم کیے ، اساتذہ مقرر فرمائے اور طلبا و طالبات کے قیام وطعام کا خرچ برداشت کیا۔ایسے لوگوں کا تعلق مدارس سے صرف تعاون کی حدتک ہوتا ہے ۔تعلیمی ،تربیتی اور انتظامی امور میں وہ مداخلت نہیں کرتے بلکہ ان کاموں کے لیے وہ لائق و فائق علماءکی خدمات حاصل کیے ہوئے ہیں ۔لہٰذا ایسے منتظمین کو ہم بے روزگار نہیں کہہ سکتے ۔دراصل المیہ یہ ہے کہ عصری تعلیمی مدارس سے فارغ ہونے والے بے روزگار نوجوان ٹیوشن سنٹر /پرائیویٹ اسکول قائم کرلیتے ہیں جو اکثر صرف تجارتی نقطہ نظر سے چلائے جاتے ہیں اور ہم اسی تناظر میں دینی مدارس کے قیام کو بھی دیکھتے ہیں حالانکہ دینی مدارس میں تعلیم وتربیت مفت دی جاتی ہے ۔

:8آخری نکتہ جس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وہ پروفیسر صاحب کا یہ شکوہ ہے کہ وفاق المدارس کے زیرِ انتظام منعقد امتحانات میں ایک دو کمروں پر مشتمل مدارس کے فضلاءکے سند اور جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک جیسے بڑے مدارس کے فضلاءکے اسناد کی حیثیت مساوی ہے ۔یہ اعتراض اگرعصری تعلیمی مدارس سے ریگولر امیدوار کی حیثیت سے امتحان دینے والے اور پرائیویٹ حیثیت سے امتحان دینے امیدوار کے اسناد پر کیا جائے تو تسلی بخش جواب کیا ہوگا؟کیونکہ ایک امیدوار نے تمام سال پڑھائی کی ہوتی ہے اور جہانزیب کالج جیسے بڑے بلڈنگ اور خطیر تنخواہیں پانے والے تدریسی عملے پر مشتمل ادارے میں سبق پڑھا ہوتا ہے اور دوسری طرف پرائیویٹ امیدوار نے کالج یا کسی تعلیمی ادارے میں قدم ہی نہیں رکھا ہوتااور تعلیمی بورڈ ان دونوں کو مساوی حیثیت کی ڈگری /سند عطا کرتا ہے اور کبھی کبھار نمبر یا پوزیشن بھی حاصل کرلیتا ہے ۔تعلیمی بورڈوں پریہ اعتراض کوئی اس وقت کرے گا جب اسے قابلیت کی جانچ پڑتال اور امتحان لینے کے طریقہ کار کا علم نہیں ہوگا ۔اسی طرح کی صورتِ حال یہاں بھی ہے کہ چھوٹے مدارس اور بڑے مدارس کے طلباو طالبات جب وفاق کے زیرِ نگرانی امتحان دیتے ہیں تو وفاق اپنے طریقہ کار کے مطابق ان کا امتحان لیتا ہے اور کامیابی اور ناکامی کا اعلان کرتا ہے ۔یادرہے کہ وفاق المدارس پرائیویٹ امید وار کی حیثیت سے کسی امیدوار کو داخلہ کی اجازت نہیں دیتا جبکہ عصری تعلیمی مدارس اس امر کی اجازت دیتے ہیں ۔

یہ چند گزارشات ،وضاحت اور غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے پیش کیے،مدارس کے حوالے سے مزید معلومات درکار ہوں تو بندہ اپنے ناقص معلومات کی روشنی میں پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔البتہ زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ خود کسی مدرسے جاکر اساتذہ سے کئی نشستوں میں ملاقاتیں کی جائے ان کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم پر نظر ڈالی جائے ۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مدارس کواپنوں کی نا قدری اور اغیار کی بری نظروں سے بچائے رکھے ۔آمین

بحوالہ: روزنامہ شمال 29 فروری 2012
روزنامہ آزادی سوات، یکم مارچ 2012
 

زلفی شاہ

لائبریرین
دینی مدارس میں تین بورڈ ہیں جو مدارس کے بچوں کا امتحان لیتے ہیں۔ ان میں اہلسنت کے بورڈ کا نام تنظیم المدارس، دیوبند حضرات کے بورڈکانام وفاق المدارس ہے ۔ اہلحدیث مدارس کے لئے الگ بورڈ ہے جس کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا۔ بہرحال مدارس میں انتظامیہ اور اساتذہ کی اکثریت اسے دین کی خدمت کے جذبے سے سر انجام دے رہے ہیں ورنہ اتنے قابل لوگ اتنے کم وظیفے پر کام کرنے کو کہاں تیار ہوتے۔ جہاں تک قابلیت کا تعلق ہے، میں پاکستان میں زیادہ تر تعلیم و تدریس سے وابستہ رہا ہوں، میں نے آج تک کوئی حافظ قرآن نہیں دیکھا جو سکول کی تعلیم میں نالائق ثابت ہوا ہو۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک بچہ جو دنیوی تعلیم میں نہیں چل پا رہا تھا والدین نے تنگ آ کر اسے حافظ بنوا لیا تو وہی بچہ بعد میں سکول کی تعلیم میں نمایاں پوزیشن لے گیا۔ میرا یہ بھی مشاہدہ ہےکہ عصری علوم میں ایم اے عربی ، اسلامیات کرنے والے لوگ مدارس میں صرف ونحو کے طلباء کی قابلیت کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ جس کسی کو شک ہو وہ تحقیق کر لے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے گی کہ عصری تعلیم میں ایم اے کرنے والے مدارس سے شہادۃ العالمیہ کی ڈگری حاصل کرنے والے سے قابلیت میں قطعا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سکولوں میں وہ محنت اور کوشش علم کے حصول کے لئے نہیں کروائی جاتی جو محنت اور لگن حصول علم کے لئے مدارس دینیہ میں کروائی جاتی ہے۔ ’’العلم نور‘‘ (علم روشنی ہے) میں قرآن و حدیث کے علم کی طرف اشارہ ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے دل میں اللہ تعالی نور پیدا فرما دیتا ہے اس لئے ان میں وہ قابلیت پیدا ہو جاتی ہے جو عصری علوم پیدا نہیں کر پاتے۔
 

ساجد

محفلین
جب کسی چیز کی اصلاح مطلوب ہوتی ہے تو اس کو تنقیدی نظر سے دیکھا جاتا ہے تبھی اس میں موجود خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔ دینی مدارس کی تعلیمی کاوشوں سے مجھے مفر نہیں اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ پاکستان میں تعلیم وتربیت کی مجموعی حالت دگرگوں ہے اور ایسی صورت حال میں دینی مدارس بھی حصہ بقدر جثہ کے مصداق اس میں شریک ہیں۔
ہمارے ارباب اقتدار کے کسی بھی خانے میں تعلیم کے لئیے کوئی سوچ ہی نہیں تو مقاصد اور نتائج پر ان کے حوالے سے گفتگو کرنا بے کار ہے۔بندہ خود بھی تعلیم و تعلم سے وابستہ رہ چکا ہے اور اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہمارے سرکاری و پرائیویٹ سکول کتنے پانیوں میں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دینی تعلیم کے دعویدار مدارس نے بھی اس سلسلہ میں قوم کو یکسوئی اور علمی ترقی سے آراستہ کرنے سے زیادہ عقائد کی بناء پر گروہی تقسیم اور عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اگر سرکاری یونیورسٹیوں میں سیاسی غنڈہ گردی ہے تو معدودے چند باقی دینی مدارس بھی اسلحہ سے لیس ہیں۔ میں دینی مدارس کے بہت قریب رہا ہوں اور دینی مدارس سے تعلیم یافتہ ساتھی معلمین کی وجہ سے ان کے طریقہ عمل سے کافی روشناس ہوں۔ میری گناہ گار آنکھیں اورکان ان میں اسلحہ کی موجودگی اور مخالفین کے لئیے بے رحمی کی تبلیغ کے شاہد ہیں۔ ایسے واقعات بکثرت ہیں کہ کسی مسجد سے متصلہ دینی مدرسے کے اساتذہ نے اہل محلہ میں سے کسی میت کا جنازہ اس لئیے نہیں پڑھایا کہ وہ ان کے "مسلک" کا نہیں تھا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ایک دین ، ایک رسول اور ایک کتاب کے پیروکار اسی دین کی تعلیم کے لئیے اپنے اپنے بورڈز بنائے بیٹھے ہیں۔ اس سے جو شگوفے مزید پھوٹتے ہیں وہ عدم برداشت اور قانون شکنی کی تبلیغ سے بھرپور ہوتے ہیں۔
جو کند ذہن طالبعلم حفظ قرآن کے بعد اچھے طالبعلم بنتے ہیں یہ اعجاز قرآن کا ہے نہ کہ ان مدارس کا ،اگر ایسا ہوتا تو اجتماعی معاملات میں بھی ان کا کوئی مثبت کردار ہمیں دیکھنے کو ملتا۔
دینی مدارس کے وجودا ور ان میں تعلیمی عمل کی مخالفت میرا مقصود نہیں ہے بلکہ ان کی ابتری کو بہتری پر محمول کرنے کی خطرناکی سے آپ کو آگاہ کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ بہت کچھ ہے گہرائی میں جا کر کہنے کو لیکن ماحول میں رنجش پیدا ہونے کے خوف سے اتنے پر ہی اکتفا کروں گا۔
 

یوسف-2

محفلین
ماشاء اللہ بہت اچھا مضمون ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دینی مدارس کو اغیار کی بُری نظروں کے بُرے اثرات سے محفوظ رکھے آمین۔
 
دینی مدارس میں تین بورڈ ہیں جو مدارس کے بچوں کا امتحان لیتے ہیں۔ ان میں اہلسنت کے بورڈ کا نام تنظیم المدارس، دیوبند حضرات کے بورڈکانام وفاق المدارس ہے ۔ اہلحدیث مدارس کے لئے الگ بورڈ ہے جس کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا۔ بہرحال مدارس میں انتظامیہ اور اساتذہ کی اکثریت اسے دین کی خدمت کے جذبے سے سر انجام دے رہے ہیں ورنہ اتنے قابل لوگ اتنے کم وظیفے پر کام کرنے کو کہاں تیار ہوتے۔ جہاں تک قابلیت کا تعلق ہے، میں پاکستان میں زیادہ تر تعلیم و تدریس سے وابستہ رہا ہوں، میں نے آج تک کوئی حافظ قرآن نہیں دیکھا جو سکول کی تعلیم میں نالائق ثابت ہوا ہو۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک بچہ جو دنیوی تعلیم میں نہیں چل پا رہا تھا والدین نے تنگ آ کر اسے حافظ بنوا لیا تو وہی بچہ بعد میں سکول کی تعلیم میں نمایاں پوزیشن لے گیا۔ میرا یہ بھی مشاہدہ ہےکہ عصری علوم میں ایم اے عربی ، اسلامیات کرنے والے لوگ مدارس میں صرف ونحو کے طلباء کی قابلیت کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ جس کسی کو شک ہو وہ تحقیق کر لے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے گی کہ عصری تعلیم میں ایم اے کرنے والے مدارس سے شہادۃ العالمیہ کی ڈگری حاصل کرنے والے سے قابلیت میں قطعا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سکولوں میں وہ محنت اور کوشش علم کے حصول کے لئے نہیں کروائی جاتی جو محنت اور لگن حصول علم کے لئے مدارس دینیہ میں کروائی جاتی ہے۔ ’’العلم نور‘‘ (علم روشنی ہے) میں قرآن و حدیث کے علم کی طرف اشارہ ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے دل میں اللہ تعالی نور پیدا فرما دیتا ہے اس لئے ان میں وہ قابلیت پیدا ہو جاتی ہے جو عصری علوم پیدا نہیں کر پاتے۔

زلفی بھائی ! تین نہیں پانچ بورڈ ہیں ۔ وفاق المدارس ، تنظیم المدارس ، رابطۃ المدارس ، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعیہ،

دراصل پروفیسر صاحب موصوف کی تحریر کا جواب دیتے وقت میرا ارادہ تھا کہ بقیہ بورڈوں کا ذکر بھی کروں لیکن بھول گیا اور پھر اس وقت محسوس ہوا جب مضمون میری گرفت سے نکل کر مدیر کے ہاں بجھوایا جاچکا تھا۔


اور تنظیم المدارس کے نام سے الگ ایک بورڈ جو موجود ہے وہ بریلوی مکتبِ فکر کے دینی مدارس کی ملک گیر تنظیم ہے اور میرے خیال میں اس کا صدر دفتر لاہور میں ہے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے میں مدارس کا کافی عمل دخل ہے۔ کیونکہ مدارس میں تعلیم تنگ نظری اور مسلکی بنیادوں پر ہوتی ہے اور critical thinking کا عنصر ناپید ہے۔
مدارس کے criculum کو کافی تبدیلی کی ٍضرورت ہے۔ تاکہ طلبہ کو رٹے رٹائے اسباق یاد کروانے کی بجائے انکو صحیح معنی میں عالم بنایا جائے۔ جسطرح کے عالم رازی، ابن سینا،فارابی، عمر خیام، ابن عربی ہوا کرتے تھے۔ ہمیں تھوک کے حساب سے تکفیری نہیں درکار جن کا کام معاشرے میں نفرتیں پھیلانا ہو۔ آخر کو علامہ اقبال نے غلط نہیں فرمایا تھا
ع
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
 

زلفی شاہ

لائبریرین
زلفی بھائی ! تین نہیں پانچ بورڈ ہیں ۔ وفاق المدارس ، تنظیم المدارس ، رابطۃ المدارس ، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعیہ،

دراصل پروفیسر صاحب موصوف کی تحریر کا جواب دیتے وقت میرا ارادہ تھا کہ بقیہ بورڈوں کا ذکر بھی کروں لیکن بھول گیا اور پھر اس وقت محسوس ہوا جب مضمون میری گرفت سے نکل کر مدیر کے ہاں بجھوایا جاچکا تھا۔


اور تنظیم المدارس کے نام سے الگ ایک بورڈ جو موجود ہے وہ بریلوی مکتبِ فکر کے دینی مدارس کی ملک گیر تنظیم ہے اور میرے خیال میں اس کا صدر دفتر لاہور میں ہے ۔
بہت بہت نوازش اصلاح فرمانے کی۔ آپ نے درست فرمایا کہ بریلوی مکتب فکر کا بورڈ تنظیم المدارس جامعہ نطامیہ لوہاری گیٹ لاہور میں ہے۔
 
پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے میں مدارس کا کافی عمل دخل ہے۔ کیونکہ مدارس میں تعلیم تنگ نظری اور مسلکی بنیادوں پر ہوتی ہے اور critical thinking کا عنصر ناپید ہے۔
مدارس کے criculum کو کافی تبدیلی کی ٍضرورت ہے۔ تاکہ طلبہ کو رٹے رٹائے اسباق یاد کروانے کی بجائے انکو صحیح معنی میں عالم بنایا جائے۔ جسطرح کے عالم رازی، ابن سینا،فارابی، عمر خیام، ابن عربی ہوا کرتے تھے۔ ہمیں تھوک کے حساب سے تکفیری نہیں درکار جن کا کام معاشرے میں نفرتیں پھیلانا ہو۔ آخر کو علامہ اقبال نے غلط نہیں فرمایا تھا
ع
دین ملا فی سبیل اللہ فساد

"دینی مدارس کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے کچھ کالم نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہوتاہے کہ وہ ضد اور تعصب کے عینک چڑھائے ہوتے ہیں "
 
پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے میں مدارس کا کافی عمل دخل ہے۔ کیونکہ مدارس میں تعلیم تنگ نظری اور مسلکی بنیادوں پر ہوتی ہے اور critical thinking کا عنصر ناپید ہے۔​
مدارس کے criculum کو کافی تبدیلی کی ٍضرورت ہے۔ تاکہ طلبہ کو رٹے رٹائے اسباق یاد کروانے کی بجائے انکو صحیح معنی میں عالم بنایا جائے۔ جسطرح کے عالم رازی، ابن سینا،فارابی، عمر خیام، ابن عربی ہوا کرتے تھے۔ ہمیں تھوک کے حساب سے تکفیری نہیں درکار جن کا کام معاشرے میں نفرتیں پھیلانا ہو۔ آخر کو علامہ اقبال نے غلط نہیں فرمایا تھا​
ع​
دین ملا فی سبیل اللہ فساد​
يہ مدارس كے متعلق مشہور رٹی رٹائى رائے ہے جو critical thinkingسے عارى افراد بنا تحقيق دہراتے چلے جاتے ہيں۔ مدارس كا curriculum جيسا بھی ہے اس كے طلبہ وطالبات كے ہجے كبھی اتنے خوف ناك نہيں ہوتے :-P:!:
راقمہ كا تعلق مدرسے سے رہا ہے _اور آج بھی اس نسبت پر فخر ہے _ جہاں كئى مختلف فقہی پس منظر سے تعلق ركھنے والے اساتذہ اور طلبہ و طالبات موجود تھے ، باہمى احترام ومحبت ميں كبھی كوئى كمى محسوس نہيں ہوئى ، ہمارے ليے يہ اختلاف ايسا تھا جيسے ايك ہی ويب سائٹ كو مختلف براؤزرز ميں ديكھنے والوں كا اختلاف ۔ ايك استاد نے اپنا فقہی مسلك بدلنے كا اعلان كيا تب بھی ان كے ليے احترام ميں مزيد اضافہ ہوا، ايك شخص ديانت دارى سے تحقيق كے بعد جو فيصلہ چاہے كر سكتا ہے ۔ ہم سب آج تك ايك دوسرے سے محبت اور احترام سے ملتے ہيں۔ الحمد للہ يہ مدارس سے اٹھنے والی علمى سپاہ ہے جس نے تكفيريوں کے علاوہ ملاحدہ اور زنادقہ كے محاذوں پر بھی علمى رہنمائى كا كام سنبھال ركھا ہے ۔ جن لوگوں نے تكفيريوں سے جنگ ميں انگلى بھی نہيں كٹوائى ان كو كيا معلوم كہ مدارس نے بيك وقت تكفير اور زندقہ سے كس بےجگری سے جنگ لڑی ہے؟

علامہ اقبال مرحوم نے نئی تہذيب کے گندے انڈوں اور مغربى تعليم كے متعلق بھی بہت خوب فرمايا ہے
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو​
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر​
اور انگریزی مدارس کی گمراہ ماديت پرست تعلیم كے متعلق فرمايا ہے​
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم​
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف​
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر​
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ​
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم​
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ!​
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں​
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کفِ جو!:!:
اور زمانے كے ساتھ چلنے كے زعم ميں مبتلا افراد كے متعلق كيا خوب فرمايا ہے:​
"عصرِ حاضر" ملک الموت ہے تیرا جس نے​
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش !​
فیض فطر ت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا​
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش !​
خدا نوجوانان اسلام كو فكر معاش اور نگاہ خفاش سے گزر جانے كى توفيق دے۔​
 

سید ذیشان

محفلین
يہ مدارس كے متعلق مشہور رٹی رٹائى رائے ہے جو critical thinkingسے عارى افراد بنا تحقيق دہراتے چلے جاتے ہيں۔ مدارس كا curriculum جيسا بھی ہے اس كے طلبہ وطالبات كے ہجے كبھی اتنے خوف ناك نہيں ہوتے :-P:!:
typo کے لئے معذرت۔
راقمہ كا تعلق مدرسے سے رہا ہے _اور آج بھی اس نسبت پر فخر ہے _ جہاں كئى مختلف فقہی پس منظر سے تعلق ركھنے والے اساتذہ اور طلبہ و طالبات موجود تھے ، باہمى احترام ومحبت ميں كبھی كوئى كمى محسوس نہيں ہوئى ، ہمارے ليے يہ اختلاف ايسا تھا جيسے ايك ہی ويب سائٹ كو مختلف براؤزرز ميں ديكھنے والوں كا اختلاف ۔ ايك استاد نے اپنا فقہی مسلك بدلنے كا اعلان كيا تب بھی ان كے ليے احترام ميں مزيد اضافہ ہوا، ايك شخص ديانت دارى سے تحقيق كے بعد جو فيصلہ چاہے كر سكتا ہے ۔ ہم سب آج تك ايك دوسرے سے محبت اور احترام سے ملتے ہيں۔ الحمد للہ يہ مدارس سے اٹھنے والی علمى سپاہ ہے جس نے تكفيريوں کے علاوہ ملاحدہ اور زنادقہ كے محاذوں پر بھی علمى رہنمائى كا كام سنبھال ركھا ہے ۔
جن لوگوں نے تكفيريوں سے جنگ ميں انگلى بھی نہيں كٹوائى ان كو كيا معلوم كہ مدارس نے بيك وقت تكفير اور زندقہ سے كس بےجگری سے جنگ لڑی ہے؟
آپ نے تصویر کا وہ رخ پیش کیا ہے جو آپ نے اپنی رنگین عینکوں سے دیکھا۔ حقیقت بہت ہی تلخ ہے۔ اس رپورٹ سے آپ کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔
http://www.crisisgroup.org/~/media/...095_the_state_of_sectarianism_in_pakistan.pdf
علامہ اقبال مرحوم نے نئی تہذيب کے گندے انڈوں اور مغربى تعليم كے متعلق بھی بہت خوب فرمايا ہے
علامہ اقبال خود مغربی مدرسوں کی پیداوار تھے۔ انہوں نے germany کی stuttgart university سے .Ph.D ڈگری حاصل کی۔ اور تاج برطانیہ سے سر کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ بھی مدراس کے مولیوں نے ان پر تکفیر کی۔
 

سید ذیشان

محفلین
"دینی مدارس کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے کچھ کالم نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہوتاہے کہ وہ ضد اور تعصب کے عینک چڑھائے ہوتے ہیں "
میرے بہت سے قریبی رشتہ دار مدارس سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اور میں پاکستان میں سائنسی تعلیم کو بھی اسی طرح پرکھتا ہوں جس طرح سے دینی تعلیم کو، کیونکہ وہاں پر بھی بہت زیادہ بہتری کی گنجائش ہے۔ تعصب کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپ اتنے غیر متعصب ہیں تو اہل تشیع کے بارے میں بارہا مفتیان کے تکفیر کے فتوں کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ اسی طرح اہل دیوبند کی بریلویوں پر تکفیر اور بریلیوں کی دیوبندیوں پر تکفیر شائد تعصب کے دائرے میں نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے ہر ایک فرقہ جنت کا ٹھیکیدار بنا بیٹھا ہے اور دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے پر تلا ہوا ہے۔
 
typo کے لئے معذرت۔
جن لوگوں نے تكفيريوں سے جنگ ميں انگلى بھی نہيں كٹوائى ان كو كيا معلوم كہ مدارس نے بيك وقت تكفير اور زندقہ سے كس بےجگری سے جنگ لڑی ہے؟
آپ نے تصویر کا وہ رخ پیش کیا ہے جو آپ نے اپنی رنگین عینکوں سے دیکھا۔ حقیقت بہت ہی تلخ ہے۔ اس رپورٹ سے آپ کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔
http://www.crisisgroup.org/~/media/Files/asia/south-asia/pakistan/095_the_state_of_sectarianism_in_pakistan.pdf

علامہ اقبال خود مغربی مدرسوں کی پیداوار تھے۔ انہوں نے germany کی stuttgart university سے .Ph.D ڈگری حاصل کی۔ اور تاج برطانیہ سے سر کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ بھی مدراس کے مولیوں نے ان پر تکفیر کی۔

درست مشرقى ومغربی تعليم كے معاملے ميں علامہ گھر كے بھيدی تھے اور صاحب البيت ادرى بما فيہ : گھر والے گھر كى حالت سے بخوبى واقف ہوتے ہيں، اسى ليے اس تعليم پر ان كے افكار سند ہيں۔ وہ خود وہاں سے پڑھ كر اس تعليم كا مرثيہ لكھ گئے عقل مند را اشارہ كافى است !
تكفير كرنے والے مٹھی بھر اہل تشيع ، اہل ديوبند، اہل بريلى ، اہل حديث سب دائروں ميں موجود ہيں ان كى وجہ سے سب علماء كرام كو جنرلائز generalize بلكہ overgeneralize كرنا منطقى غلطى ہے ليكن مولويوں سے تعصب كى وجہ سے مسٹرز كو دانستہ يا نا دانستہ يہ اصول بھول جاتا ہے ! :!:
آپ نے تصویر کا وہ رخ پیش کیا ہے جو آپ نے اپنی رنگین عینکوں سے دیکھا۔ حقیقت بہت ہی تلخ ہے۔ اس رپورٹ سے آپ کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ كے ليے شكريہ،يہ ان شاء اللہ ميرى تحقيق كے ليے مفيد ثابت ہو گی۔ اتار لى مطالعہ كرنا باقى ہے،
ميرے ذاتى تجربات و مشاهدات ميرے ليے بديسى متعصب تھنک ٹينک كى رپورٹ سے زيادہ معتبر ہيں كيونکہ يہاں عين اليقين كا درجہ ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
درست مشرقى ومغربی تعليم كے معاملے ميں علامہ گھر كے بھيدی تھے اور صاحب البيت ادرى بما فيہ : گھر والے گھر كى حالت سے بخوبى واقف ہوتے ہيں، اسى ليے اس تعليم پر ان كے افكار سند ہيں۔ وہ خود وہاں سے پڑھ كر اس تعليم كا مرثيہ لكھ گئے عقل مند را اشارہ كافى است !
تكفير كرنے والے مٹھی بھر اہل تشيع ، اہل ديوبند، اہل بريلى ، اہل حديث سب دائروں ميں موجود ہيں ان كى وجہ سے سب علماء كرام كو جنرلائز generalize بلكہ overgeneralize كرنا منطقى غلطى ہے ليكن مولويوں سے تعصب كى وجہ سے مسٹرز كو دانستہ يا نا دانستہ يہ اصول بھول جاتا ہے ! :!:
کوئی overgeneralization یا exaggeration نہیں کی گئی- آپ شائد کسی ایسے مدرسے سے پڑھی ہیں جس کا standard اچھا تھا۔ ورنہ یہ rule نہیں exception ہے۔
رپورٹ كے ليے شكريہ،يہ ان شاء اللہ ميرى تحقيق كے ليے مفيد ثابت ہو گی۔ اتار لى مطالعہ كرنا باقى ہے،
ميرے ذاتى تجربات و مشاهدات ميرے ليے بديسى متعصب تھنک ٹينک كى رپورٹ سے زيادہ معتبر ہيں كيونکہ يہاں عين اليقين كا درجہ ہے۔
کیا آپ نے 13000 مدرسوں میں بیک وقت تعلیم حاصل کی ہے؟ میں نے اس ملک کے بہت اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا مشاہدہ ہی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے سکولوں اور کالجوں کی حالت نہ گفتہ بہ ہے۔
 
کوئی overgeneralization یا exaggeration نہیں کی گئی- آپ شائد کسی ایسے مدرسے سے پڑھی ہیں جس کا standard اچھا تھا۔ ورنہ یہ rule نہیں exception ہے۔
بصد معذرت ، درست يہ ہے کہ برے مدرسے استثناءexception ہيں ، اچھے اور معيارى مدرسے rule ہيں كيونکہ صرف معيارى جامعات ، كليات اور مدارس ہی بورڈز آف مدارس يا وفاق المدارس كے ہاں رجسٹرڈ ہوتے ہيں جب مطلوبہ معيار حاصل كر ليں ، اگر ان كا معيار نہ ہو تو كوئى بھی بورڈ ان كے اميدواروں كو امتحان كى اجازت نہيں ديتا ۔آپ ايك مكمل ميكانزم كو صرف تعصب كى بنياد پر رد نہيں كر سكتے۔ اس كے ليے ٹھوس حقائق پر مبنى دلائل كى ضرورت ہے۔
ميرى تعليم بے شك ايك مدرسے سے ہوئى ليكن ميرا مشاہدہ اور تجربہ صرف وہاں تك محدود نہيں ، كئى ادارو ں كى تدريس، انتظام اور نصاب كى تشكيل واختيار كے مشاہدے اور تجربے تك پھيلا ہوا ہے۔ انسان اپنے سوشل سركل سے بھی تجربات حاصل كرتا ہے بالكل اس طرح جس طرح معزز ركن ذكر كر چکے ہيں ۔
اگر جناب كے ذكر كردہ معيار كو مان ليا جائے تو برے انسان رولrule ہيں اور اچھے انسان exceptional case مستثنى ، برے مرد ruleرول ہيں اور اچھے مرد exceptional case اينڈ سو آن۔ اور انسان كو ايسا تب نظر آتا ہے جب وہ بدگمانى كى كالى عينك لگائے ہو۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
علامہ اقبال نے کیا صرف یہی ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ ساری زندگی خاموش رہے۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ہر ایک میں صرف عیب دیکھنے اور اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں خوبیوں پر ہماری نظر کم ہی ٹکتی ہے۔ میرے بھائی دینی مدارس کے ساتھ ہمارا جو رویہ ہے ۔ اے کاش کبھی ہم نے اس پر بھی غور فرمایا ہوتا کہ ہم نے مدارس کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا ہوا ہے۔ آپ ریسرچ کریں کہ ہمارے عصری تعلیمی اداروں کا سالانہ بجٹ کتنا ہے اور مدارس کا سالانہ بجٹ کتنا ہے تو آپ کو آٹے اور نمک جتنا فرق نظر آئے گا اور پھر ہمارا ذہین بچہ تو جائے سکول و کالج میں پڑھنے اور جو کند ذہن ہو وہ رہ گیا دینی مدارس کے لئے۔ امیر کا بچہ پڑھے انگلش سکول میں اور غریب کا بچہ پڑھے اس مدرسہ میں جہاں مفت خوراک و تعلیم کا بندوبست ہے۔ یہ ہے خام مال جو ہم مدارس کو فراہم کر رہے اور رزلٹ میں ہم رازی و سینا مانگتے ہیں۔ واہ واہ جی واہ۔ ایک طرف ہمارا رویہ دیکھو اور دوسری طرف مدارس کے اساتذہ کی محنت دیکھو، قرآن و حدیث کا فیضان دیکھو، اسلام کی حقانیت دیکھو، وہ کند ذہن بچے جو مدرسے کی روکھی سوکھی کھا کر، ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ جب شہادۃ العالمیہ کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں تو میں دعوے سے کہتا ہوں سکول وکالج سے ایم اسلامیات وعربی کیا ہوا بندہ ان سے کسی صورت علمی مکالمہ نہیں کر سکتا۔پھر ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم صرف دین دار لوگوں اور دینی مدارس پر تنقید کرنے کے لئے ہیں؟ اگر ہمیں دینی مدارس سے ہمدردی ہے اور ہم واقعی ان کی اصلاح کا درد رکھتے ہیں تو اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ ہم نے اس کے لئے کیا عملی اقدامات آج تک کئے ہیں۔یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ باوجود صد کمزوریوں کے دین کی رونقیں اور دین کی بہاریں جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ انہیں علماء کرام اور انہیں دینی مدارس کی مرہون منت ہیں۔ نجانے ہمیں وہ دینی تحریکیں کیوں نظر نہیں آتیں جنہوں نے ہزاروں ڈاکوؤں اور رہزنوں کو نہ صرف نمازی بنا دیا ہے بلکہ امامت کے مصلے کے قابل بنا دیا ہے۔ مجھے ام نور العین صاحبہ کی تقلید میں یہ کہنا ہوگا کہ خدارا تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو آپ کو مدارس میں دین کے حوالے سے بہت زیادہ خوبیاں نظر آئیں گی اورآپ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ مدارس ہی اسلام کے قلعے ہیں۔ وما توفیقی الا باللہ۔
 

سید ذیشان

محفلین
بصد معذرت ، درست يہ ہے کہ برے مدرسے استثناءexception ہيں ، اچھے اور معيارى مدرسے rule ہيں كيونکہ صرف معيارى جامعات ، كليات اور مدارس ہی بورڈز آف مدارس يا وفاق المدارس كے ہاں رجسٹرڈ ہوتے ہيں جب مطلوبہ معيار حاصل كر ليں ، اگر ان كا معيار نہ ہو تو كوئى بھی بورڈ ان كے اميدواروں كو امتحان كى اجازت نہيں ديتا ۔آپ ايك مكمل ميكانزم كو صرف تعصب كى بنياد پر رد نہيں كر سكتے۔ اس كے ليے ٹھوس حقائق پر مبنى دلائل كى ضرورت ہے۔
ميرى تعليم بے شك ايك مدرسے سے ہوئى ليكن ميرا مشاہدہ اور تجربہ صرف وہاں تك محدود نہيں ، كئى ادارو ں كى تدريس، انتظام اور نصاب كى تشكيل واختيار كے مشاہدے اور تجربے تك پھيلا ہوا ہے۔ انسان اپنے سوشل سركل سے بھی تجربات حاصل كرتا ہے بالكل اس طرح جس طرح معزز ركن ذكر كر چکے ہيں ۔
اگر جناب كے ذكر كردہ معيار كو مان ليا جائے تو برے انسان رولrule ہيں اور اچھے انسان exceptional case مستثنى ، برے مرد ruleرول ہيں اور اچھے مرد exceptional case اينڈ سو آن۔ اور انسان كو ايسا تب نظر آتا ہے جب وہ بدگمانى كى كالى عينك لگائے ہو۔
اب اس مضمون پر میں اور زیادہ عرض نہیں کروں گا کیونکہ ہمارے خیالات کافی مختلف ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی بدمزگی پیدا ہو۔
 

حماد

محفلین
"مذاہب عالم کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائ دور میں ہر مذہب کے پیروؤں میں لطف و کرم ، رواداری اور وسعت مشربی کے اوصاف پائے جاتے ہیں، جن سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اس مذہب کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ اس مذہب کا دور عروج ہوتا ہے لیکن چند نسلوں کے بعد جب خارجی ماحول کے تقاضوں سے چشم پوشی کر لی جاتی ہے تو سیاسی اور اخلاقی تنزل کا شکار ہو جاتے ہیں اور رواداری کی بجائے تعصب بے جا نمود پزیر ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب فرقہ آرائ کا آغاز ہوتا ہے اور اصل مذہب متعدد فرقوں میں منقسم ہو جاتا ہےکہ اس کی ابتدائ شکل و صورت بھی نہیں پہچانی جاتی۔ یہ فرقے آپس میں نزاع و پیکار کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اس وقت ہر کم سواد شخص جو عقائد فقہ میں معمولی سا بھی درک رکھتا ہے اپنے خیالات دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور مذہب کے اصول کو توڑ مروڑ کر حسب منشا تاویلیں کرتا ہے۔ اس داخلیت کے زیر اثر بعض عافیت پسند طبائع تصوف کی طرف مائل ہو جاتی ہیں اور استغراق اور زاویہ نشینی میں اس قدر غلو کرتی ہیں کہ معاشرے سے انکا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔"
(مقالات جلالپوری از علی عباس جلالپوری)
 
Top