عبیداللہ عبید
محفلین
تحریر:عبیداللہ عبید،
دینی تعلیم اور پھر اس کے لیے مدارس کا قیام ،معاشرے کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ؟ میرے خیال میں ، اس سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے ۔ہمارے ہاں دینی تعلیم کا نظام پوری کامیابی سے رواں دواں ہے لیکن کچھ عوامی حلقے اورکالم نگاروں کی اکثریت اس سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے اس لیے وہ اس نظامِ تعلیم کے بارے میں سرے سے معلومات نہیں رکھتے یا ناقص ہوتے ہیں ۔دینی مدارس کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے کچھ کالم نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہوتاہے کہ وہ ضد اور تعصب کے عینک چڑھائے ہوتے ہیں ۔ناقص معلومات جیسی صورتِ حال کا مشاہدہ مجھے روزنامہ آزادی کے مستقل اور قابلِ قدر کالم نگار پروفیسر سیف اللہ خان کی تحریر سے ہوا جو 25فروری 2012ءکو ” اسلامی مدارس کے لیے یونیورسٹیوں کی ضرورت “ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔پروفیسر صاحب کی تحریر میں اگر چہ تعصب اور ضدقسم کی کوئی بات ہرگزنہیں ہے۔ ہاںوہ دینی طبقوں کے لیے دل میں محبت اور شفقت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی مزید وضاحت کے لیے ان کی خدمت میں کچھ گزارشات 8نکات کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں۔
:1مدارس کی جس ملک گیر تنظیم کا ذکر انہوں نے اپنی تحریر میں کیا ہے اس کا نام تنظیم المدارس نہیں ”وفاق المدارس العربیہ پاکستان“ ہے ۔
:2دینی مدارس کی یہ مذکورہ ملک گیر تنظیم ،امتحانی بورڈ کی شکل میں ملک بھر کے تقریباًساڑھے تیرہ ہزار مدارس کے تعلیمی ماحول اور امور کی نگرانی کرتی ہے۔کم و بیش بارہ تیرہ لاکھ طلباو طالبات ان مدارس میں دینی اور دنیوی علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔تقریباًپچپن /چھپن ہزار اساتذہ ان مدارس میں پڑھاتے ہیں ۔یہ تنظیم ابتداءً 1957ءکو ملتان میں قائم کی گئی تھی اور آج تک اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔
:3ہمارے محترم پروفیسر صاحب اس تنظیم کی کارکردگی کے بارے میں کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں اور وفاق کی کارکردگی پر کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں ”یہ تنظیم پورے ملک کے اسلامی مدارس کی دیکھ بھال کررہی ہے جوکہ یقینا ناممکن اور تصوراتی بات ہے “۔پروفیسر صاحب اس امر کو شاید اس لیے ناممکن سمجھ رہے ہیں کہ وہ عصری مدارس وکلیات (schools and colleges) کا مشاہدہ کرچکے ہیں جو کسی تعلیمی بورڈ کی زیر ِنگرانی کام کرتے ہیں ۔میرا خیال ہے (لیکن اس پر مجھے اصرار نہیں )کہ وہ دینی مدارس کے انتظام و انصرام سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ورنہ اس خدشے کا اظہار بالکل نہ کرتے ۔بہرحال ان کے علم میں اضافے کی غرض سے یہ بات سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دینی مدارس سادگی اور حریت پر مبنی مزاج کے باوجود وفاق المدارس کے کڑے اصول وضوابط کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور وفاق المدارس نامی یہ تنظیم ان کی نگرانی اور تعلیمی امور کی دیکھ بھال جس منظم طریقے سے کرتی ہے اس کا موازنہ حال ہی میںقائم پرائیویٹ بورڈ(آغاخان ایجوکیشن بورڈ) سے کیا جائے تو یہ مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ کارکردگی کے لحاظ سے ان بوری نشینوں کے قائم کردہ بورڈ کا پلہ بھاری ہے۔(آزمائش شرط ہے)۔آئے دن اکثر تعلیمی بورڈوں میں کرپشن اور بوٹی مافیا کی خبریں ہمارے قومی اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور وفاق کے یومِ تاسیس سے آج تک ایسی چھوٹی خبر بھی سامنے نہیں آئی حالانکہ اس نظامِ تعلیم کے ناقدین اس قسم کاسنہرا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ایک تلخ حقیقت پیش کررہا ہوں اگرناگوارِ خاطر نہ ہواور حقیقت سے آنکھیں نہ چرائی جائے تو ہمارے اربابِ تعلیم دینی مدارس کے انتظام وانصرام کرنے والے اس بورڈ کا غور سے مطالعہ کریں اوراجنبی تعلیمی نظریات درآمد کرکے نت نئے تجربات کرنے کی بجائے اس کی روشنی میں تعلیمی بورڈ وں میں اصلاحات کا عمل جاری کریں تاکہ اس قوم کا کچھ بھلاہوکیونکہ ہمارا وقت ، سرمایہ اور صلاحیتیں ان تجربات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔
:4پروفیسر صاحب کی تحریر میں چوتھا محلِ نظر نکتہ وفاق المدارس کے اسناد کے اجرا کے تاریخی پسِ منظر کا ہے۔وہ لکھتے ہیں ”غالباًجنرل ضیاءکے دنوں میں سرکاری ملازمین میں تعلیم کے فروغ کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو درکار تعلیم سے زیادہ کے حصول پر اضافی تنخواہ دینے کا رواج ہوگیا “۔ ”اس سلسلہ میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ اسکولوں اور اوقاف میں تعینات دینیات کے اساتذہ اور خطیبوں کے اسلامی اسناد کو جدید تعلیم کے کن اسناد کے برابر تسلیم کیا جائے تاکہ یہ سرکاری ملازمین بھی اضافی تنخواہوں سے مستفید ہوسکیں “۔پروفیسر صاحب کے الفاظ نقل کرنے کے بعد، اب اِن اسناد کے اجرا کا تاریخی پسِ منظر، مختصر طور پر بیان کیاجاتاہے۔1982ءتک دینی مدارس کے فضلاءکو ناخواندہ اور پرائمری پاس شخص کو خواندہ تسلیم کیا جاتا تھااورحقائق کچھ یوں تھے ( اب بھی ہیں )کہ صرف عصری جامعات سے ایم اے اسلامیات/عربی کی ڈگری حاصل کرنے والے سندیافتہ افراد کا مبلغِ علم (علمی استعداد) دینی مدرسوں میں پڑھنے والے دوسرے یا تیسرے درجے کے طالب علم سے بھی کم ہوتا تھا۔اس حقیقت کو اصحابِ درد محسوس کررہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ دینی مدارس کے سند کو اس کاشایانِ شان مقام دلایا جائے اس لیے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق مرحوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ اس سند کو ایم اے اسلامیات/عربی کے مساوی قراردیا جائے۔اس نے ازخود کچھ فیصلہ (آرڈیننس )جاری کرنے کی بجائے یہ معاملہ یوجی سی (University Grants Commission) کے حوالے کیا۔ یوجی سی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا اور اس پر غور وخوض کے لیے ملک بھر کے اہم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور ماہرینِ تعلیم کو اسلام آباد بلایا تاکہ مدارس کے نصابِ تعلیم کا ناقدانہ جائزہ لیا جاسکے ۔ تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماءنے اس اجلاس میں مدارس کی نمائندگی کی ۔طویل مشاورت کے بعد ان ماہرینِ تعلیم نے متفقہ طور پر یہ سفارش کی کہ دینی مدارس کے آخری سند کو کم ازکم ایم اے (اسلامیات اور عربی) کے مساوی تسلیم کیاجائے۔ بالآخر ان سفارشات کی روشنی میں یوجی سی(جس کی نیابت کے فرائض اب ہائر ایجوکیشن کمیشن نامی ادارہ اداکررہاہے)نے نوٹیفیکیشن نمبر:80198CAD128مورخہ:17نومبر1982ء� �و جاری کرکے یہ حقیقت ملکی تاریخ میں پہلی بار تسلیم کرلی کہ شہادة العالمیہ کے سند کا حامل قابلیت و لیاقت میں ایم اے اسلامیات/عربی کے مساوی ہے ۔اسناد کے لیے مذکورہ معیار کسی سیکشن آفیسر کی دَین نہیں بلکہ یوجی سی کی کڑی شرائط پر پورا اترنے کے بعد حقیقت کا اعتراف ہے ۔الغرض شہادة العالمیہ کو ایم اے کے مساوی تسلیم کرتے وقت تنخواہوں میں اضافے یا الاونسوں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا بلکہ انگریز کے عہد سے جاری ناانصافی پر مبنی رویے کا ازالہ مقصود تھا۔
’’ جاری ‘‘