تمہید
اکثر دیکھا گیا ہے کہ دین پر جب بھی بحث و مباحثہ ہوا ۔ عقائد اور نظریات آپس میں ٹکرائے تو گویا ایک حق و باطل کی جنگ شروع گئی ۔ معزز ، دین دار ، بردبار ، معمر ، جوان اور ایک عام شخص سے لیکر علماء تک کے رویوں میں ، ایک ایسا حیرت انگیز فرق نظر آیا جس کا اسلام کی اخلاقی تعلمیات سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ دنیا میں اللہ کا دین پھیلانے کی خواہش دل میں رکھنےوالوں کا یہ تضاد ایک عام انسان اور ایک عام مسلمان کو بہت واضع نظر آتا ہے ۔اس سلسلے میں ، کچھ معلومات میں نے اکٹھی کیں ، کچھ محترم عالموں سے مدد لی ، اس کے نتیجے میں مجھے یہ بات سمجھنے میں مدد ملی کی ہم دین و مذہب کے معاملے میں آخر اتنے انتہا پسند کیوں ہوگئے ہیں ۔ ہمیں اپنے سوا سب غلط کیوں نظر آتے ہیں ۔ ہماری دلیلیں ، ثبوت ، شواہد ، استدلال اور معلومات دین کے معاملے میں کسی دوسرے کے نظریے اور عقائد سے کیوں باہم اشتراک نہیں کرتے ۔ ہم تحمل اور صبر سے ایک دوسرے کی بات کیوں نہیں سن پاتے ۔ بہتان ، الزام ترشیاں اور ایک دوسرے کے خلاف فتوؤں کا کیوں آغاز ہوجاتا ہے ۔ تحقیق سے جو باتیں سامنے آئیں میں وہ آپ کے سامنے گوشوار کرتا ہوں مگر آپ سے ایک مخلصانہ درخواست ہے کہ اس مضمون کو کسی اختلاف کے تناظر میں نہ پڑھا جائے بلکہ اسے ایک طالبعلم کی ایسی کوشش کا نتیجہ سمجھا جائے جو کسی بھی عصبیت اور نفرت سے پاک ہے ۔ اور جس کا مقصد کسی کی دل آزاری ، دل شکنی نہیں بلکہ اس معاملے کی حقیقت تک پہنچنا ہے ۔ امید ہے اس مضممون میں کوئی اتار چڑھاؤ آپ کو تکلیف دے تو میں اس کی پیشگی معافی مانگ لیتا ہوں ۔ امید ہے آپ میری اس جسارت کو درگذر فرمادیں گے ۔ ،