میرے خیال میں دینی کتب کے لیے جو مدارس فنڈز دیں گے، انہی کو اس بات کا بھی مجاز ہونا چاہیے کہ وہ کتاب کا نام معین کریں۔
جہاں تک رضاکارانہ طور پر فنڈز دینے یا رضاکارانہ بنیاد پر کتابیں ٹائپ کرنے کا تعلق ہے تو پھر ذیل کی قدیم کلاسیکل کتب زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
قدیم اہم کتب کی ایک Rough لسٹ یہ ہے:
التاریخ و سیر (سیرت)
1) سیرتِ حلبیہ (اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے. کاپی رائیٹ کا پتا نہیں۔ مترجم مولانا محمد اسلم قاسمی، چھ جلدیں، اشاعت از جامعہ نعیمیہ ۔ موضوع سیرت النبی)
2) البدایہ و النہایہ (کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی نے کیا ہے۔ چونکہ یہ اکیڈمی بند ہو چکی ہے اس لیے یقینی طور پا کاپی رائیٹ کا مسئلہ بھی ختم ہو گیا ہو گا۔ کوئی پاکستانی وکیل ہی اس مسئلے پر زیادہ روشنی ڈال سکتے ہیں، لیکن جہاں تک میں نے سنا ہے تو کاپی رائیٹ اگر ادارے کے نام پر ہیں تو اُس کے بند ہونے کے 5 سال کے بعد کتابیں کاپی رائیٹ سے آزاد ہو جاتی ہیں)۔
3) تاریخ طبری (کسی تعارف کی محتاج نہیں، اور تاریخ کی تمام تر دیگر کتب کی بنیاد اسی پر ہے۔ اسکا ترجمہ بھی نفیس اکیڈمی نے کیا ہے اور امید ہے کہ کاپی رائیٹ سے آزاد ہو گا)۔
4) تاریخ ابوالفدا (بہت ہی مختصر، مگر بہت ہی جامع۔ اسکا اردو ترجمہ مولوی کریم الدین نے کیا ہے جو کہ کاپی رائیٹ سے آزاد ہے اور میرے پاس موجود ہے اور میں Scan کر کے اپلوڈ کر سکتی ہوں۔ شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے)
5) الطبقات الکبریٰ (اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی نے کیا ہے اور جیسا کہ آصف نے لکھا ہے، یہ کتاب واقعی امہات الکتب میں سے ہے)۔
6) تاریخِ مسعودی (ترجمہ از نفیس اکیڈمی
7) تاریخ الخلفاء (از حافظ جلال الدین سیوطی۔ اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ کاپی رائیٹ کا علم نہیں، مگر بہرحال بہت اہم کتاب ہے)۔
اگر اسلامی تاریخ پر کوئی نئی کتاب چاہیئے تو یقینی طور پر اس سلسلے میں ڈاکٹر ابوزہرہ مصری کی تاریخ المذاہب الاسلامی کا نام سرفہرست ہو گا۔
9) مدارج النبوۃ (اردو ترجمہ ہو چکا ہے اور شاید کاپی رائیٹ سے پاک ہی ہو)۔
10۔ سیرت ابن ہشام۔۔۔۔۔ جیسا کہ آصف نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ اسکا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ بہرحال آصف یہ بھی بتائیں کہ کیا یہ اردو ترجمہ کاپی رائیٹ سے آزاد ہے یا نہیں؟
11۔ احیاء العلوم (امام غزالی) اردو ترجمہ از ادارہ دار الاشاعت کراچی۔ (کاپی رائیٹ شاید آزاد نہ ہوں)۔
اب ذیل میں چند ایک اُن کتابوں کے نام جو کہ اہم تو ہیں، لیکن مجھے علم نہیں کہ اُن کا اردو ترجمہ ہوا ہے کہ نہیں:
الاستیعاب فی تمیز الاصحاب
الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)
فتوح البلدان اور انساف الاشراف (احمد بن یحیٰ بن جابر البلاذری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفاسیر و کتب احادیث
تفاسیر کی قدیم کلاسیکل کتب یہ ہیں:
1۔ تفسیر ابن کثیر (اردو ترجمہ موجود ہے نفیس اکیڈمی کی طرف سے، جو کہ شاید کاپی رائیٹ سے آزاد ہے)۔
2۔ تفسیر قرطبی (اردو ترجمہ کا علم نہیں)
3۔ تفسیر طبری (بہت زبردست کتاب ہے، مگر اردو ترجمے شاید ابھی نہیں ہوا)۔
4۔ تفسیر کبیر (فخر الدین کبری الرازی)۔ اردو ترجمہ؟؟؟؟
جہاں تک بات ہے کتب حدیث کی، تو یہ بات بالکل صاف ہے اور لسٹ میں شامل ہیں صحاح ستہ اور موطا امام مالک۔
اب سوال صرف یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے۔
میری ناقص رائے کے مطابق، نئی کتب کتنی ہی کیوں نہ فائدہ مند ہوں، مگر وہ کبھی بھی ان کلاسیکل قدیم کتب کی جگہ نہیں لی سکتیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ
Standardization ہے۔ ہمیں اردو کتب کو بالکل عربی کتب کے مطابق سٹینڈرائزڈ کرنا ہے۔
عربی زبان میں بھی احادیث کے بہت سے مختصر مجموعے لکھے گئے، مگر آپ عربی کے اسلامک ویب سائیٹ پر جا کر دیکھیں تو آپ کو قدیم کلاسیکل کتب ہی بطور سٹینڈرڈ استعمال ہوتی نظر آئیں گی۔ اب تک جتنا بھی Reference Work ہوا ہے، وہ انہیں قدیم کتابوں کے حوالے سے ہوا ہے۔
چنانچہ ہمیں پُر زور طریقے سے اصرار قدیم اور اصل کتب کی طرف ہی رکھنا چاہیئے۔ اس کے بعد جب شرح کا مسئلہ آئے، تو وہ کہیں سے بھی لے کر حدیث کے ذیل میں لکھی جا سکتی ہیں۔
قدیم اور اصل کتب کے حوالے سے Ideal کیس تو یہی ہو گا کہ مولانا وحید الزمان خانصاحب کا اردو ترجمہ لیا جائے۔ یہ چیز بھی Standardization میں مدد دے گی کہ ایک ہی مترجم نے صحاح ستہ کی اہم کتب کا ترجمہ کیا ہے۔
اسی طرح خانصاحب نے صحاح ستہ کے ترجمے کے ساتھ ساتھ بہت اہم تفسیری حواشی بھی لکھے ہیں (خصوصا تیسیر الباری فی شرح البخاری)۔
اکیلے پاکستان میں چودہ ہزار دینی مدارس کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ کہ احادیث کے مختصر مجموعات کو ڈیجیٹائز کرنا آسان کام ہو گا، مگر اتنی بڑی اردو بولنے والی کمیونٹی کے حوالے سے یہ شرم کا باعث ہو گا کہ وہ چودہ ہزار مدارس کی موجودگی میں بھی احادیث کی کتب کو سٹینڈرائزڈ شکل میں نہ پیش کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفمہیم القران کو ڈیجیٹائز کرتے وقت ہوشیار رہیے گا کیونکہ ہو سکتا ہے شاید یہ کوششیں پہلے سے ہی شروع ہو چکی ہوں۔