دین میں تشدد اور نفرت کا فروغ

ظفری

لائبریرین
یہ بات تقریبا ً سب کے ہی مشاہدے میں ہوگی کہ سیاست ، بالخصوص مذہب کے فورمز پر لوگ علمی بحث کا نام لیکر نفرت اور تشدد کی فضا کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ اس کو فروغ دینے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ کسی کو منکرینِ حدیث کا خطاب دیدیا ۔ اور کبھی کسی کو اپنے "اعلی علم " کی بنیاد پر اسے دین سے خارج بھی کردیا ۔ علمی حوالوں سے بحث کا آغاز کیا جائے تو وہ اپنے اپنے دائروں میں مقید ہوجاتے ہیں ۔ اور کچھ عرصہ بعد پھر کوئی شرپسندی کا مقالہ یا حوالہ دیکر چلے جاتے ہیں ۔ اللہ جانے ان کا حقیقتاً مقصد کیا ہے ۔ وہ کیا واقعی کسی خاص مقصد کے لیئے یہ کام کر رہے ہیں ۔ یا پھر وہ جس چیز کو جیسا سمجھے ہیں ۔ اس پر نظرِ ثانی نہیں‌کرنا چاہتے ۔ سمجھنا نہیں چاہتے ۔ مکالمے سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔ اسلام کو بالعموم دینِ فطرت کا کہا جاتا ہے ۔ مگر اس میں ایسی چیزیں شامل کردی گئیں ہیں ۔ جو فطرت کے برخلاف ہیں ۔ اسلام کو امن و شانتی کا دین کہا جاتا ہے ۔ مگر جنت کے حصول کے لیئے کسی کو مار کے ہی جنت کو حاصل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ اسلام کی تعلیمات اور ان لوگوں کو قول و فعل میں جو تضاد ہے ۔ اس کو یہ لوگ بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ مگر پھر بھی یہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں اسلام دین ِ فطرت کیساتھ امن اور شانتی کا بھی دین ہے ۔ میرا یہاں یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں ان لوگوں کے رویوں اور ایمان کے بارے میں کوئی میزان نصب کروں ۔ مگر کوشش یہی ہے کہ ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے ۔ جس کی بناء پر ان میں یہ تشدد اور نفرت کا مادہ اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ یہ اپنے ہی لوگوں کو خون میں نہلانے اور ان کے ایمان کا فیصلہ کرنے کے مجاز بن گئے ہیں ۔

ایک پہلو وہ ہے جس کو ہم نظریاتی پہلو سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ یعنی آپ کسی قوم میں دیکھتے ہیں کہ کچھ افکار ہیں ۔ جن کو لوگ پیش کرتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ہیں جن کو لوگ مانتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے ۔ کچھ ایسی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ان کی فکری نفسیات میں داخل ہوگئی ہوتیں ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کہ اگر کہیں تشدد پیدا ہو رہا ہے تو تشدد ایک ایسی چیز ہے جس میں آپ نارمل حالات میں کام نہیں کرسکتے ۔ کوئی غیر معمولی صورتحال ہوئی ہے تب آپ دوسرے کی جان لے رہے ہیں ۔ کسی کے خلاف کوئی اقدام کر رہے ہیں ۔ کسی پر کسی قسم کا تشدد کر رہے ہیں ۔ کسی کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی جان دینے کے لیئے تیار ہوگئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ جسے آپ معمول کے حالات سے تعبیر نہیں کرسکتے ۔

ان میں کچھ ایسے عوامل ہوتے ہیں جو قوم میں فکری اور نظریاتی سطح پر داخل ہوجاتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتیں ہیں جن کا تعلق عملی اقدامات سے ہے ۔ جس طرح آپ کے اقدامات ہوتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح آپ جس ماحول میں ، جس معاشرے میں رہتے ہیں ۔ وہاں بھی کچھ چیزیں پیدا ہو رہیں ہوتیں ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان دونوں پہلوؤں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں یعنی مسلمانوں کے اندر دیکھیں ۔ تو مذہبی معاملات میں بالخصوص جس کو آپ مکالمے کی فضا کہتے ہیں ۔ وہ بدقسمتی سے کبھی پیدا نہیں ہوسکی ۔ یعنی ہمارا ابتدائی دور تھا۔ جن میں پہلی ، تین چار صدیاں شامل ہیں ۔ ان میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دین میں تحقیق کرتے ہیں ۔ اپنی آراء قائم کرتے ہیں ۔ ان کے ہاں آراء میں تبدیلیاں بھی آتیں ہیں ۔ امام شافعی رح بڑے جیل القدر عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب تک وہ حجاز میں تھے ان کی کچھ اور آراء تھیں ۔ جب وہ بغداد میں آئے تو ان کے سامنے کچھ نئے پہلو آئے ۔ دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی بعض آراء پر نظرِ ثانی کی ۔ وہ مصر میں گئے تو ان کی بعض دوسری آراء سامنے آگئیں ۔ اور یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص ، زندہ شخص کی حیثیت سے دین پر غور کرتا ہے ۔ سمجھتا ہے ۔ انہوں نے مختلف اساتذہ سے دین سیکھا ۔ وہ امام مالک کے شاگرد رہے ۔ وہ امام محمد کے شاگرد رہے ( جو خود امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ) ۔ اس کے نتیجے میں بھی ان کے خیالات ، افکار میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ یہ زندگی جو انسان کے اندر ہوتی ہے ۔ جن کے ذریعے اس کے روابط بیرونی دنیا سے ہوتے ہیں ۔ جہاں آپ اپنے خیالات پہنچاتے ہیں اور دوسرے کے جانتے ہیں ۔ یہ ہمارے ہاں قائم نہیں رہ سکی ۔ بتدریج یہ ہوا کہ ہم مذہبی معاملات میں کوئی رائے سننے کے لیئے تیار نہیں رہے ۔ ہمارے ہاں بلکل ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مختلف نقطہِ نظر نے اپنی جمعتیں قائم کرلی ہیں ۔ اور وہ اس کے اندر اور باہر ہونے نہ ہونے کے فیصلے سنا رہے ہیں ۔ بظاہر اس زمانے میں آپ کسی آدمی کے پاس بیھٹیں تو یہ کہے گا ۔ مسلمان سب عرب کے قریب دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن آپ ذرا اندر اتر کر کسی مذہبی گروہ کیساتھ بیٹھیں ۔ تو وہ مسلمان حقیقت میں اپنے فرقے کو ہی سمجھتے ہیں ۔ یعنی یہ بات کہنے کو تو کہہ دہ جاتی ہے کہ اس دنیا میں مسلمان سوا ارب ہیں ۔ مگر ظاہر ہے ان سوا ارب مسلمانوں میں سب گروہ شامل ہیں ۔ اب ایک رویہ تو یہ ہوتا کہ ہم یہ سمجھتے کہ یہ سب امت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی امت ہے ۔ سب کی نسبت رسالت مآب صلی علیہ وسلم سے ہے ۔ سب قرآن مجید کو دین کا اولین ماخذ مانتے ہیں ۔ سب رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔ سب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سامنے سرجھکانے کے لیئے تیار ہیں ۔ لیکن سمجھنے میں ، غور کرنے میں اختلافات ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں کوئی مکالمے کی فضا پیدا ہوتی ۔ مگر ہم نے یہ دیکھا کہ اکثر و بیشتر مذہبی بحثوں میں ہمارے ہاں بالخصوص برصغیر میں یہ ہوا کہ مذہبی بحثوں میں لوگوں نے ایک دوسرے کی تخفیر کرنا شروع کردی ۔ آپ پورا قرآن مجید پڑھ جائیں ۔ پورا احادیث کا ذخیرہ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ آپ کو کہیں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی جہاں آپ کو یہ کہا گیا ہو کہ " تم کو لوگوں کے ایمان کے فیصلے کرنے ہیں ۔ اور دیکھو کسی کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھنا" ۔ بلکہ یہ تاکید ملے گی کہ کسی کو کافر نہ کہہ بیٹھنا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کر بیٹھنا ۔ اوراس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی بڑی سخت ہدایات بھی ملیں گی کہ " اگر تم نے کسی شخص کو کافر کہا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں اجتماع کا اظہار کیا اور اگر وہ غلط ہوا تو وہ تمہاری طرف لوٹ آئے گا " ۔ یہ بات تو حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی ۔ مگر یہ کبھی نہیں فرمایا کہ " دیکھو ! تم کسی مسلمان کے بارے میں اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا کہ وہ مسلمان ہے " ۔ بلکہ مسلمانوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کی تعلیم دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی تعلیم دی اور قرآن مجید نے بھی یہی راستہ متعین کیا ۔ کہ آپ اپنے بھائی کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ رکھیں ۔ آپ اس کی بات سنیں ۔ آپ اس کی نیت پر حملہ آور نہ ہوں ۔ اسکے محرکات کو دیکھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا ہیں ۔ اس پر کسی قسم کا لیبل لگانے کی کوشش نہ کریں ۔ بلکہ مکالمے اور ایک دوسرے کی بات سننے کی فضا قائم کریں ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس کے لیئے باقاعدہ تحریکیں چلا دی گئیں ۔ مناظرے ہوئے ۔ جب آپ لوگوں میں یہ چیز پیدا کریں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے بارے میں نفرت کی ایک نفسیات میں مبتلا ہوجائیں گے ۔
جب آپ نے دین میں یہ متشابہہ رویہ اختیار کر لیا کہ ذرا کسی آدمی کا نقطہِ نظر آپ سے مخلتف ہوا ۔ آپ نے فوراً اس پر فتویٰ لگا دیا ، منکرینِ احادیث قرار دیدیا ۔ دین سے خارج کردیا ۔ گویا کہ امت میں ایک خاص طریقے سے نفرت کی نفسیات پیدا کر دی گئی ۔ اور پھر اس نفسیات نے علم و تحقیق ، جدید علم و ہنر ، مکالمہ ، روداری ، بھائی چارہ اور ترقی کی تمام راہیں امت میں مسدود کرکے امت کو ہی ایک دوسرے کے خلاف صفِ آرا کردیا ۔

( جاری ہے )
 
بہت اچھی تحریر ہے ظفری۔۔۔۔ تم بنا تحریر کےبھی ہمیں پسند ہو مگر فالحال تمہاری تحریر پڑھ کر اچھا لگا۔۔۔۔

خوش رہو اور مسکراتے رہے پوری سچائی کے ساتھ امیں
 

ظفری

لائبریرین
فرخ اور یونس بھائی ! حوصلہ افزائی کے لیئے شکریہ ۔
آپ دیکھئے گا جو کچھ میں نے لکھا ہے ۔ اس پر جب اظہارِ خیال ہوگا تو وہ کہیں سے بھی اس تحریر سے مطابقت نہیں رکھے گا ۔ بلکہ کچھ ایسے ایشوز سامنے لائے جائیں گے ۔ جن کا تعلق اس تحریر سے کسی بھی طور نہیں بنتا ہوگا ۔
 
فرخ اور یونس بھائی ! حوصلہ افزائی کے لیئے شکریہ ۔
آپ دیکھئے گا جو کچھ میں نے لکھا ہے ۔ اس پر جب اظہارِ خیال ہوگا تو وہ کہیں سے بھی اس تحریر سے مطابقت نہیں رکھے گا ۔ بلکہ کچھ ایسے ایشوز سامنے لائے جائیں گے ۔ جن کا تعلق اس تحریر سے کسی بھی طور نہیں بنتا ہوگا ۔

ہا ہا ہا ۔۔۔ پورے گبر سنگھ ہو ۔۔۔۔۔۔ اندازے تم بھی پرفیکٹ لگاتے ہو ۔۔۔۔۔ :)
 

باذوق

محفلین
یہ بات تقریبا ً سب کے ہی مشاہدے میں ہوگی کہ سیاست ، بالخصوص مذہب کے فورمز پر لوگ علمی بحث کا نام لیکر نفرت اور تشدد کی فضا کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ اس کو فروغ دینے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ کسی کو منکرینِ حدیث کا خطاب دیدیا ۔
السلام علیکم
محترمی ، آپ کے اس تھریڈ کا عنوان ہے :
دین میں تشدد اور نفرت کا فروغ

اور پہلے ہی پیرا میں آپ لکھتے ہیں : کسی کو منکرینِ حدیث کا خطاب دیدیا ۔
محترم بھائی !!
کیا آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ۔۔۔۔ جو احادیث کا علانیہ انکار کرتا ہوں ، اس کو منکرِ حدیث نہ کہا جائے تو اور کیا کہنا چاہئے ؟
اور یہ بھی ضرور بتائیے کہ ۔۔۔ کسی کو منکرِ حدیث کا خطاب دینے سے دین میں تشدد اور نفرت کا فروغ کیسے ہوتا ہے؟؟

امتِ مسلمہ جن مستند احادیثِ صحیحہ پر چودہ سو سال سے ایمان رکھتی آئی ہے ، اس کا یکسر انکار کرنا کیا دین میں محبت بانٹنے کے مترادف ہے؟ رواداری کا درس دینا ہے؟ تبلیغِ دین ہے ؟؟
اور ذرا بتاتے جائیے کہ وہ کون سی علمی بحث آپ کو درکار ہے؟؟
ان مستشرقین کا اُگلا ہوا چارہ ، جو احادیث کو دینِ اسلام کا ماخذ سمجھنے سے انکاری ہیں؟
ان عقل پرستوں کی غلاظت جو اپنی عقل کو اصحابِ خیر القرون کی عقل پر ترجیح دینے کا مطالبہ کرتی ہو ؟؟

بےشک !! افراد کو آزادی ہے کہ احادیث کو نہ مانیں اور قرآن کی مستند تفسیر و تشریح کا انکار کریں ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ حق بہرحال ان منکرین کو بھی نہیں دیا جا سکتا کہ قرآن کے نام پر ، اس کی سنّت کو پیچھے پھینک دیا جائے جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، اور اُمت چودہ سو (1400) سال سے جن احادیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پر عمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی کے نام پر ان کو بے وقعت کر دیا جائے ۔

ظاہر ہے یہ موقف نفرت و تشدد کی راہ دکھائے یا نہ دکھائے لیکن اسلام دشمنوں کو یقیناً تقویت دینے والا موقف ہے !!
 

arifkarim

معطل
حدیث کو رد کرنا سنت سے منکر ہونا ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ کو تو تمام بنی و انسان کیلئے نمونہ بناکر بھیجا گیا!
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
محترمی ، آپ کے اس تھریڈ کا عنوان ہے :
دین میں تشدد اور نفرت کا فروغ

اور پہلے ہی پیرا میں آپ لکھتے ہیں : کسی کو منکرینِ حدیث کا خطاب دیدیا ۔
محترم بھائی !!
کیا آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ۔۔۔۔ جو احادیث کا علانیہ انکار کرتا ہوں ، اس کو منکرِ حدیث نہ کہا جائے تو اور کیا کہنا چاہئے ؟
یعنی آپ کسی کو کہتے ہو کہ تم جھوٹے ہو ۔ تم غلط ہو ۔ اور اس کے استدلال اور دلائل کو بھی نہیں مانتے تو یہ نفرت کا نہیں تو کس محبت کا اظہار ہے ۔ کچھ اسے بارے میں ارشاد فرمایئے ۔

دوسری بات : کس نے اعلانیہ کسی قوی یا صحیح احادیث کا انکار کیا ہے ۔ جس کے بارے ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ سب قولِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے ۔ اور کتنی احادیث ایسی ہیں جن کے بارے میں آپ کو بھی علم ہوگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے غلط منسوب ہیں ۔ اور آپ ان سے انکاری ہونگے ۔ کوئی یہی رویہ آپ کے ساتھ روا رکھے جو آپ دوسرے کیساتھ روا رکھ رہے ہیں تو آپ کیا محسوس کریں گے ۔

باقی باتیں آپ کی وہی ہیں جن کا میں نے پہلے خدشہ ظاہر کیا ہے ۔ یعنی کہ ساری تحریر میں آپ کو وہی نقاط نظر آئے ۔ جو آپ کے نظریات کے خلاف تھے ۔ یا جس میں‌کوئی حجت کی راہ نکلتی تھی ۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ ساری تحریر کے ماخذ کو آپ نے ایک طرف رکھ دیا ۔ اس پر کوئی بات نہ کی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کسی صحیح بات کی تاکید کرنا ، اپنے لیئے حرام سمجھتے ہیں ۔ آپ کو بس وہی صحیح لگتا ہے ۔ جن سے آپ کسی پر کسی قسم کا فتوی یا منکرِ حدیث جیسے خطاب دینے میں‌ پہل کریں ۔ ویسے مجھے آپ سے اسی جواب کی توقع تھی ۔
 
آپ کو بس وہی صحیح لگتا ہے ۔ جن سے آپ کسی پر کسی قسم کا فتوی یا منکرِ حدیث جیسے خطاب دینے میں‌ پہل کریں ۔ ویسے مجھے آپ سے اسی جواب کی توقع تھی ۔

فجر سے ظہر تک ۔ کم از کم 6 سے 7 گھنٹے
ظہر سے عصر تک ۔ کم از کم 3 گھنٹے یا اس سے کچھ زائد
ظہر سے مغرب تک ۔ 1 سے ڈیڑھ گھنٹہ تو ہوگا
مغرب سے عشاء تک ۔ کم از کم 2 گھنٹے

یہ ہوئے کل ملا کر تقریبا 12 گھنٹے۔۔۔۔ اس تمام عرصہ میں مولاناوں کے پاس خاصا ٹائم ہوتا ہے ۔۔۔۔ تم صرف تشدد کے بات کرتے ہو ۔۔۔۔ کتنے سادہ ہو ظفری ۔۔۔۔ میاں اس عرصے میں تو "کفر" کے فتوے تک جاری ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ ویسے اگر مجھے تھوڑا سا اختیار ہو تو میں ان لوگوں کو کسی نہ کسی کام پر ضرور لگاوں ۔۔۔۔ مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔۔۔۔ مفت کا لباس پہنتے ہیں،

جذباتی بلیک میلنگ۔۔۔ یہ ہم علما ہیں ۔۔۔ ہمیں اللہ نے کام کے لئے نہیں بنایا ۔۔۔ صرف کھانے ، پہننے اور فتوے جاری کرنے کے لئے بنایا ہے۔۔۔۔

اللہ ان کے اور ان سے زیادہ ہمارے حال پر اپنا رحم و کرم فرمائے
ٍ
 

وجی

لائبریرین
فجر سے ظہر تک ۔ کم از کم 6 سے 7 گھنٹے
ظہر سے عصر تک ۔ کم از کم 3 گھنٹے یا اس سے کچھ زائد
ظہر سے مغرب تک ۔ 1 سے ڈیڑھ گھنٹہ تو ہوگا
مغرب سے عشاء تک ۔ کم از کم 2 گھنٹے

یہ ہوئے کل ملا کر تقریبا 12 گھنٹے۔۔۔۔ اس تمام عرصہ میں مولاناوں کے پاس خاصا ٹائم ہوتا ہے ۔۔۔۔ تم صرف تشدد کے بات کرتے ہو ۔۔۔۔ کتنے سادہ ہو ظفری ۔۔۔۔ میاں اس عرصے میں تو "کفر" کے فتوے تک جاری ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ ویسے اگر مجھے تھوڑا سا اختیار ہو تو میں ان لوگوں کو کسی نہ کسی کام پر ضرور لگاوں ۔۔۔۔ مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔۔۔۔ مفت کا لباس پہنتے ہیں،

جذباتی بلیک میلنگ۔۔۔ یہ ہم علما ہیں ۔۔۔ ہمیں اللہ نے کام کے لئے نہیں بنایا ۔۔۔ صرف کھانے ، پہننے اور فتوے جاری کرنے کے لئے بنایا ہے۔۔۔۔

اللہ ان کے اور ان سے زیادہ ہمارے حال پر اپنا رحم و کرم فرمائے
ٍ
یونس رضا صاحب ماشا اللھ کافی معلومات ہے آپ کو تو آپ تو بڑی پابندی سے نماز ادا کرتے ہونگے ویسے کیا آپ کی سامنے کسی مولانانے کسی کو کفر کا فتوٰی لگایا ہو تو ضرور بتائیے گا
 

باذوق

محفلین
یہ ہوئے کل ملا کر تقریبا 12 گھنٹے۔۔۔۔ اس تمام عرصہ میں مولاناوں کے پاس خاصا ٹائم ہوتا ہے ۔۔۔۔ تم صرف تشدد کے بات کرتے ہو ۔۔۔۔ کتنے سادہ ہو ظفری ۔۔۔۔ میاں اس عرصے میں تو "کفر" کے فتوے تک جاری ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ ویسے اگر مجھے تھوڑا سا اختیار ہو تو میں ان لوگوں کو کسی نہ کسی کام پر ضرور لگاوں ۔۔۔۔ مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔۔۔۔ مفت کا لباس پہنتے ہیں،

جذباتی بلیک میلنگ۔۔۔ یہ ہم علما ہیں ۔۔۔ ہمیں اللہ نے کام کے لئے نہیں بنایا ۔۔۔ صرف کھانے ، پہننے اور فتوے جاری کرنے کے لئے بنایا ہے۔۔۔۔
ٍ
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
 
بھائی باذوق نے منکر الحدیث کی تعریف فرمائی اور میں نے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔‌ منکر الحدیث وہ ہے جو اقوال و اعمال رسول کا انکار کرتا ہو۔ سنی اگر شیعہ فرقے کے پاس حدیثوں کا انکار کرتا ہو تو وہ ہوا منکر الحدیث اور شیعہ اگر سنی فرقہ کی حدیثوں کا انکار کرتا ہو تو ہوا منکر الحدیث۔یہ مثال ہے آپسی فرقہ کے لعنتی فرق کی۔ یہ شیعہ اور سنی کی نہیں۔ فرقہ کے معانی ہے جھگڑالو گروپ ، یہ طرہ امتیاز نہیں بلکہ ایک گالی ہے کہ پوچھا جائے کہ آپ کا فرقہ (جھگڑالو گروپ ) کونسا ہے ، یہ معمولی بات نہیں‌ہے۔ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ایسے بھیانک نتائج کی سب سے بڑی مثال ہے عراق۔ (‌یہ طنزیہ جملہ نہیں، خلوص سے ادا کئے ہیں)

(یہ بھی طنزیہ جملے نہیں ہیں‌ ، وضاحت کررہا ہوں )
عراق ، جہاں سنی اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے کو منکر الحدیث ہونے کی سزا عطا کررہے ہیں، پاکستان جہاں مسلمان تالی بان ، کافر پاکستانیوں کو نظریاتی اختلاف پر سزائے موت عطا کررہے ہیں۔ یہ تالی بان منکر الحدیث نہیں ، صرف ان کے اپنے فرقے کی احادیث درست ہیں۔ وہ احادیث جن کا لب لباب ہے "‌نظریاتی اختلاف کی سزا موت" چاہے وہ جسمانی ہو یا کسی کی کردار کشی کی شکل میں ہو۔ جیسے کچھ لوگ قرآنی آیات کو اپنے نظریات کے مخالف پانے کی صورت میں صرف اور صرف کردار کشی کی صورت میں "شخصیت کے قتل کی صورت میں عطا کرتے ہیں "

قرآن کی آیات کی تکفیر کا عمل اسرئیلیات کا پیدا کردہ ہے۔ کہ ایسی روایات، جو کے صرف سنی سنائی ہیں، کی مدد سے قرآن کے عالمگیر اور انصاف سے پر احکامات کی تکفیر کی جائے ۔ جن کتب کا صرف 600 سال پہلے سراغ بھی نہیں‌ملتا، جو صرف سنی سنائی ہیں۔ کوئی آنکھوں دیکھی گواہی نہیں۔ قرآن کے بنیادی اصول کہ شہادت یا گواہی، صرف اور صرف آنکھ سے دیکھ کر ہی دی جاسکتی ہے۔ اس اصول کی مکمل نفی کرتی ہیں۔

طریقہ کار یہ ہے کہ جب بھی اختلاف ہو تو عبادات اور ایمان کی بات کی جائے ۔ کہ تم طریقہ نماز کی حدیث لے آؤ، یا صاحب زکواۃ کی حدیث لے آؤ۔ وہ روایات کہ جن جن پر نہ کوئی انکار ہے اور نہ ہی کوئی بحث، مقصد یہ کہ لوگ الجھ کر رہ جائیں۔ پھر ایسے طریقوں سے ان کتب کو درست ثابت کیا جائے اور اپنی ان روایات کو درست ثابت کیا جائے جن سے :
معصوم بے گناہ لوگوں کو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے قتل کردیا جائے۔
کمزوروں کو غلام بنا لیا جائے،
عوام کی قومی دولت کو غصب کرلیا جائے اور
مجبوروں‌ کی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیا جائے۔
تشدد و نفرت کو ہوا دی جائے۔

محمد العربی کا پیغام نفرت کا پیغام نہیں‌ ہے۔ یہ پیغام ، مجبوروں کی عورتوں کو زبردستی حرم میں‌داخل کرنے کا پیغام نہیں‌ہے۔ یہ قوم و عوام کی دولت کو چند ہاتھوں میں گردش دینے یا غصب کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ کمزور کا غلام بنانے کا پیغام نہیں‌ہے۔ یہ پیغام "معصوم لوگوں کو نظریاتی اختلاف کئ سزا موت" کی شکل میں‌دینے کا پیغام نہیں‌ ہے۔ اور کسی ہٹ دھرمی ، کسی نفرت کسی تشدد کا نام نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ پیغام ----- نماز ، روزے، زکواۃ‌، کی احادیث کی مہر لگا کر ---- نفرت، تشدد ، غلامی، زبردستی ، اور عیاری کی روایات کو جائز قرار دینے کا نام نہیں‌ہے۔

آئیے دعا کریں کے وہ دین جو امن و آشتی، محبت و انکسار کا مجموعہ ہے۔ اس میں سے نفرت، تشدد، اور "نظریاتی اختلاف کی سزا موت "‌ کو نکال پھینکنے میں اللہ ہماری مدد فرمائے ۔ اپنی محنت سے اپنا مقام بنائیں اور طے کرلیں کہ رسول اللہ کا پیغام نفرت ، تشدد، حقوق کا غصب کرنا ، مجبوروں‌کو حرم میں‌ پھر دینا، کمزور کو غلام بنانا اور ":‌نظریاتی اختلاف کی سزا موت "‌ نہیں ہے۔
 
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا

جو تعریف اپ نے بیان کی ہے ۔۔۔ اس پر اج کے علما پورے نہیں اترتے۔۔۔۔

وہ صرف مولانا ہیں ۔۔۔ گھر سے چلے تو گلو تھے۔۔۔ مدرسہ پہنچے تو غلام حسیں ہوئے۔۔۔۔ 2 سال بعد "حضرت" مزید "مولانا "مزید علامہ۔۔۔۔ اور مدظلہ ّعلیہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

اور کام ۔۔۔ معاشرے میں نفرت کا پھیلاو۔۔۔ اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرکے پیش کرنا۔۔۔۔

امریکہ کی معاونت میں بڑا کردار ہے انکا
 
اس دھاگہ میں بغور دیکھئے ہر شخص کے پیغام میں ایک مثبت عنصر چھپا ہوا ہے۔
باذوق، آپ نے احادیث کی اہمیت پر توجہ دلائی، شکریہ، اس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا یہ ایک پیکج ڈیل ہے کہ ایمان، ا۔نفاق، نماز، روزہ ، زکوٰۃ، حج، صبر، اور وعدے کی تکمیل، کی روایات کے پردے میں ۔ تشدد، نفرت، مجبور پر قبضہ، کمزور کی غلامی، عوام کے مال پر قبضہ، "نظریاتی اختلاف کی سزا موت" کی روایات پر بھی ایمان رکھنا ثابت کیا جائے؟
عارف کریم آپ بہترین خیالات کے مالک ہیں، کاوش جاری رکھئے۔ اللہ آپ کو بہترین قوت نطق و قلم عطا فرمائے۔
ظفری، بہت ہی خوب۔ بہترین تحریر ہے۔ تمہاری تحریروں سے خود اپنا محاسبہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ڈاکٹر یونس رضا، آپ کے خیالات بھی بہترین ہیں، آپ نے چن چن کر علم کے نام پر جو لوگ مال غصب کرتے ہیں ان کی نشاندہی کی، شکریہ۔ اللہ آپ کو مزید وقت عطا فرمائے۔
وجی، آپ نے لوگوں کو نماز کا یاد دلایا، شکریہ۔ اس سے یہ مثبت خیال پیدا ہوا کہ ، ایمان، ان۔فاق، نماز، زکوٰۃ میں‌ ہمارے ملا، ان۔فاق کو کیوں‌چھپا جاتے ہیں ؟؟ سچ سچ بتائیے کہ آپ بھائیوں اور بہنوں نے، کسی ملا سے ان۔فاق کا نام بھی سنا؟ اس آیت میں ایمان کے تذکرے کے بعد اور نماز سے پہلے، ان۔فاق کا حکم ہے۔ اس کو ایک سے زیادہ بار پڑھئیے اور دیکھئے کہ اللہ تعالی آپ کو ایمان لانے یعنی اس پیغام کو ماننے کے بعد، کسی بھی عبادت سے پہلے، ان۔فاق یعنی ضرورت مندوں کی مدد کا حکم دیتا ہے۔ عبادات کی بہت ہی اہمیت ہے۔ اور نماز کی تو بہت ہی اہمیت ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ جس امر کا تذکرہ اللہ تعالی نے نماز سے پہلے کیا، ہمارے دین کے ٹھیکیداروں نے ان۔فاق کو ایسا غائب کیا کہ آج اکثر لوگ اس دین کے رکن کا نام بھی نہیں جانتے ہیں۔ بہت ہی صاف اور سادہ آیت ہے دیکھ لیجئے ، آپ کو نظر آئے گا کہ قادر مطلق نے نماز جیسے اہم ستون کے لیے صرف دو الفاظ استعمال کئے ہیں "‌اقیمو الصلوٰۃ" اور ان۔فاق کے لئے ذرا دیکھئے کتنے الفاظ ہیں‌اس آیت میں؟

اللہ تعالٰی ہم کو اس آیت میں بتاتے ہیں کہ آپ نیکوکار ، متقی و پرہیزگار کیسے بنیں ، کیا صرف نماز ، جو بہت اہم ہے، کافی ہے ؟ یا کچھ اور بھی کرنا ہے؟

[AYAH]2:177[/AYAH] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ
1۔ ایک شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے،
3۔ اور نماز قائم کرے
4۔ اور زکوٰۃ دے
5۔ اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں،
6۔ اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں،
یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار (متقی) ہیں


اس سے اندازہ ہوتا ہے ہم کو قران سے بہرہ ور ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
والسلام
 

باذوق

محفلین
بھائی باذوق نے منکر الحدیث کی تعریف فرمائی اور میں نے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔‌ منکر الحدیث وہ ہے جو اقوال و اعمال رسول کا انکار کرتا ہو۔ سنی اگر شیعہ فرقے کے پاس حدیثوں کا انکار کرتا ہو تو وہ ہوا منکر الحدیث اور شیعہ اگر سنی فرقہ کی حدیثوں کا انکار کرتا ہو تو ہوا منکر الحدیث۔یہ مثال ہے آپسی فرقہ کے لعنتی فرق کی۔ یہ شیعہ اور سنی کی نہیں۔ فرقہ کے معانی ہے جھگڑالو گروپ ، یہ طرہ امتیاز نہیں بلکہ ایک گالی ہے کہ پوچھا جائے کہ آپ کا فرقہ (جھگڑالو گروپ ) کونسا ہے ، یہ معمولی بات نہیں‌ہے۔ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ایسے بھیانک نتائج کی سب سے بڑی مثال ہے عراق۔
اپنے ایک تھریڈ میں برادرم نبیل نے یوں لکھا ہے :
یہاں بہت سی صاحب علم ہستیاں موجود ہیں جن میں کئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مقالہ جات لکھنے والے بھی یہاں موجود ہیں۔
اس کے باوجود کمالِ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود کو عقلی ہمالیہ کی چوٹیوں پر اور دیگران کو مٹی میں رینگنے سمجھنے والے بھی یہاں پائے جاتے ہیں!
کیا قارئین اتنے ہی بھولے بھالے ہیں کہ احادیث کی حجیت سے انکار کو شیعہ سنی اختلافات کی آڑ میں چھپانے کے کھیل کو سمجھ نہ پائیں؟؟
دنیا کا کوئی بھی مسلمان فرقہ (سوائے منکرینِ حدیث) ایسا نہیں ہے جو احادیث کو دین کا دوسرا بڑا ماخذ نہ سمجھتا ہو۔ اور نہ ہی کوئی فرقہ (سوائے منکرینِ حدیث) ایسا ہے جو احادیث کو ہر انسان کی انفرادی عقلی سطح پر پرکھنے کا مطالبہ کرتا ہو!
کچھ احادیث سے فرقہ وارانہ اختلاف ایک علیحدہ امر ہے اور "حدیث" کی حجیت ہی سے انکار ایک الگ واقعہ ہے۔
صحیح بخاری کی احادیث کا انکار تو اہل تشیع بھی نہیں کرتے ، ہاں کچھ فیصد احادیث سے انہیں جو اختلاف ہے وہ الگ معاملہ ہے۔ ثبوت میں ، میں وہ تحریر دے سکتا ہوں جو اسی اردو محفل کی ایک معتبر اور مایہ ناز اہل تشیع ہستی نے ایک دوسرے فورم پر کچھ سال قبل کی ایک بحث میں کہا تھا۔ اسی طرح "اصول کافی" کی جو روایات اگر محدثین کے اجماع کے مطابق صحیح قرار پائیں تو ان احادیث کو سنی بھی حجت مانتے ہیں۔
لہذا صاحبانِ علم کو " احادیث کی حجیت سے کلی انکار " کے اپنے خود ساختہ اور بلا دلیل نظریے کو فرقہ وارانہ اختلافات کے متنازعہ پردے میں لپیٹ کر پیش کرنے سے باز آ جانا چاہئے !!
۔۔۔۔۔۔ پاکستان جہاں مسلمان تالی بان ، کافر پاکستانیوں کو نظریاتی اختلاف پر۔۔۔۔۔۔
عالمی کلیہ ہے کہ جس فرد یا جن جماعتوں کے نام مشہور ہوں ہم ان سے محض نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ان کے ناموں کو بگاڑ کر پیش نہیں کر سکتے ! یہ غیر مہذب طریقہ کار ہی نہیں بلکہ ممکن ہے کچھ ممالک میں بطورِ جرم بھی شمار ہوتا ہو۔
لہذا محترمی فاروق سرور خان سے مخلصانہ گذارش ہے کہ " طالبان " سے آپ کی لاکھ مخالفت سہی مگر نام درست ہی لکھا کیجئے گا، اس سے دوسروں کو آپ کے مہذب ہونے کا بھی یقین ہوتا رہے گا۔
ایسا مشورہ دینا گو میرا کام نہیں بلکہ فورم کے ناظمینِ خاص کی ذمہ داری ہے مگر کیا کیجئے کہ جب آنکھوں پر تعصب یا دوستی کے پردے پڑ جائیں تو ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے !!
 

سیفی

محفلین
سنی اگر شیعہ فرقے کے پاس حدیثوں کا انکار کرتا ہو تو وہ ہوا منکر الحدیث اور شیعہ اگر سنی فرقہ کی حدیثوں کا انکار کرتا ہو تو ہوا منکر الحدیث۔یہ مثال ہے آپسی فرقہ کے لعنتی فرق کی۔

اچھا تو یہ فرقے ایک دوسرے کی حدیثوں کا انکار کرکے ٹھہرے منکرِ حدیث

اور وہ جو تمام ذخیرہِ حدیث کو بیک جنبشِ قلم ٹھکرا دیں اور اس کو منگھڑت قرار دیں وہ ہوئے اصلی "اہلِ حدیث اور مومنین الصادقین"۔
 
Top