یہ بات تقریبا ً سب کے ہی مشاہدے میں ہوگی کہ سیاست ، بالخصوص مذہب کے فورمز پر لوگ علمی بحث کا نام لیکر نفرت اور تشدد کی فضا کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ اس کو فروغ دینے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ کسی کو منکرینِ حدیث کا خطاب دیدیا ۔ اور کبھی کسی کو اپنے "اعلی علم " کی بنیاد پر اسے دین سے خارج بھی کردیا ۔ علمی حوالوں سے بحث کا آغاز کیا جائے تو وہ اپنے اپنے دائروں میں مقید ہوجاتے ہیں ۔ اور کچھ عرصہ بعد پھر کوئی شرپسندی کا مقالہ یا حوالہ دیکر چلے جاتے ہیں ۔ اللہ جانے ان کا حقیقتاً مقصد کیا ہے ۔ وہ کیا واقعی کسی خاص مقصد کے لیئے یہ کام کر رہے ہیں ۔ یا پھر وہ جس چیز کو جیسا سمجھے ہیں ۔ اس پر نظرِ ثانی نہیںکرنا چاہتے ۔ سمجھنا نہیں چاہتے ۔ مکالمے سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔ اسلام کو بالعموم دینِ فطرت کا کہا جاتا ہے ۔ مگر اس میں ایسی چیزیں شامل کردی گئیں ہیں ۔ جو فطرت کے برخلاف ہیں ۔ اسلام کو امن و شانتی کا دین کہا جاتا ہے ۔ مگر جنت کے حصول کے لیئے کسی کو مار کے ہی جنت کو حاصل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ اسلام کی تعلیمات اور ان لوگوں کو قول و فعل میں جو تضاد ہے ۔ اس کو یہ لوگ بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ مگر پھر بھی یہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں اسلام دین ِ فطرت کیساتھ امن اور شانتی کا بھی دین ہے ۔ میرا یہاں یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں ان لوگوں کے رویوں اور ایمان کے بارے میں کوئی میزان نصب کروں ۔ مگر کوشش یہی ہے کہ ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے ۔ جس کی بناء پر ان میں یہ تشدد اور نفرت کا مادہ اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ یہ اپنے ہی لوگوں کو خون میں نہلانے اور ان کے ایمان کا فیصلہ کرنے کے مجاز بن گئے ہیں ۔
ایک پہلو وہ ہے جس کو ہم نظریاتی پہلو سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ یعنی آپ کسی قوم میں دیکھتے ہیں کہ کچھ افکار ہیں ۔ جن کو لوگ پیش کرتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ہیں جن کو لوگ مانتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے ۔ کچھ ایسی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ان کی فکری نفسیات میں داخل ہوگئی ہوتیں ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کہ اگر کہیں تشدد پیدا ہو رہا ہے تو تشدد ایک ایسی چیز ہے جس میں آپ نارمل حالات میں کام نہیں کرسکتے ۔ کوئی غیر معمولی صورتحال ہوئی ہے تب آپ دوسرے کی جان لے رہے ہیں ۔ کسی کے خلاف کوئی اقدام کر رہے ہیں ۔ کسی پر کسی قسم کا تشدد کر رہے ہیں ۔ کسی کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی جان دینے کے لیئے تیار ہوگئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ جسے آپ معمول کے حالات سے تعبیر نہیں کرسکتے ۔
ان میں کچھ ایسے عوامل ہوتے ہیں جو قوم میں فکری اور نظریاتی سطح پر داخل ہوجاتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتیں ہیں جن کا تعلق عملی اقدامات سے ہے ۔ جس طرح آپ کے اقدامات ہوتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح آپ جس ماحول میں ، جس معاشرے میں رہتے ہیں ۔ وہاں بھی کچھ چیزیں پیدا ہو رہیں ہوتیں ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان دونوں پہلوؤں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں یعنی مسلمانوں کے اندر دیکھیں ۔ تو مذہبی معاملات میں بالخصوص جس کو آپ مکالمے کی فضا کہتے ہیں ۔ وہ بدقسمتی سے کبھی پیدا نہیں ہوسکی ۔ یعنی ہمارا ابتدائی دور تھا۔ جن میں پہلی ، تین چار صدیاں شامل ہیں ۔ ان میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دین میں تحقیق کرتے ہیں ۔ اپنی آراء قائم کرتے ہیں ۔ ان کے ہاں آراء میں تبدیلیاں بھی آتیں ہیں ۔ امام شافعی رح بڑے جیل القدر عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب تک وہ حجاز میں تھے ان کی کچھ اور آراء تھیں ۔ جب وہ بغداد میں آئے تو ان کے سامنے کچھ نئے پہلو آئے ۔ دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی بعض آراء پر نظرِ ثانی کی ۔ وہ مصر میں گئے تو ان کی بعض دوسری آراء سامنے آگئیں ۔ اور یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص ، زندہ شخص کی حیثیت سے دین پر غور کرتا ہے ۔ سمجھتا ہے ۔ انہوں نے مختلف اساتذہ سے دین سیکھا ۔ وہ امام مالک کے شاگرد رہے ۔ وہ امام محمد کے شاگرد رہے ( جو خود امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ) ۔ اس کے نتیجے میں بھی ان کے خیالات ، افکار میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ یہ زندگی جو انسان کے اندر ہوتی ہے ۔ جن کے ذریعے اس کے روابط بیرونی دنیا سے ہوتے ہیں ۔ جہاں آپ اپنے خیالات پہنچاتے ہیں اور دوسرے کے جانتے ہیں ۔ یہ ہمارے ہاں قائم نہیں رہ سکی ۔ بتدریج یہ ہوا کہ ہم مذہبی معاملات میں کوئی رائے سننے کے لیئے تیار نہیں رہے ۔ ہمارے ہاں بلکل ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مختلف نقطہِ نظر نے اپنی جمعتیں قائم کرلی ہیں ۔ اور وہ اس کے اندر اور باہر ہونے نہ ہونے کے فیصلے سنا رہے ہیں ۔ بظاہر اس زمانے میں آپ کسی آدمی کے پاس بیھٹیں تو یہ کہے گا ۔ مسلمان سب عرب کے قریب دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن آپ ذرا اندر اتر کر کسی مذہبی گروہ کیساتھ بیٹھیں ۔ تو وہ مسلمان حقیقت میں اپنے فرقے کو ہی سمجھتے ہیں ۔ یعنی یہ بات کہنے کو تو کہہ دہ جاتی ہے کہ اس دنیا میں مسلمان سوا ارب ہیں ۔ مگر ظاہر ہے ان سوا ارب مسلمانوں میں سب گروہ شامل ہیں ۔ اب ایک رویہ تو یہ ہوتا کہ ہم یہ سمجھتے کہ یہ سب امت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی امت ہے ۔ سب کی نسبت رسالت مآب صلی علیہ وسلم سے ہے ۔ سب قرآن مجید کو دین کا اولین ماخذ مانتے ہیں ۔ سب رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔ سب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سامنے سرجھکانے کے لیئے تیار ہیں ۔ لیکن سمجھنے میں ، غور کرنے میں اختلافات ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں کوئی مکالمے کی فضا پیدا ہوتی ۔ مگر ہم نے یہ دیکھا کہ اکثر و بیشتر مذہبی بحثوں میں ہمارے ہاں بالخصوص برصغیر میں یہ ہوا کہ مذہبی بحثوں میں لوگوں نے ایک دوسرے کی تخفیر کرنا شروع کردی ۔ آپ پورا قرآن مجید پڑھ جائیں ۔ پورا احادیث کا ذخیرہ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ آپ کو کہیں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی جہاں آپ کو یہ کہا گیا ہو کہ " تم کو لوگوں کے ایمان کے فیصلے کرنے ہیں ۔ اور دیکھو کسی کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھنا" ۔ بلکہ یہ تاکید ملے گی کہ کسی کو کافر نہ کہہ بیٹھنا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کر بیٹھنا ۔ اوراس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی بڑی سخت ہدایات بھی ملیں گی کہ " اگر تم نے کسی شخص کو کافر کہا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں اجتماع کا اظہار کیا اور اگر وہ غلط ہوا تو وہ تمہاری طرف لوٹ آئے گا " ۔ یہ بات تو حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی ۔ مگر یہ کبھی نہیں فرمایا کہ " دیکھو ! تم کسی مسلمان کے بارے میں اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا کہ وہ مسلمان ہے " ۔ بلکہ مسلمانوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کی تعلیم دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی تعلیم دی اور قرآن مجید نے بھی یہی راستہ متعین کیا ۔ کہ آپ اپنے بھائی کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ رکھیں ۔ آپ اس کی بات سنیں ۔ آپ اس کی نیت پر حملہ آور نہ ہوں ۔ اسکے محرکات کو دیکھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا ہیں ۔ اس پر کسی قسم کا لیبل لگانے کی کوشش نہ کریں ۔ بلکہ مکالمے اور ایک دوسرے کی بات سننے کی فضا قائم کریں ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس کے لیئے باقاعدہ تحریکیں چلا دی گئیں ۔ مناظرے ہوئے ۔ جب آپ لوگوں میں یہ چیز پیدا کریں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے بارے میں نفرت کی ایک نفسیات میں مبتلا ہوجائیں گے ۔
جب آپ نے دین میں یہ متشابہہ رویہ اختیار کر لیا کہ ذرا کسی آدمی کا نقطہِ نظر آپ سے مخلتف ہوا ۔ آپ نے فوراً اس پر فتویٰ لگا دیا ، منکرینِ احادیث قرار دیدیا ۔ دین سے خارج کردیا ۔ گویا کہ امت میں ایک خاص طریقے سے نفرت کی نفسیات پیدا کر دی گئی ۔ اور پھر اس نفسیات نے علم و تحقیق ، جدید علم و ہنر ، مکالمہ ، روداری ، بھائی چارہ اور ترقی کی تمام راہیں امت میں مسدود کرکے امت کو ہی ایک دوسرے کے خلاف صفِ آرا کردیا ۔
( جاری ہے )
ایک پہلو وہ ہے جس کو ہم نظریاتی پہلو سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ یعنی آپ کسی قوم میں دیکھتے ہیں کہ کچھ افکار ہیں ۔ جن کو لوگ پیش کرتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ہیں جن کو لوگ مانتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے ۔ کچھ ایسی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ان کی فکری نفسیات میں داخل ہوگئی ہوتیں ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کہ اگر کہیں تشدد پیدا ہو رہا ہے تو تشدد ایک ایسی چیز ہے جس میں آپ نارمل حالات میں کام نہیں کرسکتے ۔ کوئی غیر معمولی صورتحال ہوئی ہے تب آپ دوسرے کی جان لے رہے ہیں ۔ کسی کے خلاف کوئی اقدام کر رہے ہیں ۔ کسی پر کسی قسم کا تشدد کر رہے ہیں ۔ کسی کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی جان دینے کے لیئے تیار ہوگئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ جسے آپ معمول کے حالات سے تعبیر نہیں کرسکتے ۔
ان میں کچھ ایسے عوامل ہوتے ہیں جو قوم میں فکری اور نظریاتی سطح پر داخل ہوجاتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتیں ہیں جن کا تعلق عملی اقدامات سے ہے ۔ جس طرح آپ کے اقدامات ہوتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح آپ جس ماحول میں ، جس معاشرے میں رہتے ہیں ۔ وہاں بھی کچھ چیزیں پیدا ہو رہیں ہوتیں ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان دونوں پہلوؤں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں یعنی مسلمانوں کے اندر دیکھیں ۔ تو مذہبی معاملات میں بالخصوص جس کو آپ مکالمے کی فضا کہتے ہیں ۔ وہ بدقسمتی سے کبھی پیدا نہیں ہوسکی ۔ یعنی ہمارا ابتدائی دور تھا۔ جن میں پہلی ، تین چار صدیاں شامل ہیں ۔ ان میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دین میں تحقیق کرتے ہیں ۔ اپنی آراء قائم کرتے ہیں ۔ ان کے ہاں آراء میں تبدیلیاں بھی آتیں ہیں ۔ امام شافعی رح بڑے جیل القدر عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب تک وہ حجاز میں تھے ان کی کچھ اور آراء تھیں ۔ جب وہ بغداد میں آئے تو ان کے سامنے کچھ نئے پہلو آئے ۔ دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی بعض آراء پر نظرِ ثانی کی ۔ وہ مصر میں گئے تو ان کی بعض دوسری آراء سامنے آگئیں ۔ اور یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص ، زندہ شخص کی حیثیت سے دین پر غور کرتا ہے ۔ سمجھتا ہے ۔ انہوں نے مختلف اساتذہ سے دین سیکھا ۔ وہ امام مالک کے شاگرد رہے ۔ وہ امام محمد کے شاگرد رہے ( جو خود امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ) ۔ اس کے نتیجے میں بھی ان کے خیالات ، افکار میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ یہ زندگی جو انسان کے اندر ہوتی ہے ۔ جن کے ذریعے اس کے روابط بیرونی دنیا سے ہوتے ہیں ۔ جہاں آپ اپنے خیالات پہنچاتے ہیں اور دوسرے کے جانتے ہیں ۔ یہ ہمارے ہاں قائم نہیں رہ سکی ۔ بتدریج یہ ہوا کہ ہم مذہبی معاملات میں کوئی رائے سننے کے لیئے تیار نہیں رہے ۔ ہمارے ہاں بلکل ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مختلف نقطہِ نظر نے اپنی جمعتیں قائم کرلی ہیں ۔ اور وہ اس کے اندر اور باہر ہونے نہ ہونے کے فیصلے سنا رہے ہیں ۔ بظاہر اس زمانے میں آپ کسی آدمی کے پاس بیھٹیں تو یہ کہے گا ۔ مسلمان سب عرب کے قریب دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن آپ ذرا اندر اتر کر کسی مذہبی گروہ کیساتھ بیٹھیں ۔ تو وہ مسلمان حقیقت میں اپنے فرقے کو ہی سمجھتے ہیں ۔ یعنی یہ بات کہنے کو تو کہہ دہ جاتی ہے کہ اس دنیا میں مسلمان سوا ارب ہیں ۔ مگر ظاہر ہے ان سوا ارب مسلمانوں میں سب گروہ شامل ہیں ۔ اب ایک رویہ تو یہ ہوتا کہ ہم یہ سمجھتے کہ یہ سب امت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی امت ہے ۔ سب کی نسبت رسالت مآب صلی علیہ وسلم سے ہے ۔ سب قرآن مجید کو دین کا اولین ماخذ مانتے ہیں ۔ سب رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔ سب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سامنے سرجھکانے کے لیئے تیار ہیں ۔ لیکن سمجھنے میں ، غور کرنے میں اختلافات ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں کوئی مکالمے کی فضا پیدا ہوتی ۔ مگر ہم نے یہ دیکھا کہ اکثر و بیشتر مذہبی بحثوں میں ہمارے ہاں بالخصوص برصغیر میں یہ ہوا کہ مذہبی بحثوں میں لوگوں نے ایک دوسرے کی تخفیر کرنا شروع کردی ۔ آپ پورا قرآن مجید پڑھ جائیں ۔ پورا احادیث کا ذخیرہ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ آپ کو کہیں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی جہاں آپ کو یہ کہا گیا ہو کہ " تم کو لوگوں کے ایمان کے فیصلے کرنے ہیں ۔ اور دیکھو کسی کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھنا" ۔ بلکہ یہ تاکید ملے گی کہ کسی کو کافر نہ کہہ بیٹھنا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کر بیٹھنا ۔ اوراس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی بڑی سخت ہدایات بھی ملیں گی کہ " اگر تم نے کسی شخص کو کافر کہا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں اجتماع کا اظہار کیا اور اگر وہ غلط ہوا تو وہ تمہاری طرف لوٹ آئے گا " ۔ یہ بات تو حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی ۔ مگر یہ کبھی نہیں فرمایا کہ " دیکھو ! تم کسی مسلمان کے بارے میں اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا کہ وہ مسلمان ہے " ۔ بلکہ مسلمانوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کی تعلیم دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی تعلیم دی اور قرآن مجید نے بھی یہی راستہ متعین کیا ۔ کہ آپ اپنے بھائی کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ رکھیں ۔ آپ اس کی بات سنیں ۔ آپ اس کی نیت پر حملہ آور نہ ہوں ۔ اسکے محرکات کو دیکھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا ہیں ۔ اس پر کسی قسم کا لیبل لگانے کی کوشش نہ کریں ۔ بلکہ مکالمے اور ایک دوسرے کی بات سننے کی فضا قائم کریں ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس کے لیئے باقاعدہ تحریکیں چلا دی گئیں ۔ مناظرے ہوئے ۔ جب آپ لوگوں میں یہ چیز پیدا کریں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے بارے میں نفرت کی ایک نفسیات میں مبتلا ہوجائیں گے ۔
جب آپ نے دین میں یہ متشابہہ رویہ اختیار کر لیا کہ ذرا کسی آدمی کا نقطہِ نظر آپ سے مخلتف ہوا ۔ آپ نے فوراً اس پر فتویٰ لگا دیا ، منکرینِ احادیث قرار دیدیا ۔ دین سے خارج کردیا ۔ گویا کہ امت میں ایک خاص طریقے سے نفرت کی نفسیات پیدا کر دی گئی ۔ اور پھر اس نفسیات نے علم و تحقیق ، جدید علم و ہنر ، مکالمہ ، روداری ، بھائی چارہ اور ترقی کی تمام راہیں امت میں مسدود کرکے امت کو ہی ایک دوسرے کے خلاف صفِ آرا کردیا ۔
( جاری ہے )