دیوان سالک

اے صبا تیرا گزر ہو جو مدینہ میں کبھی
جانا اس گنبدِ خضرا میں کہ ہیں جس میں نبیﷺ
ہاتھ سے اپنے پکڑ کر وہ سنہری جالی
عرض کرنا میری جانب سے بصد شوقِ دلی
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپکی چوکھٹ سے نبیﷺ


عمر ساری تو کٹی لہو ولعب میں آقاﷺ
زندگی کا کوئی لمحہ نہیں اچھا گزرا
سارے اعمال سیہ جرم سے دفتر ہے بھرا
آرزو ہے کے گناہوں کا ہو یوں کفارا
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپکی چوکھٹ سے نبیﷺ


عرض کرنا کہ کہاں مجھ سا کمینہ گندہ
اور وہ شہر کہاں جس میں ہوں محبوب خداﷺ
ہاں سنا ہے کہ نبھاتے ہیں بروں کو مولا
اس لئے آپ کے دروازے پہ دیتا ہے سدا
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپکی چوکھٹ سے نبیﷺ


آرزو دل کی ہے جب بند ہو حرکت دل کی
آنکھ پتھرائے مجھے آئے اخیری ہچکی
روح جانے لگے جب چھوڑ کے جسمِ خاکی
جسم طیبہ میں ہو اور جان چلے سوئے نبیﷺ
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپکی چوکھٹ سے نبیﷺ


نبیﷺ اس کے سوا اور میں کیا عرض کروں
آپ کا ہو کے جیوں آپ کا ہو کر ہی مروں
آپ کے در سے پلا آپ کے در پر ہی مٹوں
جان تم سے ملی تم پر ہی نچھاور کردوں
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپکی چوکھٹ سے نبیﷺ


گو میسّر نہیں سالکؔ کو حضور بدنی!
روح حاضر ہے مگر مثل اویس قرنی
جسم ہندی ہے مرا جان ہے میری مدنی
یا خدا دُور کسی طرح ہو بُعد مدنی
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپکی چوکھٹ سے نبیﷺ
شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی
 
یسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ غم
تو ہی کرم کردے تجھے شاہِ مدینہ کی قسم
ہو جب کبھی تیرا گزر بادِ صبا سوئے حرم
پہنچا مری تسلیم اس جا ہیں جہاں خیر الامم
اِنْ نِّلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰیٓ اَرْضِ الْحَرَم
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
میں دُوں تجھے ان کا پتہ گر نہ تو پہچانے صبا
حق نے انہی کے واسطے پیدا کیے اَرض و سما
رخسار سورج کی طرح ہے چہرہ ان کا چاند سا
ہے ذات عالم کی َپنہ اور ہاتھ دریا جود کا
مَنْ وَّجْھُہٗ شَمْسُ الضُّحٰی مَنْ خَدُّہٗ بَدْرُالدُّجٰی
مَنْ ذَا تُہٗ نُوْرُ الْھُدٰی مَنْ کَفُّہٗ بَحْرُ الْھِمَمْ
حق نے انہیں رحمت کہا اور شافعِ عصیاں کیا
رتبہ میں وہ سب سے سوا ہیں ختم ان سے انبیا
وہ مَہبِطِ قران ہیں ناسخ ہے جو اَدیان کا
پہنچا جو یہ حکم خدا سارے صحیفے تھے فنا
قُرْاٰ نُہٗ بُرْہَانُنَا نَسْخًا لِّاَدْیَانٍ مَّضَتْ
اِذْ جَائَ نَا اَحْکَامُہٗ لِکُلِّ الصُّحُفِ صَارَ الْعَدَم
یوں تو خلیلِ کبریا اور اَنبیائِ باصفا
مخلوق کے ہیں پیشوا سب کو بڑا رُتبہ ملا
لیکن ہیں ان سب سے سوا دُرِّیتیمِ آمنہ
وہ ہی جنہیں کہتے ہیں سب مشکل کشا حاجت رَوا
یَا مُصْطَفٰی یَا مُجْتَبٰی اِرْحَمْ عَلٰی عِصْیَانِنَا
مَجْبُوْرَۃٌ اَعْمَالُنَا طَمَعْنًا وَّ ذَنْبًا وَّ الظُّلَمِ
اے ماہِ خوبانِ جہاں اے اِفتخارِ مرسلیں
گو جلوہ گر آخر ہوئے لیکن ہو فخر الاولیں
فرقت کے یہ رَنج و عنا اب ہوگئے حد سے سوا
اس ہجر کی تلوار نے قلب و جگر زخمی کیا
وہ لوگ خوش تقدیر ہیں اور بخت ہے ان کا رَسا
رہتے ہیں جو اس شہر میں جس میں کہ تم ہو خسروا
سب اَولین و آخریں تارے ہیں تم مہر مبیں
یہ جگمگائے رات بھر چمکے جو تم کوئی نہیں
اَکْبَادُنَا مَجْرُوْحَۃٌ مِّنْ سَیْفِ ہِجْرِ الْمُصْطَفٰی
طُوْبٰی لِاَھْلِ بَلْدَۃٍ فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
اے دو جہاں پر رحمِ حق تم ہو شفیع المجرمیں
ہے آپ ہی کا آسرا جب بولیں نَفْسِیْ مرسلیں
اس بیکسی کے وقت میں جب کوئی بھی اپنا نہیں
ہم بیکسوں پر ہو نظر اے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
اے باغِ بہارِ ایماں مرحبا صد مرحبا
اےچراغِ بزمِ عرفاں مرحبا صد مرحبا

تم سے رونق دین کی تم سے بہار ایمان کی
حامیِ دینِ نبیﷺ ہو اہل دیں کے مدّعا

بے گمان جان رسول اللہﷺ سے اللہﷻ کو
رہبری سے تیری پایا ہم نے بابِ مصطفیٰ ﷺ

آپ کی تقریر ہے بے شبہ تفسیر حدیث
آپ کی تحریر ہے بیمارئِ دل کی دوا

آپ کے سایہ میں گر آوے مگس ہووے ہُما
آپ کی چشمِ کرم سے مِس بھی بن جائے طِلا

کیوں نہ ہو تم پہ تصدّق اہلِ دل اہلِ نظر
جانشینِ مصطفیٰﷺ ہو نور چشمِ مصطفیٰ ﷺ

تم نعیمِ دین ہو سالکؔ فقیرِ دین ہے
حق تعالیٰ نے تمہیں منعم کیا اس کو گدا

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
بخدا خدا سے ہے وہ جدا جو حبیبِ حق پہ فدا نہیں
وہ بشر ہے دین سے بے خبر جو رہِ نبی ﷺ میں گما نہیں


اُسے ڈھوندے کیوں کوئی دربدر وہ ہیں جان سے بھی قریب تر


وہ نہاں بھی ہے وہ عیاں بھی ہے وہ چنیں بھی ہے وہ چناں بھی ہے
وہی جب بھی تھا وہی اب بھی ہے وہ چھپا ہے پھر بھی چھپا نہیں


تیری ذات میں جو فنا ہوا وہ فنا سے نو کا عدد بنا
جو اسے مٹائے وہ خود مٹے وہ ہے باقی اس کو فنا نہیں


دو جہاں میں سب پہ ہیں وہ عیاں دو جہاں پھر انسے ہوں کیوں نہاں
وہ کسی سے جب کہ نہیں چھپے تو کوئی بھی انسے چھپا نہیں


ہر اک ان سے ہے وہ ہر اک میں ہیں وہ ہیں ایک علم حساب کے
بنے دو جہاں کی وہی بِنا وہ نہیں جو ان سے بنا نہیں


کوئی مثل ان کا ہو کس طرح وہ ہیں سب کے مبدا و منتہےٰ
نہیں دوسرے کی جگہ یہاں کہ یہ وصف دو کو ملا نہیں


تیرے در کو چھوڑ کدھر پھروں تیرا ہو کہ کس کا منہ تکوں
تو غنی ہے سب تیرے در کے سگ وہ نہیں جو تیرا گدا نہیں


کرو لطف مجھ پہ خسروا کہ چھڑا دو غیر کا آسرا
نہ تکوں کسی کو تیرے سوا کہ کسی سے میرا بھلا نہیں


یہ تمہارا سالکؔ بے نوا مرض گناہ میں ہے مبتلا
تم ہی اس بُرے کو کرو بھلا کہ کوئی تمہارے سوا نہیں

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
کہاں ہو یا رسول اللہﷺ کہاں ہو؟
مری آنکھوں سےکیوں ایسے نہاں ہو


گدا بن کر میں ڈھونڈوں تم کو در در
مرے آقا مجھے چھوڑا ہے کس پر


اگر میں خواب میں دیدار پاؤں!
لپٹ قدموں سے بس قربان جاؤں


تمنّا ہے تمہارے دیکھنے کی
نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی نیکی


بسو دل میں سما جاؤنظر میں
ذرا آجاؤ اس ویرانہ گھر میں


بنا دو میرے سینہ کو مدینہ
نکالو بحرِ غم سے یہ سفینہ


چھڑا لو غیر سے اپنا بنا ؤ
میں سب اچھوں کے بد کو تم نبھاؤ


مِری بگڑی ہوئی حالت بنا دو
مری سوئی ہوئی قسمت جگا دو


تمہارے سینکڑوں ہم سے گدا ہیں
ہمارے آپ ہی اک آسرا ہیں


کھلائیں نعمتیں مجھ بے ہنر کو
دے آرام مجھ گندے بشر کو


نہیں ہے ساتھ میرے کوئی توشہ
کٹھن منزل تمہارا ہے بھروسہ


کھلیں جب روزِ محشر میرے دفتر
رہے پردہ مرا محبوبِ داور


میں بے زر بے ہنر بے پر ہوں سالکؔ
مگر ان کا ہوں وہ ہیں میرے مالک

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
جنہیں خلق کہتی ہے مصطفیﷺ میرا دل انہیں پہ نثار ہے
میرے قلب میں ہیں وہ جلوہ گرکہ مدینہ جن کا دیار ہے


ہے جہاں میں جن کی چمک دمک ہے چمن میں جن کی چہل پہل
وہ ہی اک مدینہ کے چاند ہیں سب انہیں کے دم کی بہار ہے


وہ جھلک دکھا کے چلے گئے میرے دل کا چین بھی لے گئے
میری روح ساتھ نہ کیوں گئ مجھے اب تو زندگی بار ہے


وہی موت ہے وہی زندگی جو خدا نصیب کرے مجھے
کہ مَرے تو انہی کے نام پر جو جئیے تو ان پہ نثار ہے


وہ ہے آنکھ جس کے یہ نور ہیں وہ ہے دل جس کے یہ سرور ہیں
وہ ہی تن ہے جس کی یہ روح ہیں وہ ہے جاں جو اُن پہ نثار ہے


جو کرم سے اپنے شہِ اممﷺ رکھیں مجھ غریب کے گھر قدم
مرے شاہ کی نہ ہو شان کم کہ گدا پر ان کا پیار ہے


ولے اس غریب کا خم کدہ بنے رشکِ خلدِ بریں شہا
کرے ناز اپنے نصیب پر بنے شاہ وہ جو گنوار ہے !


دمِ نزع سالکؔ بے نوا کو دکھانا شکلِ خدا نما
کہ قدم پر آپ کے نکلے دم بس اسی پہ دار مدار ہے

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
جوت سے ان کی جگ اجیالا
وہ سورج اور سارے تارے


اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ
تم رب کے ہم سب ہیں تمہارے


یُعْطِیْ ربک حتیٰ تَرْضیٰ
مر ضئ رب ہیں تمہارے اشارے


کلمہ و خطبہ نماز و اذاں میں
بولتے ہیں سب بول تمہارے


اہلِ زمیں کے نصیبے چمکے
جب وہ فرش سے عرش سد ہارے


ہم نے ناؤ بھنور میں ڈالی
تم اس ناؤ کے کھیون ہارے


ہم نے ہمیشہ کام بگاڑے
تم نے بگڑے کام سنوارے


آقا حشر میں عزت رکھنا
عیب نہ یہ کھل جائیں ہمارے


ہم کو نہ دیکھو آپ کو دیکھو
گو بَد ہیں کس کے ہیں؟ تمہارے!


در کے کمین ہیں غیر نہیں ہیں
پھرتے پھریں کیوں مارے مارے


تھوڑی زمین جو مدینہ میں دے دو
آن پڑیں قدموں میں تمہارے


نزع میں قبر میں اس سالکؔ کو
چاند سی شکل دکھانا پیارے

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
دل اس ہی کو کہتے ہیں جو ہو تیرا شیدائی
اور آنکھ وہ ہی ہے جو ہو تیری تما شائی


کیوں جان نہ ہو قرباں صدقہ نہ ہو کیوں ایماں
ایماں ملا تم سے اور تم سے ہی جاں پائی


خلقت کے وہ دولہا ہیں محفل یہ انہی کی ہے
ہے انہی کہ دم سے یہ سب انجمن آرائی


یا شاہِ رُسل چشمے بر حالِ گدائے خود
کزحالِ تباہ دے دانائی و بینائی


بے مثل خدا کا تُو بے مثل پیمبر ہے
ظاہر تری ہستی سے اللہ کی یکتائی


آقاؤں کے آقا سے بندوں کو ہو کیا نسبت
احمق ہے جو کہتا ہے آقا کو بڑا بھائی


سینہ میں جو آجاؤ بن آئے مرے دل کی
سینہ تو مدینہ ہو دل اس کا ہو شیدائی


دل تو ہو خدا کا گھر سینہ ہو ترا مسکن
پھر کعبہ و طیبہ کی پہلو میں ہو یک جائی


اس طرح سما مجھ میں ہو جاؤں میں گم تجھ میں
پھر تو ہی تماشا ہو اور تو ہی تماشائی


اس سالکِؔ بیکس کی تم آبرو رکھ لینا
محشر میں نہ ہو جائے آقا کہیں رسوائی

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
وہ بندۂ خاص خدا کے ہیں اور ان کی ساری خدائی ہے
ان ہی کی پہنچ ہے خالق تک ان تک خلقت کی رسائی ہے


وہ رب کے ہیں رب ان کا ہے جو ان کا ہے وہ رب کا ہے
بے ان کے حق سےجو ملا چاہے دیوانہ ہے سودائی ہے


وہ سخت گھڑی اللہ غنی کہتے ہیں نبی نفسی نفسی
اس وقت اک رحمت والے کو مجرم امّت یاد آئی ہے


اچھوں کا زمانہ ساتھی ہے میں بد ہوں مجھ کو نبھا ہو تم
کہلا کہ تمہارا جاؤں کہاں بے بس کی کہاں شنوائی ہے


آجاؤ بدن میں جاں ہو کر اور دل میں رہو ایمان بن کر
ہے جسم ترا یہ جان تیری اور دل تو خاص کمائی ہے


آنکھوں میں ہیں لیکن مثل نظر یوں دل میں ہیں جیسےجسم میں جاں
ہیں مجھ میں وہ لیکن مجھ سے نہاں اس شان کی جلوہ نمائی ہے


اللہ کی مرضی سب چاہیں اللہ رضا ان کی چاہے
ہے جنبشِ لب قانونِ خدا قرآن و خبر کی گواہی ہے


مالک ہیں خزانۂ قدرت کے جو جس کو چاہیں دے ڈالیں
دی خلد جنابِ ربیعہ کو بگڑی لاکھوں کی بنائی ہے


دنیا کو مبارک ہو دنیا اللہ کرے وہ مجھ کو ملیں!
ہر سر میں جن کا سودا ہے ہر دل میں جن کا شیدائی ہے


گو سجدۂ سر ہےان کو منع لیکن دل و جاں ہیں سجدہ کناں
ہے حکمِ شریعت سر پہ رواں دل و جاں نے معافی پائی ہے


وہ کعبۂ سر ہے یہ قبلۂ دل وہ قبلہ تن ہے یہ کعبۂ جاں
سر اس پہ جھکا دل ان پہ فدا اور جان ان کی شیدائی ہے


لکڑی نے کیا ان سے شکوہ اونٹوں نے کیا ان کو سجدہ
ہیں قبلۂ حاجات عالم کے سالکؔ کیوں بات بڑھائی ہے

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
ہے جس کی ساری گفتگو وحیِ خدا یہی تو ہیں
حق جس کے چہرے سے عیاں وہ حق نما یہی تو ہیں


جن کی چمک سورج میں ہے جن کا اجالا چاند میں
جنکی مہک پھولوں میں ہے وہ مہ لقا یہی تو ہیں


جس مجرم و بد کار کو سارا جہاں دھتکار دے
وہ ان کے دامن میں چھپے مشکل کشا یہی تو ہیں


ہر لب پہ جن کا ذکر ہے ہر دل میں جن کی فکر ہے
گائے ہیں جن کے گیت سب صبح و مسا یہی تو ہیں


چرچا ہے جن کا چار سو ہر گل میں جن کا رنگ و بو
ہیں حسن کی جو آبرو وہ دل رُبا یہی تو ہیں


باغِ رسالت کی ہیں جڑ اور ہیں بہار آخری
مبدا جو اس گلشن کے تھے وہ منتہےٰ یہی تو ہیں


یہ ہیں حبیبِ کبریا یہ ہیں محمد مصطفیٰﷺ
دو جگ کو جن کی ذات کا ہے آسرا یہی تو ہیں


جس کی نہ لے کوئی خبر ہوں بند جس پر سارے در
اس کی یہ رکھتے ہیں خبر اس کی پناہ یہی تو ہیں


گن گائیں جن کے انبیاء مانگیں رسل جن کی دعا
وہ دو جہاں کے مدّعٰی صَلِّ علیٰ یہی تو ہیں


جن کو شجر سجدہ کریں پتھر گواہی جن کی دیں
دکھ درد اُونٹ ان سے کہیں حاجت روا یہی تو ہیں


ہے فرش کا جو بادشاہ ہے عرش جس کے زیرِ پا
سالکؔ مِلا جس سے خدا وہ با خدا یہی تو ہیں

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
جن کا لقب ہے صلِّ علیٰ محمدٍﷺ
ان سے ہمیں خدا ملا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


روح الامیں تو تھک گئے اور وہ عرش تک گئے
عرشِ بریں پکار اٹھا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


خلدِ بریں ہر جگہ نام شہِ انام ہے
خلد ہے ملک آپ کا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


دھوم ہے ان کی چارسو ذکر ہے اُن کا کو بکو
مظہرِ ذاتِ کبریا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


جو ہو مریضِ لادوا یا کسی غم میں مبتلا
صبح و مسا پڑھے سدا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


مشکلیں ان کی حل ہوئیں قسمتیں ان کی کھل گئیں
ورد جنہوں نے کر لیا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


شدت جانکنی ہو جب نزع کی جب ہو کشمکش
وردِ زباں کے ہو یا خدا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


قبر میں جب فرشتے آئیں شکل خدا نما دکھائیں
پڑھتا اُٹھوں میں یا خدا صلِّ علیٰ محمدﷺٍ


لاج گنہگار کی آپ کے ہاتھ میں ہے نبیﷺ
بدہے مگر ہے آپ کا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ


حشر میں سالکؔ حزیں تھام کے دامنِ نبی ﷺ
عرض کرے یہ بر ملا صلِّ علیٰ محمدٍﷺ

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
تم ہی ہو چین اور دلِ بے قرار میں
تم ہی تو ایک آس ہو قلبِ گنہگار میں


روح نہ کیوں ہو مضطرب موت کے انتظار میں
سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئینگے وہ مزار میں


خاک ہے ایسی زندگی وہ کہیں اور ہم کہیں
ہے اسی زیست میں مزار جو دیارِ یار میں


بارشِ فیض سے ہوئی کشتِ عمل ہری بھری
خشک زمیں کے دن پھرے جان پڑی بہار میں


دل میں جو آکر تم رہو سینے میں تم اگر بسو
پھر ہو وہی چہل پہل اُجڑے ہوئے دیار میں


ان کے جو ہم غلام تھے خلق کے پیشوا رہے
اُن سے پھرے جہاں پھر آئی کمی وقار میں


قبر کی سونی رات ہے کوئی نہ آس پاس ہے
اک تیرے دم کی آس ہے قلبِ سیاہ کار میں


فیض نے تیرے یا نبیﷺ کردیا مجھ کو کیا سے کیا
ورنہ دھرا ہوا تھا کیا مٹھی بھر اس غبار میں


جس کی نہ لے کوئی خبر بند ہوں جس پہ سارے در
اس کا تو ہی ہے چارہ گر آئے ترے جوار میں


چار رسل فرشتے چار چار کتب ہیں دین چار
سلسلے دونوں چار چار لطف عجب ہے چار میں


آتش و آب و خاک بادان ہی سے سب کا ہے ثبات
چار کا سارا ماجرا ختم ہے چار یار میں


سر تو سوئے حرم جھکا دل سوئے کوئے مصطفیٰﷺ
دل کا خدا بھلا کرے یہ نہیں اختیار میں


اس پہ گواہ ھُوَالَّذِیْ شیشہ حق نما نبیﷺ
دیکھ لو جلوۂ نبی شیشۂ چار یار میں


سالکؔ روسیہ کا منہ دعویٰ عشقِ مصطفیٰﷺ
پائے جو خدمتِ بلال آئے کسی شمار میں

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا
ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا


آقا اگر کرم سے طیبہ مجھے بُلاتے
روضہ پہ صدقہ ہوتا ان پر نثار ہوتا


وہ بیکسوں کے آقا بے کس کو گر بُلاتے
کیوں سب کی ٹھکروں پرپڑ کر وہ خوار ہوتا


طیبہ میں گر میسّردو گز زمین ہوتی
ان کے قریب بستا دل کو قرار ہوتا


مر مٹ کے خوب لگتی مٹی مرے ٹھکانے
گر ان کی رہ گزر میں میرا مزار ہوتا


یہ آرزو ہے دل کی ہوتا وہ سبز گنبد
اور میں غبار بن کر اس پر نثار ہوتا


بے چین دل کو اب تک سمجھا بجھا کے رکھا
مگر اب تو اس سے آقا نہیں انتظار ہوتا


سالکؔ ہوئے ہم ان کے وہ بھی ہوئے ہمارے
دل مضطرب کو لیکن نہیں اعتبار ہوتا

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
نورِ حق جلوہ نما تھا مجھے معلوم نہ تھا
شکلِ انساں میں چھپا تھا مجھے معلوم نہ تھا


بارہا جس نے کہا تھا اَنَا بَشَرٌاس نے
مَن دَاٰنِیْ بھی کہا تھا مجھے معلوم نہ تھا


بکریاں جس نے چرائیں تھیں حلیمہ تیری
عرش پر وہی گیا مجھے معلوم نہ تھا


جس نے امت کیلئے رو کے گزاریں راتیں
وہ ہی محبوبِ خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا


چاند اشارے سے پھٹا حکم سے سورج لوٹا
مظہرِ ذاتِ خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا


دیکھا جب قبر میں اس پردہ نشیں کو تو کھُلا
دل سالکؔ میں رہا تھا مجھے معلوم نہ تھا

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
خوفِ گنہ میں مجرم ہے آب آب کیسا
جب رب ہے مصطفیٰ کا پھر اضطراب کیسا


مجرم ہوں رُو سیہ ہوں اور لائقِ سزا ہوں
لیکن حبیب کا ہوں مجھ پر عتاب کیسا ہو


سورج میں نور تیرا جلوہ تیرا قمر میں
ظاہر تو اس قدر ہے اس پر حجاب کیسا


دامانِ مصطفیٰ ہے مجرم مچل رہے ہیں
دار الاماں میں پہنچے خوفِ عذاب کیسا


مرقد کی پہلی شب ہے دولہا کی دید کی شب
اس شب پہ عید قربان اس کا جواب کیسا


پڑھتا تھا جس کا کلمہ پایا انہیں نکیرو
ہو لینے دو تصدّق اس دم حساب کیسا


سالکؔ کو بخش یا رب گو لائقِ سزا ہے
وہ کس حِساب میں ہے اس کا حساب کیسا

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
زمانہ نے زمانہ میں سخی ایسا کہیں دیکھا
لبوں پر جس کے سائل نے نہیں آتے نہیں دیکھا


مصیبت میں جو کام آئے گنہگاروں کو بخشائے
وہ اک فخرِ رُسُل محبوبِ رب العالمیں دیکھا


بنایا جس نے بگڑوں کو سنبھالا جس نے گرتوں کو
وہ ہی حَلّال مشکل رحمتُ لِّلعالمیں دیکھا


وہ ہادی جس نےدنیا کو خدا والا بنا ڈالا
دلوں کو جس نے چمکایا عرب کا مہ جبیں دیکھا


بسے جو فرش پر اور عرش تک اس کی حکومت ہو
وہ سلطانِ جہاں طیبہ کا اک ناقہ نشین دیکھا


وہ آقا جو کہ خود کھائے کھجوریں اور غلاموں کو
کھلائے نعمتیں دنیا کی کب ایسا کہیں دیکھا


بھلا عالم سی شے مخفی رہے اس چشمِ حق بیں سے
کہ جس نے خالقِ عالم کو بے شک بالیقیں دیکھا


مسلمانی کا دعویٰ اور پھر توہین سرور کی
زمانہ کیا زمانے بھر میں کب ایسا لعیں دیکھا


ہو لب پر امتی جس کے کہیں جب انبیاء نفسی
دو عالم نے اُسے ساؔلک شفیع المذنبین دیکھا

شاعر حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ​

 
Top