دیکھیو!!!! غالبؔ سے گر الجھا کوئی

سعدی غالب

محفلین
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
(ایک ضروری وضاحت:۔ میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،
میری مجبوری ہے کہ مجھے چوری چھپے نیٹ یوز کرنا پڑتا ہے، لہذا اعتراض برائے اعتراض ، اور تنقید برائے تنقید کا جواب دینے سے مجھے معذور سمجھا جائے)

1847 میں غالبؔ پر اسیری کی مصیبت آئی، اس واقعہ کے متعلق مختلف بیانات

خواجہ الطاف حسین حالیؔ
"غالبؔ کو چوسر اور شطرنج کھیلنے کا بہت شوق تھااور جب کھیلتے تھے تو برائے نام کچھ بازی بد کر کھیلتے تھے۔ کوتوال دشمن تھااس نے قمار بازی کا مقدمہ بنا دیا، مجسٹریٹ غالبؔ کی حیثیت ، مرتبہ، اور ذاتی حالات سے نا واقف تھا۔اس نے چھ ماہ قید کی سزا دے دی۔ سیشن ججی میں اپیل کی گئی، جج اگرچہ غالبؔ کا دوست تھالیکن اس نے بھی تغافل اختیار کر لیااور سزائے قید بحال رکھی۔ صدر میں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ 3 مہینے گزر جانے کے بعد مجسٹریٹ نے خود ہی رہا کر دیا"

خواجہ حسن نظامی

خواجہ حسن نظامی نے "دہلی کا آخری سانس" کے نام سے "احسن الاخبار " کے ان فارسی مضامین کا ترجمہ شائع کیا ہےجو دہلی یا دربار شاہی کے حالات پر مشتمل تھے۔ اس میں لکھتے ہیں
"مرزا اسد اللہ خان بہادر کو دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اور چھ مہینے کی قید با مشقت اور دو سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی، اگر جرمانہ ادا نہ کریں تو چھ ماہ قید میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مقررہ جرمانے کے علاوہ اگر پچاس روپے زیادہ ادا کیے جائیں تو مشقت معاف ہو جائے گا۔ مرزا صاحب نے جرمانہ اور پچاس روپے ادا کر دئیے"

مولانا آزاد
"خوجہ حالی مرحوم نے غالبؔ کی گرفتاری کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پوراقمار بازی کا معملہ تھا، مرزا نے اپنے مکان کو جوا بازی کا اڈا بنا رکھا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے: غدر سے پہلےمرزا کی آمدنی کا وسیلہ صرف سرکاری وظیفہ اور قلعہ کے پچاس روپے تھے۔چونکہ زندگی رئیسانہ بسر کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے ہمیشہ مقروض و پریشان حال رہتےتھے۔ اس زمانے میں دہلی کے بے فکر رئیس زادوں اور چاندنی چوک کے بعض جوہری بچوں نے گزرانِ وقت کے جو مشغلے اختیار کر رکھے تھےان میں ایک قمار کا بھی مشغلہ تھا، گنجفہ عام طور پر کھیلا جاتا تھااور شہر کے کئی دیوان خانوں کی مجلسیں اس باب میں شہرت رکھتی تھیں مرزا بھی اس کے شائق تھے، رفتہ رفتہ ان کے یہاں چاندنی چوک کے بعض جوہری بچے آنے لگےاور باقاعدہ جوا بازی شروع ہوگئی۔ قمار کا عام قاعدہ ہے کہ مہتمم قمار خانہ کا ایک خاص حصہ ہر بازی میں ہوا کرتا ہےاس طرح مرزا صاحب کو ایک اچھی خاصی رقم بے محنت و بے مشقت وصول ہونے لگی وہ خود بھی کھیلتے اور چونکہ اچھے کھلاڑی تھے اس لیے اس میں بھی کچھ نہ کچھ مار ہی لیتے تھے
انگریزی قانون اسے جرم قرار دیتا تھالیکن شہر کی یہ رسم ٹہر گئی تھی کہ رئیس زادوں کے دیوان خانے مستسنیٰ سمجھے جاتے تھے،۔ نیز عرصہ تک شہر کے کوتوال اور حکام ایسے لوگ رہے جن سے غالبؔکی رسم و راہ تھی، لیکن 1845 میں ایک نیاکوتوال آیااس نے آتے ہی سختی سے دیکھ بھال شروع کر دیاور جاسوس لگا دئیے۔ بعض دوستوں نے مرزا غالبؔ کو بار بار فہمائش کی کہ ان مجلسوں کو ملتوی کر دیں لیکن وہ خبردار نہ ہوئے۔ بالآخر ایک دن ایسے موقع پر کہ مجلس قمار گرم اور روپیوں کی ڈھیریاں چنی ہوئی تھیں ۔ کوتوال پہنچا اور لوگ تو پچھواڑے سے نکل بھاگے اور صاحب مکان یعنی مرزا دھر لیے گئے"

اب سعدی غالبؔ کا بیان

مولانا آزاد کا اقتباس آپ نے ملاحظہ فرمایا اور حالی و نظامی کا بھی
یہ فرق ذہن میں رکھیں کہ حالی غالبؔ کے اور نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب کے انتہائی قریب رہے اور حالی کا مقام و مرتبہ، نیز ان کا بلند کردار بھی کسی سے چھپا نہیں
لیکن مولانا آزاد کا ادبی مرتبہ ایک طرف ان کے اس اقتباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے جیو ٹی وی کا کیمرہ مین وقوعےکی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کر رہا ہو۔ جب کہ 1 حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا آزاد ہوں یا مولوی ذکا اللہ دہلوی یہ حضرات ایک دن بھی غالبؔ کے قریب رہنا تو دور ان سے بالمشافہ ملے بھی نہیں
کیا آپ حالی اور شیفتہ کے آنکھوں دیکھے پر یقین کریں گے یا مولانا آزاد کی سنی سنائی پر مبنی افسانہ طرازی پر؟؟؟
یہ آپ کی عقل سلیم اور ایمان کا امتحان ہے
2 مولانا آزاد خاقانی ہند ملک الشعرا استاد شیخ ابراہیم ذوق کے شاگرد ہیں
آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ ذوق کا شاگرد غالبؔ کا ذکر غیر جانبداری سے کرے گا؟؟؟
آب حیات میں مولانا آزاد نے غالبؔ کا مقام و مرتبہ ذوق سے کم ثابت کرنے کا جو زور لگایا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
3 :۔ مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ غدر سے پہلے مرزا صاحب کا گزارہ پنشن اور قلعہ سے ملنے والی 50 روپے تنخواہ پر ہوتا تھا۔ اور مولانا کے کہنے کے مطابق اسی وجہ سے غالبؔ نے قمار بازی کو کمائی کا ذریعہ بنایا
مگر یہ کیوں بھول گئے کہ غالبؔ 1847 میں قید ہوئے اور قلعہ میں ملازمت 1850میں ہوئی،
یعنی کہ مولانا کے اس جھوٹ کا پول بھی کھل گیا جو انہوں نے غالبؔ پر جوش عداوت میں بہتان طرازی کی
ا سکے علاوہ مولانا آزاد کی آب حیات میں درج غالبؔ سے متعلقہ شاعری کے انتخاب سے متعلق بولے گئے جھوٹ مولانا عبدالباری آسی نے اپنے والد صاحب کی چشم دید گواہی کی بنا پر ثابت کیے ہیں
کیا اب بھی آپ مولانا کے اس افسانے پر اعتبار کریں گے؟؟؟
اور اب آتے ہیں گلزاراور کیفی صاحب کی غلطیوں کی طرف
لیکن اس سے پہلے فرخ صاحب یہ واضح کر دوں کہ شیخ سعدی ؒ کے مطابق "بزرگی بعقل است نہ بسال" یقیناً آپ بھی مجھ سے سینئر ہیں، گلزار صاحب کے ادبی مقام و مرتبے میں مجھے کلام نہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی میں میرے محترم اساتذہ کرام (جن کی شاگردی پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا ) وہ مجھے "بت شکن" کے نام سے پکارتے تھے
یقیناً اس وقت میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں، یہی مسئلہ غالبؔ کو بھی پیش آیا
ہوں ظہوری کے مقابل ، خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے، کہ مشہور نہیں
آج نہ سہی لیکن جب میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ ہو جائے گا تب بھی میرا یہی موقف ہوگا
میرا مقصد یہاں ڈینگیں مارنا نہیں بس دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے
گلزار صاحب کے ڈرامے مرزا غالبؔ میں مرزا صاحب کی زبان سے عین وہی مکالمے بلوائے گئے جو ابھی میں نے مولانا صاحب کے اقتباس کی صورت میں پیش کیے
گلزار صاحب کی تحقیق کے مطابق مرزا غالبؔ سے کوتوال کی ایک وجہ عناد "نواب جان" بھی تھی
لیکن اگر آپ ڈرامے کا وہ منظر ذہن میں لائیں جس میں بازار میں مرغوں کی لڑائی ہو رہی تھی اور کوتوال صاحب کی انٹری ہوئی اور اس نے ایک بوڑھے کو دھمکی آمیز الفاظ میں کہا" ایک دن اس شہر سے جوئے کا خاتمہ نہ کر دیا تو میرا نام بھی منیر خان نہیں، اور کہہ دینا اپنے اس مرزا سے ،اس دن بڑا مزاق کر رہے تھے، کسی دن گھر میں گھس کر دھر لوں گا "
اب اس خاکسارکی عرض یہ ہے کہ اس کوتوال کا نام منیر خان نہیں بلکہ فیض الحسن تھا فیض الحسن سہارنپوری
اور یہ جو مرزا کے مزاق کی اس نے بات کی تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ مزاق کونسا تھا؟؟؟
فیض الحسن سے پہلے والا کوتوال (مرزا خانی) مرزا غالب کا دوست تھا، پس جب فیض الحسن کا تبادلہ دلی میں ہوا تو مرزا صاحب نے حسب روایت اس بھی راہ و رسم بڑھانے کا سوچا، اور اس کے بار میں سنا کہ فیض الحسن شطرنج کا اچھا کھلاڑی ہے۔ غالبؔ نے اسے اپنے ہاں کھانے پر بلایا، کہ اسی بہانےشطرنج کی ایک آدھ بازی ہوجائے گی
اتفاق سے اس دن دلی میں گلیوں کی صفائی ہو رہی تھی اور کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گلی میں سے آجا رہے تھے، یہ دیکھ کر کوتوال صاحب نے کہا "مرزا !دلی میں گدھے بہت ہیں"
سامنے بھی تو حیوان ِ ظریف تھے، وہ بھلا کب حساب رکھنے والے تھے، تو مرزا نے برجستہ کہا"ہاں بھائی کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہیں"
اس واقعے کے کچھ دن بعد مرزا صاحب کو گھر سے گرفتار کر لیا گیا
مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا صدر الدین آزردہ، نواب مصطفےٰ خان شیفتہ، مولانا حالیؔ جھوٹ بولتے ہیں، کیا وہ اس بات سے ناواقف تھے؟؟؟
میرا دل چاہ رہا ہے یہاں نواب صاحب کا ایک قول پیش ہے:۔ "مجھے مرزا سے عقیدت ان کے زہد واتقا کی بناپر نہ تھی ، فضل و کمال کی بنا پر تھی۔ جوئے کا الزام تو آج عائد ہوا مگر شراب پینا تو ہمیشہ سے معلوم ہے پھر اس الزام کی وجہ سے میری عقیدت کیوں متزلزل ہو جائے"
میرا بھی یہی ماننا ہے، با لفرض اگر وہ اس کے علاوہ بھی ان پر اور الزام لگے ہوتے تب بھی مجھ جیسوں کی غالبؔ سے محبت میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا، ہمیں غالبؔ کی ہر ادا سے پیار ہے، اور یہی غالبؔ کی شخصیت کا حسن بھی ہے، اگرکوئی ٹائم مشین ہو اور ہم جا کر غالبؔ کی شراب اور بقول آپ کے جوا بھی ان سے ترک کروا دیں تو شاید وہ مزا نہ رہے
میں نے اگر غلطی سے آپ کی پوسٹ پر کمنٹ کر ہی دیا تھا، تو آپ نے اسے دل پر لے لیا، اور آپ تو باقاعدہ بدلہ لینے پہنچ گئے ، جناب عالی اگر میری کسی بات سے دل آزاریہ ہوئی ہو تو معذرت، آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہو تو بھی معذرت، لیکن اگر آپ کو بھی Ghalib Lover ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارا اختلاف بنتا ہی نہیں
ہمارا ذمہ غالبؔ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ اس قسم کی بحثیں کر کے لوگوں کو ان سے متنفر کرنا
کیا یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے کہ کسی کی موت کے بعد اس کی اچھائیوں کا چرچا کرو
ہمیں تو اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر ہے غالبؔ کا امیج بھلے عوام کی نظر میں بگڑتا ہے تو بگڑ جائے، ہے نا؟؟؟ بے شک غالبؔ موحد اعظم ، اور انتہائی معنوں میں لبرل تھے، لیکن انہیں نہ تو اپنی شراب نوشی کا فخر تھا نہ ہی اپنے جوا کے الزام میں پکڑے جانے کی خوشی، اور اگر مجھے نیچا دکھا کر آپ کی انا کو تسکین پہنچتی ہے تو مجھے اعتراف ہے کہ اب تک میں نے جھک ہی ماری، میں نے سارا علم چولہے پہ بیٹھے بیٹھے حاصل کیا، خدا را غالبؔ سے نادان دوست والا سلوک نہ کریں،
کیا ہم لوگ گھریا دوستوں میں لڈو یا کیرم کھیلتے وقت مزاق مزاق میں جو بازی ہارنے والے پر جرمانہ عائد کرتے ہیں، اگر اسی الزام میں آپ کو دھر لیا جائے تو کیا کہیں گے اپنے دفاع میں؟؟؟
اور فرخ بھائی صاحب ہمارا علاقے میں ایک عام نقطہ نظر ہے کہ انٹر نیٹ صرف بچے بگاڑتا ہے، اس لیے مجھے چوری چھپے استعمال کرنا پڑتا ہے، نیز کمپیوٹراور انٹرنیٹ کے ضمن میں میری معلومات واجبی سے بھی کم ہیں، آپ نے کل جو شعبدہ کیا اگر پھر بھی ایسا ہی کرنا ہے تو میں نے اس محفل پر پھر کبھی نہیں آنا۔ مغزل بھائی جان اور سر الف عین کو دیکھ کر حوصلہ آیا تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دکھاتے۔ لیکن میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،میرا مقصد صرف اس خستہ جان ، بے اولاد ہستی کا دفاع کرنا ہے جس کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں،
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
سودا نہیں ، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے
(پکچر ابھی باقی ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ اگر اس بات پر تماشا نہ کھڑا کیا جائے، اگر کل والے شعبدے ہی کرنے ہیں تو مجھے معاف رکھا جائے۔اور یہ میری آخری تحریر سمجھی جائے )
بقول غالبؔ:۔ جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا)
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی تحقیق ہے سعدی۔ پیغام کے آخر کی بات سمجھ میں نہیں آئی، یہ مراسلہ کہیں اور سے رعلیحدہ کیا گیا ہے، اس لئے سمجھ میں نہیں آیا۔ اور میرا کمنٹ محض تحقیق تک محدود ہے۔
اس پر یہ یاد آیا کہ جب وارث یہاں مندرج ہوئے تھے تو ان کی عرفیت بھی ’قتیلِ غالب‘ تھی، اگر میری یاد داشت دھوکا نہیں دے رہی، غالباً قتیلان غالب میں تو یہاں موجود ہر سخن فہم کا شمار ہوتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
سعدی غالب صاحبہ میں آپ کی یا کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ میں غالب کا کتنا بڑا پرستار ہوں یہ سبھی یہاں جانتے ہیں۔ میں خود مرزا غالب کا ایک پیج فیس بک پر چلا رہا ہوں جس کا لنک یہ رہا۔
https://www.facebook.com/MirzaGhaalib
میرا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ خواہ مخواہ ان برائیوں کو نہ دبائیں جو غالب میں موجود تھیں۔ میں نے حالی کا وہ مرثیہ بھی ٹائپ کر رکھا ہے جو انہوں نے مرزا غالب کی وفات کے بعد لکھا تھا۔ اس کا لنک یہ رہا۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threa...دہلوی-متخلص-بہ-غالب-۔-حالی.24956/#post-559998
میں فیس بک کا وہ لنک یہاں دے رہا ہوں جہاں یہ بحث جاری تھی۔ اس لنک میں واضح ہو جائے گا کہ آپ نے کیا کہا اور میں نے کیا کہا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی مرنے والے کی برائیوں کو خواہ مخواہ دبانا چاہیے جبکہ اس میں وہ برائیاں موجود بھی ہوں۔ عصمت چغتائی نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کے مرنے کے بعد اس پر ایک خاکہ لکھا تھا جس کا نام "دوزخی" تھا۔ وہ خاکہ منٹو کی ہمشیرہ نے بھی پڑھا اور کہا توبہ توبہ عصمت نے تو اپنے مرے ہوئے بھائی کی روح کو تڑپا دیا ہو گا ۔ اس کی ساری برائیاں اس نے لکھ ڈالیں۔ تو منٹو نے جواب میں اپنی ہمشیرہ کو کہا کہ اگر تم ایسا خاکہ میرے مرنے کے بعد لکھ سکو تو میں ابھی مرنے کے لئے تیار ہوں۔ بہرحال لنک یہ رہا۔

آپ کے پیج کا وہ لنک جہاں پر یہ بحث جاری تھی۔
https://www.facebook.com/MirzaGhaliib/posts/259309590804461

اب فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
(ایک ضروری وضاحت:۔ میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،
میری مجبوری ہے کہ مجھے چوری چھپے نیٹ یوز کرنا پڑتا ہے، لہذا اعتراض برائے اعتراض ، اور تنقید برائے تنقید کا جواب دینے سے مجھے معذور سمجھا جائے)

1847 میں غالبؔ پر اسیری کی مصیبت آئی، اس واقعہ کے متعلق مختلف بیانات

خواجہ الطاف حسین حالیؔ
"غالبؔ کو چوسر اور شطرنج کھیلنے کا بہت شوق تھااور جب کھیلتے تھے تو برائے نام کچھ بازی بد کر کھیلتے تھے۔ کوتوال دشمن تھااس نے قمار بازی کا مقدمہ بنا دیا، مجسٹریٹ غالبؔ کی حیثیت ، مرتبہ، اور ذاتی حالات سے نا واقف تھا۔اس نے چھ ماہ قید کی سزا دے دی۔ سیشن ججی میں اپیل کی گئی، جج اگرچہ غالبؔ کا دوست تھالیکن اس نے بھی تغافل اختیار کر لیااور سزائے قید بحال رکھی۔ صدر میں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ 3 مہینے گزر جانے کے بعد مجسٹریٹ نے خود ہی رہا کر دیا"

خواجہ حسن نظامی

خواجہ حسن نظامی نے "دہلی کا آخری سانس" کے نام سے "احسن الاخبار " کے ان فارسی مضامین کا ترجمہ شائع کیا ہےجو دہلی یا دربار شاہی کے حالات پر مشتمل تھے۔ اس میں لکھتے ہیں
"مرزا اسد اللہ خان بہادر کو دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اور چھ مہینے کی قید با مشقت اور دو سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی، اگر جرمانہ ادا نہ کریں تو چھ ماہ قید میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مقررہ جرمانے کے علاوہ اگر پچاس روپے زیادہ ادا کیے جائیں تو مشقت معاف ہو جائے گا۔ مرزا صاحب نے جرمانہ اور پچاس روپے ادا کر دئیے"

مولانا آزاد
"خوجہ حالی مرحوم نے غالبؔ کی گرفتاری کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پوراقمار بازی کا معملہ تھا، مرزا نے اپنے مکان کو جوا بازی کا اڈا بنا رکھا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے: غدر سے پہلےمرزا کی آمدنی کا وسیلہ صرف سرکاری وظیفہ اور قلعہ کے پچاس روپے تھے۔چونکہ زندگی رئیسانہ بسر کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے ہمیشہ مقروض و پریشان حال رہتےتھے۔ اس زمانے میں دہلی کے بے فکر رئیس زادوں اور چاندنی چوک کے بعض جوہری بچوں نے گزرانِ وقت کے جو مشغلے اختیار کر رکھے تھےان میں ایک قمار کا بھی مشغلہ تھا، گنجفہ عام طور پر کھیلا جاتا تھااور شہر کے کئی دیوان خانوں کی مجلسیں اس باب میں شہرت رکھتی تھیں مرزا بھی اس کے شائق تھے، رفتہ رفتہ ان کے یہاں چاندنی چوک کے بعض جوہری بچے آنے لگےاور باقاعدہ جوا بازی شروع ہوگئی۔ قمار کا عام قاعدہ ہے کہ مہتمم قمار خانہ کا ایک خاص حصہ ہر بازی میں ہوا کرتا ہےاس طرح مرزا صاحب کو ایک اچھی خاصی رقم بے محنت و بے مشقت وصول ہونے لگی وہ خود بھی کھیلتے اور چونکہ اچھے کھلاڑی تھے اس لیے اس میں بھی کچھ نہ کچھ مار ہی لیتے تھے
انگریزی قانون اسے جرم قرار دیتا تھالیکن شہر کی یہ رسم ٹہر گئی تھی کہ رئیس زادوں کے دیوان خانے مستسنیٰ سمجھے جاتے تھے،۔ نیز عرصہ تک شہر کے کوتوال اور حکام ایسے لوگ رہے جن سے غالبؔکی رسم و راہ تھی، لیکن 1845 میں ایک نیاکوتوال آیااس نے آتے ہی سختی سے دیکھ بھال شروع کر دیاور جاسوس لگا دئیے۔ بعض دوستوں نے مرزا غالبؔ کو بار بار فہمائش کی کہ ان مجلسوں کو ملتوی کر دیں لیکن وہ خبردار نہ ہوئے۔ بالآخر ایک دن ایسے موقع پر کہ مجلس قمار گرم اور روپیوں کی ڈھیریاں چنی ہوئی تھیں ۔ کوتوال پہنچا اور لوگ تو پچھواڑے سے نکل بھاگے اور صاحب مکان یعنی مرزا دھر لیے گئے"

اب سعدی غالبؔ کا بیان

مولانا آزاد کا اقتباس آپ نے ملاحظہ فرمایا اور حالی و نظامی کا بھی
یہ فرق ذہن میں رکھیں کہ حالی غالبؔ کے اور نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب کے انتہائی قریب رہے اور حالی کا مقام و مرتبہ، نیز ان کا بلند کردار بھی کسی سے چھپا نہیں
لیکن مولانا آزاد کا ادبی مرتبہ ایک طرف ان کے اس اقتباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے جیو ٹی وی کا کیمرہ مین وقوعےکی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کر رہا ہو۔ جب کہ 1 حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا آزاد ہوں یا مولوی ذکا اللہ دہلوی یہ حضرات ایک دن بھی غالبؔ کے قریب رہنا تو دور ان سے بالمشافہ ملے بھی نہیں
کیا آپ حالی اور شیفتہ کے آنکھوں دیکھے پر یقین کریں گے یا مولانا آزاد کی سنی سنائی پر مبنی افسانہ طرازی پر؟؟؟
یہ آپ کی عقل سلیم اور ایمان کا امتحان ہے
2 مولانا آزاد خاقانی ہند ملک الشعرا استاد شیخ ابراہیم ذوق کے شاگرد ہیں
آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ ذوق کا شاگرد غالبؔ کا ذکر غیر جانبداری سے کرے گا؟؟؟
آب حیات میں مولانا آزاد نے غالبؔ کا مقام و مرتبہ ذوق سے کم ثابت کرنے کا جو زور لگایا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
3 :۔ مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ غدر سے پہلے مرزا صاحب کا گزارہ پنشن اور قلعہ سے ملنے والی 50 روپے تنخواہ پر ہوتا تھا۔ اور مولانا کے کہنے کے مطابق اسی وجہ سے غالبؔ نے قمار بازی کو کمائی کا ذریعہ بنایا
مگر یہ کیوں بھول گئے کہ غالبؔ 1847 میں قید ہوئے اور قلعہ میں ملازمت 1850میں ہوئی،
یعنی کہ مولانا کے اس جھوٹ کا پول بھی کھل گیا جو انہوں نے غالبؔ پر جوش عداوت میں بہتان طرازی کی
ا سکے علاوہ مولانا آزاد کی آب حیات میں درج غالبؔ سے متعلقہ شاعری کے انتخاب سے متعلق بولے گئے جھوٹ مولانا عبدالباری آسی نے اپنے والد صاحب کی چشم دید گواہی کی بنا پر ثابت کیے ہیں
کیا اب بھی آپ مولانا کے اس افسانے پر اعتبار کریں گے؟؟؟
اور اب آتے ہیں گلزاراور کیفی صاحب کی غلطیوں کی طرف
لیکن اس سے پہلے فرخ صاحب یہ واضح کر دوں کہ شیخ سعدی ؒ کے مطابق "بزرگی بعقل است نہ بسال" یقیناً آپ بھی مجھ سے سینئر ہیں، گلزار صاحب کے ادبی مقام و مرتبے میں مجھے کلام نہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی میں میرے محترم اساتذہ کرام (جن کی شاگردی پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا ) وہ مجھے "بت شکن" کے نام سے پکارتے تھے
یقیناً اس وقت میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں، یہی مسئلہ غالبؔ کو بھی پیش آیا
ہوں ظہوری کے مقابل ، خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے، کہ مشہور نہیں
آج نہ سہی لیکن جب میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ ہو جائے گا تب بھی میرا یہی موقف ہوگا
میرا مقصد یہاں ڈینگیں مارنا نہیں بس دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے
گلزار صاحب کے ڈرامے مرزا غالبؔ میں مرزا صاحب کی زبان سے عین وہی مکالمے بلوائے گئے جو ابھی میں نے مولانا صاحب کے اقتباس کی صورت میں پیش کیے
گلزار صاحب کی تحقیق کے مطابق مرزا غالبؔ سے کوتوال کی ایک وجہ عناد "نواب جان" بھی تھی
لیکن اگر آپ ڈرامے کا وہ منظر ذہن میں لائیں جس میں بازار میں مرغوں کی لڑائی ہو رہی تھی اور کوتوال صاحب کی انٹری ہوئی اور اس نے ایک بوڑھے کو دھمکی آمیز الفاظ میں کہا" ایک دن اس شہر سے جوئے کا خاتمہ نہ کر دیا تو میرا نام بھی منیر خان نہیں، اور کہہ دینا اپنے اس مرزا سے ،اس دن بڑا مزاق کر رہے تھے، کسی دن گھر میں گھس کر دھر لوں گا "
اب اس خاکسارکی عرض یہ ہے کہ اس کوتوال کا نام منیر خان نہیں بلکہ فیض الحسن تھا فیض الحسن سہارنپوری
اور یہ جو مرزا کے مزاق کی اس نے بات کی تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ مزاق کونسا تھا؟؟؟
فیض الحسن سے پہلے والا کوتوال (مرزا خانی) مرزا غالب کا دوست تھا، پس جب فیض الحسن کا تبادلہ دلی میں ہوا تو مرزا صاحب نے حسب روایت اس بھی راہ و رسم بڑھانے کا سوچا، اور اس کے بار میں سنا کہ فیض الحسن شطرنج کا اچھا کھلاڑی ہے۔ غالبؔ نے اسے اپنے ہاں کھانے پر بلایا، کہ اسی بہانےشطرنج کی ایک آدھ بازی ہوجائے گی
اتفاق سے اس دن دلی میں گلیوں کی صفائی ہو رہی تھی اور کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گلی میں سے آجا رہے تھے، یہ دیکھ کر کوتوال صاحب نے کہا "مرزا !دلی میں گدھے بہت ہیں"
سامنے بھی تو حیوان ِ ظریف تھے، وہ بھلا کب حساب رکھنے والے تھے، تو مرزا نے برجستہ کہا"ہاں بھائی کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہیں"
اس واقعے کے کچھ دن بعد مرزا صاحب کو گھر سے گرفتار کر لیا گیا
مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا صدر الدین آزردہ، نواب مصطفےٰ خان شیفتہ، مولانا حالیؔ جھوٹ بولتے ہیں، کیا وہ اس بات سے ناواقف تھے؟؟؟
میرا دل چاہ رہا ہے یہاں نواب صاحب کا ایک قول پیش ہے:۔ "مجھے مرزا سے عقیدت ان کے زہد واتقا کی بناپر نہ تھی ، فضل و کمال کی بنا پر تھی۔ جوئے کا الزام تو آج عائد ہوا مگر شراب پینا تو ہمیشہ سے معلوم ہے پھر اس الزام کی وجہ سے میری عقیدت کیوں متزلزل ہو جائے"
میرا بھی یہی ماننا ہے، با لفرض اگر وہ اس کے علاوہ بھی ان پر اور الزام لگے ہوتے تب بھی مجھ جیسوں کی غالبؔ سے محبت میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا، ہمیں غالبؔ کی ہر ادا سے پیار ہے، اور یہی غالبؔ کی شخصیت کا حسن بھی ہے، اگرکوئی ٹائم مشین ہو اور ہم جا کر غالبؔ کی شراب اور بقول آپ کے جوا بھی ان سے ترک کروا دیں تو شاید وہ مزا نہ رہے
میں نے اگر غلطی سے آپ کی پوسٹ پر کمنٹ کر ہی دیا تھا، تو آپ نے اسے دل پر لے لیا، اور آپ تو باقاعدہ بدلہ لینے پہنچ گئے ، جناب عالی اگر میری کسی بات سے دل آزاریہ ہوئی ہو تو معذرت، آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہو تو بھی معذرت، لیکن اگر آپ کو بھی Ghalib Lover ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارا اختلاف بنتا ہی نہیں
ہمارا ذمہ غالبؔ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ اس قسم کی بحثیں کر کے لوگوں کو ان سے متنفر کرنا
کیا یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے کہ کسی کی موت کے بعد اس کی اچھائیوں کا چرچا کرو
ہمیں تو اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر ہے غالبؔ کا امیج بھلے عوام کی نظر میں بگڑتا ہے تو بگڑ جائے، ہے نا؟؟؟ بے شک غالبؔ موحد اعظم ، اور انتہائی معنوں میں لبرل تھے، لیکن انہیں نہ تو اپنی شراب نوشی کا فخر تھا نہ ہی اپنے جوا کے الزام میں پکڑے جانے کی خوشی، اور اگر مجھے نیچا دکھا کر آپ کی انا کو تسکین پہنچتی ہے تو مجھے اعتراف ہے کہ اب تک میں نے جھک ہی ماری، میں نے سارا علم چولہے پہ بیٹھے بیٹھے حاصل کیا، خدا را غالبؔ سے نادان دوست والا سلوک نہ کریں،
کیا ہم لوگ گھریا دوستوں میں لڈو یا کیرم کھیلتے وقت مزاق مزاق میں جو بازی ہارنے والے پر جرمانہ عائد کرتے ہیں، اگر اسی الزام میں آپ کو دھر لیا جائے تو کیا کہیں گے اپنے دفاع میں؟؟؟
اور فرخ بھائی صاحب ہمارا علاقے میں ایک عام نقطہ نظر ہے کہ انٹر نیٹ صرف بچے بگاڑتا ہے، اس لیے مجھے چوری چھپے استعمال کرنا پڑتا ہے، نیز کمپیوٹراور انٹرنیٹ کے ضمن میں میری معلومات واجبی سے بھی کم ہیں، آپ نے کل جو شعبدہ کیا اگر پھر بھی ایسا ہی کرنا ہے تو میں نے اس محفل پر پھر کبھی نہیں آنا۔ مغزل بھائی جان اور سر الف عین کو دیکھ کر حوصلہ آیا تھا مگر۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
میری اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دکھاتے۔ لیکن میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،میرا مقصد صرف اس خستہ جان ، بے اولاد ہستی کا دفاع کرنا ہے جس کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں،
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
سودا نہیں ، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے
(پکچر ابھی باقی ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ اگر اس بات پر تماشا نہ کھڑا کیا جائے، اگر کل والے شعبدے ہی کرنے ہیں تو مجھے معاف رکھا جائے۔اور یہ میری آخری تحریر سمجھی جائے )
بقول غالبؔ:۔ جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا)

مزید ایک اور بات کہ یادگار غالب میں حالی نے جیسے واقعہ بیان کیا ہے وہ آپ کی تحریر سے کافی مختلف ہے۔
یادگارِ غالب کا بھی لنک دے رہا ہوں اس کے صفحہ نمبر 29 پر یہ واقعہ درج ہے۔ کوئی بھی یہ تمیز کر سکتا ہے کہ آپ نے حالی کی تحریر بعینہ پیش نہیں کی۔
یادگارِ غالب کا لنک۔
http://www.scribd.com/doc/31779634/Yadgar-e-Ghalib
 

فرخ منظور

لائبریرین
گلزار اور کیفی اعظمی نے ڈرامے کی مجبوریوں کی وجہ سے سکرپٹ میں تبدیلی کی ہو گی اور یہ کوئی بھی ذی ہوش جانتا ہے کہ ڈرامہ بہرحال ایک کہانی ہوتی ہے جس میں حقیقت کا کچھ رنگ تو ہو سکتا ہے لیکن مکمل حقیقت نہیں۔ مغلِ اعظم فلم کی مثال سب کے سامنے ہے کہ اس فلم میں ایک بھی تاریخی حقیقت نہیں بلکہ وہ تمام تر فلم "امتیاز علی تاج" کے ڈرامے "انارکلی" سے ماخوذ ہے۔
 

سعدی غالب

محفلین
آپ کے الفاظ
گلزار اور کیفی اعظمی نے ڈرامے کی مجبوریوں کی وجہ سے سکرپٹ میں تبدیلی کی ہو گی اور یہ کوئی بھی ذی ہوش جانتا ہے کہ ڈرامہ بہرحال ایک کہانی ہوتی ہے جس میں حقیقت کا کچھ رنگ تو ہو سکتا ہے لیکن مکمل حقیقت نہیں۔

میرے الفاظ
کچھ لوگ گلزار ساحب کے ڈائریکٹ کردہ ڈرامے مرزا غالبؔ کو مکمل سوانح حیات سمجھ لیتے ہیں، اگر واقعات کی بے ترتیبی اور مکالمات کو ڈرامے کے مزاج کی مجبوری سمجھ بھی لیا جائے تب بھی اس میں کچھ ایسی غلطیاں ہیں جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ گلزار صاحب جیسے مداح غالبؔ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

مجھے بھی معلوم ہے کہ گلزار صاحب نے انڈیا میں رہنا ہے اور ڈرامہ بھی وہیں ٹیلی کاسٹ ہونا تھا، اس لیے وہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں لے سکتے تھے۔ مگر میرے یہ بات لکھنے کی وجہ یہ تھی، کہ مجھے اکثر لوگ اس ڈرامے کا حوالہ بطور سند دیتے تھے، جس وجہ سے مجھے یہ وضاحت کے ساتھ لکھنا پڑا کہ ڈرامے کو سوانح حیات اور سند نہیں مانا جا سکتا

جوا تو رہا ایک طرف، وہ غالبؔ کو چوسر کھیلتے یا شطرنج کھییلتے دکھا دیتے ، گزارہ ہوجانا تھا، لیکن نصیر الدین شاہ نے اپنے دوست بنسی دھر سے مکالمے میں ایسے الفاظ بولے جن سے صاف ظاہر ہے وہ اپنی قسمت جوئے کی بازیاں جیت کر بدلنا چاہتے ہیں

میں نے غالبؔ کا زمانہ نہیں دیکھا ، نہ آپ نے نہ گلزار اور کیفی صاحب نے، نہ ہی مولانا آزاد مالک رام، رام بابو سکسینہ، مولانا عرشی، گیان چند جین، شیخ اکرام صاحبان نے
لہذا ہمیں مجبورا حالی اور نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب کی آنکھوں دیکھی گواہی پر یقین کرنا ہوگا۔ عینی شایدین کی عدم موجودگی پر تو دہشت گردی کی عدالت بھی شک کا فائدہ دے کے بری کر دیتی ہے، ہم کیوں غالبؔ پر قمار باز کا ٹھپا لگانا چاہتے ہیں؟؟؟؟
غالبؔ دارحی سفید ہونے تک شیو کراتے تھے، مگر ڈرامے میں جوانی سے ہی داڑھی چلی آتی ہے
غالبؔ نے جو مرثیہ زین العابدین عارف کی وفات پر کہا وہ ڈرامے میں غالبؔ اپنے بچے کی قبر پر بیٹھے پڑھ رہے تھے
غالبؔ نے کئی مکان تبدیل کیے زندگی میں مگر ڈرامے میں غالبؔ بچپن سے وفات تک ایک ہی مکان میں نظر آتے ہیں
کیا محقق کا یہی کام ہے کہ وہ متضاد باتوں سے الٹا عوام کو کنفیوز کرے؟؟؟
 

سعدی غالب

محفلین
آپ کو ایک مزے کی گپ سناؤں
شاید اس کے ذریعے آپ میری بات سمجھ سکیں
ابن انشا صاحب کے ایک کالم میں پڑھا تھا، اس لیے الفاظ کی کمی بیشی کو درگزر کیا جائے
ایک گاؤں میں ایک سنیاسی بابا آیا، اس نے اس گاؤں میں کچھ دن ڈیرہ جمایا، 2 آدمی اس کے چیلے بن گئے اور دن رات اس کی خدمت میں لگے رہتے
لیکن ان میں خاندانی رقابت بھی تھی، اس لیے انہوں نے گرو سے کہا، کہ ہمیں خدمت کیلئے الگ الگ کام ذمے لگائے جائیں، لہذا ہوا یوں کہ ایک نے اوپری دھڑ کو اپنی خدمت کیلئے چنا اور دوسرے کے حصے میں نچلا دھڑ آیا
اب وہ اپنی خدمت کی دھاک بٹھانے کیلئے ہر وقت اپنے حصے کے گرو کی خدمت میں لگے رہتے، ای سر پر تیل لگاتا ، مالش کرتا وغیرہ وغیرہ اور دوسرا ٹانگیں دباتا رہتا اور پیر وں کی مالش کرتا
ایک دن ایک چیلے کو شرارت سوجھی اس نے گرو کی ٹانگ پر چٹکی کاٹ لی، دوسرے کو بہت غصہ آیا کہ تم نے میرے حصے کے گرو کا اپمان کیوں کیا، اس نے در جواب آں غزل کے طور پر گرو کے منہ پر تھپڑ مار دیا
پہلے والے کو غصہ آیا کہ یہ تو نے اچھا نہیں کیا، وہ کہیں سے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا لایا اور گرو کی ٹانگوں پر تڑا تڑ برسا دیا، گرو کی ٹانگیں گھٹنوں سے چور کر دیں اس پر دوسرے نے گرو کی چیخ وپکار کی پرواہ کیے بغیر ایک پتھر اٹھایا اور گرو کے سر پر دے مارا، اور گرو جی پرلوک سدھار گئے

کیا ہم غالبؔ گرو کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہیں کر رہے؟؟؟ ہم ایک دوسرے کا تو کچھ بگاڑ نہیں رہے لیکن غالبؔ کا جو حشر ہم کر رہے ہیں اس کا کیا؟؟؟؟ کل کو قیامت کے دن غالبؔ کو کیا منہ دکھائیں گے؟؟؟
غالبؔ کو اپنی برائیاں چھپانا یقینا پسند نہیں تھا، اور نہ اردو شاعری اس شعر کی مثل دکھا پائے گی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
لیکن ہمارا یہ حق نہیں بنتا کہ ہم دعوی کریں غالبؔ سے محبت کا لیکن اپنے ذاتی اندازوں کو تحقیق کا نام دے کر غالبؔ کو ان لوگوں میں تماشا بنائیں جنہوں نے نہ حالی کو پڑھا ہے ، نہ آزاد کو،
ایک بار کلاس میں غالبؔ کی عصری حسیت کا لیکچر ہو رہا تھا تو ایک سوال کے جواب میں میں نے میرؔ ساحب کے الفاظ ہو بہو نقل کر دیئے "اس لڑکے کو اگر کوئی استاد مل گیا تو لاجواب شاعر بنے گا، ورنہ مہمل بکے گا" تو جناب استاد محترم صاحب اتنا غصہ ہوئے تھے کہ، میرؔ جس مقام پر تھے وہ یہ الفاظ "بکے گا" کہہ سکتے تھے، لیکن نہ ہم میرؔ اور نہ غالبؔ کے مقام کے برابر تو دور ان کے پیروں کی خاک بھی نہیں ، اس لیے ہمیں کوئی حق نہیں غالبؔ کیلئے یہ الفاظ بولنے کا،
آپ نے یادگار غالبؔ خود پڑھی ہوگی، مگر ہم نے محترم اساتذہ کرام کی رہنمائی میں پرحی اور کئی بار پڑھی اس لیے یہی فرق ہے آپ کی غالبؔ سے محبت اور میری غالبؔ سے محبت میں
 

سعدی غالب

محفلین
ہم اذان کے بعد والی دعا میں ایک جملہ بولتے ہیں
جس کا ترجمہ ہے
"بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا"
اور قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کا ذکر بلند کرتا ہے
نیز
وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے

کیا خیال ہے؟؟؟
کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ اللہ نے بقول آزاد، گلزار وغیرہ :ایک قمار باز" کا ذکر اتنا بلند کر دیا
اس کی اولاد بھی نہیں تھی، پھر بھی اس کی اتنی اولاد ہے
اس نے ہر بات میں الٹ راستہ اپنایا لیکن پھر بھی اتنی مقبولیت
اس کا کلام مشکل ترین، لیکن سب سے زیادہ پڑھا جانے والا
اس کا دیوان قرآن مجید اور احادیث شریف کی کی کتب کے بعد سب سے زیادہ حفظ کیا جاتا ہے
اس نے اپنا کلام چھانٹی کر کے نکال دیا، پھر بھی آج ہم نسخہ حمیدیہ پڑھ پرھ کے حیرت میں غرق اور مست ہو کر پڑھتے ہیں
علامہ اقبال جنہوں نے کبھی کسی کا قصیدہ نہیں لکھا اوہ اپنی کتاب بانگ درا کا آغاز ہی مرزا غالبؔ سے کرتے ہیں
حالی یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی غالبؔ کو نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے نہیں دیکھا لیکن ساتھ ہی وہ اپنی عقیدت اور محبت کا ظہار بھی کرتے ہیں کہ ان سب کے باوجود بھی ان کی عقیدت میں کمی نہیں آتی
ایک ایسا شاعر جس کا کوئی ذاتی دشمن نہیں وہ انگریزوں کے 17 قصیدےلکھ گیا لیکن مولانا محمد علی جوہر جیسے باغی نہ صرف ان کے معتقد ہوئے بلکہ سب سے پہلے غالبؔ کے مزار کی تعمیر کیلئے مہم بھی انہوں نے چلائی تھی
کیا وہ جادوگر تھا؟؟؟؟ آخر کوئی تو وجہ ہوگی جو ہم سمجھ نہیں پا رہے؟؟؟؟
اب دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں
یا تو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے خلاف (نعوذ باللہ) ایک جواری، اور شرابی کو اتنی عزت دے دی
یا پھر وہ "ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا"
کچھ بھی ہو
اسے ہم ولی سمجھتے ہیں چاہے وہ بادہ خوار بھی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
غالب عظیم شخصیت تھے اس سے کسی کو انکار نہیں
لیکن یہ کھلا غلو ہے

غلو ہماری تہذیبی ثقافت کا حصہ ہے۔ ہم جس سے بھی محبت کرتے ہیں اسے خدا سے کم درجے پر فائز نہیں کرتے۔ اس سے بھی بڑھ کر غلو آپ کو برصغیر کی نعتوں میں مل جائے گا۔
 

فاتح

لائبریرین
(پکچر ابھی باقی ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ اگر اس بات پر تماشا نہ کھڑا کیا جائے، اگر کل والے شعبدے ہی کرنے ہیں تو مجھے معاف رکھا جائے۔اور یہ میری آخری تحریر سمجھی جائے )
بقول غالبؔ:۔ جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا)
محترمہ، قطع نظر آپ کی تحقیق یا نکتۂ نظر کے، حیرت ہے کہ یہ جملے آپ ایک ایسی ویب سائٹ یا فورم پر لکھ رہی ہیں کہ یہ میری آخری تحریر ہو گی جہاں آپ سے کسی نے بحث ہی نہیں کی۔ یہ جملے لکھنا ہیں تو وہاں لکھیں جہاں آپ کے نکتۂ نظر سے اختلاف کیا گیا یعنی فیس بک پر کہ یہ آپ کی فیس بک پر آخری تحریر ہو گی نا کہ اردو ویب محفل پر جہاں کسی نے اختلاف کی جرات ہی نہیں کی۔
امید ہے میری بے حد سیدھی سی بات سمجھ میں آ گئی ہو گی۔
 

فاتح

لائبریرین
اب آتے ہیں آپ کے نکتۂ نظر کی جانب۔ آپ نے جو تین اقتباسات (بلا حوالۂ کتب و صفحہ) نقل کیے ہیں یعنی خواجہ الطاف حسین حالیؔ، خواجہ حسن نظامی اور مولانا آزاد کے اور اگر ان بلا حوالہ اقتباسات کو من و عن ان علمائے ادب کے الفاظ تسلیم کر لیا جائے تب بھی ان میں سے دو اقتباسات (حالی اور آزاد) سے تو واضح طور پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ غالب کو جوا کھیلنے کی عادت تھی:
حالی: "غالبؔ کو چوسر اور شطرنج کھیلنے کا بہت شوق تھااور جب کھیلتے تھے تو برائے نام کچھ بازی بد کر کھیلتے تھے۔"
آزاد: "خواجہ حالی مرحوم نے غالبؔ کی گرفتاری کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پوراقمار بازی کا معاملہ تھا، مرزا نے اپنے مکان کو جوا بازی کا اڈا بنا رکھا تھا۔"
دونوں اقتباسات میں فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر کے بقول غالب چوسر اور شطرنج پر جوا کھیلنے کے عادی تھے لیکن جوئے میں کم پیسوں کی بازی لگاتے تھے اور جب کہ آخر الذکر کے بقول غالب بہت زیادہ جوئے کی لت کا شکار تھے۔
جب کہ تیسرے اقتباس یعنی خواجہ حسن نظامی کے مضمون سے بھی کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ غالب جوا بالکل نہیں کھیلتے تھے بلکہ انھوں نے لکھا کہ
"مرزا اسد اللہ خان بہادر کو دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔"
اس سطر سے تو یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ ان غلط اطلاعات کی نوعیت کیا تھی۔ کیا یہ غلط اطلاع تھی کہ غالب "اس وقت" جوا نہیں بلکہ محض چوسر یا شطرنج کھیل رہے تھے یا غلط اطلاع یہ تھی کہ غالب نے اپنے گھر کو قمار بازی کا اڈا بنا رکھا۔ الخ
باقی آپ نے جتنا کچھ بھی لکھا وہ آپ کا اپنا ذاتی خیال ہے جس کا آپ کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ جو چاہیں جیسے چاہیں سوچیں۔
رہی بات غالب کی طرفداری کی تو اس محفل میں حضور کے مداحین میں وارث صاحب اور فرخ صاحب کے بعد ایک نام اس خاکسار کا بھی آتا ہے لیکن حالی، آزاد اور نظامی تینوں ہی میرے لیے عالی مرتبت ہیں اور میرا مقام محض یہ ہے کہ ان کی تحاریر کو پڑھ کر کچھ سیکھ سکوں۔
اور ہاں گلزار کے غالب پر ڈرامے یا تحقیق کا ذکر میں نے یوں نہیں کیا کہ گلزار نا تو کوئی محقق ہے نا ادیب۔ ہاں گانے شانے وہ اچھے گھڑ لیتا ہے۔ اسی لیے میں نے اس کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا اسے پڑھ کر وقت برباد بھی نہیں کیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ اسے دین سمجھ کر کرتے ہیں غالب سے محبت ولی سمجھ کر کرنا فضول ہے

یعنی جسے آپ ولی سمجھیں اسی سے غلو والی محبت کی جائے؟ محترمہ سعدی غالب تو غالب کو ولی ہی سمجھتی ہیں۔ آپ کے سمجھنے اور ارشاد کرنے سے کیا ہو گا؟
 

محمدظہیر

محفلین
ہم نے اپنا نظر یہ نہیں بتایا
بہت سوں کا عقیدہ ہے کہ دین میں غلو سے نقصان نہیں ہوتا
مثلاً خدا سے محبت کرنے میں غلو کربیٹھے تو کوئی کیوں کر روکے؟
غالب کو ولی کہنے کے لئے ایسی نشانیاں ضروری ہیں جن کی تصدیق ضروری ہے
بہر صورت مزید گفتگو کی گنجائش نہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم نے اپنا نظر یہ نہیں بتایا
بہت سوں کا عقیدہ ہے کہ دین میں غلو سے نقصان نہیں ہوتا
مثلاً خدا سے محبت کرنے میں غلو کربیٹھے تو کوئی کیوں کر روکے؟
غالب کو ولی کہنے کے لئے ایسی نشانیاں ضروری ہیں جن کی تصدیق ضروری ہے
بہر صورت مزید گفتگو کی گنجائش نہیں

خدا کی تعریف میں تو جتنا بھی کہا جائے کم ہی ہوتا ہے کہ اس کی شان بیان کرنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ سو ہم کچھ بھی کہہ لیں اسے غلو نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں نبیوں اور ولیوں کی شان میں کہتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم ولی کو نبی کے اور نبی کو خدا کے برابر نہ کھڑا کردیں۔

اصل موضوع سے انحراف پر قتیلانِ غالب سے معذرت ۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
جب ہم کسی سے واقعی محبت کرتے ہیں تو اسے اس کی تمام تر خامیوں کے باوجود دل و جان سے چاہتے ہیں اور محبت انسان کو حق بات کہنے اور سننے کا حوصلہ عطا کرتی ہے سو غالب سے ہماری محبت بھی ایسی ہی ہے اور ہم غالب کا غیر ضروری دفاع ہرگز نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
سعود عثمانی صاحب کا نعت میں سے ایک شعر ۔
میں نعت کہتا ہوں اور دل میں ڈرتا رہتا ہوں
کہیں گرفت کسی بات پر نہ ہوجائے
 

الف عین

لائبریرین
بحث کہاں سے کہاں چلی جا رہی ہے۔ میں اس میں دخل اندازی اس لئے نہیں کرتا کہ ہر شخص کو اپنے خیالات رکھنے کا حق ہے۔ لیکن جب بات غلو تک پہنچ جاتی ہے تو کوئی خاموش نہیں رہتا۔
گلزار کا سیریل تو میں نے دیکھا نہیں ذکر سنا ہے۔ حالانکہ میں ہندوستانی ہی ہوں لیکن ٹی وی سے دور۔ اس لئے ان کی رائے نہیں معلوم۔ یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ کوئی سند نہیں ہے۔ رہی بات غالب کی، تو اس میں تو کوئی کافر ہی شک کر سکتا ہے کہ غالب جوا نہیں کھیلتے تھے یا شراب نہیں پیتے تھے۔ جنہوں نے بھی الفاظ ایسے استعمال کئے ہیں جن سے ایسا کچھ ظاہر ہوتا ہے، وہ محض کذب و افتراء ہے، چاہے وہ کتنے ہی عظیم ادیب، ولی، فلسفی کیوں نہ ہوں۔
 
Top