سعدی غالب
محفلین
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
(ایک ضروری وضاحت:۔ میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،
میری مجبوری ہے کہ مجھے چوری چھپے نیٹ یوز کرنا پڑتا ہے، لہذا اعتراض برائے اعتراض ، اور تنقید برائے تنقید کا جواب دینے سے مجھے معذور سمجھا جائے)
1847 میں غالبؔ پر اسیری کی مصیبت آئی، اس واقعہ کے متعلق مختلف بیانات
خواجہ الطاف حسین حالیؔ
"غالبؔ کو چوسر اور شطرنج کھیلنے کا بہت شوق تھااور جب کھیلتے تھے تو برائے نام کچھ بازی بد کر کھیلتے تھے۔ کوتوال دشمن تھااس نے قمار بازی کا مقدمہ بنا دیا، مجسٹریٹ غالبؔ کی حیثیت ، مرتبہ، اور ذاتی حالات سے نا واقف تھا۔اس نے چھ ماہ قید کی سزا دے دی۔ سیشن ججی میں اپیل کی گئی، جج اگرچہ غالبؔ کا دوست تھالیکن اس نے بھی تغافل اختیار کر لیااور سزائے قید بحال رکھی۔ صدر میں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ 3 مہینے گزر جانے کے بعد مجسٹریٹ نے خود ہی رہا کر دیا"
خواجہ حسن نظامی
خواجہ حسن نظامی نے "دہلی کا آخری سانس" کے نام سے "احسن الاخبار " کے ان فارسی مضامین کا ترجمہ شائع کیا ہےجو دہلی یا دربار شاہی کے حالات پر مشتمل تھے۔ اس میں لکھتے ہیں
"مرزا اسد اللہ خان بہادر کو دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اور چھ مہینے کی قید با مشقت اور دو سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی، اگر جرمانہ ادا نہ کریں تو چھ ماہ قید میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مقررہ جرمانے کے علاوہ اگر پچاس روپے زیادہ ادا کیے جائیں تو مشقت معاف ہو جائے گا۔ مرزا صاحب نے جرمانہ اور پچاس روپے ادا کر دئیے"
مولانا آزاد
"خوجہ حالی مرحوم نے غالبؔ کی گرفتاری کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پوراقمار بازی کا معملہ تھا، مرزا نے اپنے مکان کو جوا بازی کا اڈا بنا رکھا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے: غدر سے پہلےمرزا کی آمدنی کا وسیلہ صرف سرکاری وظیفہ اور قلعہ کے پچاس روپے تھے۔چونکہ زندگی رئیسانہ بسر کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے ہمیشہ مقروض و پریشان حال رہتےتھے۔ اس زمانے میں دہلی کے بے فکر رئیس زادوں اور چاندنی چوک کے بعض جوہری بچوں نے گزرانِ وقت کے جو مشغلے اختیار کر رکھے تھےان میں ایک قمار کا بھی مشغلہ تھا، گنجفہ عام طور پر کھیلا جاتا تھااور شہر کے کئی دیوان خانوں کی مجلسیں اس باب میں شہرت رکھتی تھیں مرزا بھی اس کے شائق تھے، رفتہ رفتہ ان کے یہاں چاندنی چوک کے بعض جوہری بچے آنے لگےاور باقاعدہ جوا بازی شروع ہوگئی۔ قمار کا عام قاعدہ ہے کہ مہتمم قمار خانہ کا ایک خاص حصہ ہر بازی میں ہوا کرتا ہےاس طرح مرزا صاحب کو ایک اچھی خاصی رقم بے محنت و بے مشقت وصول ہونے لگی وہ خود بھی کھیلتے اور چونکہ اچھے کھلاڑی تھے اس لیے اس میں بھی کچھ نہ کچھ مار ہی لیتے تھے
انگریزی قانون اسے جرم قرار دیتا تھالیکن شہر کی یہ رسم ٹہر گئی تھی کہ رئیس زادوں کے دیوان خانے مستسنیٰ سمجھے جاتے تھے،۔ نیز عرصہ تک شہر کے کوتوال اور حکام ایسے لوگ رہے جن سے غالبؔکی رسم و راہ تھی، لیکن 1845 میں ایک نیاکوتوال آیااس نے آتے ہی سختی سے دیکھ بھال شروع کر دیاور جاسوس لگا دئیے۔ بعض دوستوں نے مرزا غالبؔ کو بار بار فہمائش کی کہ ان مجلسوں کو ملتوی کر دیں لیکن وہ خبردار نہ ہوئے۔ بالآخر ایک دن ایسے موقع پر کہ مجلس قمار گرم اور روپیوں کی ڈھیریاں چنی ہوئی تھیں ۔ کوتوال پہنچا اور لوگ تو پچھواڑے سے نکل بھاگے اور صاحب مکان یعنی مرزا دھر لیے گئے"
اب سعدی غالبؔ کا بیان
مولانا آزاد کا اقتباس آپ نے ملاحظہ فرمایا اور حالی و نظامی کا بھی
یہ فرق ذہن میں رکھیں کہ حالی غالبؔ کے اور نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب کے انتہائی قریب رہے اور حالی کا مقام و مرتبہ، نیز ان کا بلند کردار بھی کسی سے چھپا نہیں
لیکن مولانا آزاد کا ادبی مرتبہ ایک طرف ان کے اس اقتباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے جیو ٹی وی کا کیمرہ مین وقوعےکی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کر رہا ہو۔ جب کہ 1 حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا آزاد ہوں یا مولوی ذکا اللہ دہلوی یہ حضرات ایک دن بھی غالبؔ کے قریب رہنا تو دور ان سے بالمشافہ ملے بھی نہیں
کیا آپ حالی اور شیفتہ کے آنکھوں دیکھے پر یقین کریں گے یا مولانا آزاد کی سنی سنائی پر مبنی افسانہ طرازی پر؟؟؟
یہ آپ کی عقل سلیم اور ایمان کا امتحان ہے
2 مولانا آزاد خاقانی ہند ملک الشعرا استاد شیخ ابراہیم ذوق کے شاگرد ہیں
آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ ذوق کا شاگرد غالبؔ کا ذکر غیر جانبداری سے کرے گا؟؟؟
آب حیات میں مولانا آزاد نے غالبؔ کا مقام و مرتبہ ذوق سے کم ثابت کرنے کا جو زور لگایا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
3 :۔ مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ غدر سے پہلے مرزا صاحب کا گزارہ پنشن اور قلعہ سے ملنے والی 50 روپے تنخواہ پر ہوتا تھا۔ اور مولانا کے کہنے کے مطابق اسی وجہ سے غالبؔ نے قمار بازی کو کمائی کا ذریعہ بنایا
مگر یہ کیوں بھول گئے کہ غالبؔ 1847 میں قید ہوئے اور قلعہ میں ملازمت 1850میں ہوئی،
یعنی کہ مولانا کے اس جھوٹ کا پول بھی کھل گیا جو انہوں نے غالبؔ پر جوش عداوت میں بہتان طرازی کی
ا سکے علاوہ مولانا آزاد کی آب حیات میں درج غالبؔ سے متعلقہ شاعری کے انتخاب سے متعلق بولے گئے جھوٹ مولانا عبدالباری آسی نے اپنے والد صاحب کی چشم دید گواہی کی بنا پر ثابت کیے ہیں
کیا اب بھی آپ مولانا کے اس افسانے پر اعتبار کریں گے؟؟؟
اور اب آتے ہیں گلزاراور کیفی صاحب کی غلطیوں کی طرف
لیکن اس سے پہلے فرخ صاحب یہ واضح کر دوں کہ شیخ سعدی ؒ کے مطابق "بزرگی بعقل است نہ بسال" یقیناً آپ بھی مجھ سے سینئر ہیں، گلزار صاحب کے ادبی مقام و مرتبے میں مجھے کلام نہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی میں میرے محترم اساتذہ کرام (جن کی شاگردی پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا ) وہ مجھے "بت شکن" کے نام سے پکارتے تھے
یقیناً اس وقت میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں، یہی مسئلہ غالبؔ کو بھی پیش آیا
ہوں ظہوری کے مقابل ، خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے، کہ مشہور نہیں
آج نہ سہی لیکن جب میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ ہو جائے گا تب بھی میرا یہی موقف ہوگا
میرا مقصد یہاں ڈینگیں مارنا نہیں بس دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے
گلزار صاحب کے ڈرامے مرزا غالبؔ میں مرزا صاحب کی زبان سے عین وہی مکالمے بلوائے گئے جو ابھی میں نے مولانا صاحب کے اقتباس کی صورت میں پیش کیے
گلزار صاحب کی تحقیق کے مطابق مرزا غالبؔ سے کوتوال کی ایک وجہ عناد "نواب جان" بھی تھی
لیکن اگر آپ ڈرامے کا وہ منظر ذہن میں لائیں جس میں بازار میں مرغوں کی لڑائی ہو رہی تھی اور کوتوال صاحب کی انٹری ہوئی اور اس نے ایک بوڑھے کو دھمکی آمیز الفاظ میں کہا" ایک دن اس شہر سے جوئے کا خاتمہ نہ کر دیا تو میرا نام بھی منیر خان نہیں، اور کہہ دینا اپنے اس مرزا سے ،اس دن بڑا مزاق کر رہے تھے، کسی دن گھر میں گھس کر دھر لوں گا "
اب اس خاکسارکی عرض یہ ہے کہ اس کوتوال کا نام منیر خان نہیں بلکہ فیض الحسن تھا فیض الحسن سہارنپوری
اور یہ جو مرزا کے مزاق کی اس نے بات کی تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ مزاق کونسا تھا؟؟؟
فیض الحسن سے پہلے والا کوتوال (مرزا خانی) مرزا غالب کا دوست تھا، پس جب فیض الحسن کا تبادلہ دلی میں ہوا تو مرزا صاحب نے حسب روایت اس بھی راہ و رسم بڑھانے کا سوچا، اور اس کے بار میں سنا کہ فیض الحسن شطرنج کا اچھا کھلاڑی ہے۔ غالبؔ نے اسے اپنے ہاں کھانے پر بلایا، کہ اسی بہانےشطرنج کی ایک آدھ بازی ہوجائے گی
اتفاق سے اس دن دلی میں گلیوں کی صفائی ہو رہی تھی اور کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گلی میں سے آجا رہے تھے، یہ دیکھ کر کوتوال صاحب نے کہا "مرزا !دلی میں گدھے بہت ہیں"
سامنے بھی تو حیوان ِ ظریف تھے، وہ بھلا کب حساب رکھنے والے تھے، تو مرزا نے برجستہ کہا"ہاں بھائی کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہیں"
اس واقعے کے کچھ دن بعد مرزا صاحب کو گھر سے گرفتار کر لیا گیا
مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا صدر الدین آزردہ، نواب مصطفےٰ خان شیفتہ، مولانا حالیؔ جھوٹ بولتے ہیں، کیا وہ اس بات سے ناواقف تھے؟؟؟
میرا دل چاہ رہا ہے یہاں نواب صاحب کا ایک قول پیش ہے:۔ "مجھے مرزا سے عقیدت ان کے زہد واتقا کی بناپر نہ تھی ، فضل و کمال کی بنا پر تھی۔ جوئے کا الزام تو آج عائد ہوا مگر شراب پینا تو ہمیشہ سے معلوم ہے پھر اس الزام کی وجہ سے میری عقیدت کیوں متزلزل ہو جائے"
میرا بھی یہی ماننا ہے، با لفرض اگر وہ اس کے علاوہ بھی ان پر اور الزام لگے ہوتے تب بھی مجھ جیسوں کی غالبؔ سے محبت میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا، ہمیں غالبؔ کی ہر ادا سے پیار ہے، اور یہی غالبؔ کی شخصیت کا حسن بھی ہے، اگرکوئی ٹائم مشین ہو اور ہم جا کر غالبؔ کی شراب اور بقول آپ کے جوا بھی ان سے ترک کروا دیں تو شاید وہ مزا نہ رہے
میں نے اگر غلطی سے آپ کی پوسٹ پر کمنٹ کر ہی دیا تھا، تو آپ نے اسے دل پر لے لیا، اور آپ تو باقاعدہ بدلہ لینے پہنچ گئے ، جناب عالی اگر میری کسی بات سے دل آزاریہ ہوئی ہو تو معذرت، آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہو تو بھی معذرت، لیکن اگر آپ کو بھی Ghalib Lover ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارا اختلاف بنتا ہی نہیں
ہمارا ذمہ غالبؔ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ اس قسم کی بحثیں کر کے لوگوں کو ان سے متنفر کرنا
کیا یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے کہ کسی کی موت کے بعد اس کی اچھائیوں کا چرچا کرو
ہمیں تو اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر ہے غالبؔ کا امیج بھلے عوام کی نظر میں بگڑتا ہے تو بگڑ جائے، ہے نا؟؟؟ بے شک غالبؔ موحد اعظم ، اور انتہائی معنوں میں لبرل تھے، لیکن انہیں نہ تو اپنی شراب نوشی کا فخر تھا نہ ہی اپنے جوا کے الزام میں پکڑے جانے کی خوشی، اور اگر مجھے نیچا دکھا کر آپ کی انا کو تسکین پہنچتی ہے تو مجھے اعتراف ہے کہ اب تک میں نے جھک ہی ماری، میں نے سارا علم چولہے پہ بیٹھے بیٹھے حاصل کیا، خدا را غالبؔ سے نادان دوست والا سلوک نہ کریں،
کیا ہم لوگ گھریا دوستوں میں لڈو یا کیرم کھیلتے وقت مزاق مزاق میں جو بازی ہارنے والے پر جرمانہ عائد کرتے ہیں، اگر اسی الزام میں آپ کو دھر لیا جائے تو کیا کہیں گے اپنے دفاع میں؟؟؟
اور فرخ بھائی صاحب ہمارا علاقے میں ایک عام نقطہ نظر ہے کہ انٹر نیٹ صرف بچے بگاڑتا ہے، اس لیے مجھے چوری چھپے استعمال کرنا پڑتا ہے، نیز کمپیوٹراور انٹرنیٹ کے ضمن میں میری معلومات واجبی سے بھی کم ہیں، آپ نے کل جو شعبدہ کیا اگر پھر بھی ایسا ہی کرنا ہے تو میں نے اس محفل پر پھر کبھی نہیں آنا۔ مغزل بھائی جان اور سر الف عین کو دیکھ کر حوصلہ آیا تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دکھاتے۔ لیکن میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،میرا مقصد صرف اس خستہ جان ، بے اولاد ہستی کا دفاع کرنا ہے جس کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں،
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
سودا نہیں ، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے
(پکچر ابھی باقی ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ اگر اس بات پر تماشا نہ کھڑا کیا جائے، اگر کل والے شعبدے ہی کرنے ہیں تو مجھے معاف رکھا جائے۔اور یہ میری آخری تحریر سمجھی جائے )
بقول غالبؔ:۔ جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا)
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
(ایک ضروری وضاحت:۔ میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،
میری مجبوری ہے کہ مجھے چوری چھپے نیٹ یوز کرنا پڑتا ہے، لہذا اعتراض برائے اعتراض ، اور تنقید برائے تنقید کا جواب دینے سے مجھے معذور سمجھا جائے)
1847 میں غالبؔ پر اسیری کی مصیبت آئی، اس واقعہ کے متعلق مختلف بیانات
خواجہ الطاف حسین حالیؔ
"غالبؔ کو چوسر اور شطرنج کھیلنے کا بہت شوق تھااور جب کھیلتے تھے تو برائے نام کچھ بازی بد کر کھیلتے تھے۔ کوتوال دشمن تھااس نے قمار بازی کا مقدمہ بنا دیا، مجسٹریٹ غالبؔ کی حیثیت ، مرتبہ، اور ذاتی حالات سے نا واقف تھا۔اس نے چھ ماہ قید کی سزا دے دی۔ سیشن ججی میں اپیل کی گئی، جج اگرچہ غالبؔ کا دوست تھالیکن اس نے بھی تغافل اختیار کر لیااور سزائے قید بحال رکھی۔ صدر میں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ 3 مہینے گزر جانے کے بعد مجسٹریٹ نے خود ہی رہا کر دیا"
خواجہ حسن نظامی
خواجہ حسن نظامی نے "دہلی کا آخری سانس" کے نام سے "احسن الاخبار " کے ان فارسی مضامین کا ترجمہ شائع کیا ہےجو دہلی یا دربار شاہی کے حالات پر مشتمل تھے۔ اس میں لکھتے ہیں
"مرزا اسد اللہ خان بہادر کو دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اور چھ مہینے کی قید با مشقت اور دو سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی، اگر جرمانہ ادا نہ کریں تو چھ ماہ قید میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مقررہ جرمانے کے علاوہ اگر پچاس روپے زیادہ ادا کیے جائیں تو مشقت معاف ہو جائے گا۔ مرزا صاحب نے جرمانہ اور پچاس روپے ادا کر دئیے"
مولانا آزاد
"خوجہ حالی مرحوم نے غالبؔ کی گرفتاری کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پوراقمار بازی کا معملہ تھا، مرزا نے اپنے مکان کو جوا بازی کا اڈا بنا رکھا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے: غدر سے پہلےمرزا کی آمدنی کا وسیلہ صرف سرکاری وظیفہ اور قلعہ کے پچاس روپے تھے۔چونکہ زندگی رئیسانہ بسر کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے ہمیشہ مقروض و پریشان حال رہتےتھے۔ اس زمانے میں دہلی کے بے فکر رئیس زادوں اور چاندنی چوک کے بعض جوہری بچوں نے گزرانِ وقت کے جو مشغلے اختیار کر رکھے تھےان میں ایک قمار کا بھی مشغلہ تھا، گنجفہ عام طور پر کھیلا جاتا تھااور شہر کے کئی دیوان خانوں کی مجلسیں اس باب میں شہرت رکھتی تھیں مرزا بھی اس کے شائق تھے، رفتہ رفتہ ان کے یہاں چاندنی چوک کے بعض جوہری بچے آنے لگےاور باقاعدہ جوا بازی شروع ہوگئی۔ قمار کا عام قاعدہ ہے کہ مہتمم قمار خانہ کا ایک خاص حصہ ہر بازی میں ہوا کرتا ہےاس طرح مرزا صاحب کو ایک اچھی خاصی رقم بے محنت و بے مشقت وصول ہونے لگی وہ خود بھی کھیلتے اور چونکہ اچھے کھلاڑی تھے اس لیے اس میں بھی کچھ نہ کچھ مار ہی لیتے تھے
انگریزی قانون اسے جرم قرار دیتا تھالیکن شہر کی یہ رسم ٹہر گئی تھی کہ رئیس زادوں کے دیوان خانے مستسنیٰ سمجھے جاتے تھے،۔ نیز عرصہ تک شہر کے کوتوال اور حکام ایسے لوگ رہے جن سے غالبؔکی رسم و راہ تھی، لیکن 1845 میں ایک نیاکوتوال آیااس نے آتے ہی سختی سے دیکھ بھال شروع کر دیاور جاسوس لگا دئیے۔ بعض دوستوں نے مرزا غالبؔ کو بار بار فہمائش کی کہ ان مجلسوں کو ملتوی کر دیں لیکن وہ خبردار نہ ہوئے۔ بالآخر ایک دن ایسے موقع پر کہ مجلس قمار گرم اور روپیوں کی ڈھیریاں چنی ہوئی تھیں ۔ کوتوال پہنچا اور لوگ تو پچھواڑے سے نکل بھاگے اور صاحب مکان یعنی مرزا دھر لیے گئے"
اب سعدی غالبؔ کا بیان
مولانا آزاد کا اقتباس آپ نے ملاحظہ فرمایا اور حالی و نظامی کا بھی
یہ فرق ذہن میں رکھیں کہ حالی غالبؔ کے اور نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب کے انتہائی قریب رہے اور حالی کا مقام و مرتبہ، نیز ان کا بلند کردار بھی کسی سے چھپا نہیں
لیکن مولانا آزاد کا ادبی مرتبہ ایک طرف ان کے اس اقتباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے جیو ٹی وی کا کیمرہ مین وقوعےکی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کر رہا ہو۔ جب کہ 1 حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا آزاد ہوں یا مولوی ذکا اللہ دہلوی یہ حضرات ایک دن بھی غالبؔ کے قریب رہنا تو دور ان سے بالمشافہ ملے بھی نہیں
کیا آپ حالی اور شیفتہ کے آنکھوں دیکھے پر یقین کریں گے یا مولانا آزاد کی سنی سنائی پر مبنی افسانہ طرازی پر؟؟؟
یہ آپ کی عقل سلیم اور ایمان کا امتحان ہے
2 مولانا آزاد خاقانی ہند ملک الشعرا استاد شیخ ابراہیم ذوق کے شاگرد ہیں
آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ ذوق کا شاگرد غالبؔ کا ذکر غیر جانبداری سے کرے گا؟؟؟
آب حیات میں مولانا آزاد نے غالبؔ کا مقام و مرتبہ ذوق سے کم ثابت کرنے کا جو زور لگایا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
3 :۔ مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ غدر سے پہلے مرزا صاحب کا گزارہ پنشن اور قلعہ سے ملنے والی 50 روپے تنخواہ پر ہوتا تھا۔ اور مولانا کے کہنے کے مطابق اسی وجہ سے غالبؔ نے قمار بازی کو کمائی کا ذریعہ بنایا
مگر یہ کیوں بھول گئے کہ غالبؔ 1847 میں قید ہوئے اور قلعہ میں ملازمت 1850میں ہوئی،
یعنی کہ مولانا کے اس جھوٹ کا پول بھی کھل گیا جو انہوں نے غالبؔ پر جوش عداوت میں بہتان طرازی کی
ا سکے علاوہ مولانا آزاد کی آب حیات میں درج غالبؔ سے متعلقہ شاعری کے انتخاب سے متعلق بولے گئے جھوٹ مولانا عبدالباری آسی نے اپنے والد صاحب کی چشم دید گواہی کی بنا پر ثابت کیے ہیں
کیا اب بھی آپ مولانا کے اس افسانے پر اعتبار کریں گے؟؟؟
اور اب آتے ہیں گلزاراور کیفی صاحب کی غلطیوں کی طرف
لیکن اس سے پہلے فرخ صاحب یہ واضح کر دوں کہ شیخ سعدی ؒ کے مطابق "بزرگی بعقل است نہ بسال" یقیناً آپ بھی مجھ سے سینئر ہیں، گلزار صاحب کے ادبی مقام و مرتبے میں مجھے کلام نہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی میں میرے محترم اساتذہ کرام (جن کی شاگردی پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا ) وہ مجھے "بت شکن" کے نام سے پکارتے تھے
یقیناً اس وقت میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں، یہی مسئلہ غالبؔ کو بھی پیش آیا
ہوں ظہوری کے مقابل ، خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے، کہ مشہور نہیں
آج نہ سہی لیکن جب میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ ہو جائے گا تب بھی میرا یہی موقف ہوگا
میرا مقصد یہاں ڈینگیں مارنا نہیں بس دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے
گلزار صاحب کے ڈرامے مرزا غالبؔ میں مرزا صاحب کی زبان سے عین وہی مکالمے بلوائے گئے جو ابھی میں نے مولانا صاحب کے اقتباس کی صورت میں پیش کیے
گلزار صاحب کی تحقیق کے مطابق مرزا غالبؔ سے کوتوال کی ایک وجہ عناد "نواب جان" بھی تھی
لیکن اگر آپ ڈرامے کا وہ منظر ذہن میں لائیں جس میں بازار میں مرغوں کی لڑائی ہو رہی تھی اور کوتوال صاحب کی انٹری ہوئی اور اس نے ایک بوڑھے کو دھمکی آمیز الفاظ میں کہا" ایک دن اس شہر سے جوئے کا خاتمہ نہ کر دیا تو میرا نام بھی منیر خان نہیں، اور کہہ دینا اپنے اس مرزا سے ،اس دن بڑا مزاق کر رہے تھے، کسی دن گھر میں گھس کر دھر لوں گا "
اب اس خاکسارکی عرض یہ ہے کہ اس کوتوال کا نام منیر خان نہیں بلکہ فیض الحسن تھا فیض الحسن سہارنپوری
اور یہ جو مرزا کے مزاق کی اس نے بات کی تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ مزاق کونسا تھا؟؟؟
فیض الحسن سے پہلے والا کوتوال (مرزا خانی) مرزا غالب کا دوست تھا، پس جب فیض الحسن کا تبادلہ دلی میں ہوا تو مرزا صاحب نے حسب روایت اس بھی راہ و رسم بڑھانے کا سوچا، اور اس کے بار میں سنا کہ فیض الحسن شطرنج کا اچھا کھلاڑی ہے۔ غالبؔ نے اسے اپنے ہاں کھانے پر بلایا، کہ اسی بہانےشطرنج کی ایک آدھ بازی ہوجائے گی
اتفاق سے اس دن دلی میں گلیوں کی صفائی ہو رہی تھی اور کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گلی میں سے آجا رہے تھے، یہ دیکھ کر کوتوال صاحب نے کہا "مرزا !دلی میں گدھے بہت ہیں"
سامنے بھی تو حیوان ِ ظریف تھے، وہ بھلا کب حساب رکھنے والے تھے، تو مرزا نے برجستہ کہا"ہاں بھائی کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہیں"
اس واقعے کے کچھ دن بعد مرزا صاحب کو گھر سے گرفتار کر لیا گیا
مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا صدر الدین آزردہ، نواب مصطفےٰ خان شیفتہ، مولانا حالیؔ جھوٹ بولتے ہیں، کیا وہ اس بات سے ناواقف تھے؟؟؟
میرا دل چاہ رہا ہے یہاں نواب صاحب کا ایک قول پیش ہے:۔ "مجھے مرزا سے عقیدت ان کے زہد واتقا کی بناپر نہ تھی ، فضل و کمال کی بنا پر تھی۔ جوئے کا الزام تو آج عائد ہوا مگر شراب پینا تو ہمیشہ سے معلوم ہے پھر اس الزام کی وجہ سے میری عقیدت کیوں متزلزل ہو جائے"
میرا بھی یہی ماننا ہے، با لفرض اگر وہ اس کے علاوہ بھی ان پر اور الزام لگے ہوتے تب بھی مجھ جیسوں کی غالبؔ سے محبت میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا، ہمیں غالبؔ کی ہر ادا سے پیار ہے، اور یہی غالبؔ کی شخصیت کا حسن بھی ہے، اگرکوئی ٹائم مشین ہو اور ہم جا کر غالبؔ کی شراب اور بقول آپ کے جوا بھی ان سے ترک کروا دیں تو شاید وہ مزا نہ رہے
میں نے اگر غلطی سے آپ کی پوسٹ پر کمنٹ کر ہی دیا تھا، تو آپ نے اسے دل پر لے لیا، اور آپ تو باقاعدہ بدلہ لینے پہنچ گئے ، جناب عالی اگر میری کسی بات سے دل آزاریہ ہوئی ہو تو معذرت، آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہو تو بھی معذرت، لیکن اگر آپ کو بھی Ghalib Lover ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارا اختلاف بنتا ہی نہیں
ہمارا ذمہ غالبؔ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ اس قسم کی بحثیں کر کے لوگوں کو ان سے متنفر کرنا
کیا یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے کہ کسی کی موت کے بعد اس کی اچھائیوں کا چرچا کرو
ہمیں تو اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر ہے غالبؔ کا امیج بھلے عوام کی نظر میں بگڑتا ہے تو بگڑ جائے، ہے نا؟؟؟ بے شک غالبؔ موحد اعظم ، اور انتہائی معنوں میں لبرل تھے، لیکن انہیں نہ تو اپنی شراب نوشی کا فخر تھا نہ ہی اپنے جوا کے الزام میں پکڑے جانے کی خوشی، اور اگر مجھے نیچا دکھا کر آپ کی انا کو تسکین پہنچتی ہے تو مجھے اعتراف ہے کہ اب تک میں نے جھک ہی ماری، میں نے سارا علم چولہے پہ بیٹھے بیٹھے حاصل کیا، خدا را غالبؔ سے نادان دوست والا سلوک نہ کریں،
کیا ہم لوگ گھریا دوستوں میں لڈو یا کیرم کھیلتے وقت مزاق مزاق میں جو بازی ہارنے والے پر جرمانہ عائد کرتے ہیں، اگر اسی الزام میں آپ کو دھر لیا جائے تو کیا کہیں گے اپنے دفاع میں؟؟؟
اور فرخ بھائی صاحب ہمارا علاقے میں ایک عام نقطہ نظر ہے کہ انٹر نیٹ صرف بچے بگاڑتا ہے، اس لیے مجھے چوری چھپے استعمال کرنا پڑتا ہے، نیز کمپیوٹراور انٹرنیٹ کے ضمن میں میری معلومات واجبی سے بھی کم ہیں، آپ نے کل جو شعبدہ کیا اگر پھر بھی ایسا ہی کرنا ہے تو میں نے اس محفل پر پھر کبھی نہیں آنا۔ مغزل بھائی جان اور سر الف عین کو دیکھ کر حوصلہ آیا تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دکھاتے۔ لیکن میرا مقصد ہر گز ہر گز کسی کو نیچا دکھانا یا کم علم ثابت کرنا نہیں،میرا مقصد صرف اس خستہ جان ، بے اولاد ہستی کا دفاع کرنا ہے جس کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں،
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
سودا نہیں ، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے
(پکچر ابھی باقی ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ اگر اس بات پر تماشا نہ کھڑا کیا جائے، اگر کل والے شعبدے ہی کرنے ہیں تو مجھے معاف رکھا جائے۔اور یہ میری آخری تحریر سمجھی جائے )
بقول غالبؔ:۔ جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا)