شمشاد بھائی، آپ کا گاؤں کون سا ہے؟خوبصورت تصاویر ہیں۔
میرے گاؤں میں ابھی بھی ٹانگے چلتے ہیں اور اب تو چنگ چی بہت ہو گئے ہیں۔
افسوس کہ سڑک کی تعمیر کرتے ہوئے زیادہ تر درختوں کا صفایا کردیا گیا اور اب وہ سڑک ویسی نہیں رہی جیسی کسی وقت میں ہوا کرتی تھی۔
آپ نے شاید وہ سڑک دیکھی نہیں اور آپ کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ وہاں موجود درخت ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے تھے۔جب سڑک بنے گی، یا اس کو کھلا کیا جائے گا تو درختوں کا نقصان تو ہو گا۔ اس کا کوئی اور طریقہ تو ہے نہیں۔
پھر تو میرے ننھیال کے پاس ہوا۔میرا گاؤں نارووال سے کوئی تین میل کے فاصلے پر ہے۔
گاؤں اور قصبے یہاں مغربی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتے ہیں لیکن وہ پاکستان کی طرح 18 ویں صدی جیسے نہیں بلکہ 21 ویں صدی کی جدید جدتوں کیساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔یا حیرت
پاکستان میں ابھی لوگ اٹھارویں صدیں میں زندہ ہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیرت ہے کہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں
آپ نے شاید وہ سڑک دیکھی نہیں اور آپ کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ وہاں موجود درخت ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے تھے۔
لیجئے محترم اراکین، کچھ اور تصاویر پیشِ خدمت ہیں:
آپ تو آپ، آپ کے صدرِ شعبہ بھی مرزا صاحباں والے مرزا کے یار نکلے؟موٹرسائیکل کی پچھلی نشست پر زاہد حسین بھٹی صاحب بیٹھے تھے، جو کالج میں میرے صدرِ شعبہ ہیں۔ وہ چونکہ اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، لٰہذا وہ پیچھے بیٹھے مجھے راستہ بتانے کے ساتھ ساتھ مختلف دیہات کے بارے میں معلومات بھی دے رہے تھے