فراز ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے ...احمد فراز...اے عشق جنوں پیشہ

طارق شاہ

محفلین
بزرگوار! آپ کے حکم کے مطابق آپ کو بڑھاپے کا ایڈوانٹج دیا ورنہ آپ کا مراسلہ اصل نکتے سے اتنا دور جا پڑا ہے کہ الحفیظ والامان اور آپ کا تمام مراسلہ کل ملا کر بھی کسی ایک نکتے کا بھی دفاع نہیں کر پایا یعنی فراز کی اس فاش غلطی کو درست ثابت نہیں کر پایا۔ :)
تشکّر اس کرم فرمائی کا، نسبتِ فراز کسی طور بھی مجھے معیوب نہیں، خواہ وہ عمر سے ہو یا فہم سے !
بہت خوش رہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے​
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے​
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے​
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے​
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح​
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے​
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے​
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے​
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی​
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے​
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست​
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے​
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز​
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے​
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر​
یہ جو دیوارِ قفس ظاہرن آراستہ ہے​
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ​
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے​
1؎ قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا۔
(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص36)

میری نظر میں اس غزل میں کوئی عیب نہیں ہے، قوافی درست ہیں اور ردیف بھی۔ منع میں گڑ بڑ ہے تو فراز نے خود نشاندہی کر دی۔

غالب کی ایک غزل دیکھیے

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

اس میں قافیہ آ ہے یعن الف ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز اور ردیف نہ ہوا۔

اب اسی غزل کا ایک شعر دیکھیے

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، دلستاں روانہ ہوا

اس میں ردیف کا نہ علیحدہ نہیں آیا بلکہ قافیہ کا حصہ بن گیا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ ایک عیب ہے لیکن اگر اسے خوبی سے برتا جائے تو یہ عیب نہیں بلکہ حسن ہے اور غالب کا مندرجہ بالا شعر اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

فراز کی غزل کا بعینہ یہی حال ہے۔

اسکا قافیہ اَن ہے یعنی نون ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز، جیسے سخن میں خن، انجمن میں من اور اسی طرح دیگر قوافی۔ جبکہ ردیف "آراستہ ہے" ہے۔

اب ذرا یہ شعر دیکھیے
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے

اس میں قافیہ بن ہے جو کہ مطلع کے قوافی کے مطابق بالکل صحیح ہے لیکن ردیف کے الف کو قافیہ کا حصہ بنا دیا ہے یعنی قافیہ ردیف "بن آراستہ ہے" کو بنا راستہ ہے۔ اس میں نہ قافیے کا کچھ نقصان ہوا نہ ردیف کا فقط ردیف کے ایک جز کو قافیے کا حصہ بنا دیا جیسا کہ غالب کے شعر میں ہے۔ اسی طرح مقطع میں فنا راستہ ہے میں بھی یہی صورتحال ہے۔

بحر الفصاحت کے شروع میں قدرت اللہ نقوی کے مقدمے میں اس پر کچھ بحث ہے اور انہوں نے کسی اور استاد کا ایک ایسا ہی شعر بھی درج کیا ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری نظر میں اس غزل میں کوئی عیب نہیں ہے، قوافی درست ہیں اور ردیف بھی۔ منع میں گڑ بڑ ہے تو فراز نے خود نشاندہی کر دی۔

غالب کی ایک غزل دیکھیے

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

اس میں قافیہ آ ہے یعن الف ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز اور ردیف نہ ہوا۔

اب اسی غزل کا ایک شعر دیکھیے

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، دلستاں روانہ ہوا

اس میں ردیف کا نہ علیحدہ نہیں آیا بلکہ قافیہ کا حصہ بن گیا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ ایک عیب ہے لیکن اگر اسے خوبی سے برتا جائے تو یہ عیب نہیں بلکہ حسن ہے اور غالب کا مندرجہ بالا شعر اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

فراز کی غزل کا بعینہ یہی حال ہے۔

اسکا قافیہ اَن ہے یعنی نون ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز، جیسے سخن میں خن، انجمن میں من اور اسی طرح دیگر قوافی۔ جبکہ ردیف "آراستہ ہے" ہے۔

اب ذرا یہ شعر دیکھیے
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے

اس میں قافیہ بن ہے جو کہ مطلع کے قوافی کے مطابق بالکل صحیح ہے لیکن ردیف کے الف کو قافیہ کا حصہ بنا دیا ہے یعنی قافیہ ردیف "بن آراستہ ہے" کو بنا راستہ ہے۔ اس میں نہ قافیے کا کچھ نقصان ہوا نہ ردیف کا فقط ردیف کے ایک جز کو قافیے کا حصہ بنا دیا جیسا کہ غالب کے شعر میں ہے۔ اسی طرح مقطع میں فنا راستہ ہے میں بھی یہی صورتحال ہے۔

بحر الفصاحت کے شروع میں قدرت اللہ نقوی کے مقدمے میں اس پر کچھ بحث ہے اور انہوں نے کسی اور استاد کا ایک ایسا ہی شعر بھی درج کیا ہے۔

وارث بھائی یعنی فراز نے کوئی غلطی نہیں کی اور ساری غزل درست ہے؟
 
ویسے غالب کی یہ غزل میرے ذہن میں بھی تھی. اور روانہ کو قافیہ کرنا متفقہ طور پر سب اہل علم حضرات کے نزدیک "اردو" میں جائز نہیں ہے. یہ ایسی ہی بات ہے جیسے غالب نے اسی ردیف کی ایک اور غزل میں تسلی کا قافیہ تقوی کر دیا. لیکن اسکی بنیاد پر اگر بعد کے شعرا اس کو بنیاد بنائیں تو ازروئے علم و فن یہ ہر گز جائز نہیں.
بات یہ ہے کہ اول تو ایسا کرنا جائز نہیں
لیکن مان لیں کہ قافیہ پہلے انجمنا تھا تو اس میں قافیہ کے اصل و زوائد کا تعین کیسے ہوگا؟ اس میں روی کیا ہوگا؟ اگر امنجمنا کے آخری لفظ کو روی کہیں تو قافیہ کے اصلی اور زائد حروف کا سارا نظام ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے.
اور اس اجازت سے ایسے قافیہ بھی جائز ہوجائیں گے جو سرے سے خلاف اصول ہیں. مثلا:
مقصدا, جراتا, عزتا, مسلکا, محسنا وغیرہ یہ سب قافیے اس الف کو روی بنانے سے جائز ہوجاتے ہیں جیسے ہم تمنا اور مداوا کو قافیہ صرف الف کی بنیاد پر کرتے ہیں.
بات اصل میں یہ ہے الف کا وصال تقطیع کی حد تک رکھیں تو بہتر. اور قافیہ کاروی انجمن کے نون کو ہی مانیں.تقطیع کی اجازت سے قافیہ کا نظام منہدم کرنا قطعاً جائز نہیں.


منع والے مصرعے کے بارے میں میں پہلے بھی کہہ چکااور اب بھی یہی کہوں گا کہ فراز سے دو غلطیاں ہوئی ہیں جس میں سے ایک کی نشاندہی کی ہے.
یعنی اگر قافیہ کو "عین" کی وجہ سے غلط کہا تو قافیہ کے ساتھ تلفظ کی غلطی بھی نون کو متحرک کرکے کردی.
دوسری صورت میں قافیہ کے ساتھ مصرع بے وزن ہے.

محمد وارث
فاتح
محمد بلال اعظم
طارق شاہ
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے غالب کی یہ غزل میرے ذہن میں بھی تھی. اور روانہ کو قافیہ کرنا متفقہ طور پر سب اہل علم حضرات کے نزدیک "اردو" میں جائز نہیں ہے. یہ ایسی ہی بات ہے جیسے غالب نے اسی ردیف کی ایک اور غزل میں تسلی کا قافیہ تقوی کر دیا. لیکن اسکی بنیاد پر اگر بعد کے شعرا اس کو بنیاد بنائیں تو ازروئے علم و فن یہ ہر گز جائز نہیں.

محمد وارث
فاتح
محمد بلال اعظم
طارق شاہ

قطع نظر آپ کی دوسری باتوں سے مجھے اس سے سخت اور اصولی اختلاف ہے۔ غالب کا کلام سند ہے چاہے اس میں ہے غلطی ہے یا نہیں کیونکہ علم و فن اور لغات کے قوانین اساتذہ اور اہلیانِ زبان کے کلام کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں نہ کہ اساتذہ علم و فن کے قوانین اور لغات سامنے رکھ کر کلام کہتے ہیں۔ علم عروض کی تاریخ یقیناً آپ کے سامنے ہوگی، یہ علم اساتذہ کا کلام سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا نہ کہ اساتذہ نے علم عروض سامنے رکھ کر کلام کہا تھا۔ آپ کے علم میں یقیناً یہ بات بھی ہوگی کہ عروض میں زحافات کے جو قوانین بنائے گئے ہیں اور ایک بحر میں جو کئی کئی اوزن جمع کرنے کی جو اجازت دی گئی ہے وہ دراصل اساتذہ کے کلام میں اسقام تھے اور عروض کا علم وضع کرتے ہوئے جو جو سقم اساتذہ کے کلام میں نظر آیا اس اس کو قانون کا درجہ بنا دیا گیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ تسلی اور تقوی کے قافیے کے مسئلے کو روانہ کے قافیے کے مسئلے کے ساتھ لانا قیاس مع الفارق ہے۔ تسلی اور تقوی کا قافیہ اور چیز ہے جبکہ روانہ میں قافیے کو کچھ نہیں کہا گیا فقط ردیف کا جز قافیے کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ افسوس بحر الفصاحت میرے سامنے نہیں ہے لیکن آپ کے پاس ہوگی جلد دوم کے مقدمے میں اس پر بحث دیکھیے یہ ایک بالکل ہی الگ چیز ہے۔ میرے خیال میں عروض کی دیگر کتب میں صنائع بدائٕع کے ضمن آپ کو اس پر بحث مل جائے گی، یہ تو کلام کا حسن ہے جسے عیب کہا جا رہا ہے۔

فراز نے غالب کا تتبع کیا ہے سو بہت خوب کیا ہے واللہ۔
 
یہ تو کلام کا حسن ہے جسے عیب کہا جا رہا ہے۔

فراز نے غالب کا تتبع کیا ہے سو بہت خوب کیا ہے واللہ۔

معاف کیجئے گا محترم وارث بھائی مجھے اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کے یہ عیب نہیں بلکہ حسن ہے. بحرالفصاحت میں موجود قدرت اللہ صاحب کے اس مقدمے سمیت کسی بھی کتاب کو اٹھا کر دیکھ لیں. کہیں آپ کو یہ مسئلہ اور اس قافیہ کو صحیح صریح اور غیر معارض نہیں کہا گیا. بلکہ زور اس بات پہ دیا گیا ہے کہ یہ ایک عیب ہے محض. اب ایک استاد ہی کیوں نہ ہو وہ بہر حال انسان ہے. اور غالب نے بھی عروض کو, قافیہ ردیف وغیرہ اور باقی علوم سے واقف ہونے کہ بعد ہی شاعری کو شروع کیا ہوگا.
چاہے قافیہ کا مسئلہ ہو یا وزن کا غلطی غلطی ہی رہتی ہے. جیسے غالب کا رباعی والا مسئلہ آج تک الجھا ہے اور عروضی ان کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح کسی زحاف سے اس مصرعے کو موزوں ثابت کر دیا جائے.
لیکن ان سب کے باوجود کسی کو یہ اجازت نہیں کہ رباعی میں:
مفعولن مفعول فاعلن مفعولن
یہ وزن بھی ڈال دے کہ غالب نے ایسا کیا تھا.
کیوں کہ یہ تو میں بھی ثابت کرتا ہوں کہ یہاں غالب والے فارسی "بند" کو لگا کر بھی مصرع موزوں نہ ہوگا جیسا اکثر کتب میں مرقوم ہے.

ان سب کے ہوتے ہوئے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ مضمون میں اگر معانی کا حسن ہو تو ایسا قافیہ حسن کلام ہے لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ فراز نے غالب جیسا حسن کلام اختیار کیا؟ بلکہ غالب نے تو پورے دیوان میں ایک جگہ لیکن فراز نے ایک ہی غزل میں تین جگہ یہ کام کر ڈالا؟
جبکہ یہ طے ہو گیا کہ کچھ بھی کرلیں لیکن قافیہ کا اس صورت ہونا عیب ہے. اگر ایک مجتہد نے یہ کام سر انجام دے دیا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو چاہے اسے حسن کلام سمجھے اور استعمال کرے. اس طرح تو ایطا جلی بھی جائز ہوگا کہ میر سمیت اکثر اساتذہ کے کلام میں موجود ہے.



میں اب بھی اسی بات پر قائم ہوں کے اس طرح کا قافیہ ایک عیب ہے. غلطی ہے. بقول آپ کے قدرت اللہ صاحب نے اسے حسن کہا تو عرض کروں وہیں انہوں نے اس کے عیب ہونے پر زیادہ توجہ دلائی ہے. بلکہ اس مضمون کو رکھا ہی عیب کی بنیاد پر ہے کہ قافیہ کا دو لخت ہونا.

اور سبھی اہل علم و فن اسے عیب جانتے ہیں اور بتاتے بھی ہیں.

آخری بات یہ کہنا چاہونگا کہ غالب کو اس مسئلہ میں اس لئے بھی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا کہ وہاں غزل کے مطلعے میں روی متعین ہے. مگر فراز کی غزل میں روی متعین نہیں. اور متنازع اشعار سے جو ظاہر ہوتا اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فراز نے الف کو روی سمجھا اسی وجہ سے فراز کی غلطی ہے. اس میں غالب کو بنیاد بنانا ہی بے بنیاد ہے. کہ غالب نے مطلعے میں ایسا کچھ نہیں کیا جس سے اصولی طور سے کچھ غلط ہو. مگر فراز کی غزل کی اب اگر کوئی اتباع کرتا ہے تو اس کے لئے یہ آزادی ہے کسی بھی لفظ کے آخری حرف صحیح کا وصال الف سے کرا دے اور غزل تیار کردے مثال اوپر دے چکا ... محسنا, مسلکا وغیرہ. اور اس پر کوئی انکار کا حق بھی نہیں رکھتا. :)
 

فاتح

لائبریرین
محمد وارث صاحب! ہمیشہ کی طرح آپ کے مراسلے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
کیا یہ دو اشعار بھی اسی غزل کی زمین میں مانے جائیں گے؟ نیز کیا "تکنیکی طور پر" فرازؔ ذیل کے اشعار کے قوافی و ردیف کے ساتھ بھی دو اشعار اپنی غزل میں شامل کر سکتے تھے؟
آپ کی رائے ہاں میں ہو یا نہیں میں، دونوں صورتوں میں وضاحت بھی کر دیجیے گا کہ کیوں؟
شعر گوئی میں فرازؔ اپنا تو بس پیشوا ہے​
ہم کو غالب سے بھی کچھ حد سے سوا واسطہ ہے​
سیکھنا ہی تو فقط ہے مرا مقصد ورنہ​
بات کرنے میں بھلا مجھ کو کوئی فائدہ ہے​
 

فاتح

لائبریرین
بلکہ مطلع ہوتا:​
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
اور حسنِ مطلع ہوتا:​
شعر گوئی میں فرازؔ اپنا تو بس پیشوا ہے​
ہم کو غالب سے بھی کچھ حد سے سوا واسطہ ہے​
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث صاحب! ہمیشہ کی طرح آپ کے مراسلے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
کیا یہ دو اشعار بھی اسی غزل کی زمین میں مانے جائیں گے؟ نیز کیا "تکنیکی طور پر" فرازؔ ذیل کے اشعار کے قوافی و ردیف کے ساتھ بھی دو اشعار اپنی غزل میں شامل کر سکتے تھے؟
آپ کی رائے ہاں میں ہو یا نہیں میں، دونوں صورتوں میں وضاحت بھی کر دیجیے گا کہ کیوں؟
شعر گوئی میں فرازؔ اپنا تو بس پیشوا ہے​
ہم کو غالب سے بھی کچھ حد سے سوا واسطہ ہے​
سیکھنا ہی تو فقط ہے مرا مقصد ورنہ​
بات کرنے میں بھلا مجھ کو کوئی فائدہ ہے​

آپ کی پہلی سطر کے متعلق تو یہی کہونگا قبلہ کہ یہ آپ کا حسنِ ظن ہے۔

اور باقی کے متعلق یہ کہ میں کج فہم واقعی آپ کی بات سمجھ نہیں پایا، اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مذکورہ دو اشعار اوپر والی غزل جس کی ردیف آراستہ ہے کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں تو ان کا قافیہ ردیف تو مختلف ہے، یہ کیسے حصہ بن سکتے ہیں؟؟
 

فاتح

لائبریرین
آپ کی پہلی سطر کے متعلق تو یہی کہونگا قبلہ کہ یہ آپ کا حسنِ ظن ہے۔

اور باقی کے متعلق یہ کہ میں کج فہم واقعی آپ کی بات سمجھ نہیں پایا، اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مذکورہ دو اشعار اوپر والی غزل جس کی ردیف آراستہ ہے کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں تو ان کا قافیہ ردیف تو مختلف ہے، یہ کیسے حصہ بن سکتے ہیں؟؟
پہلی سطر حسن ظن نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔

میں واقعی الجھا ہوا ہوں اس غزل کے قوافی ردیف کے متعلق۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ ہوا کیا ہے اس میں۔۔
 
بلکہ مطلع ہوتا:​
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
اور حسنِ مطلع ہوتا:​
شعر گوئی میں فرازؔ اپنا تو بس پیشوا ہے
ہم کو غالب سے بھی کچھ حد سے سوا واسطہ ہے

سرخ شعر اس متنازع غزل کا مطلع بن سکتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلی سطر حسن ظن نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔

میں واقعی الجھا ہوا ہوں اس غزل کے قوافی ردیف کے متعلق۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ ہوا کیا ہے اس میں۔۔

جی فاتح صاحب، فراز جیسا شاعر اتنی فاش بلکہ فخش غلطی نہیں کر سکتا کہ غزل کا قافیہ ردیف بدل دے کہ جسکی نشاندہی بچہ بچہ کر سکے اور اس پائے کے شاعر کو علم نہ ہو :)

غزل کے قافیہ ردیف چوتھے شعر تک بالکل سیدھے ہیں یعنی

قافیہ - سخن، انجمن، شکن وغیرہ
ردیف - آراستہ ہے

پانچویں، چھٹے، آٹھویں اور دسویں شعر میں ردیف کے الف یعنی آ کو قافیہ یعنی اَن کے ساتھ اکھٹا کر دیا ہے، اور اسکی ایک مثال میں نے غالب کے شعر کی لکھی تھی کہ اساتذہ ایسا کرتے ہیں، اسے اصطلاح میں ردیف کو دو لخت کرنا کہا جاتا ہے سو فراز نے ردیف کو دو لخت کیا ہے اور بس :)
 

فاتح

لائبریرین
جی فاتح صاحب، فراز جیسا شاعر اتنی فاش بلکہ فخش غلطی نہیں کر سکتا کہ غزل کا قافیہ ردیف بدل دے کہ جسکی نشاندہی بچہ بچہ کر سکے اور اس پائے کے شاعر کو علم نہ ہو :)

غزل کے قافیہ ردیف چوتھے شعر تک بالکل سیدھے ہیں یعنی

قافیہ - سخن، انجمن، شکن وغیرہ
ردیف - آراستہ ہے

پانچویں، چھٹے، آٹھویں اور دسویں شعر میں ردیف کے الف یعنی آ کو قافیہ یعنی اَن کے ساتھ اکھٹا کر دیا ہے، اور اسکی ایک مثال میں نے غالب کے شعر کی لکھی تھی کہ اساتذہ ایسا کرتے ہیں، اسے اصطلاح میں ردیف کو دو لخت کرنا کہا جاتا ہے سو فراز نے ردیف کو دو لخت کیا ہے اور بس :)
آپ درست کہتے ہیں۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جی فاتح صاحب، فراز جیسا شاعر اتنی فاش بلکہ فخش غلطی نہیں کر سکتا کہ غزل کا قافیہ ردیف بدل دے کہ جسکی نشاندہی بچہ بچہ کر سکے اور اس پائے کے شاعر کو علم نہ ہو :)
شکر ہے میرے مالک!

غزل کے قافیہ ردیف چوتھے شعر تک بالکل سیدھے ہیں یعنی

قافیہ - سخن، انجمن، شکن وغیرہ
ردیف - آراستہ ہے

پانچویں، چھٹے، آٹھویں اور دسویں شعر میں ردیف کے الف یعنی آ کو قافیہ یعنی اَن کے ساتھ اکھٹا کر دیا ہے، اور اسکی ایک مثال میں نے غالب کے شعر کی لکھی تھی کہ اساتذہ ایسا کرتے ہیں، اسے اصطلاح میں ردیف کو دو لخت کرنا کہا جاتا ہے سو فراز نے ردیف کو دو لخت کیا ہے اور بس :)

بڑی ہی عجیب غزل تھی کہ جس نے اتنے لوگوں کو الجھائے رکھا اور آخر میں وارث بھائی دی گریٹ نے آ کے مسئلہ حل کر دیا۔
بہت بہت شکریہ وارث بھائی۔
 

طارق شاہ

محفلین
١)- قافیہ سے، وہ ہم حرکت، اور ہم اعراب الفاظ مراد ہیں جو کسی غزل یا نظم کے مصرع اول اور مصرع ثانی اور مصرع ہائے ثانی میں ردیف سے پہلے استعمال میں لائے جاتے ہیں​

مگر قافیہ پورا کلمہ نہیں، بلکہ کلمے کا ایک جزو ہوتا ہے

٢ )-اشعار میں قافیہ کا ایک بڑا حُسن یہ ہے کہ ایک ہی لفظ سے ردیف اور قافیہ کا کام لیا جائے ، مثال میں یہ شعر ہے :

دل کی زمیں سے کون سی بہتر زمین ہے
پر جان! تُو بھی ہو، تو عجب سرزمین ہے
......
× مجموعی طور پر قافیہ کے نو حروف ہوتے ہیں، اور جو حرف ان ٩ حرفوں کے درمیان واقع ہوتا ہے، اسے حرفِ روی کہتے ہیں

× قافیہ کے چار حرف، حرف روی سے قبل اور چار حرف حرف روی کے بعد آتے ہیں،

× پہلے چار آئے حروف مع حرفِ روی کے، کلمے کے اصلی حروف یعنی کلمے کا اصلی جزو کہلاتے ہیں حرف روی کے بعد والی چار حروف کو حروف زائد کہتے ہیں
لیکن شعر کہنے کے لئے یہ ضروری نہیں کے تمام یعنی پورے ٩ حروف ایک ساتھ ہی لائےجائیں، اصلی حروف چار سے کم اور اسی طرح روی کے بعد والے حروف زائد ایک دو یعنی چار سے کم ہو سکتے ہیں

× یہ یاد رہے کہ ہرقافیہ میں حرف روی کا ہونا ضروری ہے
............
وصل، مزید، خروج اور نائرہ
بالا چاروں، حروفِ زائد ہیں اور حرفِ روی کے بعد بالترتیب آتے ہیں یعنی حرفِ روی کے فوراََ بعد( اس سے متصل) وصل، اور اُسکے ساتھ مزید،
مزید کے ساتھ متصل خروج ، اور خروج کے ساتھ نائرہ آتا ہے ان چاروں حروفِ زائد کے استعمال کی مثالیں فارسی میں مل جائیں گی، لیکن

اردو شاعری میں ان چاروں میں سے، صرف حرفِ وصل ہی استعمال کیا جاتا ہے، وہ بھی صرف فارسی الفاظ کے قافیوں میں ، جیسے آراستہ، نہفتہ خفتہ وغیرہ میں ۔
× وصل کا استعمال ہندی عربی یا کسی اور زبان کے لفظ پر نہیں کیا جاسکتا.
.......
اس غزل میں نون (ن ) حرفِ روی ہے اور حرفِ روی کے فورا بعد آنے والا حرف، وصل کہلاتا ہے

وصل، اس میں= ا ( الف ) ہے (وصل= وہ حرف زائد جو حرف روی کے فوراََبعد آئے یعنی اس سے متصل ہو)

اب آئے ہم نقطہ کی طرف :
مجریٰ
× جب قافیہ میں حرفِ روی، وصل کی وجہ سے متحرک ہو جائے تو اس حرکت کو (اس عمل کے کرنے کو ) مجریٰ کہتے ہیں
جیسے ہمسر، اورافسر میں حرف روی' ر' (رے) ، حرف وصل 'ی' کے استعمال سےہمسر اور افسر کا قافیہ، ہمسری اور افسری کے قافیہ میں بدل گیا
یہاں ان قوافی میں، مجریٰ کیا گیا۔ یعنی سا کن حرفِ روی کو، وصل سے متحرک کرکے قافیہ کی شکل ( حرفِ روی کی حرکت ) بدل دی گئی

اوصاف روی!
حرفِ زائد کی، حرفِ روی سے وصل کی وجہ سے، حرفِ روی کے متحرک ہونے، جیسا کہ اوپر مثال میں( ہمسری، افسری میں ) دکھایا گیا ہے
کو اوصاف روی میں رویِ مطلق کہتے ہیں

فراز صاحب کی اس غزل میں جیسےکہ پہلے بھی میں نے لکھا، کہ
قوافی ،خنا- منا کنا - سنا بنا وغیرہ ہی ہیں (کہ قوافی کے لئے مکمل کلمے کی شرط نہیں، کوئی بھی ٹکرا ہو سکتا ہے )
× بالا قوافی با عثِ مجریٰ وجود میں آئے
× ن حرف روی ہے جو وصل کے بعد روی مطلق ہوا (وصل ان قوافی میں اس لئے ممکن ہیں کے تمام الفاظ فارسی کے ہیں، جو اس کے لئے شرط ہے )

× × فراز صاحب محاسن قافیہ سے نہ صرف واقف تھے، بلکہ استاد تھے،
روی کو، روی مطلق کرنے سے قبل اگر آپ توجیہ پر غور کریں تو، تمام اشعار میں، ما قبل حرفِ روی سب پر فتح (زبر ) ہے
گو کہ رویِ مطلق ہوجانے سے قافیہ میں ایسا ہونا یا کرنا لازمی نہیں مگر ایسا ہونا، یا ایسا لکھنا حُسن میں شمار ہوتا ہے،

رہا منع کو منا لکھنے کی تو انھوں نے دانستہ یوں لکھا ، اگر نشاندھی نہ کرتے تو ہم جیسے شاید اس بابت لکھتے
جو فراز صاحب کو جانتے تھے یا ہونگے شاید وہ نہ لکھتے، کہ بادشاہ سخن پر کیا لکھنا۔

.. اس سے زیادہ وضاحت یا تفصیلی لکھنے کے لئے، قوافی پر حدائق البلاغت کا پورا چیپٹر لکھنا پڑے گا جو دیوان غالب سے بھی بڑی ہے .

نیچے تقطیع دے رہا ہوں بلیو رنگ میں قافیہ ہیں ، اور متصل ردیف=" راستہ ہے"

بہت خوش رہیں
تشکّر
طارق



ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے

فا عِ لا تن -- ف ، ع ، لا ، تن -- ف ، ع ، لا ، تن -- ف ع لن

ذک ، ر ، جا ، نا -- س ، ج ، شہ ، رے -- س ، خَ ، نا ، را -- س ت ہے
جس، ط ، رف ، جا -- ء ، ے ، اک ، ان -- ج ، مَ ، نا ، را -- س ت ہے

تو ک ہے سر -- و س من سے -- چ مَ نا را -- س ت ہے

کا ک لے یا -- ر ش کن در -- ش کَ نا را -- س ت ہے


بقیہ اشعار کے مصرع ہائے ثانی کی تقطیع اِسی طرح کر کے دیکھی جاسکتی ہے
طارق
 
طارق شاہ صاحب
بہت عمدہ تفصیل دی آپ نے۔
اب ذرا چند سوالات۔

1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔
2۔ اگر کسی بھی عروضی الف کا وصال کروا کر اس کے الف کو روی بنانا جائز ٹھہرا تو پھر ہم آواز حروف کا معیار کیا ٹھہرے گا؟ اور یہ بھی کہ ہم لگانا اور بجھانا کو تو قافیہ کر سکتے ہیں مگر لگانا اور دھڑکنا کو قافیہ نہیں کر سکتے کہ یہ ایطا ہوگا۔ کیا یہاں آخری الف کو روی بنانا جائز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو بہر حال لفظ کا حصہ بھی وہاں سخنا کا تو کوئی مطلب ہی نہیں نکلتا۔

3۔ آپ سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔ دراصل روی کے بعد جو حرف زائد ہوتے ہیں ان کا قانون یہ ہے کہ اگر ان حروف کو لفظ میں سے نکال دیا جائے تب بھی معنی کے حساب سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ اصول قافیہ کے ایک لفظ کے لئے ہے یا الف کے وصال کے جو آپ نے سخنا بنایا اس کے لئے ہے؟ اگر ہم مان لیں کہ سخنا میں جو الف ہے وہ حرف وصل ہے (اول تو ہے ہی نہیں مگر فرض کریں) تو اس کا اطلاق پوری غزل پر ہونا چاہئے۔ یعنی کسی بھی قافیہ میں سے جب حرف وصل حذف کریں تو معانی کا نقصان نہ ہو۔
حرف وصل زوائد میں شامل ہے جس کا حذف کرنا معانی کا نقصان نہیں کرتا۔

4۔ اسی اصول سے مقطع میں قافیہ ”فنا“ ہے اس کا حرف وصل یعنی الف حذف کریں اور بتائیں کہ کیا معانی پر فرق پڑا یا نہیں۔

ثابت یہ ہوا ”فنا“ کے نون کی حرکت مجری نہیں ہے۔ کیوں کہ خود آپ کے مطابق مجری روی کی حرکت کو کہتے ہیں۔ اور حرف وصل ایک زائد ہے جو روی کے فوراً بعد آتا ہے۔ مثال آپ نے خود دی کے ہمسری وغیرہ۔ انکا حروف وصل یعنی ”ی“ کو حذف کریں معانی میں کوئی نقصان نہ ہوگا۔ مزید مثالیں حرف وصل کی۔۔۔۔ روشنی، دوستی، بے خودی وغیرہ کی ”ی“ حرف وصل۔
اسی طرح ، کرو اور مرو، میں ”و“۔
موڑا، اور چھوڑا میں الف
حرف وصل یعنی حرف زائد ہے۔ جن کے حذف ہونے سے لفظ نہ تو بے معنی ہوتا ہے نہ مصدر بدلتا ہے۔

غالب کا یہ شعر جس میں قافیہ صرف ایک روی یعنی الف کی بنیاد پر ہے۔


کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا​
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا​

فراز کی غزل کے مقطع کا قافیہ میں بھی روی فنا کا الف ہے۔ باقی پوری غزل میں آپ کے مطابق نون روی ہے۔ ایسا کیسے ممکن؟​
اب ذرا غالب کی دوسری غزل دیکھیں جس میں ”ر“ روی اور ”ی“ حرف زائد ہے۔ اور اصول کے مطابق کسی بھی ”ی“ یعنی حرف زائد کو حذف کر لیں مگر معانی کا نقصان نہ ہوگا۔​
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسدؔ​
میری دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے​
اب بتائیں کہ فراز کی غزل میں کیا روی ہے اور کیا حرف زائد؟
گستاخی معاف لیکن اصولی نظر سے آپ اس غزل کو (سوائے چند اشعار کے) کبھی صحیح ثابت ہی نہیں کر سکتے۔​
ہاں وہ الگ بات ہے کہ کھینچ تان کر ایسے نئے اصول ایجاد کر ڈالئے کہ یہ غزل صحیح ثابت ہوجائے۔ جیسے قدرت اللہ صاحب بحر الفصاحت میں غالب کی رباعی کی تقطیع کرتے ہیں:​
دل رک رک۔۔ کر بندہ۔۔ گیا ہے غا۔۔لب​
مفعولن۔۔ مفعول۔۔ مفاعیلن۔۔ فع​
اب ان سے کون پوچھے کہ مصرعے کو موزوں کرنے میں انہوں نے ردیف کا نقصان کر دیا۔ جب کہ ”ہو“ میں ”و“ کو گرانا غلط ہے۔​
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب​
سونا سو گند ہو گیا ہے غالب​
اسی طرح اس غزل میں بھی ایک اصول کو پورا کرینگے تو دوسرا اپنے آپ ہی ٹوٹ جائے گا۔​
 

طارق شاہ

محفلین
طارق شاہ صاحب
بہت عمدہ تفصیل دی آپ نے۔
اب ذرا چند سوالات۔

1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔
2۔ اگر کسی بھی عروضی الف کا وصال کروا کر اس کے الف کو روی بنانا جائز ٹھہرا تو پھر ہم آواز حروف کا معیار کیا ٹھہرے گا؟ اور یہ بھی کہ ہم لگانا اور بجھانا کو تو قافیہ کر سکتے ہیں مگر لگانا اور دھڑکنا کو قافیہ نہیں کر سکتے کہ یہ ایطا ہوگا۔ کیا یہاں آخری الف کو روی بنانا جائز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو بہر حال لفظ کا حصہ بھی وہاں سخنا کا تو کوئی مطلب ہی نہیں نکلتا۔

3۔ آپ سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔ دراصل روی کے بعد جو حرف زائد ہوتے ہیں ان کا قانون یہ ہے کہ اگر ان حروف کو لفظ میں سے نکال دیا جائے تب بھی معنی کے حساب سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ اصول قافیہ کے ایک لفظ کے لئے ہے یا الف کے وصال کے جو آپ نے سخنا بنایا اس کے لئے ہے؟ اگر ہم مان لیں کہ سخنا میں جو الف ہے وہ حرف وصل ہے (اول تو ہے ہی نہیں مگر فرض کریں) تو اس کا اطلاق پوری غزل پر ہونا چاہئے۔ یعنی کسی بھی قافیہ میں سے جب حرف وصل حذف کریں تو معانی کا نقصان نہ ہو۔
حرف وصل زوائد میں شامل ہے جس کا حذف کرنا معانی کا نقصان نہیں کرتا۔

4۔ اسی اصول سے مقطع میں قافیہ ”فنا“ ہے اس کا حرف وصل یعنی الف حذف کریں اور بتائیں کہ کیا معانی پر فرق پڑا یا نہیں۔

ثابت یہ ہوا ”فنا“ کے نون کی حرکت مجری نہیں ہے۔ کیوں کہ خود آپ کے مطابق مجری روی کی حرکت کو کہتے ہیں۔ اور حرف وصل ایک زائد ہے جو روی کے فوراً بعد آتا ہے۔ مثال آپ نے خود دی کے ہمسری وغیرہ۔ انکا حروف وصل یعنی ”ی“ کو حذف کریں معانی میں کوئی نقصان نہ ہوگا۔ مزید مثالیں حرف وصل کی۔۔۔ ۔ روشنی، دوستی، بے خودی وغیرہ کی ”ی“ حرف وصل۔
اسی طرح ، کرو اور مرو، میں ”و“۔
موڑا، اور چھوڑا میں الف
حرف وصل یعنی حرف زائد ہے۔ جن کے حذف ہونے سے لفظ نہ تو بے معنی ہوتا ہے نہ مصدر بدلتا ہے۔

غالب کا یہ شعر جس میں قافیہ صرف ایک روی یعنی الف کی بنیاد پر ہے۔


کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا​
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا​

فراز کی غزل کے مقطع کا قافیہ میں بھی روی فنا کا الف ہے۔ باقی پوری غزل میں آپ کے مطابق نون روی ہے۔ ایسا کیسے ممکن؟​
اب ذرا غالب کی دوسری غزل دیکھیں جس میں ”ر“ روی اور ”ی“ حرف زائد ہے۔ اور اصول کے مطابق کسی بھی ”ی“ یعنی حرف زائد کو حذف کر لیں مگر معانی کا نقصان نہ ہوگا۔​
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسدؔ​
میری دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے​
اب بتائیں کہ فراز کی غزل میں کیا روی ہے اور کیا حرف زائد؟
گستاخی معاف لیکن اصولی نظر سے آپ اس غزل کو (سوائے چند اشعار کے) کبھی صحیح ثابت ہی نہیں کر سکتے۔​
ہاں وہ الگ بات ہے کہ کھینچ تان کر ایسے نئے اصول ایجاد کر ڈالئے کہ یہ غزل صحیح ثابت ہوجائے۔ جیسے قدرت اللہ صاحب بحر الفصاحت میں غالب کی رباعی کی تقطیع کرتے ہیں:​
دل رک رک۔۔ کر بندہ۔۔ گیا ہے غا۔۔لب​
مفعولن۔۔ مفعول۔۔ مفاعیلن۔۔ فع​
اب ان سے کون پوچھے کہ مصرعے کو موزوں کرنے میں انہوں نے ردیف کا نقصان کر دیا۔ جب کہ ”ہو“ میں ”و“ کو گرانا غلط ہے۔​
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب​
سونا سو گند ہو گیا ہے غالب​
اسی طرح اس غزل میں بھی ایک اصول کو پورا کرینگے تو دوسرا اپنے آپ ہی ٹوٹ جائے گا۔​
آپ یہ پورا concept سمجھے ہی نہیں،
آپ کے اس سوال سے کہ "1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔"
محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شاید میرا مضمون پڑھا ہی نہیں ہے، اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھ نہیں سکے ہیں ۔

ورنہ میں نے لکھ دیا ہے کہ قافیہ میں کونسا حرف، حرفِ روی ہوتا ہے ، اس کے دائیں بائیں چار چار حروف ہوتے ہیں ، دائیں کے چار کو بشمول معینہ حرفِ روی کے
حروف اصل اور بائیں کو حروف زائد کہتے ہیں اور ان بائیں طرف والے حروف زائد کو کس نام سے پکارا جاتا ہے اور اس میں سے صرف ایک (جو حرف روی کے فورا بعد آتا ہے جسے وصل کے نام سے لکھا یا پکارا جاتا ہے) اردو شاعری میں قوائدِ قوافی میں استعمال ہوتا ہے۔ کتاب کا نام بھی اس میں نے لکھ دیا ہے
آپ نے اسے مس کردیا ہے ۔
کہ یہ یا اس سے زیادہ!
پورا چیپٹر لکھنا، غالب کے دیوان کا حوالہ ۔۔۔۔۔ یاد آیا ؟

میں نے، نہ آپ کو نہ ہی کسی اور کو مخاطب کر کے مضمون لکھا ، اس سے نہ ہی کسی کو نیچہ دکھانا، یا خود کو بیان قافیہ یا قافیہ کے علم میں بر تر ثابت کرنا
مقصود تھا، یا ہے ۔ بلکہ فلاح عامہ اور جو خامخواہ کے سوالوں اور خیالوں سے عام قاری یا نو آموز شاعروں کے پیچیدگیاں یا الجھاؤ کا سبب بن رہی تھی کو کلیئر
کرنا تھا ۔۔

2۔ اگر کسی بھی عروضی الف کا وصال کروا کر۔۔۔۔۔
عروضی الف کیا ہے؟ اور بیانِ قافیہ، یا علم قافیہ میں، ایسی بات کا کیا مطلب

3۔ آپ سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔ دراصل روی کے بعد جو حرف زائد ہوتے ہیں ان کا قانون یہ ہے کہ اگر ان حروف کو لفظ میں سے نکال دیا جائے تب بھی معنی کے حساب سے کوئی نقصان نہیں ہوتا

حرف روی کے بعد آنے والے چار حروف کے نام میں نے مضمون میں دئیے ہیں اور اس میں سے اردو شاعری ایک "وصل" ہی مستعمل ہےیہ بھی لکھا ہے
چاروں حروف زائد کی حیثیت مستقل ہے یعنی کسی حرف کو ہٹا نے سے یہ نہیں غائب ہوتے ۔ حرف روی کے بعد کا پہلا حرف خواہ جتنی بار بھی بدلا گیا ہو
حرف زائد وصل ہی رہے گا ، یانی جو حرف بھی بدلنے سے حرف روی سے متصل ہوگا 'وصل کہلائے گا ۔
اگر روی ساکن ہے تو اس پر توجیہ کی شرط ہے کہ تمام قافیوں میں حرف روی سے قبل آنے والے حرف پر ایک ہی جیسے اعراب ہوں
اگر فتح (زبر ) ہے تو سب پر اور کسرہ (زیر ) ہے تو سب پر ، اسی طرح پیش کے ساتھ ہوگا

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے تو مجھے غلطی پر ہی رہنے دیں،اور ایک عدد مضمون کسی کو مخاطب کئے بغیر ،بیان وعلمِ قافیہ پر داغ دیجئے
تاکہ سب کا فائدہ ہو
ورنہ یہ کہ علم وبیانِ قافیہ پر کوئی مستند کتاب لے کر اس پر کچھ مہینے لگائیے

علم و بیان قافیہ سے یہ ثابت کرنے میں کہ فراز صاحب کے قافیہ کس طرح سے صحیح ہیں کے لئے قوافی کے علم سے ہی رجوع کرنا پڑے گا، آپ بہت سے غیر ضروی
باتیں اور مثالیں شامل کر دیتے ہیں، یا اس سے متفق اس سے متفق بغیر سمجھے یا سوچے کلک کرتے رہتے ہیں
اصولا ایسا ہونا چاہیے کہ اس پر کسی لائبریری ہی سے سہی کتاب لے کر، تحقیق کرکے ،اچھی طرح سے سمجھ کر، باعلم ہوکر پھر کسی کو سمجھایا جائے
تاکہ اگر اسناد کی یا حوالے کی ضرورت پر آپ با لیس ہوں، اور آپ کی بات بھی مدلل ہونے کے باعث مستند مانی جائے گی

علم عروض کی کتا بوں میں بابِ قافیہ سب سے پیچیدہ ہے، اسی لئے بعض مصنفوں نے اس کی طوالت اور پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر سرسری ذکر پر
ہی اکتفا کیا ہے، اور شارٹ کٹ کے لئے تقطیع کا طریقہ اور مروجہ بحریں، ان بحروں میں ممکنہ تمام شکلیں لکھ دیں کہ یاد کرو کہ کس کی ٹانگ توڑی جاسکتی ہے
اور کس کا سر ۔۔ بعض تو ١ ٢ کی گردان سے آگے ہی نہیں بڑھتے ، آپ ماشاللہ ینگ ہیں مطالع کی عادت سے بہت حاصل کرسکتے ہیں
کوشش کیجئے کہ جس امور یا نقطہ پر بات ہورہی ہے اسی کو مد نظر رکھیں ، اسی کو فوکس کریں
علامہ اقبال ، غالب یا کسی اور کو بلا ضرورت کونورزیشن میں گھسیٹنا موضوع سے ذہن ہٹانے کے مترادف ہے
آپ میرے مخاطب کبھی بھی نہیں تھے اس مضامین میں، جنرل بات کی ہے سب کا فائدہ نظر میں ہوتا ہے

اب آپ کے نام سے یوں لکھا کہ آپ نے مخاطب کیا ، اس قسم کے مضامین میں یوں ضروری بھی نہیں ہوتا
آپ اپنی علمی باتیں بغیر کسی کو فریق بنائے دلائل اور حوالوں سے پیش کرسکتے ہیں

اس پر بہت بات ہو چکی،
پیشگی معزرت اگر بار خاطر ہوئی ہو کوئی بات

بہت خوش رہیں
تشکّر
 
Top