طارق شاہ صاحب
بہت عمدہ تفصیل دی آپ نے۔
اب ذرا چند سوالات۔
1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔
2۔ اگر کسی بھی عروضی الف کا وصال کروا کر اس کے الف کو روی بنانا جائز ٹھہرا تو پھر ہم آواز حروف کا معیار کیا ٹھہرے گا؟ اور یہ بھی کہ ہم لگانا اور بجھانا کو تو قافیہ کر سکتے ہیں مگر لگانا اور دھڑکنا کو قافیہ نہیں کر سکتے کہ یہ ایطا ہوگا۔ کیا یہاں آخری الف کو روی بنانا جائز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو بہر حال لفظ کا حصہ بھی وہاں سخنا کا تو کوئی مطلب ہی نہیں نکلتا۔
3۔ آپ سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔ دراصل روی کے بعد جو حرف زائد ہوتے ہیں ان کا قانون یہ ہے کہ اگر ان حروف کو لفظ میں سے نکال دیا جائے تب بھی معنی کے حساب سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ اصول قافیہ کے ایک لفظ کے لئے ہے یا الف کے وصال کے جو آپ نے سخنا بنایا اس کے لئے ہے؟ اگر ہم مان لیں کہ سخنا میں جو الف ہے وہ حرف وصل ہے (اول تو ہے ہی نہیں مگر فرض کریں) تو اس کا اطلاق پوری غزل پر ہونا چاہئے۔ یعنی کسی بھی قافیہ میں سے جب حرف وصل حذف کریں تو معانی کا نقصان نہ ہو۔
حرف وصل زوائد میں شامل ہے جس کا حذف کرنا معانی کا نقصان نہیں کرتا۔
4۔ اسی اصول سے مقطع میں قافیہ ”فنا“ ہے اس کا حرف وصل یعنی الف حذف کریں اور بتائیں کہ کیا معانی پر فرق پڑا یا نہیں۔
ثابت یہ ہوا ”فنا“ کے نون کی حرکت مجری نہیں ہے۔ کیوں کہ خود آپ کے مطابق مجری روی کی حرکت کو کہتے ہیں۔ اور حرف وصل ایک زائد ہے جو روی کے فوراً بعد آتا ہے۔ مثال آپ نے خود دی کے ہمسری وغیرہ۔ انکا حروف وصل یعنی ”ی“ کو حذف کریں معانی میں کوئی نقصان نہ ہوگا۔ مزید مثالیں حرف وصل کی۔۔۔ ۔ روشنی، دوستی، بے خودی وغیرہ کی ”ی“ حرف وصل۔
اسی طرح ، کرو اور مرو، میں ”و“۔
موڑا، اور چھوڑا میں الف
حرف وصل یعنی حرف زائد ہے۔ جن کے حذف ہونے سے لفظ نہ تو بے معنی ہوتا ہے نہ مصدر بدلتا ہے۔
غالب کا یہ شعر جس میں قافیہ صرف ایک روی یعنی الف کی بنیاد پر ہے۔
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا
فراز کی غزل کے مقطع کا قافیہ میں بھی روی فنا کا الف ہے۔ باقی پوری غزل میں آپ کے مطابق نون روی ہے۔ ایسا کیسے ممکن؟
اب ذرا غالب کی دوسری غزل دیکھیں جس میں ”ر“ روی اور ”ی“ حرف زائد ہے۔ اور اصول کے مطابق کسی بھی ”ی“ یعنی حرف زائد کو حذف کر لیں مگر معانی کا نقصان نہ ہوگا۔
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے
گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسدؔ
میری دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے
اب بتائیں کہ فراز کی غزل میں کیا روی ہے اور کیا حرف زائد؟
گستاخی معاف لیکن اصولی نظر سے آپ اس غزل کو (سوائے چند اشعار کے) کبھی صحیح ثابت ہی نہیں کر سکتے۔
ہاں وہ الگ بات ہے کہ کھینچ تان کر ایسے نئے اصول ایجاد کر ڈالئے کہ یہ غزل صحیح ثابت ہوجائے۔ جیسے قدرت اللہ صاحب بحر الفصاحت میں غالب کی رباعی کی تقطیع کرتے ہیں:
دل رک رک۔۔ کر بندہ۔۔ گیا ہے غا۔۔لب
مفعولن۔۔ مفعول۔۔ مفاعیلن۔۔ فع
اب ان سے کون پوچھے کہ مصرعے کو موزوں کرنے میں انہوں نے ردیف کا نقصان کر دیا۔ جب کہ ”ہو“ میں ”و“ کو گرانا غلط ہے۔
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
سونا سو گند ہو گیا ہے غالب
اسی طرح اس غزل میں بھی ایک اصول کو پورا کرینگے تو دوسرا اپنے آپ ہی ٹوٹ جائے گا۔