آپ یہ پورا concept سمجھے ہی نہیں،
آپ کے اس سوال سے کہ "1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔"
محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شاید میرا مضمون پڑھا ہی نہیں ہے، اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھ نہیں سکے ہیں ۔
آپ کا مضمون اچھی طرح سے پڑھا ہے حضور ایک ایک لفظ کو
ہوا میں تیر چلانا میری عادت نہیں۔ جس چیز کا علم نہ ہو اس کی طرف رخ تو کیا نگاہ بھی نہیں کرتا۔
ورنہ میں نے لکھ دیا ہے کہ قافیہ میں کونسا حرف، حرفِ روی ہوتا ہے ، اس کے دائیں بائیں چار چار حروف ہوتے ہیں ، دائیں کے چار کو بشمول معینہ حرفِ روی کے
حروف اصل اور بائیں کو حروف زائد کہتے ہیں اور ان بائیں طرف والے حروف زائد کو کس نام سے پکارا جاتا ہے اور اس میں سے صرف ایک (جو حرف روی کے فورا بعد آتا ہے جسے وصل کے نام سے لکھا یا پکارا جاتا ہے) اردو شاعری میں قوائدِ قوافی میں استعمال ہوتا ہے۔ کتاب کا نام بھی اس میں نے لکھ دیا ہے
آپ نے اسے مس کردیا ہے ۔
کہ یہ یا اس سے زیادہ!
پورا چیپٹر لکھنا، غالب کے دیوان کا حوالہ ۔۔۔ ۔۔ یاد آیا ؟
جی حضور درست فرمایا۔ چلیں تشفی کے لئے کے لئے آپ کی کتاب کا نام بھی بتائے دیتا ہوں حدائق البلاغت جو اصل میں تو شمس الدین فقیر مرحوم نے لکھی تھی لیکن خدیجہ شجاعت علی نے اس کا ترجمہ کیا ہے سہل حدائق البلاغت کے نام سے اور لاہور میں شیخ محمد بشیر اینڈ سنز ناشر ہیں۔
اس کے ص نمبر 180 پر قافیہ کا بیان شروع ہوتا جو اس کتاب کا باب ہشتم ہے۔
روی کے بعد کے حروف کا تو آپ نے ذکر کر ہی دیا ہے مگر پہلے والوں کا ذکر میں کر دیتا ہوں جو: ردف، قید، تاسیس اور دخیل ہیں۔
میں نے، نہ آپ کو نہ ہی کسی اور کو مخاطب کر کے مضمون لکھا ، اس سے نہ ہی کسی کو نیچہ دکھانا، یا خود کو بیان قافیہ یا قافیہ کے علم میں بر تر ثابت کرنا
مقصود تھا، یا ہے ۔ بلکہ فلاح عامہ اور جو خامخواہ کے سوالوں اور خیالوں سے عام قاری یا نو آموز شاعروں کے پیچیدگیاں یا الجھاؤ کا سبب بن رہی تھی کو کلیئر
کرنا تھا ۔۔
بحث علمی تھی۔ نہ کہ ذاتیات پر انگلی اٹھانا مقصود تھا۔ تو اس میں مخاطب کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
2۔ اگر کسی بھی عروضی الف کا وصال کروا کر۔۔۔ ۔۔
عروضی الف کیا ہے؟ اور بیانِ قافیہ، یا علم قافیہ میں، ایسی بات کا کیا مطلب
مقصد یہ کہ یہ کسی لفظ کا الف نہیں بلکہ تقطیع اور آہنگ کی صورت میں سخن یا انجمن سے مل کر انجمنا اور سخنا بن گیا ہے۔ قافیہ میں روی سمیت سارے حرف قافیہ ایک لفظ کا حصہ ہوتے ہیں۔ عروض کی غرض سے ادھار لئے ہوئے حرف جیسے سخنا کا الف حرف قافیہ کا حصہ نہیں بن سکتا۔
3۔ آپ سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔ دراصل روی کے بعد جو حرف زائد ہوتے ہیں ان کا قانون یہ ہے کہ اگر ان حروف کو لفظ میں سے نکال دیا جائے تب بھی معنی کے حساب سے کوئی نقصان نہیں ہوتا
حرف روی کے بعد آنے والے چار حروف کے نام میں نے مضمون میں دئیے ہیں اور اس میں سے اردو شاعری ایک "وصل" ہی مستعمل ہےیہ بھی لکھا ہے
چاروں حروف زائد کی حیثیت مستقل ہے یعنی کسی حرف کو ہٹا نے سے یہ نہیں غائب ہوتے ۔ حرف روی کے بعد کا پہلا حرف خواہ جتنی بار بھی بدلا گیا ہو
حرف زائد وصل ہی رہے گا ، یانی جو حرف بھی بدلنے سے حرف روی سے متصل ہوگا 'وصل کہلائے گا ۔
اگر روی ساکن ہے تو اس پر توجیہ کی شرط ہے کہ تمام قافیوں میں حرف روی سے قبل آنے والے حرف پر ایک ہی جیسے اعراب ہوں
اگر فتح (زبر ) ہے تو سب پر اور کسرہ (زیر ) ہے تو سب پر ، اسی طرح پیش کے ساتھ ہوگا
توجیہ کی بات یہاں کرنا بے مقصد ہے کہ یہاں توجیہ کا مسئلہ نہیں ہے۔
پہلی بات یہ ہے کے روی کے بعد کے سارے حروفِ قافیہ کی تکرار بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ردیف کی۔
اور آپ کے اور آپ کی کتاب حدائق البلاغت کے ترجمے کے مطابق وصل کے علاوہ کوئی حرف زائد مستعمل نہیں ہے تو محترم میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر میں شعر کے ایک مصرعے میں ”نہیں“ اور دوسرے میں ”یہیں“ یا کسی دوسرے شعر میں ایک مصرعے میں ”جلانا“ اور دوسرے میں ”بجھانا“ قافیہ کروں تو روی کونسا ہوگا؟ ذرا تفصیل کے ساتھ بتائیں۔
مزید یہ کہ ”رہونگا“ اور” کہونگا“ میں بھی روی اور دیگر قافیہ کا حرف یا حروف زائد کی نشاندہی کریں (اگر ہوں تو)
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے تو مجھے غلطی پر ہی رہنے دیں،اور ایک عدد مضمون کسی کو مخاطب کئے بغیر ،بیان وعلمِ قافیہ پر داغ دیجئے
تاکہ سب کا فائدہ ہو
ورنہ یہ کہ علم وبیانِ قافیہ پر کوئی مستند کتاب لے کر اس پر کچھ مہینے لگائیے
جی ضرور۔ کوئی مستند کتاب پڑھونگا اگر کبھی مل گئی تو۔
یا آپ کسی دو چار کتابوں کے نام بتا دیں جو مستند ہوں آپ کے نزدیک اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو۔
کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ فراز سے پہلے جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ مستند تھیں مگر اب ضرور ایک مستند کتاب لکھنی چاہئے کسی استاد کو۔
علم و بیان قافیہ سے یہ ثابت کرنے میں کہ فراز صاحب کے قافیہ کس طرح سے صحیح ہیں کے لئے قوافی کے علم سے ہی رجوع کرنا پڑے گا، آپ بہت سے غیر ضروی
باتیں اور مثالیں شامل کر دیتے ہیں، یا اس سے متفق اس سے متفق بغیر سمجھے یا سوچے کلک کرتے رہتے ہیں
جی جناب قافیہ کے علم سے ہی رجوع کرنا پڑیگا۔ میں نے تو واللہ کبھی یہ نہیں کہا کہ قافیہ کے علم کے لئے علم بدیع یا بیان سے رجوع کرنا پڑے گا۔
اور قسم لے لیجئے اگر کسی پر غیر متفق کا بٹن دبایا ہو تو۔ یا بے وجہ متفق کا بٹن دبایا ہو۔
غیر متفق تو وجہ کے باوجود بھی نہیں دباتا کہ مجھے پسند نہیں ایسی حرکت۔ خصوصا بڑوں کے ساتھ۔
اصولا ایسا ہونا چاہیے کہ اس پر کسی لائبریری ہی سے سہی کتاب لے کر، تحقیق کرکے ،اچھی طرح سے سمجھ کر، باعلم ہوکر پھر کسی کو سمجھایا جائے
تاکہ اگر اسناد کی یا حوالے کی ضرورت پر آپ با لیس ہوں، اور آپ کی بات بھی مدلل ہونے کے باعث مستند مانی جائے گی
جی حضور ضرور۔ کوئی مستند کتاب لکھی جائے گی تو ضرور پڑھونگا۔ ابھی تک تو روی اور حروف قافیہ کی خود ساختہ تعریف سناتا رہا ہوں جس پر سخت معذرت خواہ ہوں
علم عروض کی کتا بوں میں بابِ قافیہ سب سے پیچیدہ ہے، اسی لئے بعض مصنفوں نے اس کی طوالت اور پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر سرسری ذکر پر
ہی اکتفا کیا ہے، اور شارٹ کٹ کے لئے تقطیع کا طریقہ اور مروجہ بحریں، ان بحروں میں ممکنہ تمام شکلیں لکھ دیں کہ یاد کرو کہ کس کی ٹانگ توڑی جاسکتی ہے
اور کس کا سر ۔۔ بعض تو ١ ٢ کی گردان سے آگے ہی نہیں بڑھتے ، آپ ماشاللہ ینگ ہیں مطالع کی عادت سے بہت حاصل کرسکتے ہیں
واللہ 1 2 اور 2 1 والی گردان میں نے کبھی غلطی سے بھی کرلی ہو تو میں مجرم۔
میں تو سرسری بحریں بھی نہیں جانتا۔
کوشش کیجئے کہ جس امور یا نقطہ پر بات ہورہی ہے اسی کو مد نظر رکھیں ، اسی کو فوکس کریں
علامہ اقبال ، غالب یا کسی اور کو بلا ضرورت کونورزیشن میں گھسیٹنا موضوع سے ذہن ہٹانے کے مترادف ہے
آپ میرے مخاطب کبھی بھی نہیں تھے اس مضامین میں، جنرل بات کی ہے سب کا فائدہ نظر میں ہوتا ہے
جناب میں تو شروع سے فراز پر ہی اٹکا ہوا ہوں اور اب بھی وہیں قائم ہوں۔
اور وہ یہ کہ روی کسی بھی با معنی لفظ کا آخری حرف ہوا کرتا ہے۔
روی کسی بھی اصل لفظ کے کسی درمیان والے حرف کو نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی اس صورت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہاں حروفِ زائد کو قافیہ کی مناسبت سے روی بنایا جاسکتا ہے۔ مگر اصل حروف کو کسی صورت قافیہ کرنا درست نہیں۔ اور یہی میرا موقف ہے کے لفظ ”فنا“ میں نون حرف اصل ہے حرف زائد نہیں اسے روی بنانا ممکن نہیں۔
اب آپ کے نام سے یوں لکھا کہ آپ نے مخاطب کیا ، اس قسم کے مضامین میں یوں ضروری بھی نہیں ہوتا
آپ اپنی علمی باتیں بغیر کسی کو فریق بنائے دلائل اور حوالوں سے پیش کرسکتے ہیں
اس پر بہت بات ہو چکی،
پیشگی معزرت اگر بار خاطر ہوئی ہو کوئی بات
بہت خوش رہیں
تشکّر