فراز ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے ...احمد فراز...اے عشق جنوں پیشہ

طارق شاہ

محفلین
ایک سوال کہ کیا"بُرا، کڑا، ٹوٹا، تمنا، مداوا" وغیرہ ایک ہی غزل میں بطور قافیہ استعمال ہو سکتے ہیں۔
جی با لکل ہو سکتے ہیں، یہ قوافی شرط توجیہ پر پورے اترتے ہیں
کیونکہ اِن میں حرف روی ا (الف) ہے
اوراِس قافیوں کے ساکن الف (حرف روی ) سے قبل کے تمام حرف پر ایک جیسے اعراب (زبر ) ہیں

بس یہ خیال رہے کہ سا کن حرفِ روی سے قبل آئے حرف پر، اعراب (حرکت ) جسے توجیہ کہتے ہے ایک سے ہوں

اِن یا اِس طرح کی قوافی میں روی سے قبل کے حروف پر، اعراب کا اختلاف درست نہیں (معیوب ہے اور اس عیب کو سناد کہتے ہیں)
 
آپ یہ پورا concept سمجھے ہی نہیں،
آپ کے اس سوال سے کہ "1۔ کیا حرف روی اصل لفظ کا حصہ ہوتا ہے یا تقطیع کی اجازت کو استعمال کر کے کسی بھی لفظ کے ساتھ الف کا وصال کرا کر اس الف کو روی بنا دیا جاتا ہے؟ اگر ایسا جائز ہے تو کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں۔"
محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شاید میرا مضمون پڑھا ہی نہیں ہے، اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھ نہیں سکے ہیں ۔
آپ کا مضمون اچھی طرح سے پڑھا ہے حضور ایک ایک لفظ کو :) ہوا میں تیر چلانا میری عادت نہیں۔ جس چیز کا علم نہ ہو اس کی طرف رخ تو کیا نگاہ بھی نہیں کرتا۔


ورنہ میں نے لکھ دیا ہے کہ قافیہ میں کونسا حرف، حرفِ روی ہوتا ہے ، اس کے دائیں بائیں چار چار حروف ہوتے ہیں ، دائیں کے چار کو بشمول معینہ حرفِ روی کے
حروف اصل اور بائیں کو حروف زائد کہتے ہیں اور ان بائیں طرف والے حروف زائد کو کس نام سے پکارا جاتا ہے اور اس میں سے صرف ایک (جو حرف روی کے فورا بعد آتا ہے جسے وصل کے نام سے لکھا یا پکارا جاتا ہے) اردو شاعری میں قوائدِ قوافی میں استعمال ہوتا ہے۔ کتاب کا نام بھی اس میں نے لکھ دیا ہے
آپ نے اسے مس کردیا ہے ۔
کہ یہ یا اس سے زیادہ!
پورا چیپٹر لکھنا، غالب کے دیوان کا حوالہ ۔۔۔ ۔۔ یاد آیا ؟
جی حضور درست فرمایا۔ چلیں تشفی کے لئے کے لئے آپ کی کتاب کا نام بھی بتائے دیتا ہوں حدائق البلاغت جو اصل میں تو شمس الدین فقیر مرحوم نے لکھی تھی لیکن خدیجہ شجاعت علی نے اس کا ترجمہ کیا ہے سہل حدائق البلاغت کے نام سے اور لاہور میں شیخ محمد بشیر اینڈ سنز ناشر ہیں۔ :)
اس کے ص نمبر 180 پر قافیہ کا بیان شروع ہوتا جو اس کتاب کا باب ہشتم ہے۔:)
روی کے بعد کے حروف کا تو آپ نے ذکر کر ہی دیا ہے مگر پہلے والوں کا ذکر میں کر دیتا ہوں جو: ردف، قید، تاسیس اور دخیل ہیں۔




میں نے، نہ آپ کو نہ ہی کسی اور کو مخاطب کر کے مضمون لکھا ، اس سے نہ ہی کسی کو نیچہ دکھانا، یا خود کو بیان قافیہ یا قافیہ کے علم میں بر تر ثابت کرنا
مقصود تھا، یا ہے ۔ بلکہ فلاح عامہ اور جو خامخواہ کے سوالوں اور خیالوں سے عام قاری یا نو آموز شاعروں کے پیچیدگیاں یا الجھاؤ کا سبب بن رہی تھی کو کلیئر
کرنا تھا ۔۔

بحث علمی تھی۔ نہ کہ ذاتیات پر انگلی اٹھانا مقصود تھا۔ تو اس میں مخاطب کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟


2۔ اگر کسی بھی عروضی الف کا وصال کروا کر۔۔۔ ۔۔
عروضی الف کیا ہے؟ اور بیانِ قافیہ، یا علم قافیہ میں، ایسی بات کا کیا مطلب
مقصد یہ کہ یہ کسی لفظ کا الف نہیں بلکہ تقطیع اور آہنگ کی صورت میں سخن یا انجمن سے مل کر انجمنا اور سخنا بن گیا ہے۔ قافیہ میں روی سمیت سارے حرف قافیہ ایک لفظ کا حصہ ہوتے ہیں۔ عروض کی غرض سے ادھار لئے ہوئے حرف جیسے سخنا کا الف حرف قافیہ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ :)

3۔ آپ سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔ دراصل روی کے بعد جو حرف زائد ہوتے ہیں ان کا قانون یہ ہے کہ اگر ان حروف کو لفظ میں سے نکال دیا جائے تب بھی معنی کے حساب سے کوئی نقصان نہیں ہوتا

حرف روی کے بعد آنے والے چار حروف کے نام میں نے مضمون میں دئیے ہیں اور اس میں سے اردو شاعری ایک "وصل" ہی مستعمل ہےیہ بھی لکھا ہے
چاروں حروف زائد کی حیثیت مستقل ہے یعنی کسی حرف کو ہٹا نے سے یہ نہیں غائب ہوتے ۔ حرف روی کے بعد کا پہلا حرف خواہ جتنی بار بھی بدلا گیا ہو
حرف زائد وصل ہی رہے گا ، یانی جو حرف بھی بدلنے سے حرف روی سے متصل ہوگا 'وصل کہلائے گا ۔
اگر روی ساکن ہے تو اس پر توجیہ کی شرط ہے کہ تمام قافیوں میں حرف روی سے قبل آنے والے حرف پر ایک ہی جیسے اعراب ہوں
اگر فتح (زبر ) ہے تو سب پر اور کسرہ (زیر ) ہے تو سب پر ، اسی طرح پیش کے ساتھ ہوگا


توجیہ کی بات یہاں کرنا بے مقصد ہے کہ یہاں توجیہ کا مسئلہ نہیں ہے۔
پہلی بات یہ ہے کے روی کے بعد کے سارے حروفِ قافیہ کی تکرار بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ردیف کی۔
اور آپ کے اور آپ کی کتاب حدائق البلاغت کے ترجمے کے مطابق وصل کے علاوہ کوئی حرف زائد مستعمل نہیں ہے تو محترم میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر میں شعر کے ایک مصرعے میں ”نہیں“ اور دوسرے میں ”یہیں“ یا کسی دوسرے شعر میں ایک مصرعے میں ”جلانا“ اور دوسرے میں ”بجھانا“ قافیہ کروں تو روی کونسا ہوگا؟ ذرا تفصیل کے ساتھ بتائیں۔
مزید یہ کہ ”رہونگا“ اور” کہونگا“ میں بھی روی اور دیگر قافیہ کا حرف یا حروف زائد کی نشاندہی کریں (اگر ہوں تو) :)


اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے تو مجھے غلطی پر ہی رہنے دیں،اور ایک عدد مضمون کسی کو مخاطب کئے بغیر ،بیان وعلمِ قافیہ پر داغ دیجئے
تاکہ سب کا فائدہ ہو
ورنہ یہ کہ علم وبیانِ قافیہ پر کوئی مستند کتاب لے کر اس پر کچھ مہینے لگائیے

جی ضرور۔ کوئی مستند کتاب پڑھونگا اگر کبھی مل گئی تو۔ :) یا آپ کسی دو چار کتابوں کے نام بتا دیں جو مستند ہوں آپ کے نزدیک اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو۔ :) کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ فراز سے پہلے جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ مستند تھیں مگر اب ضرور ایک مستند کتاب لکھنی چاہئے کسی استاد کو۔ :)



علم و بیان قافیہ سے یہ ثابت کرنے میں کہ فراز صاحب کے قافیہ کس طرح سے صحیح ہیں کے لئے قوافی کے علم سے ہی رجوع کرنا پڑے گا، آپ بہت سے غیر ضروی
باتیں اور مثالیں شامل کر دیتے ہیں، یا اس سے متفق اس سے متفق بغیر سمجھے یا سوچے کلک کرتے رہتے ہیں
جی جناب قافیہ کے علم سے ہی رجوع کرنا پڑیگا۔ میں نے تو واللہ کبھی یہ نہیں کہا کہ قافیہ کے علم کے لئے علم بدیع یا بیان سے رجوع کرنا پڑے گا۔ :surprise:
اور قسم لے لیجئے اگر کسی پر غیر متفق کا بٹن دبایا ہو تو۔ یا بے وجہ متفق کا بٹن دبایا ہو۔
غیر متفق تو وجہ کے باوجود بھی نہیں دباتا کہ مجھے پسند نہیں ایسی حرکت۔ خصوصا بڑوں کے ساتھ۔ :)



اصولا ایسا ہونا چاہیے کہ اس پر کسی لائبریری ہی سے سہی کتاب لے کر، تحقیق کرکے ،اچھی طرح سے سمجھ کر، باعلم ہوکر پھر کسی کو سمجھایا جائے
تاکہ اگر اسناد کی یا حوالے کی ضرورت پر آپ با لیس ہوں، اور آپ کی بات بھی مدلل ہونے کے باعث مستند مانی جائے گی
جی حضور ضرور۔ کوئی مستند کتاب لکھی جائے گی تو ضرور پڑھونگا۔ ابھی تک تو روی اور حروف قافیہ کی خود ساختہ تعریف سناتا رہا ہوں جس پر سخت معذرت خواہ ہوں :)



علم عروض کی کتا بوں میں بابِ قافیہ سب سے پیچیدہ ہے، اسی لئے بعض مصنفوں نے اس کی طوالت اور پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر سرسری ذکر پر
ہی اکتفا کیا ہے، اور شارٹ کٹ کے لئے تقطیع کا طریقہ اور مروجہ بحریں، ان بحروں میں ممکنہ تمام شکلیں لکھ دیں کہ یاد کرو کہ کس کی ٹانگ توڑی جاسکتی ہے
اور کس کا سر ۔۔ بعض تو ١ ٢ کی گردان سے آگے ہی نہیں بڑھتے ، آپ ماشاللہ ینگ ہیں مطالع کی عادت سے بہت حاصل کرسکتے ہیں

واللہ 1 2 اور 2 1 والی گردان میں نے کبھی غلطی سے بھی کرلی ہو تو میں مجرم۔ :)
میں تو سرسری بحریں بھی نہیں جانتا۔ :)


کوشش کیجئے کہ جس امور یا نقطہ پر بات ہورہی ہے اسی کو مد نظر رکھیں ، اسی کو فوکس کریں
علامہ اقبال ، غالب یا کسی اور کو بلا ضرورت کونورزیشن میں گھسیٹنا موضوع سے ذہن ہٹانے کے مترادف ہے
آپ میرے مخاطب کبھی بھی نہیں تھے اس مضامین میں، جنرل بات کی ہے سب کا فائدہ نظر میں ہوتا ہے

جناب میں تو شروع سے فراز پر ہی اٹکا ہوا ہوں اور اب بھی وہیں قائم ہوں۔ :)
اور وہ یہ کہ روی کسی بھی با معنی لفظ کا آخری حرف ہوا کرتا ہے۔
روی کسی بھی اصل لفظ کے کسی درمیان والے حرف کو نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی اس صورت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہاں حروفِ زائد کو قافیہ کی مناسبت سے روی بنایا جاسکتا ہے۔ مگر اصل حروف کو کسی صورت قافیہ کرنا درست نہیں۔ اور یہی میرا موقف ہے کے لفظ ”فنا“ میں نون حرف اصل ہے حرف زائد نہیں اسے روی بنانا ممکن نہیں۔


اب آپ کے نام سے یوں لکھا کہ آپ نے مخاطب کیا ، اس قسم کے مضامین میں یوں ضروری بھی نہیں ہوتا
آپ اپنی علمی باتیں بغیر کسی کو فریق بنائے دلائل اور حوالوں سے پیش کرسکتے ہیں

اس پر بہت بات ہو چکی،
پیشگی معزرت اگر بار خاطر ہوئی ہو کوئی بات

بہت خوش رہیں
تشکّر
 
ایک سوال کہ کیا"بُرا، کڑا، ٹوٹا، تمنا، مداوا" وغیرہ ایک ہی غزل میں بطور قافیہ استعمال ہو سکتے ہیں۔

ہاں بلکل ہو سکتے ہیں کہ روی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
سارے روی الف ہیں۔
اس کے برعکس اگر ایک شعر میں قافیہ
”ٹوٹا“ اور ”سمجھا“ ہو تو وہ قافیہ درست نہیں ہوگا۔
 

طارق شاہ

محفلین
ہاں بلکل ہو سکتے ہیں کہ روی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
سارے روی الف ہیں۔
اس کے برعکس اگر ایک شعر میں قافیہ
”ٹوٹا“ اور ”سمجھا“ ہو تو وہ قافیہ درست نہیں ہوگا۔
ٹوٹا اور سمجھا بھی درست ہے، یعنی ہم قافیہ لفظ ہیں
ان کی قافیہ بستگی بالکل صحیح ہوگی
 
ٹوٹا اور سمجھا بھی درست ہے، یعنی ہم قافیہ لفظ ہیں
ان کی قافیہ بستگی بالکل صحیح ہوگی

ایک شعر میں یعنی مطعے میں نہیں ہو سکتے حضور۔ یہیں تو آپ غلطی کر رہے ہیں۔ ان میں حرف روی کیا ہے؟
ہاں اگر غزل کے مطلعے میں تمنا اور مداوا۔ یا تمنا اور سنورنا ہو تو غزل کے باقی اشعار میں ٹوٹا، چھوٹا، سمجھا، جانا سب آسکتے ہیں۔ مگر مطلعے میں ایک مصرعے میں ٹوٹا اور دوسرے میں سمجھا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایطا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
بہت اچھی بحث ہو رہی ہے جس سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ میرا ایک سوال ہے کہ غالب کی غزل کے ان اشعار میں کافیہ اور ردیف کیا ہوگا؟

حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود
ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت اچھی بحث ہو رہی ہے جس سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ میرا ایک سوال ہے کہ غالب کی غزل کے ان اشعار میں کافیہ اور ردیف کیا ہوگا؟

حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز
نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود
ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز

اس میں میرے خیال میں تو کوئی ردیف نہیں ہے، یہ غیر مردف غزل ہے جبکہ قافیہ "نیاز، دراز، فراز" ہو گا۔
جیسے اقبال کی اس غزل میں
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد!
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد مراد؟
قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
 

طارق شاہ

محفلین
اس میں میرے خیال میں تو کوئی ردیف نہیں ہے، یہ غیر مردف غزل ہے جبکہ قافیہ "نیاز، دراز، فراز" ہو گا۔
جیسے اقبال کی اس غزل میں
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
بلال میاں!
صرف اقبال لکھنے یا کہنے سے نہ تو ذہن علامہ سے رجوع کرتا ہے، اور نہ ہمیں زیب دیتا ہے
آپکا یہ انداز تخاطب بالکل نہیں بھایا
ہمارے قدما، علما، اساتذہ شعرا کو اس طرح بلانے یا لکھنےسے اُن پر تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن ہماری شخصیت
دوسروں پر غلط پہلو لئے وضع ہوتی ہے
کہ ہم اپنی گفتگو سے ہی پہچانے جاتے ہیں

امید ہے میری باتیں برادرانہ مشورہ یا خیال ہی جانیں گے ، اور کوئی بات ناگوار نہیں لگی ہوگی
بصورت دگر معذرت خواہ ہوں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں
 

فاتح

لائبریرین
بلال میاں!
صرف اقبال لکھنے یا کہنے سے نہ تو ذہن علامہ سے رجوع کرتا ہے، اور نہ ہمیں زیب دیتا ہے
آپکا یہ انداز تخاطب بالکل نہیں بھایا
ہمارے قدما، علما، اساتذہ شعرا کو اس طرح بلانے یا لکھنےسے اُن پر تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن ہماری شخصیت
دوسروں پر غلط پہلو لئے وضع ہوتی ہے
کہ ہم اپنی گفتگو سے ہی پہچانے جاتے ہیں

امید ہے میری باتیں برادرانہ مشورہ یا خیال ہی جانیں گے ، اور کوئی بات ناگوار نہیں لگی ہوگی
بصورت دگر معذرت خواہ ہوں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں
پورا چیپٹر لکھنا، غالب کے دیوان کا حوالہ ۔۔۔ ۔۔ یاد آیا ؟
علامہ اقبال ، غالب یا کسی اور کو بلا ضرورت کونورزیشن میں گھسیٹنا موضوع سے ذہن ہٹانے کے مترادف ہے
طارق صاحب!
صرف غالب لکھنے یا کہنے سے نہ تو ذہن قبلہ نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ، حضرت میرزا اسد اللہ بیگ خاں غالبؔ رحمۃ اللہ علیہ سے رجوع کرتا ہے، اور نہ ہمیں زیب دیتا ہے
آپکا یہ انداز تخاطب بالکل نہیں بھایا
ہمارے قدما، علما، اساتذہ شعرا کو اس طرح بلانے یا لکھنےسے اُن پر تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن ہماری شخصیت
دوسروں پر غلط پہلو لئے وضع ہوتی ہے
کہ ہم اپنی گفتگو سے ہی پہچانے جاتے ہیں

امید ہے میری باتیں برادرانہ مشورہ یا خیال ہی جانیں گے ، اور کوئی بات ناگوار نہیں لگی ہوگی
بصورت دگر معذرت خواہ ہوں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہی
:)
 
طارق صاحب!
صرف غالب لکھنے یا کہنے سے نہ تو ذہن قبلہ نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ، حضرت میرزا اسد اللہ بیگ خاں غالبؔ رحمۃ اللہ علیہ سے رجوع کرتا ہے، اور نہ ہمیں زیب دیتا ہے
آپکا یہ انداز تخاطب بالکل نہیں بھایا
ہمارے قدما، علما، اساتذہ شعرا کو اس طرح بلانے یا لکھنےسے اُن پر تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن ہماری شخصیت
دوسروں پر غلط پہلو لئے وضع ہوتی ہے
کہ ہم اپنی گفتگو سے ہی پہچانے جاتے ہیں

امید ہے میری باتیں برادرانہ مشورہ یا خیال ہی جانیں گے ، اور کوئی بات ناگوار نہیں لگی ہوگی
بصورت دگر معذرت خواہ ہوں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہی
:)

متفق۔ بلکہ غالب کے حوالے سے محمد وارث بھائی کا انداز تو مجھے انتہائی خوب پسند آیا تھا جسے آج تک سیو کر کے رکھا ہے میں نے۔

امیدِ‌واثق و یقینِ کامل نہ بھی ہو تو ایک موہوم سی امید ضرور ہے کہ اس محفلِ سخنواراں و بزمِ سخن شناساں میں ہم جیسے مبتدیوں کو بھی خوش آمدید کہا جائے گا۔

کہ بقولِ‌خلد آشیانی نجم الدولہ دبیر الملک خان بہادر یار جنگ التیموری الافرسیابی الثمرقندی ثم دہلوی خدائے سخن قبلہ و کعبہ مرشدی:

زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جانِ اسد
وگرنہ ہم تو توقّع زیادہ رکھتے ہیں

خوب!!!!!!!
 

فاتح

لائبریرین
متفق۔ بلکہ غالب کے حوالے سے محمد وارث بھائی کا انداز تو مجھے انتہائی خوب پسند آیا تھا جسے آج تک سیو کر کے رکھا ہے میں نے۔
خلد آشیانی نجم الدولہ دبیر الملک خان نظام جنگ التیموری الافرسیابی الثمرقندی ثم دہلوی خدائے سخن قبلہ و کعبہ مرشدی
سبحان اللہ! سبحان اللہ! یہ ہوئی نا ادب واحترام کی روایت۔ اسے کہتے ہیں گفتگو سے پہچانا جانا، پس ثابت ہوا کہ انتہائی نجیب الطرفین شخصیت ہے جناب قبلہ و کعبہ محمد وارث صاحب مد ظلہ کی۔
پیتا ہوں دھو کے وارثِ شیریں سخن کے پاؤں​
 

طارق شاہ

محفلین
طارق صاحب!
صرف غالب لکھنے یا کہنے سے نہ تو ذہن قبلہ نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ، حضرت میرزا اسد اللہ بیگ خاں غالبؔ رحمۃ اللہ علیہ سے رجوع کرتا ہے، اور نہ ہمیں زیب دیتا ہے
آپکا یہ انداز تخاطب بالکل نہیں بھایا
ہمارے قدما، علما، اساتذہ شعرا کو اس طرح بلانے یا لکھنےسے اُن پر تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن ہماری شخصیت
دوسروں پر غلط پہلو لئے وضع ہوتی ہے
کہ ہم اپنی گفتگو سے ہی پہچانے جاتے ہیں

امید ہے میری باتیں برادرانہ مشورہ یا خیال ہی جانیں گے ، اور کوئی بات ناگوار نہیں لگی ہوگی
بصورت دگر معذرت خواہ ہوں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہی
:)
؟
جناب فاتح صاحب
یہ سب کیا، اور کیوں؟
کچھ سمجھ نہیں پایا میں
 

فاتح

لائبریرین
؟
جناب فاتح صاحب
یہ سب کیا، اور کیوں؟
کچھ سمجھ نہیں پایا میں
طارق صاحب! اس میں نہ سمجھنے والی تو بات ہی کوئی نہیں تھی۔۔۔ اگر آپ اقبال کو صرف اقبال لکھنا بد تمیزی قرار دیتے ہیں تو غالب نے کیا بگاڑا ہے؟ ہم نے آپ ہی کے الفاظ میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ غالب کو صرف غالب لکھنا بھی بد تمیزی میں شمار ہوتا ہے کہ "ہمارے قدما، علما، اساتذہ شعرا کو اس طرح بلانے یا لکھنےسے اُن پر تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن ہماری شخصیت دوسروں پر غلط پہلو لئے وضع ہوتی ہے"۔ :)
 

طارق شاہ

محفلین
فاتح صاحب!
آپ ماشاللہ خود بھی شاعر ہیں اور الفاظ کے معنی اور استعمال سے ہماری طرح کسی حد تک واقف بھی ۔
آپ کے یوں جواباََ لکھنے یا کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم بلال اعظم صاحب (جو اِسی قلم قبیلہ کے ہیں اور ہم سب سے چھوٹے بھی ہیں ) کی تصحیح ، سرزنش، یا اصلاح محض اس لئے نہ کریں، کہ ہم سے بھی ایک غلطی ہوئی ہے۔ ۔۔۔ یہی نا
تو فاتح صاحب کوئی مخبوط الحواس شخص ہی ہوگا جو اپنے گھر میں، یا اپنے بھائی، بہن، بیٹے، دوست یا وہ جس کی فلاح چاہتا ہے کو کسی غلط یا مضرعادت، یا حرکت
پر تنبیہ نہ کرے یا اس کی توجہ نہ دلائے۔ شرابی یا کسی بھی بری addiction میں مبتلا بھی (اگر حواس میں ہے ) یہ نہ چاہے گا کہ اُس کا کوئی عزیز یا گھر کا فرد، اُس سا ہو

اس چیز میں کسی قسم کی بھی tolerance ،مدافعت سے در گزری دوستی نہیں دشمنی ہے

شاعر، علم و تہذیب کا منبع اور شاعری اسی چیز کی متقاضی ہوتی ہے

امید ہے آئندہ اپنی سوچ مثبت ہی رکھیں گے ، اور بندہ یا کسی کی بھی، اخلاقی ، تہذیبی غلطی پر فوراََ توجہ دلائیں گے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام ذہنی پریشانیوں، الجھنوں سے اور امراض سے دور رکھے، ہم سب کو خوش اور توانا رکھے
اور ہمیشہ بڑوں اور ایک دوسرے کی عزت کی توفیق عطا رکھے۔

بہت خوش رہیں
 

فاتح

لائبریرین
طارق صاحب! ہم نے بھی محض توجہ دلانے (بلکہ وہ بھی سو فیصد آپ ہی کے الفاظ میں) کے سوا تو کچھ بھی نہیں کیا۔
رہی بات شعرا کو نام اور القابات ہٹا کر محض ان کے تخلص سے مخاطب کرنے کی تو ہماری نظر میں کسی اہلِ قلم کے لیے یہ سب سے بڑا رتبہ ہوتا ہے کہ اس کا ذکر صرف اس کے قلمی نام یا تخلص سے کیا جائے اور تمام قارئین کا ذہن براہ راست اس شاعر یا ادیب تک ہی پہنچے۔۔۔ مثلاً میرؔ کے تخلص کے ساتھ ہی دسیوں شعرا مل جائیں گے اردو ادب میں لیکن آج اگر کوئی صرف میر کہے تو ہمارا ذہن سوائے میر تقی میر کے کسی کو نہیں سوچتا اور یہی حال اقبال کا ہے کہ اقبال نام کے تو شاید دسیوں کی بجائے سینکڑوں ادیب اور بلا شبہ لاکھوں انسان مل جائیں گے ہمارے ادب اور معاشرے لیکن آج آپ اگر صرف "اقبال" کہیں گے تو سامع یا قاری کا ذہن براہ راست علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو ہی سوچے گا۔۔۔
کیا حاتمؔ، قائمؔ، سوداؔ، غالبؔ، ذوقؔ، مومنؔ، حسرتؔ، فیضؔ، وغیرہ کے ناموں اور تخلص کے کئی شعرا و ادیب نہ گزرے ہوں گے اردو ادب میں؟ لیکن بغیر کسی اضافت کے یہ نام پڑھ کر آپ سو فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس جملے میں ہماری مراد کن اساتذہ سے ہے۔
اس سے بڑھ کر شناخت اور رتبہ کیا ہو گا کسی ادیب کے لیے؟ہماری رائے میں تو علامہ، سر، ڈاکٹر، نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ، ملک الشعرا خاقانیِ ہند وغیرہ لکھ کر ہم ان اساتذہ کی لاثانی شناخت اور رتبے کو کم کریں گے۔
امید ہے اس جانب بھی غور فرمائیں گے۔
اگر ہماری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہیں۔
 
جی با لکل ہو سکتے ہیں، یہ قوافی شرط توجیہ پر پورے اترتے ہیں
کیونکہ اِن میں حرف روی ا (الف) ہے
اوراِس قافیوں کے ساکن الف (حرف روی ) سے قبل کے تمام حرف پر ایک جیسے اعراب (زبر ) ہیں

بس یہ خیال رہے کہ سا کن حرفِ روی سے قبل آئے حرف پر، اعراب (حرکت ) جسے توجیہ کہتے ہے ایک سے ہوں

اِن یا اِس طرح کی قوافی میں روی سے قبل کے حروف پر، اعراب کا اختلاف درست نہیں (معیوب ہے اور اس عیب کو سناد کہتے ہیں)


حضور آپ یہاں بھی غلطی کر گئے ہیں.
سناد دوسری چیز ہے. جو عیب آپ نے بیان کیا وہ سناد نہیں ہے. تصدیق فرما کر صحیح اصطلاح سے آگاہ فرمائیں. اور ساتھ ہی سناد کی صحیح تعریف سے بھی آگاہ فرمائیں.
مزید اگر گراں نہ گذرے تو سناد اور مذکورہ عیب کی اصطلاح کے ساتھ دونوں کا فرق بھی واضح فرمائیں شکر گذار رہوں گا.

رفیق :
بسمل
 
Top