ج۔ حج کے چھ فرائض ہیں جو درج ذیل ہیں :
١۔ اِحرام باندھنا
٢۔ وقوفِ عرفہ : یعنی نویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب سے دسویں کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے کسی وقت مقامِ ’’عرفات‘‘ میں ٹھہرنا۔
٣۔ طوافِ زیارت : طواف کے سات پھیروں میں سے کم از کم چار پھیرے مکمل کرنا۔ یہ دونوں چیزیں یعنی وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارت حج کے رکن ہیں۔
٤۔ نیت : حج کے لیے نیت کرنا ضروری ہے۔
٥۔ ترتیب : یعنی پہلے احرام باندھنا پھر عرفہ میں ٹھہرنا پھر طواف زیارت، ہر فرض کا بالترتیب اپنے وقت پر ادا کرنا۔
٦۔ مکان : یعنی وقوف عرفہ، میدانِ عرفات میں نویں ذی الحجہ کو ٹھہرنا سوائے بطنِ عرفہ کے (یہ عرفات میں حرم کے نالوں میں سے ایک نالہ ہے جو مسجد نمرہ کے مغرب کی طرف یعنی کعبہ معظمہ کی طرف واقع ہے۔ یہاں وقوف جائز نہیں) اور مسجد الحرام کا طواف کرنا۔
حج کے لئے :
نیت کرنا
احرام باندھنا
نویں ذی الحج کو عرفات میں قیام کرنا۔ یہ نویں ذی الحج کو طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے نہ کے نویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب سے دسویں کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک۔
نویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب سے دسویں کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک تو مزدلفہ میں قیام کرنا ہوتا ہے۔
عموماً حاجی لوگ نویں ذی الحج کو منٰی میں نماز فجر کے بعد میدان عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ اور غروبِ آفتاب سے قبل عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ عرفات کے میدان کے اطراف میں بہت بڑے بڑے بورڈ نصب ہیں جن پر واضح الفاظ میں " حدود عرفات " لکھا ہوا ہے۔ بھلے ہی جگہ نہ ملنے کے باعث عرفات کی حدود سے باہر ڈیرے ڈالے ہوں لیکن طلوع و غروبِ آفتا ب کے درمیان کچھ دیر کے لئے عرفات میں قیام لازمی ہے۔ اور یہی حج کا اہم اور سب سے بڑا رکن ہے۔
عرفات میں حاجی صاحبان نمازِ ظہر اور عصر قصر کر کے امام کے ساتھ اکٹھی پڑھتے ہیں۔ وہ حضرات جو مسجد سے دور ہوتے ہیں اور جہاں امام کی آواز نہیں جاتی وہ ظہر اور عصر پڑھتے تو قصر ہیں لیکن اکٹھی نہیں پڑھتے بلکہ اپنے اپنے وقت پر پڑھتے ہیں۔
مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ اور یہیں سے حاجی لوگ رمی جمار کے لیے کنکریاں چنتے ہیں۔
رمیِ جمار، قربانی اور حلق یعنی سر منڈاھنا بھی حج کے ارکان ہیں۔
اس کے بعد احرام کھول سکتے ہیں۔
طوافِ زیارت اور سعی صفا مروہ بھی ارکانِ حج میں سے ہیں اور سات چکر ہی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی دفعہ سات چکر لگائیں، اگر تھکاؤٹ یا رش کی وجہ سے رکنا چاہیں تو رک سکتے ہیں، لیکن چکر سات ہی پورے کرنا ہوتے ہیں۔
جب حج کے ارکان پورے ہو جائیں تو کوشش یہی ہونی چاہیے کہ طوافِ وداع کر کے اپنے گھر کو روانہ ہو جائیں۔
دسویں ذی الحج کو عید الاضحی منائی جاتی ہے۔ لیکن حاجی صاحبان چونکہ رمی جمار، قربانی اور حلق میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے وہ عید کی نماز نہیں پڑھتے۔