ترکی کا موجودہ صدر کچھ غنیمت ہے مگر اپ شاید ترکوں سے ملے نہیں ہیں یا ترکی کا دورہ نہیں کیا ہے۔ اپ ترکوں کو قریب سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ قوم بے حد مغرور ہے۔ میر اخیال ہے قوم پرستی میں ترک قوم کا کوئی ثانی نہیں۔ انتہائی تند خو ہے۔ قوم پرستی میں اتنی زیادہ ہے کہ عربی رسم الخط ترک کردیا ۔ ایک عرصہ تک ترکی میں عربی زبان میں اذان پر پابندی رہی ہے۔ اکثر ترکیوں کو عربی پڑھنی نہیں اتی۔ اگر ان کا تعلق شہروں سے ہے تو عربی جاننے کی کوئی امید نہیں ۔ البتہ گاوں کے لوگ قران عربی میں پڑھ سکتے ہیں
ترک عرب دشمن ہیں۔ ایک بڑی تعداد سیکولر لامذہب ہے۔ اور جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ مذہب کی تعلیمات کو اپنی نظر سے توڑ مروڑتے ہیں۔ ان کی نئی نسل اخلاق باختہ ہے۔
البتہ موجودہ صدر اور وزیر اعظم کچھ بہتر ہیں۔ مگر پھر بھی ان کا طریقہ کار یہ ہی ہے کہ بجائے عمل کے صرف امیج سازی کی جائے۔ ترکی نے مصر کے موجودہ حالات میں کچھ خاص مدد نہیں کی ہے نہ ہی اپنے تعلقات امریکہ سے کشید ہ کیے ہیں نہ اسرائیل سے۔ یہ کیسا ملک ہے جو مسلمانوں کے دشمنوں سے قریبی تعلقات بھی بحال رکھتا ہے اور یہودیوں جیسے نشانات کے ذریعہ مسلمانوں کو گمراہ بھی کرتا ہے
آپ نے اس مراسلے میں جو باتیں کی ہیں۔ کسی حد تک حقیقت آشنا ہیں۔ مگر شک جو میرا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے موجودہ ترک عوام کے کسی خاص طبقے سے مل کر یا اُن کے موجودہ احوال یک طرفہ طور پر پڑھ کر یہ رائے قائم کی ہے۔ جو اپنی حد تک ٹھیک ہے مگر ہوسکتا ہے آپ نے وہ وجوہات نہیں پڑھی ہوں جن کہ سبب ایسے حالات یا اذہان وجود میں آئے۔ پہلی بات ان کے غرور کی ہے۔ غرور ہر فاتح قوم میں سرائیت کر جاتاہے۔جو کہ ان کے لیے بالآخر تباہی کا پیغام لے کر آتاہے۔ترک قوم نے ایک عرصے تک مسلمانوں کی نمائندگی کی ہے جسے ہمیں احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔آخر انہوں نےاسلام کے بول بالے کے لیے عربوں سے زیادہ کوششیں کی۔ یعنی جب کوششوں کا پلڑا ترکوں کا وزنی ہوا تو اقتدار ان کو ملا۔ مگر جیسے جیسے اُن میں تکبر ،غرور اور اسلامی تعلیمات سے بے رُغبتی نےپاؤں جمائے ان کی ہوا اکھڑ گئی۔ ساتھ ساتھ ہمیں پہلی جنگ عظیم کے حالات بھی دیکھنے ہوں گے۔اب یہ کہناکہ غرور کے سبب تُرک قوم نے عربی رسم الخط ترک کیا یہ ٹھیک نہیں۔ بلکہ اس کی وجہ مصطفی کمال اتاترک کی وہ سخت ترین پابندیاں تھی جن کی وجہ سے ان کو عربی رسم الخط (اور اس کے نتیجے میں اپنی شاندار ماضی کے حقیقی رکارڈ )سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مزید اذان پر پابندی بھی مصطفی کمال اتاترک کی پالیسی تھی، نہ کہ ترک قوم کی۔اتاترک کے" نوجوانانِ ترک "نے اسلام کے لیے اس خطے کو جتنا تنگ کیا اتنا کسی اور ملک میں نہیں ہوا۔لٰہذا عربی نہ پڑھ سکنے کا بڑاتعلق صرف انہیں وجوہات سے ہے۔ نہ کہ غرور وتفاخر سے۔پاکستان میں کتنے پڑھے لکھے لوگوں کو عربی آتی ہےیہ بھی سوچنے کی بات ہے۔
چوں کہ موجودہ اسلامی پارٹی کی پالیسی "کیچوے کی چال" کی بنیاد پر قائم ہے لہذا وہاں بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر آرہی ہیں۔ آپ نے شایدحکمران پارٹی"انصاف و ترقی "کے دور کے حالات کا بخوبی جائزہ نہ لیا ہو۔ جہاں مصطفی کمال اتاترک کے تمام نظریات و پابندیوں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جارہاہیں۔آج اگر اس ملک کے اسلامی معاشرتی تشخص کو دیکھا جائے تو ہمیں افسوس کے بجائے بے حد خوشی ہوگی۔آج کی ترکی پہلے کی نسبت بہت زیادہ بابرکت ہے۔یہ سب نمایاں طور پر اس وجہ سے بھی زیادہ نظر نہیں آتا کہ مصطفی کمال سے لیکر اب تک تقریبا 90سال کم وبیش کا عرصہ انتہائی زور زبردستی کا رہاہے۔جس کے باعث یہ کام اتنا جلدی ممکن نہیں ہوسکتا،جب کہ ہر وقت ان کی حکومت گرانے کی سازشیں بھی عالمی سطح پر ہورہی ہوں۔
جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ"ترک عر ب دشمن ہیں "تو یہ بات بھی تاریخ کے نہ پڑھنے کا سبب ہوسکتی ہے۔اس سے انکار نہیں کہ اتنی بڑی قوم میں کچھ حصہ تو ایسے لوگوں کا ضرور ہوگا،مگر ساری قوم کواس کھاتے میں ڈالنا ناانصافی ہے۔جب کہ مصطفی کمال اتاترک کے سیکولر حلقے کی ان کوششوں کو دیکھ کر ،جن کی وجہ سے انہوں نے اپنے طویل اورسخت باعمل دور میں ترکوں کو عربوں سے متنفر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، تاکہ پھر یہ دونوں قومیں ایک بازو نہ ہوجائے، اور دوسری طرف عرب طاقتور قوم پرستوں نے اپنے زیرِ نگیں عربوں کو یورپی سازشوں کی بدولت ترکوں سے اتنا بد ظن کیا کہ ان کے اثرات بعد کے حالات پربُری طرح پڑے۔
دوسرا سبب ترکی کی "عرب مخالف" (مگر غیرقوم پرست)طبقے کے سوچ کایہ ہے کہ عرب قوم پرستوں (جو آج برسرِاقتدار ہیں ) نے پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے میں جتنا حصہ ڈالا ہے اتنا تُرکیوں کی اپنی کوتاہیوں نے بھی نہیں ڈالا ہوگا۔اوران کا یہ سوچ بھی صرف ان عربوں کے خلاف ہے جو اس پارہ سازی کا سبب بنے۔
آخر میں"
ان کی ایک بڑی تعداد سیکولر لامذہب ہے،مذہبی تعلیمات کو توڑ مروڑتے ہیں اور نئی نسل اخلاق باختہ ہے،" کی باتیں رہ گئی تو جب تک مصطفٰی کمال اتاترک کے نافذ کردہ سیکولرازم اور اسلام مخالف پالیسیوں کے اثرات کا بغور مطالعہ نہ کیا جائے
یہ آسان اندراجات سمجھ میں اس وقت تک نہیں آسکتی ۔
موجودہ حالات میں حکمران جماعت نے امریکہ سے تعلق خراب نہیں کیا تو اس کا سبب ترکی کی محلِ وقوع،ماضی کی فوجی بغاوتیں، طاقت ورسیکولر عناصر کی خطرناک بین الاقوامی ریشہ دوانیاں، اور "فائدہ ونقصان " کے تناسب کو دیکھنا ہے۔ جب سب کچھ امریکہ سے تعلق خراب کیےکے باوجود بحسن وخوبی پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے تو آخر اسے خراب کیوں کیا جائے؟ ایک تیر سے ایک شکار کے مقابلے میں ایک تیر سے دو شکار اچھے ہوتے ہیں۔لیکن یہ منافقت ہر گز نہیں ، انہوں نے ہر سطح پر اپنی قوت کی مناسبت سے امریکہ کے ہر غلط فیصلے کی کھلم کھلا مخالفت بھی کی ہے۔جب کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی اب وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔نہ پہلے اور نہ آج انہوں نے فلسطین کے خلاف تعاون کیا ۔تجارت اور فوجی مشقوں میں ان کا فائدہ زیادہ ہے اس وجہ سےہی انہوں نے یہ پالیسی اپنائے رکھی۔ فلسطین ہو یا شام، مصر ہو یاعراق انہوں نے تمام "مسلم" ممالک کے حکمران پارٹیوں سے زیادہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کی ہے۔ آخر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ پر بھی حملہ کردے، اسرائیل کو تباہ کرے، شام پر بھی چھڑائی کرے، اور ایک طویل عرصے تک لادین عناصر کے زیر تسلط رہنے والی باشعور قوم کو بھی کامیابی کے ساتھ اسلامی دائرے میں لے آئے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ان کی اپنی کامیاب پالیسی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ سب کچھ بہتر طور پر ہورہا ہے، ہمیں ان کے ہر اچھے اور دینی کوشش کو عزت اور ستائش کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔غلطیاں سب میں ہیں لیکن جہاں اتنی کامیابیوں کے ساتھ ایک دو غلطیاں ہوں تو ان کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شاید ہمیں زیب نہ دیں۔ آج ترکی اپنی اپنی حد تک دو طاقتور طبقوں پر مشتمل ہے، اسلام پسند اور سیکولر۔ لہذا کوئی رائے قائم کرتےوقت اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے۔
کمی کوتاہی کے لیے معذرت۔
والسلام۔