محسن حجازی
محفلین
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=jzrz033OPu0[/youtube]
جب ہم میٹرک کے بعد سیدھے انٹر میں پہنچے تو سب کتابیں انگریزی میں دیکھ کر خاصے سٹپٹائے گھبرائے۔ بلکہ ہم کو یاد ہے امی جان نے جب ہمارے حوالے نئی کتابیں کیں تو اٹھاتے ہی ہمارے دل کی رفتار ایک دم مدھم سی ہوگئی ایک انجانے خوف سے۔۔۔ کیا یہ سب ہم پڑھ پائیں گے؟ یاد کیسے رہے گا؟ لکھنا تو آتا نہیں تو بنے گا کیا؟ کیا ہم زندہ رہیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ان دنوں ہم کمار سانو کی آواز میں یہ گیت بہت سنا کرتے تھے۔
رات بھر دیدہ نمناک میں لہراتے رہے۔۔۔۔
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی۔۔۔۔
آج ان کتابوں کے واقعے کو آٹھ سال بیت گئے۔۔ انٹر کیا، یونیورسٹی اور پھر عملی زندگی۔۔۔ بہت کچھ بیت گیا!
کچھ دنوں سے پھر آنکھیں نم رہیں تو یہ گیت یاد آیا جھاڑ پونچھ کر تو گوگل والوں نے پہلے ہی رکھ چھوڑا تھا ہم کو ڈھونڈنا پڑا سنتے ہوئے خیال آیا کہ اسے یہاں بھی لگا دیا جائے
ہاں انگریزی کا کیا بنا؟
جب ہم انٹر کے دوسرے سال میں پہنچے تو ہمیں یاد ہے کہ کانونٹ کی تعلیم یافتہ ایک خاتون کو ہم نے اپنی ایک انگریزی نظم سے مہبوت کر دیا تھا
لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ نظم ہماری ایک پنجابی نظم کی پشت پر لکھی ہوئی تھی، شدید حوصلہ شکنی کے باعث ہم نے دونوں ساتھ والے خالی پلاٹ میں پرزے پرزے کر کے پھینک دی تھیں!
اگلے روز جو ہم دوپہر کو کالج سے لوٹے تو پلاٹ میں سے گزرتے ہوئے آئے کہ شاید پرزے پڑے ہوں لیکن صحرا کی تیز ہوائیں شاید اسے کہیں دور اڑا لے گئیں۔۔۔۔۔۔۔
خیر لغویات چھوڑئیے، آپ گیت سنئے!