فرخ منظور
لائبریرین
رات رو رو کے سو گئیں آنکھیں
چہرہء غم کو دھو گئیں آنکھیں
نیند کے نیم سبز کھیتوں میں
فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں
دیکھ کر سنگدل زمانے کو
خود بھی پتھر کی ہو گئیں آنکھیں
رنج و غم کے سفید دھاگے میں
سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں
دل کی بینائی سے جلا کے چراغ
سفرِ دید کو گئیں آنکھیں
پھر کسی نے تمہارا نام لیا
پھر کہیں دور کھو گئیں آنکھیں
اُس کی آنکھوں کی جھیل میں مقسط
دل کی ناؤ ڈبو گئیں آنکھیں
چہرہء غم کو دھو گئیں آنکھیں
نیند کے نیم سبز کھیتوں میں
فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں
دیکھ کر سنگدل زمانے کو
خود بھی پتھر کی ہو گئیں آنکھیں
رنج و غم کے سفید دھاگے میں
سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں
دل کی بینائی سے جلا کے چراغ
سفرِ دید کو گئیں آنکھیں
پھر کسی نے تمہارا نام لیا
پھر کہیں دور کھو گئیں آنکھیں
اُس کی آنکھوں کی جھیل میں مقسط
دل کی ناؤ ڈبو گئیں آنکھیں