رانا سعید دوشی کی شاعری(مہربانی فرما کر کمنٹس نہ دیں تاکہ قاری صرف شاعری سے لطف اندوز ہو سکے)

محبت کوئی چھوٹی چیز ہے کیا
کوئی اس سے بڑی بھی چیز ہے کیا
خسارہ اور محبت میں خسارہ
یہ کوئی کاروباری چیز ہے کیا
فقیری تو نہیں جو تجھ کو دے دوں
خدائی بانٹنے کی چیز ہے کیا
یہاں سارا جہان سمٹا پڑا ہے
مری آنکھوں کی پتلی چیز ہے کیا
پرائی سانس ، جیون دان اس کا
بدن میں پھر تمہاری چیز ہے کیا
 
روشنی شب کے تضادات سے ہی بنتی ہے
جیت وہ چیز ہے جو مات سے ہی بنتی ہے
وقعتِ عقل کمالات سے بنتی ہوگی
وسعتِ قلب تو جذبات سے ہی بنتی ہے
شہرِ دل سیکھ لے شریانوں کی عزت کرنا
شہر کی شان مضافات سے ہی بنتی ہے
لمس ایسا ہے کہ پوروں سے بھی سُر بولتے ہیں
نغمگی جیسے ترے بات سے ہی بنتی ہے
تونے بھی کچھ تو کہا ہوگا یقیناََ دوشی
بات بہتان کسی بات سے ہی بنتی ہے
 
وہ اندر سے مقفل ہوگیا ہے
مکاں جیسے مکمل ہوگیا ہے
یہ جس کے قہقہے تم سن رہے ہو
کسی صدمے سے پاگل ہوگیا ہے
کسی کے دشت پر ہنستا تھا میں بھی
مرا بھی شہر جنگل ہوگیا ہے
دھواں سا تھا برونِ چشم لیکن
درونِ چشم بادل ہوگیا ہے
چلو! اشکوں کے دریا کام آئے
ترا صحرا تو جل تھل ہوگیا ہے
 
پیڑ کے کٹنے سے آنگن تو کشادہ ہو گیا
دکھ پرندوں کا مگر حد سے زیادہ ہوگیا
کھِچ گئی دیوار گھر میں آدھا آدھا ہوگیا
درمیاں جیسے ہمالہ ایستادہ ہو گیا
اے ٹپکتی چھت میں تجھ پر اور مٹی ڈالتا
پر ترا شہتیر ہی بھر کر برادہ ہوگیا
اس برس عریانیت پر احتجاج ایسے ہوا
ہر شجر آندھی کے آگے بے لبادہ ہوگیا
 
جھوم رہے ہیں سارے اپنی آنکھ میں لے کے خواب
بول کہاں پر رکھے ہیں میرے حصے کے خواب
دھوکہ دے کے لے گیا آنکھیں بینائی کے ساتھ
میرے پاس بچے تھے باقی بس لے دے کے خواب
روز خیالوں میں آتی ہے ان دیکھی تصویر
میرے خواب ہیں ایسے جیسے نابینے کے خواب
سنی سنائی باتوں سے بنتی ہے یوں تصویر
بیگانی آنکھوں میں جیسے ہوں مانگے کے خواب
لے گیا چھین کے ہاتھ سے بچہ نابینے کی آنکھ
کس لاٹھی سے دیکھے گا وہ اب چلنے کے خواب
میرے جیسا چہرہ اس کا میرے جیسی آنکھ
شاید میرے جیسے ہوں میرے جیسے کے خواب
روٹی روٹی کرتا بچّہ جاگا کچی نیند
کس چولہے پر پکتے ہونگے اس بچّے کے خواب
خواب ہوئی ہے اب تو دوشی ہر مومی تعبیر
پتھرائی آنکھوں میں ٹوٹے ہیں شیشے کے خواب
 
اک تاک شکاری کے نشانے کی طرح تھا
وہ شخص بھی لگتا ہے زمانے کی طرح تھا
سینے پہ یوں ہی سانپ نہیں لوٹ رہے تھے
اک راز مرے دل میں خزانے کی طرح تھا
نشہ سا کوئی لمس کا اترا تھا بدن میں
وہ لمس ترے ہاتھ ملانے کی طرح تھا
جس غم کے سبب سارے زمانے سے خفا ہوں
وہ غم جو ترے چھوڑ کے جانے کی طرح تھا
وہ بار تھا سر پہ کہ زمیں کانپ رہی تھی
وہ بار جو احسان اٹھانے کی طرح تھا
 
مصیبت ہے مجھے ہر کام بیکاری بھی مشکل ہے
بہت دشوار خوش رہنا، عزاداری بھی مشکل ہے
میں کیسے چاہنے والوں کے دل کو ٹھیس پہنچاؤں
کہ مجھ سے تو حریفوں کی دل آزاری بھی مشکل ہے
محبت، وہ بھی دشمن دیش کی اس غیر مزہب سے
دلِ کافر! تری تو اب طرفداری بھی مشکل ہے
بہت آسان سمجھے تھے ہم اس کارِ محبت کو
محبت کی تو میری جان اداکاری بھی مشکل ہے
ہم ایسوں کو مسالک کے مسائل میں نہ الجھاؤ
ہم ایسوں سے تو مذہب کی رواداری بھی مشکل ہے
ہم اتنی دیر میں دشتِ جنوں سے ہو کے لوٹ آئے
خردمندوں سے اتنے میں تو تیاری بھی مشکل ہے
 
یونہی بے فیض تجھے ہم نے پکارا ، انصاف!
خود جو مجرم ہو کرے کیسے گوارا انصاف
موم کی ناک بنا رکھا ہے تم نے قانون
جس طرف موڑ لو، مڑ جائے بچارا انصاف
آیا جنگل سے کوئی بوزنہ میزان بدست
دونوں پلڑوں سے ہڑپ کر گیا سارا انصاف
جرم _ توہین _ عدالت کی لٹکتی تلوار!
تھر تھراتا ہے ترے خوف کا مارا، انصاف
ہار کے خوف میں جس شخص کو تھی صلح عزیز
جیت امکان میں آتے ہی پکارا، انصاف۔
جان پر کھیل کے پہنچا ہوں شہادت کے لیے
اب بھی "تاخیر" پہ الجھو تو تمہارا انصاف
اپنے بچوں سے کہیں بڑھ کے تجھے وقت دیا
شاعری! کیسا رہا تجھ سے ہمارا انصاف
 
کب گلہ کوئی کسی دست_حنائی سے کیا
ایک شکوہ تھا خدا سے جو خدائی سے کیا
سب سپہ گر تھے کوئی قیس نہ تھا پرکھوں میں
عشق آغاز بھی ہم نے تو لڑائی سے کیا
ایک صحرا تھا کہ سیراب مجھے کرنا پڑا
آنکھ میں اشک نہ تھے آبلہ پائی سے کیا
خود سے بھی ہم نے چھپائی ہے ترے عشق کی بات
بس یہی جرم تھا جو ہم نے صفائی سے کیا
اک محبت کا ہی اظہار نہیں ہم سے ہوا
ورنہ ہر کام یہاں ہم نے ڈھٹائی سے کیا
اب مجھے تجھ پہ نہیں، خود پہ ہنسی آتی ہے
کیوں تبابل کسی کہسار کا رائی سے کیا
ناخنوں کے لیےطعنہ تو یقینا ہو گا
اجتناب اب بھی اگر عقدہ کشائی سے کیا
 
یہ زخم تجھ کو اگرچہ نڈھال کر دے گا
مگر نظامِ تنفس بحال کر دے گا

یہ نامراد مرض ایسا جان لیوا ہے
دوا کرو گے تو جینا محال کر دے گا

کسی بھی شخص سے پوچھو گے عشق کا مطلب
ہر ایک اپنے معانی نکال کر دے گا

میں تیرے ظرف سے واقف ہوں تو سمندر ہے
تو ایک سیپ تلک بھی اُچھال کر دے گا

میں آدمی ترے امروز و دوش کا ہوں مجھے
تسلی کیا کوئی فردا پہ ٹال کر دے گا

مرا تو ہوش بھی دوشی جنون جیسا ہے
کوئی کہاں مجھے شمعیں اُجال کر دے گا
 
کتنی بار مرا ہوں میں اک لمحے میں
سارا بیت چکا ہوں میں اک لمحے میں

اک لمحے میں کتنی صدیاں ہوتی ہیں
کتنا جی سکتا ہوں میں اک لمحے میں

اک لمحے سے کتنا مجھے نکالا تھا
کتنا اور بچا ہوں اک لمحے میں

وقت کی قیمت آج مجھے معلوم ہوئی
خود کو بیچ رہا ہوں میں اک لمحے میں

واپس آنے میں صدیاں لگ جائیں گی
اتنی دُور گیا ہوں میں اک لمحے میں
 
کوئی خوشی مہمان ذرا سی ہوتی ہے
لَب پہ تب مسکان ذرا سی ہوتی ہے

بستا کب ہے کوئی تعجب آنکھوں میں
بس پتلی حیران ذرا سی ہوتی ہے

پھر سے آجاتا ہے آدم خور کوئی
بستی جب گنجان ذرا سی ہوتی ہے

شاعر لوگ تو چڑیوں جیسے ہوتے ہیں
دل چھوٹا سا جان ذرا سی ہوتی ہے

پیار کا پردہ آجاتا ہے آنکھوں پر
جب تیری پہچان ذرا سی ہوتی ہے
 
گلیوں میں بنجارے گردش کرتے ہیں
ہم بختوں کے مارے گردش کرتے ہیں

تیری آنکھ کا ایک اشارہ ہوتا ہے
ہم سارے کے سارے گردش کرتے ہیں

چلتا ہوں تو چاند بھی پیچھے آتا ہے
میرے گِرد ستارے گردش کرتے ہیں

یا تو بیچ بھنور یہ کشتی گھومی ہے
یا پھر آج کنارے گردش کرتے ہیں

میں بھی ایک مکمل دُنیا ہوں دوشی
مجھ میں بھی سیّارے گردش کرتے ہیں
 
خوف چپکے سے مری ذات میں در آیا تھا
شام سے قبل میں اس واسطے گھر آیا تھا

کم ضروری تھے کئی کام ادھورے چھوڑے
جو ضروری تھے زیادہ وہ میں کر آیا تھا

چاند کی سمت اُڑا پھر نہیں آیا پنچھی
اس کا افلاک سے ٹوٹا ہوا پَر آیا تھا

اس قدر شوق سفر کا مجھے کب تھا دوشی
خود مرے پاؤں تلے چل کے سفر آیا تھا
 
مجھے مشکل میں آسانی بہت ہے
کہ میری آنکھ میں پانی بہت ہے

پھرو تم قیس بن کر جنگلوں میں
مجھے تو گھر کی ویرانی بہت ہے

فلک سے بھی تہی دست آ رہا ہوں
زمیں کی خاک بھی چھانی بہت ہے

کسی کے کام آنے سے رہا میں
مجھے اپنی پریشانی بہت ہے

میں پانی پانی ہوتا جا رہا ہوں
مجھے اتنی پشیمانی بہت ہے
 
یہ کوئی خوف ہے تجھ پر کہ نشّہ طاری ہے
سکوتِ شب! تِری آواز کتنی بھاری ہے

حساب دینا پڑا ایسے لمحے لمحے کا
کہ جیسے زیست کسی اور کی گزاری ہے

فلک ضرور کوئی چال چل رہا ہو گا
بساطِ شب کے ستاروں میں بے قراری ہے

کسی خزانۂ دُنیا سے کیا غرض ہم کو
متاعِ جاں یہی لفظوں کی ریزگاری ہے

یہ میرا جسم نہیں جس کو روک لے گا تُو
یہ آسماں کی طرف رُوح کی اڈاری ہے
 
سفر کِیا ہے، مگر کس طرف، نہیں معلوم
کسی بھی تیر کو اپنا ہدف نہیں معلوم

میں جنگ لڑنے چلا ہوں مگر مرا لشکر
بکھر گیا ہے، کہ ہے، صف بہ صف نہیں معلوم

زباں کے ساتھ ساعت بھی یرغمال ہوئی
یہ سسکیوں کی صدا ہے کہ دف، نہیں معلوم

دھرا ہوا ہوں زمانے کے طاقِ نسیاں پر
میں کانچ ہوں کہ ہوں دُرِّ نجف نہیں معلوم

اُٹھا لیا ہے سمندر کی تہہ سے میں نے مگر
صدف ہے یا ہے یہ کوئی خذف نہیں معلوم
 
تُو مجھ سے بات نہ کر اتنے سخت لہجے میں
میں خود مثال ہوں اپنی کرخت لہجے میں

ابھی تلک مرے لہجے میں خاکساری ہے
ابھی میں لایا نہیں تاج و تخت لہجے میں

ابھی ابھی تو ترا لہجہ دھوپ ایسا تھا
کہاں سے اُگ پڑے اتنے درخت لہجے میں

دیے کو بھی میں پکاروں تو ٹمٹما کے بجھے
وہ تیرگی ہے مرے تیرہ بخت لہجے میں

شکستہ لہجے میں کس نے مجھے پکارا ہے
میں لخت لخت ہوا لخت لخت لہجے میں
 
خوشبو! میں کیا مثال دُوں تیری مثال میں
تشبیہ قید ہے ابھی نافِ غزال میں

فی الحال کچھ نہ ڈال تُو جامِ سفال میں
درویش آ نہ جائے کہیں اشتعال میں

اتنی وسیع کب ہے تمہاری یہ سلطنت
جتنا بڑا سوال ہے دستِ سوال میں

سالار! کون جنگ لڑے گا عدو کے ساتھ
لشکر لگے ہوئے ہیں تری دیکھ بھال میں

کیوں اپنے گِرد خوف کا ریشم بُنا کیے
خود کو اسیر کر لیا اپنے ہی جال میں

شاید اسی طرح تری تنہائی کٹ سکے
تُو آئینہ ہی ڈھونڈ لے قحط الرّجال میں

دل اُس کے نام کر تو دیا اپنے طور پر
اب جانے کتنا وقت لگے انتقال میں

فی الحال زیرِ غور ہے اپنا معاملہ
آئی نہیں اراضیء دِل اشتمال میں
 
جس طرح تخمِ شجر زیرِ زمیں پھوٹتا ہے
عشق انسان کے اندر سے کہیں پھوٹتا ہے

راہِ ہموار میں کچھ خار دبے لگتے ہیں
آبلہ پاؤں کا ہر بار یہیں پھوٹتا ہے

صبحِ کاذب سے بھی امکان کے در کھلتے ہیں
صبحِ صادق کی طرح دل میں یقیں پھوٹتا ہے

میں قلم پیار سے قرطاس پہ رکھ دیتا ہوں
روشنائی سے خیال اپنے تئیں پھوٹتا ہے

ایڑیاں کوئی ترے دشت میں کب تک رگڑے
اب تو اس ریت سے چشمہ بھی نہیں پھوٹتا ہے
 
Top