سید عاطف علی
لائبریرین
کبھی اے حقیقت منتظر ------- بے اختیار یاد آگیا۔تاچند تو در پردہ نمائی خود را
حال وقال کے امتزاج کا جمال محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ بہت ہی خوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی اے حقیقت منتظر ------- بے اختیار یاد آگیا۔تاچند تو در پردہ نمائی خود را
بہت خوب رباعی ہے اور کچھ مترتب سا ترجمہ یوں بھی ہو گیا :ہر نیک و بدے کہ ہست در دستِ خداست
ایں معنیٴ پیدا و نہاں در ہمہ جاست
باور نہ کنی اگر دریں جا بنگر
ایں ضعفِ من و قوّتِ شیطاں ز کجاست
ہر نیکی اور بدی جو کچھ بھی ہے سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بات چاہے ظاہر ہو یا چھپی ہوئی ہر جگہ ہے، اگر تو اس بات کا یقین نہیں کرتا تو میری طرف دیکھ کہ یہ میرا ضعف اور شیطان کی قوت کہاں سے آئی ہے۔
محمد وارث صاحب بے جا اظہار نظر کے لئے معذرت لیکن زبان فارسی میں لفظ "مگس" عام مکھی کے لیے مستعمل ہے اور شہد کی مکھی کے لیے "زنبور" استعمال ہوتا ہے۔سوزِ دلِ پروانہ مگس را نہ دہند
پروانے کے دل کا سوز کسی شہد کی مکھی کو نہیں دیا جاتا۔
جناب وارث "کنار آمدن" فارسی میں ایک محاورہ ہے جسکے معنی ہیں "راضی ہونا، یا مصالحت کرنا، یا ایک دوسرے کی بات سمجھ پانا"۔ سو یہاں اس مصرع میں بھی اسی طرح استعمال ہوا ہے۔۔۔عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
عمریں گزر جاتی ہیں اور پھر کہیں جا کر یار کا وصال نصیب ہوتا ہے،
عظیم رباعی ہے۔۔۔بہ بیں کی کتابت اگر ببیں ہو تو بہتر ہو شاید۔ایں ہستیِ موہوم حباب است بہ بیں
ایں بحرِ پُر آشوب، سراب است بہ بیں
از دیدہٴ باطن بہ نظر جلوہ گر است
عالم ہمہ آئینہ و آب است بہ بیں
یہ ہستیِ موہوم پانی کا ایک بلبلہ ہے ذرا دیکھ، یہ طوفانوں سے بھرا ہوا سمندر فقط ایک سراب ہے دیکھ تو، اگر دیدہٴ باطن سے دیکھو تو نظر آئے کہ یہ ساری دنیا ایک آئینہ اور چمک ہے یعنی خدا کا عکس اس میں ہے، ذرا غور سے دیکھ۔
عظیم رباعی ہے۔۔۔ بہ بیں کی کتابت اگر ببیں ہو تو بہتر ہو شاید۔