آبی ٹوکول

محفلین
میں نے انھی آیات کے حوالے سے خوارج میں وہ خامیاں پوچھیں تھیں جو ان کو منافق ٹھہراتی ہیں ۔۔
توجہ کا شکریہ ۔۔
وسلام
اگرچہ ہم بارہا عرض کرچکے کہ فتنہ خوارج کی دین میں اصل فتنہ نفاق تھا ۔ ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ زمانہ میں تو ان لوگوں کا منافق ہونا ظاہر کردیا گیا کہ وہ دور وحی کہ نزول کا دور تھا پھر اس کہ بعد اعتقادی طور پر نفاق کو جاننا ممکن نہ رہا فقط ان نشانیوں کے کہ جن کی طرف بہت سی احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اشارہ فرمایا اور وہ نشانیاں اعتقادی باب میں فقط خوارج کہ گروہ پر ہی صادق آتی ہیں کیونکہ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس قدر تواتر کہ ساتھ نہ صرف ان لوگوں کہ ظاہری اعمال کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ صحابہ کرام نے اس گروہ کی شکل و صورت کو بھی احادیث کی روشنی میں بہت تواتر کہ ساتھ نقل کیا ہے جس میں سر منڈھانا ان کہ ایک بنیادی شعار کہ طور پر بیان ہوا ہے اس کہ علاوہ اس قسم کی ظاہری شخصیت کہ دیگر شعار بھی کتب احادیث ،سیر و تاریخ میں تواتر سے ملتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔اب رہ گئی قرآنی آیات کی روشنی میں گروہ خوارج میں پائی جانے والی چند نشانیاں تو وہ درج زیل ہیں ۔ ۔ ۔
نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔
دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔ جس میں اپنے علاوہ سب کو کافر گرداننا چاہے وہ گروہ حضرت علی کہ لوگ ہوں یا گروہ حضرت امیر معاویہ کہ لوگ ۔ ۔
اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔
اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔
مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
باطل کو حق پر ترجیح دینا۔
سچائی کی روشن دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔
تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو تھیں وہ تمام ظاہری نشانیاں جنکا کہ گروہ خوارج مرتکب ہوا ۔ ۔۔ اور انکا اظہار انھوں نے عملی طور پر بھی کیا اب رہ گئی وہ سب سے بڑی نشانی جو کہ کسی کو بھی اعتقادی منافق ثابت کرتی ہے تو اس ضمن اتنا عرض ہے کہ اس کا تحقق بغیر وحی کہ ممکن نہیں مگر تاہم اس باب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق جو کہ ذوالخویصرہ تمیمی تھا کی نسل سے جتنی بھی نشانیاں بیان فرمائی وہ خوارج پر پوری اتریں لہزا اس ضمن میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خوارج کہ اس تمام معاندانہ رویے کہ اصل وہی اعتقادی نفاق تھا ۔ ۔ ۔ باقی واللہ اعلم
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شاکرالقادری
دوستو! اگر کوئی شخص یزید کو امیر تسلیم کرتا ہے تو کرے لیکن اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یزید کی امارت کو تمام مومنین پر مسلط کرے اور اسے امیر المومنین کہے ورنہ مجھے حق ہے کہ میں اسے امیرالمنافقین کہوں
طالوت
میں تو سمجھ رہا تھا کہ موصوف امیر یزید کو کہہ کر "ثواب" لوٹ رہے ہیں
بریں عقل و دانش بباید گریست ۔۔۔ ایسی عقل ودانش پر تو ماتم کرنا چاہیئے

"اگر" سے شروع ہونے والا جملہ شرطیہ ہوتا ہے
اور میں نے جملہ شرطیہ میں کہا تھا کہ: "اگرکوئی شخص یزید کو امیر تسلیم کرتا ہے تو کرے لیکن اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یزید کی امارت کو تمام مومنین پر مسلط کرے اور اسے امیر المومنین کہے ورنہ مجھے حق ہے کہ میں اسے امیرالمنافقین کہوں "

اور میرے اس جملہ شرطیہ کا آخری لفظ بھی قابل غور ہے ۔۔۔ "کہوں"

میں نے کہا نہیں ہے بلکہ صرف اپنا "حق" محفوظ کیا ہے

ابن حسن
تمام باتوں سے قطع نظر میں یہاں صرف شاکر القادری بھائی (جو میرے نزدیک بڑی محترم شخصیت ہیں)
طالوت
آپ تو کچھ زیادہ ہی مرعوب دکھائی دیتے ہیں ، پہلے پوچھ تو لیں انھوں نے کہنے والے کو کہا یا امیر یزید کو ! میں تو سمجھ رہا تھا کہ موصوف امیر یزید کو کہہ کر "ثواب" لوٹ رہے ہیں ، آپ کی اس بات نے مجھے شک میں ڈال دیا :(
مجھے کسی بھی لغت میں "محترم" کا ترجمہ "مرعوب" نہیں ملا


ارے بھائی مجھے کیوں برا لگنے لگا ، اسی ذومعنیت کو تو میں گھول کر پی گیا تھا ، آپ نے پھر یاد کرا دیا ۔۔;) ۔۔ مرعوبیت اس لیے کہا کہ میں نے کبھی کسی کو منافقین ، فاسقین یا کافرین کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا ۔ اگر آپ کو لگا کہ اس میں ذو معنویت ہے تو آپ کو اس پر شاکر کو روکنا چاہیے تھا ، مگر آپ نے کہا اگر فلاں کو ایسا کہا تو فلاں کو بھی ایسا کہیں نا :):) ارے بھیا یہ ہمدردی میں چھری ہی پھیر دی ;) تو آپ کے اس معذرت خوانہ انداز پر میرا اتنا سا کہنا تو بنتا ہے نا ۔۔ :)
خیر یہ موضوع نہیں ، اسے بھول جائیں "لائیو" پروگرامات میں ایسی تھوڑی بہت اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے ۔۔
وسلام

میرا خیال ہے کہ اب میرے جملے کی ذو معنویت واضح ہو گئی ہوگی ۔۔۔ اسی طرح غیر محتاط انداز میں دوسروں کی باتوں کو سمجھنے اور اپنی اپنی پسند کے مطالب نکالنے سے ہی تو مختلف مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں
 

طالوت

محفلین
شکریہ شاکر ،
میں بھی ٹھیک ہی سمجھا تھا اور جہاں مجھے شک تھا وہاں میں نے بات ہی نہیں کی یہ تو بس ابن حسن کی بات سے بات نکلی ۔۔
چلتے ہیں خوارج کی طرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وسلام
 

حسن نظامی

لائبریرین
اب گفتگو کچھ درست سمت جاتی محسوس ہو رہی ہے ۔۔

طالوت اور ابن حسن سے گزارش ہے کہ وہ آبی بھیا کے مندرجات پر سوالات اٹھائیں نہ کہ ایک دوسرے گو نشانہ تنقید بنائیں ۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
چند سوالات میری طرف سے ۔۔۔

نفاق یہ ہے کہ بظاہر تو اسلام کا اقرار کیا۔ یعنی توحید اور رسالت کا مگر اعتقاد نہ رکھا ۔۔
سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص اللہ کو واحد لاشریک کہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول خدا کہے ۔۔ نماز پڑھے ۔ روزہ رکھے ، زکوۃ دے ، قرآن کی تلاوت کرے اور پھر بھی مسلمان نہ ہو ۔۔ بلکہ منافق ہو ۔۔

ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ایمان کیا ہے ۔۔ ؟
کیا ایمان اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کا نام ہے ؟
اگر تصدیق بالقلب کا نام ہے تو وہ تصدیق بلقلب کیا ہے ؟
کیا وہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور شعائر اسلام کی پابندی کا نام ہے ۔۔ اگر یہی تصدیق بالقلب ہے تو پھر منافق اس تصدیق بالقلب پر پورے اترتے ہیں ۔۔
لیکن پھر بھی وہ منافق ہیں ۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تصدیق بالقلب کا تقاضا کچھ اور ہے ۔۔۔
وہ کیا ہے ۔

کیا وہ اشد حبا للھ ہے ۔۔۔ یا
یریدون وجہہ ولا تعدعیناک عنہ
وغیرہ آبی بھائی اور شاکرالقادری صاحب سے خصوصآ اور باقی تمام احباب سے عموما التماس ہے ۔۔
کہ ایمان کی ڈیفینیشن بیان کریں ۔۔
اور اس تناظر میں تصدیق بالقلب کو بیان کرتے ہوئے منافقین کے طرز عمل کو بیان کریں ۔۔
اور پھر خوارج پر آئیں ۔۔
کیوں آبی ٹو کول بھیا کے مطابق

نفاق جنس ہے ۔۔۔
جس کی ایک نوع
خارجیت ہے ۔۔
کیونکہ انہوں نے لکھا ۔۔۔
ہر خآرجی منافق ہے
جب کہ ہر منافق خارجی نہیں ۔۔
تو نفاق سے خارجیت کی طرف کیسے میلان ہوا ۔۔
اور اگر خارجیوں کے علاوہ کہیں اور نفاق موجود ہے تو وہ کون سی جگہ ہے ؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم !
ایمان نام ہے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (اور جو کچھ اسکے رسول نے اللہ کی طرف سے پیش کیا ان سب کی) دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا اور عمل سے ثبوت کا ان میں سے بھی اصل دل سے تصدیق ہے جبکہ زبان سے اقرار شرط ہے کہ بغیر اسکہ ایمان لانے والے پر اسلامی احکام کا اجراء نہیں ہوسکتا جب کہ عمل بالجوارع ایمان کی ذیادتی اور درجات کی بلندی اور ایمان کہ عملی ثبوت کا زریعہ ہیں لہزا اس لحاظ سے وہ بھی لازم و ملزوم کی حیثت رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ایمان کا معنٰی تصدیق ہے ۔ اسی پر تمام لغویین اور تمام اہل علم وغیرہ اور اصولین کا اتفاق ہے ۔ ۔ایمان کا ایک معنٰی اذغان یعنی ماننا اور قبول کرنا ہے اور یہ اعتراف کہ معنٰی کو شامل ہے ۔ ایمان کی اصل ہے امانت کے صدق میں داخل ہونا جس طرح کسی نے زبان سے تصدیق کی ہے اسی طرح دل سے بھی تصدیق کرے تو وہ مومن ہے اور جس نے دل سے تصدیق نہیں کی وہ اس امانت کو ادا کرنے والا نہیں جو اللہ پاک نے اس کہ پاس رکھی تھی وہ منافق ہے ۔ ۔ ۔ ۔ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی کتاب ’’ایمان (تعلیمات اسلام سیریز )‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ۔۔۔ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘، اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘۔
ابن منظور، لسان العرب،
زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس
کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔
آگے چل کر ایمان کی مزید وضاحت میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔
ایمان کا موضوع عقائد ہیں ۔اورعقیدہ ’عقد‘ سے نکلا ہے جس کے معنی گرہ باندھنے کے ہیں۔
اس سے مراد کسی شے کی ایسی تصدیق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو۔ عقیدہ کو ایمان کے مفہوم میں بھی لیا جاتا ہے، اس سے مراد ان حقائق کی بلا شک و شبہ تصدیق کرنا ہے جن کی تعلیم اللہ رب العزت نے بواسطۂ رسالت ہمیں عطا فرمائی۔ اور پھر مزید وضاحت میں عقیدہ اور ایمان کہ وضاحتی فرق بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔ عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہے جبکہ ایمان دین اسلام کی سب سے پہلی تعلیم ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے اور انہیں سچا جان کر ان پر یقین کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مسلمان کا دینِ اسلام کی تعلیمات کو سچا جاننا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے اور یہی اگر راسخ ہو جائے تو اس کا عقیدہ ہے کیونکہ ’’ایمان نمو پاتا ہے تو عقیدہ بنتا ہے‘‘ ۔ ۔ ۔
ایمان کا شرعی معنٰی یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز میں تصدیق کی جائے کہ جس کہ متعلق بداہتاً معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لیکر آئے ہیں اور اس کا دین ہونا مشھور ہو مشھور سے مراد یعنی بغیر غور و فکر و دلیل کے اس کا علم ہو جیسے اللہ پاک واحد ہونا، پانچ نمازوں کا فرض ہونا، حرمت شراب و زنا وغیرہ ۔ ۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
نفاق یہ ہے کہ بظاہر تو اسلام کا اقرار کیا۔ یعنی توحید اور رسالت کا مگر اعتقاد نہ رکھا ۔۔
سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص اللہ کو واحد لاشریک کہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول خدا کہے ۔۔ نماز پڑھے ۔ روزہ رکھے ، زکوۃ دے ، قرآن کی تلاوت کرے اور پھر بھی مسلمان نہ ہو ۔۔ بلکہ منافق ہو ۔۔
یہ بالکل اسی طرح ممکن ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ دور کہ منافقین فقط زبان سے اقرار کرتے تھے اور عمل باالجوارع سے اس کا عملی ثبوت بھی دیتے تھے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ ساتھ نمازیں، روزے اور جہاد وغیرہ میں بھی شرکت کرتے تھے مگر اس کہ باجود وہ مومن نہ تھے کہ ان کو ان سب کاموں کہ پیچھے دل کی تصدیق شامل نہ تھی مگر تاہم اس وقت چونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا لہزا ان کہ دلوں کا نفاق ظاہر کردیا گیا لیکن آج کہ دور میں یہ ممکن نہیں کہ کسی کہ دل کا نفاق ظاہر ہوسکے لہزا آج کہ دور میں منافقین کی (قرآن و سنت میں میں ) بیان کردہ تمام نشانیوں کو دیکھ کر ہم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ فلاں قوم یا فلاں گروہ میں منافقین والی وہ تمام عادات وخصائل موجود ہیں ۔ لہذا فلان قوم عملی نفاق پر قائم ہے ۔ ۔ ۔
ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ایمان کیا ہے ۔۔ ؟
کیا ایمان اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کا نام ہے ؟
جی ہاں اصل میں ایمان تصدیق بالقلب ہی کا نام ہے جبکہ زبان سے اسکی تصدیق ایمان کہ بیان اور اسلامی احکام کہ اجراء کہ لیے شرط ہے

اگر تصدیق بالقلب کا نام ہے تو وہ تصدیق بلقلب کیا ہے ؟
کیا وہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور شعائر اسلام کی پابندی کا نام ہے ۔۔ اگر یہی تصدیق بالقلب ہے تو پھر منافق اس تصدیق بالقلب پر پورے اترتے ہیں ۔۔لیکن پھر بھی وہ منافق ہیں ۔۔۔
وہ تصدیق بالقلب وہی جو کہ ہم اوپر بیان کرچکے کہ اللہ کی دی ہوئی اس امانت (کہ جس کا اس نے عالم ارواح میں اجمالی طور پر ہم سب سے الست بربکم کہہ کر وعدہ لیا تھا اور پھر انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تاکہ وہ الست کہ وعدہ کو اس فطرت سلیمہ کہ تقاضے کہ مطابق پورا کرکہ اس امانت) کو صدق میں داخل کردے اور صدق یہی ہے کہ زبان و قلب ہمنوا بن کر اللہ اور اس کے رسول کی پاک زوات پر(اس کہ تمام ترتقاضوں کہ عین مطابق ) ایمان لے آئیں ۔ ۔ رہ گئے منافقین جو کہ زبانی اقرار کرتے ہیں وہ اسلام بمعنی عمل پر تو ہیں مگر ایمان پر نہیں ہیں ۔ ۔ ۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تصدیق بالقلب کا تقاضا کچھ اور ہے ۔۔۔
وہ کیا ہے ۔

کیا وہ اشد حبا للھ ہے ۔۔۔ یا
یریدون وجہہ ولا تعدعیناک عنہ
جی ہاں بالکل جو آپ نے فرمایا حقیقت بالکل وہی ہے ۔ ۔۔ لیکن
عمل بالجوارع بھی ایمان کا ایک طرح سے تقاضا ہیں کہ یہ ایک طرح سے ایمان کی تکمیل کا باعث ہیں مگر حقیقت ایمان میں اعمال شامل نہیں گو کہ اس باب میں علماء کا اختلاف بھی مشھور ہے مگر مضبوط مذہب یہی ہے کہ ظاہری اعمال ایمان کی بڑھوتری بصورت تقویت اور تکمیل کا باعث ہیں سو اس لحاظ سے ایمان کہ ساتھ لازم و ملزوم ہیں کہ نہ حقیقت ایمان ہونے کی حیثیت سے ۔ ۔ ۔ ۔والسلام
 
Top