رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آکر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار وخس میں آگ لگا کر نہیں گیا

شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

شہزاد احمد
 

عاطف بٹ

محفلین
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا

بہت ہی شاندار غزل ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے​
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا​
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا
واہہہہہہہہ میری بہنا
کیا خوب شراکت کی ہے
 
نہیں !انسان ہنس پڑتا ہے ایسے کہ اس کی آنکھ میں آنسو آجاتے ہیں
ہنستے ہنستے آنسو آنا خوشی کی علامت ہے۔
اور پھر آپ اپنی بات سے ہی پھر رہی ہیں یہاں تو۔

انسان زیادہ غم میں بھی ہنس پڑتا ہے
آپ تو شاعر ہیں آپ کو نہیں پتا؟
 
شاعر کو ہر احساس پر قدرت حاصل ہوتی ہے!

غلط۔ ہر شاعر ایسا نہیں ہوتا۔ ہر نیا شاعر ایک الگ احساس۔ اک نیا تخیل۔ اور اک نیا انداز لے کر نمودار ہوا کرتا ہے۔
ہرانسان کے اندر ایک اپنی منفرد سوچ اور اپنا احساس ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی شاعر اپنے کلام کے کچھ حصے سے کسی دوسرے سے مماثلت رکھتا ہو۔ لیکن ایسا نہیں ممکن کے شاعر جب چاہے ایک (مصنوعی) تخیل سے شاعری شروع کردے۔
ہر شاعر ایک نیا پہلو اور نئی سوچ کا حامل ہوتا ہے۔
 
Top