نوید ناظم
محفلین
مفعولن فاعلن فعولن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلنا دشوار ہو گیا ہے
رستہ، دیوار ہو گیا ہے
مجھ کو یارو معاف کرنا
دشمن سے پیار ہو گیا ہے
صحرا کا فیض ہے کہ مجنوں
اپنا بھی یار ہو گیا ہے
دل کیوں سینے میں چُبھ رہا ہے
کیوں مثلِ خار ہو گیا ہے
لو کہتے تھے نہیں ہو گا عشق
میری سرکار ہو گیا ہے!
تم بھی بانٹو کہ میرے سر پر
غم کا انبار ہو گیا ہے
اُس کا ہر لفظ تیر ہے اور
لہجہ تلوار ہو گیا ہے
مجھ کو دریا میں ڈوبنا تھا
اچھا؟ یہ پار ہو گیا ہے!
آگے مَیں قصے میں نہیں ہوں
میرا کردار ہو گیا ہے
سادہ سا تھا نوید تُو بھی
کتنا ہُشیار ہو گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلنا دشوار ہو گیا ہے
رستہ، دیوار ہو گیا ہے
مجھ کو یارو معاف کرنا
دشمن سے پیار ہو گیا ہے
صحرا کا فیض ہے کہ مجنوں
اپنا بھی یار ہو گیا ہے
دل کیوں سینے میں چُبھ رہا ہے
کیوں مثلِ خار ہو گیا ہے
لو کہتے تھے نہیں ہو گا عشق
میری سرکار ہو گیا ہے!
تم بھی بانٹو کہ میرے سر پر
غم کا انبار ہو گیا ہے
اُس کا ہر لفظ تیر ہے اور
لہجہ تلوار ہو گیا ہے
مجھ کو دریا میں ڈوبنا تھا
اچھا؟ یہ پار ہو گیا ہے!
آگے مَیں قصے میں نہیں ہوں
میرا کردار ہو گیا ہے
سادہ سا تھا نوید تُو بھی
کتنا ہُشیار ہو گیا ہے
آخری تدوین: