رستہ، دیوار ہو گیا ہے

نوید ناظم

محفلین
مفعولن فاعلن فعولن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلنا دشوار ہو گیا ہے
رستہ، دیوار ہو گیا ہے

مجھ کو یارو معاف کرنا
دشمن سے پیار ہو گیا ہے

صحرا کا فیض ہے کہ مجنوں
اپنا بھی یار ہو گیا ہے

دل کیوں سینے میں چُبھ رہا ہے
کیوں مثلِ خار ہو گیا ہے

لو کہتے تھے نہیں ہو گا عشق
میری سرکار ہو گیا ہے!

تم بھی بانٹو کہ میرے سر پر
غم کا انبار ہو گیا ہے

اُس کا ہر لفظ تیر ہے اور
لہجہ تلوار ہو گیا ہے

مجھ کو دریا میں ڈوبنا تھا
اچھا؟ یہ پار ہو گیا ہے!

آگے مَیں قصے میں نہیں ہوں
میرا کردار ہو گیا ہے

سادہ سا تھا نوید تُو بھی
کتنا ہُشیار ہو گیا ہے
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
آپ اچھا لکھتے ہیں بالخصوص آپ کی پنجابی شاعری تو مجھے کافی پسند ہے. لیکن یہ غزل لگتا ہے آپ نے عجلت میں پیش کی ہے. اگر آپ اس پر نظرِ ثانی کریں گے تو امید ہے ان معمولی خامیوں پر خود ہی قابو پا لیں گے. زیادہ تر اشعار محض قافیہ پیمائی ہیں اور ایک آدھ جگہ پر پنجابی آہنگ بھی نمایاں ہے.
چلنا دشوار ہو گیا ہے
رستہ، دیوار ہو گیا ہے
مطلع بدل دیں ایطا کا سقم ہے.
دل کیوں سینے میں چُبھ رہا ہے
کیوں مثلِ خار ہو گیا ہے
"کیوں" کی تکرار سے بچا جا سکتا ہے نیز تقابلِ ردیفین بھی ہے.
مجھ کو دریا میں ڈوبنا تھا
اچھا؟ یہ پار ہو گیا ہے!
"اچھا " سے جس بے یقینی اور استعجاب کی کیفیت کا اظہار مقصود تھا وہ یہاں ممکن نہیں ہو سکا.
آگے مَیں قصے میں نہیں ہوں
میرا کردار ہو گیا ہے
کردار ختم ہو گیا ہے، ہونا چاہیے تھا. پنجابی بول چال میں شاید ایسا درست ہو.
سادہ سا تھا نوید تُو بھی
کتنا ہُشیار ہو گیا ہے
شعر خوب ہے . عروضی لحاظ سے بھی درست ہے . لیکن " سادا سا تھا " میں ساری الف کی آوازیں ہیں صوتی اعتبار سے بھلا معلوم نہیں ہو رہا.
آپ پرانے اور اچھا لکھنے والوں میں سے ہیں اس لیے نشان دہی ضروری سمجھی. وگرنہ ویسے تو آپ کی غزل درست ہے.
 

نوید ناظم

محفلین
بہت شکریہ، آپ کا خلوص قیمتی ہے۔
یہاں حرف روی اصلی ہیں اور اگر مطلع میں حرف روی اصلی ہوں توان کا خلل جائز ہے۔ یہ ایطا میں شمار ہو گا؟ اسی موضوع پر مزمل شیخ بسمل صاحب کا ایک گراں قدر مضمون بھی محفل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ باقی اس بارے میں آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
محمد ریحان قریشی بھائی سے بھی مدد درکار ہے
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
تقابلِ ردیفین کا درست فرمایا آپ نے، مصرع بدلتا ہوں بعد میں۔ باقی اشعار پر ذرا استاد محترم کی رائے آ جائے تو پھر کچھ عرض کیا جا سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی اسے ایطا ہی کہتا ہوں، مزمل یا دوسرے کچھ بھی کہیں، میرے دل کو قبول نہیں۔
اس کے علاوہ
لو کہتے تھے نہیں ہو گا عشق
میری سرکار ہو گیا ہے!
پہلے مصرع میں ’ہو گا عشق‘ کی تقطیع کیسے کر رہے ہیں۔ مجھے تو ’ہُ گا‘ محسوس ہو رہا ہے۔ الفاظ بدل دو تو کوئی سقم نہ رہے
 

نوید ناظم

محفلین
میں بھی اسے ایطا ہی کہتا ہوں، مزمل یا دوسرے کچھ بھی کہیں، میرے دل کو قبول نہیں۔
اس کے علاوہ
لو کہتے تھے نہیں ہو گا عشق
میری سرکار ہو گیا ہے!
پہلے مصرع میں ’ہو گا عشق‘ کی تقطیع کیسے کر رہے ہیں۔ مجھے تو ’ہُ گا‘ محسوس ہو رہا ہے۔ الفاظ بدل دو تو کوئی سقم نہ رہے
بہتر سر۔۔۔۔مصرعے بدل دیے ہیں۔۔۔
اب چلنا بار ہو گیا ہے
رستہ دیوار ہو گیا ہے

کہتے تھے عشق اب نہ ہو گا
میری سرکار ہو گیا ہے
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
سلام
ایک دفعہ پوری غزل دوبارہ لکھ دیں، مزہ کافی کرکرا ہوچکا ہے۔
وعلیکم السلام۔

اب چلنا بار ہو گیا ہے
رستہ دیوار ہو گیا ہے

مجھ کو یارو معاف کرنا
دشمن سے پیار ہو گیا ہے

صحرا کا فیض ہے کہ مجنوں
اپنا بھی یار ہو گیا ہے

سینے میں چُبھ رہا ہے ہر وقت
دل، مثلِ خار ہو گیا ہے

کہتے تھے عشق اب نہ ہو گا
میری سرکار ہو گیا ہے!

تم بھی بانٹو کہ میرے سر پر
غم کا انبار ہو گیا ہے

اُس کا ہر لفظ تیر ہے اور
لہجہ تلوار ہو گیا ہے

مجھ کو دریا میں ڈوبنا تھا
اچھا؟ یہ پار ہو گیا ہے!

آگے مَیں قصے میں نہیں ہوں
میرا کردار ہو گیا ہے

سادہ سا تھا نوید تُو بھی
کتنا ہُشیار ہو گیا ہے
 
آخری تدوین:
Top