یاسر شاہ
محفلین
ظہیر بھائی آپ کی حوصلہ افزائی اور حسن ظن پہ آپ کا نہایت ممنون ہوں -غلطی کیسی ، یاسر بھائی۔ ان چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے کون سا شاعر پاک ہے؟ الحمدللّٰہ ، آپ کی یہ نظم بہت اچھی ہے اور اس کا پیغام وقت کی ضرورت ہے ۔ اتنے اچھے شعر میں یہ ایک چھوٹا سا سقم نظر آیا تو میں نے آپ کی توجہ اس طرف دلائی ۔ آپ کے لیے اس مصرع کو درست کرنا کیا مشکل ہے ۔ بیشک صرف اور صرف کلامِ الہٰی ہر عیب سے پاک ہے ۔ بیشک دو لفظی اک بات بھی ان کی ساری کتب پر بھاری ہے۔ اللّٰہ کریم ہمیں اس کی کتاب اور اس کے رسول سے جڑنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اس محفل سے بہت سارے لوگ فیضیاب ہوتے ہیں ۔ اردو محفل پر اردو زبان کی صحت کا جو معیار ہے وہ دیگر ویبگاہوں کی بدولت بہت بہتر ہے ۔ یہ ہم سب محفلین کی ذمہ داری ہے کہ اس معیار کو قائم رکھیں ۔ صحت مند لسانی مباحث جاری رکھیں ۔ اس ساری گفتگو کے پیچھے یہی ایک خیال کارفرما تھا ۔ اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ، شاد آباد رکھے۔ آمین۔
یاسر بھائی ، وقت ملا تو ویڈیو دیکھنے کی کوشش کروں گا ۔ وعدہ نہیں کرتا ، کوشش کروں گا۔
ایک واقعہ اقبال کا نظر سے گزرا قرآن کی تاثیر کے متعلق ،اپنا یہی مصرع یاد آگیا ،آپ بھی پڑھیے :
"علامہ کی چھوٹی ہمشیرہ کی شادی وزیر آباد کے ایک گھرانے میں ہوئی تھی غالباً اس لئے کہ ان کے یہاں شاد ی کے بعد ایک دو سال میں کوئی اولاد نہیں ہوئی ، ان کی خو ش دامن نے سسرال میں انھیں رہنے نہ دیا ۔ تلخی اتنی بڑھی اور بات یہاں تک پہنچی کہ وہ مجبوراً میکے چلی آئیں اور کئی سال وہیں رہیں ۔ ان کی ساس نے بیٹے کی دوسر ی شاد ی کر دی۔ پھر نہ معلوم کیا واقعات پیش آئے کہ وہ اپنی اس دوسری بہو پر بھی سوکن لے آئیں۔ علامہ اقبال کے بہنوئی ایک سعادتمند بیٹے کی طرح اپنی والدہ کی زندگی بھر خدمت اور اطاعت کرتے رہے۔ ماں نے جو کہا ، اس کی تعمیل کی لیکن ان کی وفات کے بعد انھوں نے اپنی پہلی بیو ی کو گھر لے جانا چاہا اور کئی مہینے تک کوشش جاری رکھی۔ وہ بار بار علامہ کے والد کے پاس طرفین کے رشتے داروں کو مصالحت کے لئے بھیجتے رہے۔ پہلے تو ادھر سے انکار ہو تا رہا ۔ پھر بہت کچھ سو چ بچار کے بعد علامہ کے والد اور والدہ صاحبہ دونوں رضامند ہوگئے ۔ سا س اور سسر کی رضامند ی کا سہارا پاکر علامہ کے بہنوئی کچھ عزیزوں کو ساتھ لے کر اپنی سسرال آگئے ۔ اتفاق کی بات کہ ان دنوں علامہ بھی سیالکوٹ گئے ہوئے تھے ۔ انھیں جب اس کا علم ہوا کہ ان کے بہنوئی مصالحت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی حد و نہایت ہی نہ رہی۔ والد صاحب نے بہت کچھ سمجھایا مگر علامہ یہی کہتے رہے کہ مصالحت نہیں ہو سکتی ۔ ہر گز نہیں ہو سکتی ۔ آنے والوں کو واپس کر دیا جائے ۔ان کے والد نے جب دیکھا کہ اقبال کسی طرح رضامند ہی نہیں ہو تے تو انھوں نے خاص انداز میں کہاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والصُّلحُ خَیر فرمایا ہے ۔ اتنا سننا تھا کہ علامہ اقبال خاموش ہو گئے ۔ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ، جیسے کسی نے سلگتی ہوئی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو ۔ ان کے والد نے قدرے توقف کے بعد علامہ سے پوچھا کہ پھر کیا فیصلہ کیا جائے ؟ علامہ نے جواب دیا ، وہی جو قرآن کہتا ہے ۔ چنانچہ مصالحت ہو گئی اور چند دن کے بعد ان کے بہنوئی اپنی بیو ی یعنی علامہ کی چھوٹی بہن کو رخصت کرا کے اپنے گھر لے گئے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ صلح خیر ہی ثابت ہوئی "۔