رانا
محفلین
سب محفلین اس دھاگے میں آکر مختصر طور پر یہ بتائیں کہ رمضان کا پہلا دن کیسا گزرا۔
میں جب صبح فجر کی نماز پڑھ کے واپس گھر کی طرف چلا تو راستے میں چار پانچ مساجد آتی ہیں۔ نماز کے لئے جاتے ہوئے بھی اور آتے ہوئے بھی ایک رونق سی دکھائی دی جیسے دن نکلا ہوا ہو حالانکہ صبح سوا چار بجے کا وقت تھا جب میں گھر سے نکلا اور واپسی میں پونے پانچ کے قریب کا وقت ہوگا۔ یعنی سڑکوں پر اس وقت تک بھی ابھی اندھیرا ہی تھا کہ اسٹریٹ لائٹس بھی آن تھیں۔ لیکن ایک بہت ہی روح پرور نظارہ تھا کہ جس گلی سے بھی گزرا ہوں تو وہاں سے نمازیوں کے غول کے غول گزرتے نظر آئے۔ کسی جگہ چند اسکول کالج کی عمر کے لڑکے ایک گروہ کی صورت ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ غرض اتنی چہل پہل اتنی صبح منہ اندھیرے اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بہت ہی دل کو لبھائی۔
جمعے کی نماز کے لئے ساڑھے بارہ بجے گھر سے نکلا۔ مسجد تک کا سفر پندرہ منٹ کی پیدل واک کا ہے۔ اس پندرہ منٹ میں جو گرمی نے مزاج پوچھا ہے تو مت پوچھیں۔ مسجد تک پہنچتے پہنچتے جتنے گلاس بھر بھر کے سحری میں چڑھائے تھے سب پسینہ بن کر بہہ گئے۔ اور یہ محاورۃ نہیں بلکہ حقیقت تھی کہ واپسی میں اتنا پسینہ نہیں بہا کہ جسم میں پانی بچا ہی نہیں تھا جس کا پسینہ بہتا۔ کل تک تو موسم اتنا گرم نہیں تھا یہ ایک ہی دن میں پتہ نہیں کراچی کو کیا ہوگیا کہ تپش چہرے کے اوپر محسوس ہورہی تھی۔ جمعہ کے بعد گھر آکر پنکھے کے نیچے لیٹا تو پنکھا گرم ہوا پھینک رہا تھا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والے محاورے کی صحیح معنوں میں سمجھ آئی کہ پنکھے کے نیچے لیٹنا بھی عذاب اور پنکھا بند کرنا اس سے بڑا عذاب۔ بہرحال جسم کا پانی خشک ہوگیا۔ افطاری میں کھانا تو برائے نام ہی کھایا لیکن پانی اتنا پیا کہ جگ خالی ہوگیا۔ بعد میں فریج سے ایک بوتل اور نکالنی پڑی۔ افطاری کے بعد نماز پڑھ کے لیٹا تو پانی کی کمی سے ہونے والی کمزوری کی وجہ سے نیند آگئی۔ عشاء کے بعد پھر دو گلاس پئے۔ اب جاکے کچھ اس قابل ہوا کہ محفل پر جھانک سکوں۔
تو یہ تھا ہمارا رمضان کا پہلا گرم ترین دن اور اسکا مختصر احوال۔ اب باقی محفلین اپنے حال سنائیں۔
میں جب صبح فجر کی نماز پڑھ کے واپس گھر کی طرف چلا تو راستے میں چار پانچ مساجد آتی ہیں۔ نماز کے لئے جاتے ہوئے بھی اور آتے ہوئے بھی ایک رونق سی دکھائی دی جیسے دن نکلا ہوا ہو حالانکہ صبح سوا چار بجے کا وقت تھا جب میں گھر سے نکلا اور واپسی میں پونے پانچ کے قریب کا وقت ہوگا۔ یعنی سڑکوں پر اس وقت تک بھی ابھی اندھیرا ہی تھا کہ اسٹریٹ لائٹس بھی آن تھیں۔ لیکن ایک بہت ہی روح پرور نظارہ تھا کہ جس گلی سے بھی گزرا ہوں تو وہاں سے نمازیوں کے غول کے غول گزرتے نظر آئے۔ کسی جگہ چند اسکول کالج کی عمر کے لڑکے ایک گروہ کی صورت ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ غرض اتنی چہل پہل اتنی صبح منہ اندھیرے اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بہت ہی دل کو لبھائی۔
جمعے کی نماز کے لئے ساڑھے بارہ بجے گھر سے نکلا۔ مسجد تک کا سفر پندرہ منٹ کی پیدل واک کا ہے۔ اس پندرہ منٹ میں جو گرمی نے مزاج پوچھا ہے تو مت پوچھیں۔ مسجد تک پہنچتے پہنچتے جتنے گلاس بھر بھر کے سحری میں چڑھائے تھے سب پسینہ بن کر بہہ گئے۔ اور یہ محاورۃ نہیں بلکہ حقیقت تھی کہ واپسی میں اتنا پسینہ نہیں بہا کہ جسم میں پانی بچا ہی نہیں تھا جس کا پسینہ بہتا۔ کل تک تو موسم اتنا گرم نہیں تھا یہ ایک ہی دن میں پتہ نہیں کراچی کو کیا ہوگیا کہ تپش چہرے کے اوپر محسوس ہورہی تھی۔ جمعہ کے بعد گھر آکر پنکھے کے نیچے لیٹا تو پنکھا گرم ہوا پھینک رہا تھا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والے محاورے کی صحیح معنوں میں سمجھ آئی کہ پنکھے کے نیچے لیٹنا بھی عذاب اور پنکھا بند کرنا اس سے بڑا عذاب۔ بہرحال جسم کا پانی خشک ہوگیا۔ افطاری میں کھانا تو برائے نام ہی کھایا لیکن پانی اتنا پیا کہ جگ خالی ہوگیا۔ بعد میں فریج سے ایک بوتل اور نکالنی پڑی۔ افطاری کے بعد نماز پڑھ کے لیٹا تو پانی کی کمی سے ہونے والی کمزوری کی وجہ سے نیند آگئی۔ عشاء کے بعد پھر دو گلاس پئے۔ اب جاکے کچھ اس قابل ہوا کہ محفل پر جھانک سکوں۔
تو یہ تھا ہمارا رمضان کا پہلا گرم ترین دن اور اسکا مختصر احوال۔ اب باقی محفلین اپنے حال سنائیں۔