dxbgraphics
محفلین
عبداللہ رورہ سنگہ یے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آپ نے شرکت کی تھی جنازے میں؟
تو آپ نے شرکت کی تھی جنازے میں؟
ہر علاقے کے عمائدین کو حق حاصل ہے کہ اپنے علاقے میں اسلامی شعائر کے لئے جدو جہد کریں
ہر علاقے کے عمائدین کو ہی نہیں ہر مسلمان کو حق حاصل ہے کہ اسلامی شعائر پر عمل کرے اور انکے فروغ کے لیئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے لیکن کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ مملکت میں دین کے نام پر فساد پیدا کرے ۔ بے گناہوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائے ۔ ملکی حفاظتی دستوں اور مقامی انتظامیہ کو ناکارہ کرے ۔ اور اپنے ہم خیالوں کے علاوہ دیگر تمام ملک کو منافق ۔ مرد اور واجب القتل قرار دے ۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی بے گناہ کا قتل کرے ۔ حفاظت پر مامور چوکیداروں کو اغوا کرکے انکے کان کاٹے ۔ قبروں کی حرمت کو پامال کرے ۔ خواتین کو بھیڑ بکری سمجھ کر جہاں چاہے ان پر بدکاری کا الزام لگا کر سزا دے دے ۔ اور بغیر حکومت وقت کے تفویض کردہ اختیارات کے عدل و سزا کو اپنے ہاتھ لے ۔
ان خطوط پر عمل سے یہ حق سب کو حاصل ہے عمائدین پر ہی کیا رکنا
جب لوگ بدل کر اسلامی نظام کی کوشش کرتے ہیں تو آپ لوگ دہشت گرد کہتے ہیں ان کو۔
اسلام میں اہل رائے سے رائے لی جاتی ہے اور جمہوریت میں ہر کوئی رائے دیتا ہے ۔۔۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔
ظفری بھائی ، بے حد شکریہ کہ آپ نے وضاحت سے لکھا ۔ میں بھی انہی خطوط پہ لکھنا چاہتا تھا لیکن لوڈ شیڈنگ کسی کا بس نہیں چلنے دے رہی اس لئیے مختصر الفاظ میں مدعا بیان کیا جس کی آپ نے وضاحت فرما دی ۔ بہت شکریہ۔جمہوریت کے حوالے سے یہاں عارف کریم نے بھی کئی بار اپنا راگ الاپا ہے ۔ مگر جب ان سےکہا جائے کہ جمہوریت کا متبادل پیش کرو تو جواب ندارد ۔ ایسا بارہا کئی دھاگوں پر مختلف فورمز پر ہوا ہے ۔ اب پھر سے ایک اعتراض سامنے آگیا ہے ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب جمہوریت کو برا کہا جاتا ہے تو اس نظام کی ان تیکنکی خامیوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا جو جمہوریت کی اساس ہے ۔ مگر اس کے برعکس ان لوگوں اور ذرائع کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جو جمہوریت کو اس کے نظم کے ساتھ چلنے نہیں دیتے ۔ یہاں جتنی بھی مثالیں دی گئیں ہیں ۔ وہ سب انسٹیٹوشن سے متعلق ہیں ۔ جہاں یہ ساری خرابیاں پائی جاتیں ہیں ۔ اور جمہوریت کو کسی معاشرے میں پنپنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ کی انسٹیٹوشن مضبوط ہو ۔ اگر آپ کی انسٹیٹوشن مضبوط اور ایماندار ہوگی تو جمہوریت کا نظام کسی بھی معاشرے میں کبھی انارکی پھیلنے نہیں دیگا ۔ لہذا جن " تعلیم یافتہ " ملکوں میں بعض انسٹیٹوشنز میں کبھی کوئی کرپشن کا واقع پیش بھی آجاتا ہے تو انسٹیٹوشن کے مضبوطی کے باعث وہ گرفت میں آجاتا ہے ۔ جسے عموما" چیک ایند بیلنس " بھی کہا جاتا ہے ۔ جمہوریت انسانوںکا بنایا ہوا ایک نظام ہے ۔ اس میں اگر کوئی بات اسلام کے خلاف ہوگی تو اس سے انحراف کرکے کوئی اور ردوبدل کیا جاسکتا ہے ۔ تحقیق کرکے مذید مفید بنایا جاسکتا ہے ۔
جمہوریت کے حوالے سے یہاں اکثر اس نظام کو یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ نظام کہہ کر اس کو رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر ہم کو یہود و نصاری کے ایجاد کردہ کمپوٹرز پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے آج ہم اس وقت ایک دوسرے تک اپنے خیالات پہنچا رہے ہیں ۔ ہم کو ان کے ایجاد کردہ جہازوں پر بھی اعتراض نہیں ہے ، جن پر بیٹھ کر ہم دور دراز علاقوں میں جاکر اپنی خاندانوں کی کفالت کا انتظام کرتے ہیں ۔ ان کے بنائے ہوئے ائیرکینڈشنز پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے جن کی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ کر سلگتی ہوئی گرمی کو شکست دیتے ہیں ۔ اسی طرح ان کی فراہم کردہ سینکڑوں چیزیں ہیں جن سے ہم مستفید ہورہے ہیں ، ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اگر اعتراض ہے تو صرف ان کے ایک پیش کردہ طرزِ حکومت کے نظام پر ہے ۔
اصل میں جمہوریت کیا چیز ہے ۔ ؟ دنیا میں اقتدار و حکومت حاصل کرنے کی جہدوجہد اور خواہش کی جبلت انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے ۔ تاریخ میں اس کے حصول کے لیئے افراد اور گروہ لڑتے مرتے رہے ہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لجیئے کہ اگر کسی جگہ کوئی حکومت قائم ہوگئی ہے تو اس میں مسلسل بغاوتیں ہوتیں رہیں ہیں ۔ غیر مسلموں کو چھوڑیں ۔ مسلمانوں میں دیکھ لجیئے ۔ بابر ہندوستان آکر ابراہیم لودھی کی گردن اتارتا ہے ۔ شیر شاہ سوری ، ہمایوں کو ایران بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ امیر تیمور ، یلدرم کو تہہ نہس کردیتا ہے ۔ خلافت راشدہ کودیکھ لیں تین خلفاء کو شہید کیا گیا ۔اس کے بعد بنو امیہ ، بنو عباس کے دور میں کیسی کیسی بغاوتیں ہوتیں رہیں ہیں ۔ اس اقتدار کی جنگ میں کتنے لوگ مرتے تھے ۔ اور یہی حال کم و بیش مغرب کا بھی تھا ۔ چنانچہ اس خونریزی سے بچنے کے لیئے لوگوں نے بہت سوچ بچار کے بعد انتقالِ اقتدار کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلو ۔۔۔۔ لوگوں سے پوچھ لیتے ہیں ۔سو ایک پرامن انتقالِ اقتدار کا طریقہ ایجاد ہوا ۔ پھر یہ طریقہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا کہ " امرھم شوری بینھم " یعنی مسلمان اپنا نظام رائے سے قائم کریں ۔ استبداد سے قائم نہ کریں ۔ یہ ایک اصول ہے اور اس اصول کے اطلاق کے لیئے ہم ایک نظام مرتب کرتے ہیں ۔ اور یہ نظام ظاہر ہے انسانوں کا تخلیق کردہ ہوتا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں خامیاں ہوں ۔ جو بتدریج وقت اور تجربے کیساتھ دور کی جاسکتیں ہیں ۔ مثال کے طور پر آج کمپوٹر جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ دو تین دہائیوں قبل اس کی کیا حالت تھی ۔ بتدریج یہ تبدیلیوں اور تجربے کیساتھ آج اس مقام پر پہنچا ہے ۔ کل اس کی اور کیا خامیاں دریافت ہونگیں اور مذید اس میں کیا مفید تبدیلیاں آئیں گی وہ تو وقت اور تجربے پر منحصر ہے ۔
لہذا یہ سب علم ہے اور یہ سب انسانوںکی میراث ہے ۔ اس کو یہود و نصاری کے تناظر میں دیکھنا کوئی صحتمندانہ رویہ نہیں ہے ۔ اگر اس نظام میں کوئی خامی ہے تو اس کو ہم اپنی کاہلی ترک کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کریں اور انتقالِ اقتدار کو مذید بہتر بنائیں ۔بصورتِ دیگر اس وقت دنیا میں اقتدار کے حصول کے جو تین طریقے رائج ہیں وہ ملکویت " بادشاہت " ، طبقاتی نظام یا پھر جمہوریت ہے ۔ اگر جمہوریت نہیں پسند تو ان دونوں نظاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلجیئے ۔ یہ کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ تو نہیں ۔۔۔۔۔ !!!
فیصل بھائی ، یہاں پاکستان میں اب کچھ لوگوں کا اس بات پہ ایمان کی حد تک یقین پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سدھار صرف اور صرف طاقت کے استعمال اور خوں ریزی سے ہی لایا جا سکتا ہے۔ اور یہ اسی بات کا تسلسل ہے کہ جو ہم اور آپ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "یہ قوم ڈنڈے کے بغیر سیدھی نہیں رہ سکتی"۔کیا تبدیلی کا عمل بغیر بندوق کے بندے کے پتر بن کر نہیں ہو سکتا ۔۔؟ کیا اس کے لیئے ضروری ہے کہ بے گناہوں کے گلے کاٹے جائیں ۔۔۔؟ اگر بے گناہوں کو قتل کرنے سے اسلامی نظام آتا ہے تو ایسے اسلامی نظام سے ہم بری ہیں ۔۔!
کیا تبدیلی کا عمل بغیر بندوق کے بندے کے پتر بن کر نہیں ہو سکتا ۔۔؟ کیا اس کے لیئے ضروری ہے کہ بے گناہوں کے گلے کاٹے جائیں ۔۔۔؟ اگر بے گناہوں کو قتل کرنے سے اسلامی نظام آتا ہے تو ایسے اسلامی نظام سے ہم بری ہیں ۔۔!
خبر فراہم کرنے کا شکریہ جویریہ بہن۔
اگر ملا فضل اللہ واقعی ہلاک ہو گیا ہے تو یہ میرے لیے افسوسناک خبر ہے۔
اس شخص کو اتنی آسان موت نہیں مرنا چاہیے۔ اس کی موت اس قدر عبرت ناک ہونی چاہیے کہ آنے والی نسلیں بھی اس سے سبق سیکھیں۔
جمہوریت کے حوالے سے یہاں عارف کریم نے بھی کئی بار اپنا راگ الاپا ہے ۔ مگر جب ان سےکہا جائے کہ جمہوریت کا متبادل پیش کرو تو جواب ندارد ۔ ایسا بارہا کئی دھاگوں پر مختلف فورمز پر ہوا ہے ۔ اب پھر سے ایک اعتراض سامنے آگیا ہے ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب جمہوریت کو برا کہا جاتا ہے تو اس نظام کی ان تیکنکی خامیوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا جو جمہوریت کی اساس ہے ۔ مگر اس کے برعکس ان لوگوں اور ذرائع کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جو جمہوریت کو اس کے نظم کے ساتھ چلنے نہیں دیتے ۔ یہاں جتنی بھی مثالیں دی گئیں ہیں ۔ وہ سب انسٹیٹوشن سے متعلق ہیں ۔ جہاں یہ ساری خرابیاں پائی جاتیں ہیں ۔ اور جمہوریت کو کسی معاشرے میں پنپنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ کی انسٹیٹوشن مضبوط ہو ۔ اگر آپ کی انسٹیٹوشن مضبوط اور ایماندار ہوگی تو جمہوریت کا نظام کسی بھی معاشرے میں کبھی انارکی پھیلنے نہیں دیگا ۔ لہذا جن " تعلیم یافتہ " ملکوں میں بعض انسٹیٹوشنز میں کبھی کوئی کرپشن کا واقع پیش بھی آجاتا ہے تو انسٹیٹوشن کے مضبوطی کے باعث وہ گرفت میں آجاتا ہے ۔ جسے عموما" چیک ایند بیلنس " بھی کہا جاتا ہے ۔ جمہوریت انسانوںکا بنایا ہوا ایک نظام ہے ۔ اس میں اگر کوئی بات اسلام کے خلاف ہوگی تو اس سے انحراف کرکے کوئی اور ردوبدل کیا جاسکتا ہے ۔ تحقیق کرکے مذید مفید بنایا جاسکتا ہے ۔
جمہوریت کے حوالے سے یہاں اکثر اس نظام کو یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ نظام کہہ کر اس کو رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر ہم کو یہود و نصاری کے ایجاد کردہ کمپوٹرز پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے آج ہم اس وقت ایک دوسرے تک اپنے خیالات پہنچا رہے ہیں ۔ ہم کو ان کے ایجاد کردہ جہازوں پر بھی اعتراض نہیں ہے ، جن پر بیٹھ کر ہم دور دراز علاقوں میں جاکر اپنی خاندانوں کی کفالت کا انتظام کرتے ہیں ۔ ان کے بنائے ہوئے ائیرکینڈشنز پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے جن کی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ کر سلگتی ہوئی گرمی کو شکست دیتے ہیں ۔ اسی طرح ان کی فراہم کردہ سینکڑوں چیزیں ہیں جن سے ہم مستفید ہورہے ہیں ، ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اگر اعتراض ہے تو صرف ان کے ایک پیش کردہ طرزِ حکومت کے نظام پر ہے ۔
اصل میں جمہوریت کیا چیز ہے ۔ ؟ دنیا میں اقتدار و حکومت حاصل کرنے کی جہدوجہد اور خواہش کی جبلت انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے ۔ تاریخ میں اس کے حصول کے لیئے افراد اور گروہ لڑتے مرتے رہے ہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لجیئے کہ اگر کسی جگہ کوئی حکومت قائم ہوگئی ہے تو اس میں مسلسل بغاوتیں ہوتیں رہیں ہیں ۔ غیر مسلموں کو چھوڑیں ۔ مسلمانوں میں دیکھ لجیئے ۔ بابر ہندوستان آکر ابراہیم لودھی کی گردن اتارتا ہے ۔ شیر شاہ سوری ، ہمایوں کو ایران بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ امیر تیمور ، یلدرم کو تہہ نہس کردیتا ہے ۔ خلافت راشدہ کودیکھ لیں تین خلفاء کو شہید کیا گیا ۔اس کے بعد بنو امیہ ، بنو عباس کے دور میں کیسی کیسی بغاوتیں ہوتیں رہیں ہیں ۔ اس اقتدار کی جنگ میں کتنے لوگ مرتے تھے ۔ اور یہی حال کم و بیش مغرب کا بھی تھا ۔ چنانچہ اس خونریزی سے بچنے کے لیئے لوگوں نے بہت سوچ بچار کے بعد انتقالِ اقتدار کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلو ۔۔۔۔ لوگوں سے پوچھ لیتے ہیں ۔سو ایک پرامن انتقالِ اقتدار کا طریقہ ایجاد ہوا ۔ پھر یہ طریقہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا کہ " امرھم شوری بینھم " یعنی مسلمان اپنا نظام رائے سے قائم کریں ۔ استبداد سے قائم نہ کریں ۔ یہ ایک اصول ہے اور اس اصول کے اطلاق کے لیئے ہم ایک نظام مرتب کرتے ہیں ۔ اور یہ نظام ظاہر ہے انسانوں کا تخلیق کردہ ہوتا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں خامیاں ہوں ۔ جو بتدریج وقت اور تجربے کیساتھ دور کی جاسکتیں ہیں ۔ مثال کے طور پر آج کمپوٹر جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ دو تین دہائیوں قبل اس کی کیا حالت تھی ۔ بتدریج یہ تبدیلیوں اور تجربے کیساتھ آج اس مقام پر پہنچا ہے ۔ کل اس کی اور کیا خامیاں دریافت ہونگیں اور مذید اس میں کیا مفید تبدیلیاں آئیں گی وہ تو وقت اور تجربے پر منحصر ہے ۔
لہذا یہ سب علم ہے اور یہ سب انسانوںکی میراث ہے ۔ اس کو یہود و نصاری کے تناظر میں دیکھنا کوئی صحتمندانہ رویہ نہیں ہے ۔ اگر اس نظام میں کوئی خامی ہے تو اس کو ہم اپنی کاہلی ترک کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کریں اور انتقالِ اقتدار کو مذید بہتر بنائیں ۔بصورتِ دیگر اس وقت دنیا میں اقتدار کے حصول کے جو تین طریقے رائج ہیں وہ ملکویت " بادشاہت " ، طبقاتی نظام یا پھر جمہوریت ہے ۔ اگر جمہوریت نہیں پسند تو ان دونوں نظاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلجیئے ۔ یہ کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ تو نہیں ۔۔۔۔۔ !!!
امریکہ میں حالیہ صدارتی الیکشن میں کامن ووٹ کا تناسب 53 اور 46 فیصد رہا ۔ یعنی 46 فیصد امریکنز نے اوبامہ کو مسترد کردیا ۔ مگر امریکہ کے نظم کے سلسلے میں نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے میری پوسٹ غور سے نہیں پڑھی ۔ جمہوریت کا اصل مقصد اقتدار کی منتقلی پُرامن طریقے سے کرنا ہے ۔ جوکہ پہلے خونریزی سے ہوتا تھا ۔ شاید آپ جمہوریت کی اس اصل روح کو نظر انداز کرگئے ۔
جمہوریت کیلئیے ایک مثال یہاں دینا چاہوں گا۔ ۔ ۔
زید، عمر اور بکر الیکشن میںایک ہی حلقے سے کھڑے ہوئے۔ جب رزلٹ آیا تو زید کو 33 ووٹ ملے۔ عمر کو بھی 33 ووٹ ملے اور بکر کو 34۔ جمہوریت کی رو سے بکر کو فاتح قرار دیا گیا۔۔۔۔حالانکہ 100 میں سے 66 لوگوں نے اسکو مسترد کردیا تھا۔ ۔ ۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئیے۔
ہااہاہاہاہاہاہہاہاہاہااہاہاہاہاہہاہاہاہاہاہاہاہاہااہاہاہاہہااہاہاہہااہا!
کلنٹن آیا تو گلف وار،
بش آیا تو افغانستان اور عراق کیساتھ جنگیں۔
پہلے یہی کارنامے روزویلٹ اور نیکسن کر چکے ہیں !
اس بار کے انتخاب میں جان کیری اپنا نعرہ یوںلگاتے ہیں: Vote ME, Lets Bomb, bomb bomb bomb Iran!
تاریخ گواہ ہے کہ جاسوس کو کسی بھی صورت میں معاف نہیں کیا جاتا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے کہ ایک سپاہی کو چھوڑ دوں تو وہ میدان میں زیادہ نقصان نہیں دیتا ۔ لیکن ایک جاسوس کو چھوڑ دینا پوری قوم کی تباہی ہے۔اور انہوں نے ہمیشہ جاسوس کوسزائے موت ہی دی ہے