سید عمران
محفلین
’’عید میں اب دن ہی کے رہ گئے ہیں انور صاحب۔ ایک تو میں آپ کی سست روی سے بہت تنگ ہوں۔کیا مجال کوئی کام اوّل وہلے میں کرلیں۔ ہر کام سب سے آخر میں کرتے ہیں۔‘‘ بیگم انور چائے لے کر ٹیرس پر آئیں تو چائے کے ساتھ زبان کی گرمی بھی بھاپ اڑا رہی تھی۔ چائے کی ٹرے بید کی ٹیبل پر رکھ کر وہ ریلنگ سے لگے انور صاحب کے بازو سے آلگیں۔
’’اری نیک بخت، اب کون سا کام رہ گیا۔اس دفعہ تو سارے کام وقت پر پورے ہو گئے یا نہیں؟‘‘
انور صاحب نے ٹیرس سے جھانکا۔ سامنے سڑک پار آنگن میں زیتون بی بی کی چار بچیاں ملگجے کپڑوں میں جانے کون سا کھیل کھیل رہی تھیں۔ الگنی پر بھی بدرنگ و بدنما کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔
انور صاحب کو یاد آیا پچھلی عید پر جب ان کے گھر میں ہر سو رنگ برنگی چنریاں اپنی بہار دکھا رہی تھیں اس چاند رات بھی زیتون بی بی کے آنگن کی الگنی پر ملگجے کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔ کوشش کی گئی تھی کہ پرانے کپڑوں کو دھو کر صاف ستھرا کیا جائے۔پرانے کپڑوں کا میل تو صاف ہوگیا تھا پر نئے رنگوں کی بہار کہاں سے آتی جو عید کے رنگ کا انگ ہوتی ہے۔
’’پرائے گھر جھانکنا اچھی بات نہیں ہوتی۔‘‘ بیگم انور نے ٹوکا تو انور صاحب کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ دونوں آکر بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’سارے کام ہوگئے بس بچیوں کی چنریاں رہ گئیں۔ آج کل کرتے کرتے وقت ایسا گزرا کہ بازار جانے کا موقع نہ مل سکا۔ اب سوچا کہ کام کچھ ہلکے ہوگئے ہیں تو چل کے بچیوں کے لیے چنریاں لے آئیں۔‘‘
بیگم انور کو رنگ برنگی چنریوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ عید کے دن تو لڑکیاں چنریوں کے بغیر انہیں روکھی پھیکی لگتی تھیں۔ وہ اپنے اس شوق کو صرف اپنی بچیوں پر پورا نہیں کرتی تھیں بلکہ انور صاحب اور اپنے بہن بھائیوں کی بچیوں کے لیے بھی ہر سال ڈھیر ساری چنریا ں خرید لاتی تھیں۔
’’بیگم اس دفعہ ہاتھ ہولا رکھو، تمہیں معلوم تو ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے تین ماہ گھر بیٹھنا پڑا، اس دوران تنخواہ الگ نہیں ملی، کس طرح قرض لے کر کھینچ تان کے گزارا کیا تھا، اس قرض کی ادائیگی اب بھی باقی ہے۔اس سال رہنے دو، زندگی رہی تو اگلے سال اپنا شوق پورا کرلینا۔ میں نے کبھی منع کیا ہے۔ اور ہاں وہ شیر خورمہ اور کباب وغیرہ بھی ذرا۔۔۔ میرا مطلب ہے دودھ اور گوشت کی قیمتیں دیکھ رہی ہو نا آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔‘‘ انور صاحب رسان سے سمجھانے لگے، کچھ لہجہ میں قرض کی فکر بھی شامل تھی۔ بیگم انور سمجھ رہی تھیں تبھی سرد آہ بھر کر نظریں جھکا لیں اور خاموشی سے اپنے ہاتھ میں پہنے چاندی کے کنگن سے کھیلنے لگیں۔
ان کنگنوں کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کوئی پندرہ برس ہوئے جب دونوں شادی کے بعد ہنی مون پر مری گھوم رہے تھے تب ایک دوکان پر بیگم انور کو چاندی کے یہ کنگن پسند آگئے۔ تھے بھی بہت نفیس، نازک کام والے خوبصورت اور دیدہ زیب۔ انور صاحب ستائشی نظروں سے دیکھنے لگے۔ بس بیگم انور نے شاپنگ کے لیے مختص تمام رقم سے یہی کنگن خریدلیے۔
’’اب کچھ اور نہ خریدوں تو بھی کوئی غم نہیں۔‘‘ کنگن ہاتھ میں پہننے کے بعد بیگم انور سرشاری کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔
پندرہ برس گزرنے کے بعد بھی چاندی کے ان کنگنوں سے بیگم انور کا لگاؤ کچھ کم نہ ہوا تھا۔ جہاں چاندی کی چاندنی مدھم پڑتی فوراً پالش کے لیے دے آتیں۔
دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے۔ جیسے کچھ کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہے ہوں۔ اچانک بیگم انور نے موضو ع بدلا:
’’یہ زیتون بی بی کے گھر کیا جھانک تاک ہورہی تھی؟‘‘ لہجہ میں روائیتی بیویوں والا روائیتی شک تھا۔
انور صاحب مسکرائے اور بیگم کا ہاتھ پکڑ کر ریلنگ تک لے آئے۔ سڑک کے اُس پار زیتون بی بی کا صحن نظر آرہا تھا۔ بچیاں کھیل کھیل کر تھک گئی تھیں۔صحن میں سناٹا تھا۔ الگنی پر بدنما کپڑے اسی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
’’یہ بتاؤ ان غریب لوگوں کو عید کی خوشیاں منانے کادل چاہتا بھی ہے یا اپنے حال میں مست رہتے ہیں، کوئی دن آئے، کوئی جائے انہیں کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔ یہ لوگ انسان نہیں ہیں کیا؟ ایک انسان کو جو خوشیاں ملتی ہیں وہی انہیں بھی چاہئیے ہوتی ہیں۔ان کا دل بھی خوشی پر خوش ہوتا ہے، اور غم پر سوگ مناتا ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں یہ لوگ صرف سوگ منانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں یا غم ہی کو خوشی سمجھ کر جیتے ہیں؟‘‘
’’پوچھ اس لیے رہا ہوں کہ پچھلے برس جب یہ لوگ اس مکان میں منتقل ہوئے تھے اور پہلی عید آئی تھی تب بھی ان کے گھر میں عید کی رونقیں چہل پہل، نئے کپڑے اور تمہاری من پسند رنگین چنریاں گلے میں ڈالے کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ وہی عام دنوں والے کپڑے دھو کر پہن لیے۔ ایسالگ رہا تھا جیسے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، عید آئے یا جائے ان کی بلا سے۔‘‘ انور صاحب نے اپنے خیالات شئیر کیے۔
’’ان غریبوں کو دو وقت کھانے کے غم سے نجات ملے تو کوئی خوشی منائیں۔تن ڈھانکنے کے چند جوڑے پھٹنے سے بچ جائیں تو غنیمت ہے۔ نئے کپڑے، نئے پکوان۔۔۔ ان کا تو تصوربھی نہیں۔ غریب بیوہ عورت ہے، دوسروں کے گھر کام کاج مل جاتا ہے، باجیاں بچے کچھے کھانے اور پرانے کپڑے دے دیتی ہیں تو پیٹ بھر جاتا ہے اور تن ڈھک جاتا ہے۔مہنگائی کے اس دور میں کیسے شیر خورمے، کہاں کی رنگین چنریاں۔ اور کچھ نہیں تو اپنا ہی حال دیکھ لیں۔‘‘ بیگم انور نے گفتگو کا رخ اپنے مالی حالات کی طرف موڑا تو انور صاحب کے چہرہ پر رنجیدگی در آئی۔ بیگم انور بھی سنجیدہ ہوگئیں۔تھوڑی دیر بعد دونوں واپس بید کی کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے۔ بیگم انور حسبِ معمول چاندی کے کنگنوں سے کھیلنے لگیں۔
رات کو چاند کا اعلان ہوا تو انور صاحب نے عشاء پڑھتے ہی گھر کا رخ کیا۔ مبارک سلامت کا شور تھما تو انور صاحب نے بیگم سے کہا:
’’اسی خوشی میں گرما گرم چائے کا ایک کپ ہوجائے؟‘‘
’’ابھی لاتی ہوں۔‘‘
بیگم انور نے چائے کا کپ تھماتے ہوئے کہا:
’’نجمہ کے ساتھ بازار جارہی ہوں۔ اسے کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں۔ بس تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔ زیادہ پریشان نہ ہوئیے گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ انور صاحب کچھ بولتے وہ سر پہ چادر رکھ باہر نکل گئیں۔ تھوڑی دیر کا کہہ کر نکلنے والی بیگم انور نے اتنی دیر لگا دی کہ انتظار کرتے کرتے انور صاحب کی آنکھ لگ گئی۔ پھر آنکھ کمرہ میں ہونے والی کھٹ پٹ کی آوازوں سے کھلی۔ دیکھا کہ بیگم انور الماری میں گھسی ہوئی ہیں۔انہوں نے آواز دی تو جلدی سے دروازہ بند کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
’’بندی خدا کی کچھ تو خدا کا خوف کرو دو بج رہے ہیں، ساری رات کون سی شاپنگ میں گزار دی۔‘‘ انور صاحب کے لہجہ میں تشویش گھل رہی تھی۔
’’آپ بھی بس خواہ مخواہ پریشان ہوتے رہا کیجیے۔ شاپنگ تو تھوڑی سی کی تھی اصل دیر مہندی لگوانے میں لگ گئی۔انہوں نے دور ہی سے حنائی ہاتھوں کی جھلک دکھائی اور تیزی سے باورچی خانے میں جاگھسیں۔
’’ابھی شیر خورمہ بھی بنانا ہے اور کباب بھی تیار کرنے ہیں۔آپ اطمینان سے اپنی نیند پوری کرلیجئے۔‘‘ انور صاحب نے بیگم کی آواز سن کر نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں موند لیں۔
انور صاحب فجر کی نماز پڑھ کر آئے تو گھر میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بیگم نےجلدی جلدی ناشتہ تیار کیا، انہیں نہانے بھیجا۔ انور صاحب نیا کلف لگا لباس پہن، خوشبو لگا عید گاہ کو روانہ ہوئے تو تھوڑی دیر کے لیے گھر میں سکون ہوگیا۔
عید کی نماز پڑھ کر انور صاحب جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو جیسے حیرت اور خوشی کا زوردار جھٹکا لگا۔ ان کی بچیاں، بھانجیاں، بھتیجیاں سب حسبِ معمول رنگیلی چنریوں میں ان کے ارد گرد آکھڑی ہوئیں۔ ننھے ننھے ہاتھ عیدی مانگنے کے لیے مچلنے لگے۔ انور صاحب کی نظریں بیگم کو ڈھونڈ رہی تھیں، وہ نہ جانے کہاں غائب تھیں۔ بچوں کی عیدیوں سے نمٹنے کے بعد انور صاحب بیگم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے باورچی خانہ میں آگئے۔ بیگم چائے کی ٹرے لے کر پلٹ ہی رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مسکرائیں۔ آنکھیں جھل مل کررہی تھیں گویا ان میں کہکشاں کے سارے ستارے چمک رہے ہوں۔
’’عید مبارک انور صاحب۔یوں گم سم کیوں کھڑے ہیں۔ چلیں ٹیرس پر آئیں۔ میں نے آپ کے لیے گرما گرم چائے تیار کی ہے۔‘‘ بیگم ٹرے لے کر آگے بڑھ گئیں۔ انور صاحب پیچھے پیچھے ٹیرس پر آگئے:
’’یہ سب چنریاں، شیر خورمہ، کباب۔۔۔ یہ سب کہاں سے۔۔۔ میرا مطلب کیسے ہوگیا یہ سب کچھ۔ حالاں کہ میں نے تو تمہیں کوئی پیسے نہیں دئیے تھے۔ اور میرے پاس تھے ہی کہاں جو کچھ دیتا۔‘‘ انور صاحب سمجھ نہیں پارہے تھے کہ ہمیشہ کی طرح ساری خوشیاں کیسے پوری ہورہی ہیں، وہی رونقیں کیسے بحال ہیں۔
’’اللہ بڑا کارساز ہے انور صاحب، بڑے راستے ہیں اس کے پاس بندوں کو خوش کرنے کے۔ آپ سب فکریں چھوڑیں، جب مولیٰ خوشیاں دے رہا ہے تو اس کی عنائیتوں میں فکر و پریشانی کی ملاوٹ نہ کریں۔‘‘ بیگم انور منہ پھیر کر ریلنگ کے پاس آگئیں۔ وہ کیا چھپا رہی تھیں انور صاحب سمجھ نہیں پائے۔ وہ آگے بڑھ کر بیگم کے پاس آکھڑے ہوئے۔سڑک کے اس پار زیتون بی بی کا صحن نظر آرہا تھا۔ چار بچیاں گلے میں رنگین چنریاں ڈالے چڑیوں کی طرح خوشی سے اِدھر اُدھر اچھلتی پھر رہی تھیں۔ انور صاحب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا:
’’بیگم کیا تم بھی وہی دیکھ رہی ہو جو میں نے دیکھا؟‘‘ انہوں نے بیگم کے چہرہ کی طرف دیکھا۔
’’ ان کے ہاتھ کون سا خزانہ لگ گیا۔ سارے صحن میں رنگ ہی رنگ بکھر گئے ہیں۔‘‘ انور صاحب اپنے گھر کی رونقیں ہی نہیں سمجھ پا رہے تھے اوپر سے زیتون بی بی کے خزاں رسیدہ گھر میں بہار کی رونقیں دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگے۔
’’کہا ناں انور صاحب اللہ بڑا کارساز ہے۔ بندوں کی خوشیوں کے ہزار راستے نکال لیتا ہے۔‘‘
بیگم انور بید کی کرسی پر آبیٹھیں۔ ہاتھ میں چائے کا گرم گرم کپ تھام لیا۔ انور صاحب گہری سوچ میں ڈوبے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیا:
’’ارے بیگم رات بھی تم باورچی خانہ میں جاگھسیں۔ دکھاؤ کیسی لگ رہی ہے مہندی۔‘‘ انور صاحب نے بڑے شوق سے بیگم کے حنائی ہاتھ تھام لیے۔تبھی انہیں دوسرا جھٹکا لگا:
’’تمہارے کنگن کہاں ہیں صفیہ؟ انہیں تو تم کبھی نہیں اتارتی تھیں۔ پھر آج یہ کلائیاں کیوں سونی رکھیں۔‘‘ کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے نظریں اٹھا کے بیگم کی طرف دیکھا۔ آنسوتھے کہ موسلا دھار بارش کی طرح بیگم کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے۔ وہ کچھ دیر گم سم رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے حواس کام کرنے لگے:
’’تو کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ ان کے لہجے میں چھپے ہزار سوال جواب بھی لیے ہوئے تھے۔
بیگم نے آہستہ سے سر ہلادیا۔ وہ بغیر کچھ کہے انور صاحب کی ہر بات سمجھ رہی تھیں۔
’’اور وہ زیتون بی بی کے گھر۔۔؟؟؟‘‘ انور صاحب آہستہ آہستہ سب سمجھ رہے تھے۔
’’ہاں وہ بھی۔۔۔ وہ بھی انسان ہیں ہماری طرح انور صاحب۔ آج کے دن انہیں بھی خوش ہونا آتا ہے انور صاحب۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں، انہیں بھی خوشیاں منانی آتی ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں!!!‘‘
بیگم انور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر رو نے لگیں۔
انور صاحب دم بخود ان کی سونی کلائیاں دیکھ رہے تھے۔
گھر کے اندر خوشیوں کی چنریوں کی مہکار تھی اور سامنے زیتون بی بی کے صحن میں رنگیلی چنریاں چمک رہی تھیں۔
انور صاحب نے بیگم کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
انہیں بیگم کے ہر آنسو میں چنریوں کے ہزار رنگ نظر آرہے تھے!!!!
’’اری نیک بخت، اب کون سا کام رہ گیا۔اس دفعہ تو سارے کام وقت پر پورے ہو گئے یا نہیں؟‘‘
انور صاحب نے ٹیرس سے جھانکا۔ سامنے سڑک پار آنگن میں زیتون بی بی کی چار بچیاں ملگجے کپڑوں میں جانے کون سا کھیل کھیل رہی تھیں۔ الگنی پر بھی بدرنگ و بدنما کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔
انور صاحب کو یاد آیا پچھلی عید پر جب ان کے گھر میں ہر سو رنگ برنگی چنریاں اپنی بہار دکھا رہی تھیں اس چاند رات بھی زیتون بی بی کے آنگن کی الگنی پر ملگجے کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔ کوشش کی گئی تھی کہ پرانے کپڑوں کو دھو کر صاف ستھرا کیا جائے۔پرانے کپڑوں کا میل تو صاف ہوگیا تھا پر نئے رنگوں کی بہار کہاں سے آتی جو عید کے رنگ کا انگ ہوتی ہے۔
’’پرائے گھر جھانکنا اچھی بات نہیں ہوتی۔‘‘ بیگم انور نے ٹوکا تو انور صاحب کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ دونوں آکر بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’سارے کام ہوگئے بس بچیوں کی چنریاں رہ گئیں۔ آج کل کرتے کرتے وقت ایسا گزرا کہ بازار جانے کا موقع نہ مل سکا۔ اب سوچا کہ کام کچھ ہلکے ہوگئے ہیں تو چل کے بچیوں کے لیے چنریاں لے آئیں۔‘‘
بیگم انور کو رنگ برنگی چنریوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ عید کے دن تو لڑکیاں چنریوں کے بغیر انہیں روکھی پھیکی لگتی تھیں۔ وہ اپنے اس شوق کو صرف اپنی بچیوں پر پورا نہیں کرتی تھیں بلکہ انور صاحب اور اپنے بہن بھائیوں کی بچیوں کے لیے بھی ہر سال ڈھیر ساری چنریا ں خرید لاتی تھیں۔
’’بیگم اس دفعہ ہاتھ ہولا رکھو، تمہیں معلوم تو ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے تین ماہ گھر بیٹھنا پڑا، اس دوران تنخواہ الگ نہیں ملی، کس طرح قرض لے کر کھینچ تان کے گزارا کیا تھا، اس قرض کی ادائیگی اب بھی باقی ہے۔اس سال رہنے دو، زندگی رہی تو اگلے سال اپنا شوق پورا کرلینا۔ میں نے کبھی منع کیا ہے۔ اور ہاں وہ شیر خورمہ اور کباب وغیرہ بھی ذرا۔۔۔ میرا مطلب ہے دودھ اور گوشت کی قیمتیں دیکھ رہی ہو نا آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔‘‘ انور صاحب رسان سے سمجھانے لگے، کچھ لہجہ میں قرض کی فکر بھی شامل تھی۔ بیگم انور سمجھ رہی تھیں تبھی سرد آہ بھر کر نظریں جھکا لیں اور خاموشی سے اپنے ہاتھ میں پہنے چاندی کے کنگن سے کھیلنے لگیں۔
ان کنگنوں کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کوئی پندرہ برس ہوئے جب دونوں شادی کے بعد ہنی مون پر مری گھوم رہے تھے تب ایک دوکان پر بیگم انور کو چاندی کے یہ کنگن پسند آگئے۔ تھے بھی بہت نفیس، نازک کام والے خوبصورت اور دیدہ زیب۔ انور صاحب ستائشی نظروں سے دیکھنے لگے۔ بس بیگم انور نے شاپنگ کے لیے مختص تمام رقم سے یہی کنگن خریدلیے۔
’’اب کچھ اور نہ خریدوں تو بھی کوئی غم نہیں۔‘‘ کنگن ہاتھ میں پہننے کے بعد بیگم انور سرشاری کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔
پندرہ برس گزرنے کے بعد بھی چاندی کے ان کنگنوں سے بیگم انور کا لگاؤ کچھ کم نہ ہوا تھا۔ جہاں چاندی کی چاندنی مدھم پڑتی فوراً پالش کے لیے دے آتیں۔
دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے۔ جیسے کچھ کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہے ہوں۔ اچانک بیگم انور نے موضو ع بدلا:
’’یہ زیتون بی بی کے گھر کیا جھانک تاک ہورہی تھی؟‘‘ لہجہ میں روائیتی بیویوں والا روائیتی شک تھا۔
انور صاحب مسکرائے اور بیگم کا ہاتھ پکڑ کر ریلنگ تک لے آئے۔ سڑک کے اُس پار زیتون بی بی کا صحن نظر آرہا تھا۔ بچیاں کھیل کھیل کر تھک گئی تھیں۔صحن میں سناٹا تھا۔ الگنی پر بدنما کپڑے اسی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
’’یہ بتاؤ ان غریب لوگوں کو عید کی خوشیاں منانے کادل چاہتا بھی ہے یا اپنے حال میں مست رہتے ہیں، کوئی دن آئے، کوئی جائے انہیں کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔ یہ لوگ انسان نہیں ہیں کیا؟ ایک انسان کو جو خوشیاں ملتی ہیں وہی انہیں بھی چاہئیے ہوتی ہیں۔ان کا دل بھی خوشی پر خوش ہوتا ہے، اور غم پر سوگ مناتا ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں یہ لوگ صرف سوگ منانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں یا غم ہی کو خوشی سمجھ کر جیتے ہیں؟‘‘
’’پوچھ اس لیے رہا ہوں کہ پچھلے برس جب یہ لوگ اس مکان میں منتقل ہوئے تھے اور پہلی عید آئی تھی تب بھی ان کے گھر میں عید کی رونقیں چہل پہل، نئے کپڑے اور تمہاری من پسند رنگین چنریاں گلے میں ڈالے کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ وہی عام دنوں والے کپڑے دھو کر پہن لیے۔ ایسالگ رہا تھا جیسے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، عید آئے یا جائے ان کی بلا سے۔‘‘ انور صاحب نے اپنے خیالات شئیر کیے۔
’’ان غریبوں کو دو وقت کھانے کے غم سے نجات ملے تو کوئی خوشی منائیں۔تن ڈھانکنے کے چند جوڑے پھٹنے سے بچ جائیں تو غنیمت ہے۔ نئے کپڑے، نئے پکوان۔۔۔ ان کا تو تصوربھی نہیں۔ غریب بیوہ عورت ہے، دوسروں کے گھر کام کاج مل جاتا ہے، باجیاں بچے کچھے کھانے اور پرانے کپڑے دے دیتی ہیں تو پیٹ بھر جاتا ہے اور تن ڈھک جاتا ہے۔مہنگائی کے اس دور میں کیسے شیر خورمے، کہاں کی رنگین چنریاں۔ اور کچھ نہیں تو اپنا ہی حال دیکھ لیں۔‘‘ بیگم انور نے گفتگو کا رخ اپنے مالی حالات کی طرف موڑا تو انور صاحب کے چہرہ پر رنجیدگی در آئی۔ بیگم انور بھی سنجیدہ ہوگئیں۔تھوڑی دیر بعد دونوں واپس بید کی کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے۔ بیگم انور حسبِ معمول چاندی کے کنگنوں سے کھیلنے لگیں۔
رات کو چاند کا اعلان ہوا تو انور صاحب نے عشاء پڑھتے ہی گھر کا رخ کیا۔ مبارک سلامت کا شور تھما تو انور صاحب نے بیگم سے کہا:
’’اسی خوشی میں گرما گرم چائے کا ایک کپ ہوجائے؟‘‘
’’ابھی لاتی ہوں۔‘‘
بیگم انور نے چائے کا کپ تھماتے ہوئے کہا:
’’نجمہ کے ساتھ بازار جارہی ہوں۔ اسے کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں۔ بس تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔ زیادہ پریشان نہ ہوئیے گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ انور صاحب کچھ بولتے وہ سر پہ چادر رکھ باہر نکل گئیں۔ تھوڑی دیر کا کہہ کر نکلنے والی بیگم انور نے اتنی دیر لگا دی کہ انتظار کرتے کرتے انور صاحب کی آنکھ لگ گئی۔ پھر آنکھ کمرہ میں ہونے والی کھٹ پٹ کی آوازوں سے کھلی۔ دیکھا کہ بیگم انور الماری میں گھسی ہوئی ہیں۔انہوں نے آواز دی تو جلدی سے دروازہ بند کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
’’بندی خدا کی کچھ تو خدا کا خوف کرو دو بج رہے ہیں، ساری رات کون سی شاپنگ میں گزار دی۔‘‘ انور صاحب کے لہجہ میں تشویش گھل رہی تھی۔
’’آپ بھی بس خواہ مخواہ پریشان ہوتے رہا کیجیے۔ شاپنگ تو تھوڑی سی کی تھی اصل دیر مہندی لگوانے میں لگ گئی۔انہوں نے دور ہی سے حنائی ہاتھوں کی جھلک دکھائی اور تیزی سے باورچی خانے میں جاگھسیں۔
’’ابھی شیر خورمہ بھی بنانا ہے اور کباب بھی تیار کرنے ہیں۔آپ اطمینان سے اپنی نیند پوری کرلیجئے۔‘‘ انور صاحب نے بیگم کی آواز سن کر نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں موند لیں۔
انور صاحب فجر کی نماز پڑھ کر آئے تو گھر میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بیگم نےجلدی جلدی ناشتہ تیار کیا، انہیں نہانے بھیجا۔ انور صاحب نیا کلف لگا لباس پہن، خوشبو لگا عید گاہ کو روانہ ہوئے تو تھوڑی دیر کے لیے گھر میں سکون ہوگیا۔
عید کی نماز پڑھ کر انور صاحب جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو جیسے حیرت اور خوشی کا زوردار جھٹکا لگا۔ ان کی بچیاں، بھانجیاں، بھتیجیاں سب حسبِ معمول رنگیلی چنریوں میں ان کے ارد گرد آکھڑی ہوئیں۔ ننھے ننھے ہاتھ عیدی مانگنے کے لیے مچلنے لگے۔ انور صاحب کی نظریں بیگم کو ڈھونڈ رہی تھیں، وہ نہ جانے کہاں غائب تھیں۔ بچوں کی عیدیوں سے نمٹنے کے بعد انور صاحب بیگم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے باورچی خانہ میں آگئے۔ بیگم چائے کی ٹرے لے کر پلٹ ہی رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مسکرائیں۔ آنکھیں جھل مل کررہی تھیں گویا ان میں کہکشاں کے سارے ستارے چمک رہے ہوں۔
’’عید مبارک انور صاحب۔یوں گم سم کیوں کھڑے ہیں۔ چلیں ٹیرس پر آئیں۔ میں نے آپ کے لیے گرما گرم چائے تیار کی ہے۔‘‘ بیگم ٹرے لے کر آگے بڑھ گئیں۔ انور صاحب پیچھے پیچھے ٹیرس پر آگئے:
’’یہ سب چنریاں، شیر خورمہ، کباب۔۔۔ یہ سب کہاں سے۔۔۔ میرا مطلب کیسے ہوگیا یہ سب کچھ۔ حالاں کہ میں نے تو تمہیں کوئی پیسے نہیں دئیے تھے۔ اور میرے پاس تھے ہی کہاں جو کچھ دیتا۔‘‘ انور صاحب سمجھ نہیں پارہے تھے کہ ہمیشہ کی طرح ساری خوشیاں کیسے پوری ہورہی ہیں، وہی رونقیں کیسے بحال ہیں۔
’’اللہ بڑا کارساز ہے انور صاحب، بڑے راستے ہیں اس کے پاس بندوں کو خوش کرنے کے۔ آپ سب فکریں چھوڑیں، جب مولیٰ خوشیاں دے رہا ہے تو اس کی عنائیتوں میں فکر و پریشانی کی ملاوٹ نہ کریں۔‘‘ بیگم انور منہ پھیر کر ریلنگ کے پاس آگئیں۔ وہ کیا چھپا رہی تھیں انور صاحب سمجھ نہیں پائے۔ وہ آگے بڑھ کر بیگم کے پاس آکھڑے ہوئے۔سڑک کے اس پار زیتون بی بی کا صحن نظر آرہا تھا۔ چار بچیاں گلے میں رنگین چنریاں ڈالے چڑیوں کی طرح خوشی سے اِدھر اُدھر اچھلتی پھر رہی تھیں۔ انور صاحب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا:
’’بیگم کیا تم بھی وہی دیکھ رہی ہو جو میں نے دیکھا؟‘‘ انہوں نے بیگم کے چہرہ کی طرف دیکھا۔
’’ ان کے ہاتھ کون سا خزانہ لگ گیا۔ سارے صحن میں رنگ ہی رنگ بکھر گئے ہیں۔‘‘ انور صاحب اپنے گھر کی رونقیں ہی نہیں سمجھ پا رہے تھے اوپر سے زیتون بی بی کے خزاں رسیدہ گھر میں بہار کی رونقیں دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگے۔
’’کہا ناں انور صاحب اللہ بڑا کارساز ہے۔ بندوں کی خوشیوں کے ہزار راستے نکال لیتا ہے۔‘‘
بیگم انور بید کی کرسی پر آبیٹھیں۔ ہاتھ میں چائے کا گرم گرم کپ تھام لیا۔ انور صاحب گہری سوچ میں ڈوبے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیا:
’’ارے بیگم رات بھی تم باورچی خانہ میں جاگھسیں۔ دکھاؤ کیسی لگ رہی ہے مہندی۔‘‘ انور صاحب نے بڑے شوق سے بیگم کے حنائی ہاتھ تھام لیے۔تبھی انہیں دوسرا جھٹکا لگا:
’’تمہارے کنگن کہاں ہیں صفیہ؟ انہیں تو تم کبھی نہیں اتارتی تھیں۔ پھر آج یہ کلائیاں کیوں سونی رکھیں۔‘‘ کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے نظریں اٹھا کے بیگم کی طرف دیکھا۔ آنسوتھے کہ موسلا دھار بارش کی طرح بیگم کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے۔ وہ کچھ دیر گم سم رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے حواس کام کرنے لگے:
’’تو کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ ان کے لہجے میں چھپے ہزار سوال جواب بھی لیے ہوئے تھے۔
بیگم نے آہستہ سے سر ہلادیا۔ وہ بغیر کچھ کہے انور صاحب کی ہر بات سمجھ رہی تھیں۔
’’اور وہ زیتون بی بی کے گھر۔۔؟؟؟‘‘ انور صاحب آہستہ آہستہ سب سمجھ رہے تھے۔
’’ہاں وہ بھی۔۔۔ وہ بھی انسان ہیں ہماری طرح انور صاحب۔ آج کے دن انہیں بھی خوش ہونا آتا ہے انور صاحب۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں، انہیں بھی خوشیاں منانی آتی ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں!!!‘‘
بیگم انور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر رو نے لگیں۔
انور صاحب دم بخود ان کی سونی کلائیاں دیکھ رہے تھے۔
گھر کے اندر خوشیوں کی چنریوں کی مہکار تھی اور سامنے زیتون بی بی کے صحن میں رنگیلی چنریاں چمک رہی تھیں۔
انور صاحب نے بیگم کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
انہیں بیگم کے ہر آنسو میں چنریوں کے ہزار رنگ نظر آرہے تھے!!!!
آخری تدوین: