مہدی نقوی حجاز
محفلین
روداد عید ملن بہ زبان حجازؔ
اب سنیے داستان عید ملن۔ہم مزار قائد کے صدر دروازے سے وارد ہوئے تو ہمیں "سیل فون" نکالنے پر یہ علم ہوا کہ وہ بیچارہ بحران برقی کی وجہ سے خموش ہو چکا ہے۔ یہ دیکھ کر ہمارے تمام تر پالے ہوئے طوطے اڑ گئے۔ اب اسی فکرمندی کی حالت میں میں کچھ آگے بڑھا تو چار افراد کو وہاں بیٹھا دیکھا اور پھر عالم خیال میں ۴ قدم آگے بڑھ گیا۔ پھر کچھ یاد آنے پر مڑا اور سب سے پہلے محمد امین سے بغلگیر ہوا کہ اسکا ہمیں اس مخمصے سے نکالنے میں بڑا ہاتھ تھا۔ سب سے جب ہم بغلگیر ہولئے تو اب ذرا حضرات کے ہمارے بارے تأثرات دیکھیے:
امین: آپ کا تعارف؟
حجاز: فدا میں اپنی ہی اس لغزش نظر پہ حجاز۔۔۔۔۔ کہ اک نظر میں تجھے جاننے کی غلطی ہے۔
امین: اوہو! تو آپ ہیں مہدی نقوی حجاز (ہمارا نام انہوں نے یوں لیا جیسے ہمیں ٹیگ کیا ہو) اجی ہم تو سمجھے تھے آپ کو ئی بزرگ ہوں گے کہ آپ کی بھاری بھرکم باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے۔
حجاز: جی صاحب۔ آپ کی محبت ہے اور بس۔
میر انیس : (حیرانی سے) ہم تو سمجھے تھے کہ آپ کہیں ہماری عمر کے ہوں گے۔۔۔!
حجاز: لا حول ولا قوۃ۔۔۔ آپ سے ایسی باتیں بعید ہیں جناب۔
انیس الرحمن ( اپنے ہم نام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے): جی ہم بھی کچھ ایسا ہی سمجھے تھے آپ حضور کے بارے۔
محمداحمد صاحب نے مزید گفتگو کی اجازت نہ دیتے ہوئے ہمیں بھینچ کر دوبارہ گلے لگایا اور یہ تلقین دی کہ اب ڈرنے کی کوئی جا نہیں۔(باقی معاملہ ایک راز ہے)
ابھی ہمیں موضوع بحث بنے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ فہیم ( fahim ) اور عمار خاں نے بھی گلے لگنے لگانے کے مراسم ادا کئے۔
عمار خان کو دیکھ کر ہم نے اس بات کا انکشاف کیا کہ حضور حقیقت میں اپنے اوتار کی تصویر سے زیادہ حسین ہیں اور قدآور بھی۔ یہ وہ فرد واحد ہیں جنہوں نے ہمیں سر بلند ہونے کی اجازت دی یعنی ہمیں مجبور کیا کہ ہم سر اٹھا کہ ان کے رخ گل رخ کی زیارت کریں۔ اور ویسے بھی میں اونٹ پہلی بار کسی پہاڑ کے نیچے آیا تھا۔
سب حاضرین سے گلے مل چکنے کے بعد فہیم صاحب نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ وہ مجھے اب تک پہچاننے سے قاصر رہے ہیں۔ ہم نے دھیمی آواز میں فرمایا:
بندہ حجاز ہے۔
فہیم: میں نے تمہارے بارے میں "اسپیشلی" "ڈسکس" کیا تھا یہاں آنے سے قبل کہ تم کوئی نہ کوئی "سر پرائز" ضرور دو گے۔
ہم انکی بیش از ضرورت و موقع انگریز دوستی سے متأثر ہو کر ہیبت میں پڑ گئے اور اک سادہ سی "جی اچھا" کہہ کر چپ ساندھنے میں اپنی عافیت سمجھی (کیا پدی کیا پدی کا شوربہ)۔
پھر تلاش سایہ و احباب کا سلسلہ بالترتیب جاری رہا۔
جب رائے دینے کی نوبت آئی تو ہم نے انگلی اٹھا کر مزار قائد کے ایک خاص گوشے کی سمت اشارہ کیا کہ وہاں تو سایہ دار درخت دستیاب ہو ہی جائیں گا۔ وہاں پہنچ کر میر انیس صاحب نے ہمیں ہوش میں لاتے ہوئے فرمایا: "کہاں ہیں تمہارے درخت؟؟" یہ دیکھنے پر کہ وہاں تو واقعی کوئی درخت نہیں، ہمارے شجر آبرو کے تمام پتے جھڑتے محسوس ہوئے۔
سایہ اور سکون ملنے پر ہم ایک رسمی گفتگو شروع کرنے کو تھے کہ مزمل شیخ بسمل نمودار ہوئے۔ انہوں نے نجانے کیوں تمام احباب کو حذف فرما کر پہلے ہم سے ہی بغلگیر ہونا پسند فرمایا؟؟ پر یہ وہ پہلے دوست تھے جنہوں نے ہمیں پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں برتی۔ خیر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ حسان خان ، ابوشامل (فہد)، اور شعیب صفدر صاحب نے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کی رحمت سے نوازا۔ تعارف بھی ہوا۔
جب فہد صاحب مختلف گروہوں (بشمول ہمارے گروہ کے) سے شکوہ فرما کر فارغ ہوئے تو ہم سب انکی منشأ کے مطابق ظہرانے کے لئے "فوڈ سینٹر" برنس روڈ کی جانب ہرولا(تیز چلنا) چھوڑ "بائک ولا" ہوئے۔
جائے خورد و نوش پر پہنچ کر اور وہاں نشست اختیار کر کے سہ بارہ مباحثہ کو آغاز ہوا۔ اس جنگِ زبان سے نجات کے لئے شاعروں کے کسی بد خواہ نے مشاعرہ کرنے کا قاتلانہ مشورہ دیا۔ اب جو دیکھا گیا تو حضرات شاعر میں سے محمد احمد صاحب اور بسمل ہی شاعر (بندہ شاعر نما تھا اور ہے) تھے تو انہیں ہی گوش گرانی کا موقع پہلے حاصل ہوا۔ پھر جب دوسرے شاعر کی باری آئی تو مزمل حسب عادت فرمانے لگے:
ارے جناب ہم سے "سینیئر" تو حجازؔ صاحب ہیں سو اب انہیں کی باری ہے۔
ہم نے چونک کر کہا: ارے میاں! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟؟
پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد شاید انہیں یہ بات سمجھ آگئی اور وہ اٹھ کر محمد احمد کی چھوڑی ہوئی کرسی پر سکونت پزیر ہوئے۔ مزمل صاحب کے بعد کچھ سمع خراشی کا موقع ہمیں بھی حاصل ہوا تو رہی سہی کسر ہم نے بھی پوری کردی۔ پھر امین فہیم نے بھی بالترتیب اپنے اوپر سخت بہتانیں باندھیں اور در آخر اپنی شخصیت کی بھی خوب "واٹ ماری" (جیسا کہ فہیم نے اپنے کلام میں ماری تھی) کہ اگلی بار سنانے کا موقع ہی ہاتھ نہ آیا۔
اس کے بعد ہم نے کھانے کی میز کو بالترتیب سجتے اور اجڑتے دیکھا البتہ ہم نے اجڑنے کے زمانے کو سجنے کے زمانے سے مختصر پایا۔ (اس فقرے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم نے محض دیکھا اور یاروں کی یاری نہ کی)۔ غذا تناول فرما کر جب محفلین کو فراغت ہاتھ آئی تو امین نے ڈرتے ڈرتے ہمیں مطلع کیا کہ:
حجازؔ صاحب! ہم نے آپ کے "فیس بک" کے اوتار پر آپ کو پہلے دیکھا ضرور تھا۔۔۔۔
ہم چونک کر: پھر بھی ہمیں دیکھ کر سب سے زیادہ آپ متعجب کیوں ہوئے میاں؟؟
فرمایا: حضور وہ اس لئے کہ آپ کی جو تصویر ہم نے دیکھی تھی اس کے بارے ہمارا یہ خیال تھا کہ وہ آپ کے فرزند کی ہوگی!
یہ سن کر ہم میں جواب دینے کی تاب نہ رہی، ہم نے جھٹ عینک اتاری اور اسے صاف کرنے میں مشغول ہو لئے۔ پھر محمد صفدر صاحب نے چائے کا مشورہ دے کر ہمیں اس مخمصے سے بھی نجات دی۔
"ڈھابہ" کی راہ میں میر انیس صاحب نے ہمارے پیشے کے بارے میں اپنے شک کا اظہار فرمایا تو ہم نے یہ کہہ کر انہیں جھٹ مطمئن کر لیا کہ :
"حضور والا! قوان کی قسم سپہ گری کو ترک نہیں کیا!"
چائے نوش جان کرنے کے بعد جب حسان خان میں تاب سخن آئی تو انہوں نے فیض صاحب کے انداز میں پہلا حملہ ہم پر فرمایا:
"مہدی آپ کی عمر کیا ہے؟"
عرض ہوا: آپ تشخیص دیجے تو جانیں۔
پھر ہم نے تمام احباب سے باری باری استفسار فرمایا تو یہ نتائج حاصل آئے۔
حسان خان: ۲۰ سے ۲۲ تک ہو گی۔
انیس الرحمٰن: مزمل کے ہم عمر لگتے ہیں۔
امین: ۲۰ ہونی چاہئے۔
محمد احمد: ہاں! ۲۰ ٹھیک لگتی ہے۔
فہد: ۲۲ سے۱۹ کے درمیان ہی ہوگی۔
مزمل: ۱۹ ہے یا ۲۰؟
اور در آخر پوچھنے پر میر انیس صاحب نے فرمایا کہ: "۱۷ یا ۱۸ ہے ناں!"
(فہیم اور شعیب صفدر چونکہ کسی اور موضوع پر وارد جنگ تھے اس لئے ان سے رائے طلب کرنے کی ہمت نہیں پڑی۔ اور عمار خان صاحب شاید جا چکے تھے۔)
ہم نے میر انیس صاحب کی ریشِ کام میں ایک سفید بال دیکھ کر بلحاظ ادب ان کے جواب پر متفق کا نشان لگا دیا ورنہ اس وقت ہماری عمر کوئی ۱۲ یا ۱۳ برس کی ہوگی۔ (از راہ لطافت)
ہماری عمر جاننے کے بعد محفلین کے تأثرات قابل نوشت نہیں۔ پر حسان خان نے سکوت گراں کو توڑ کر ہمیں "انٹرویو" کے شکنجے میں گرفتار فرمایا اور دیر تک ٹٹول ٹٹول کر تلاشی لیتے رہے۔
اس درمیان ایک عدد مشاعرہ بھی صورت پذیر ہوا۔ جس میں شعرائے ثلاثہ نے بترتیب اولیٰ گلے اور کان خراب کرنے کے فرائض سر کئے۔ (گلا اپنا اور کان دوسروں کے)۔
اس کے بعد مالک ڈھابہ کے ہاتھ پاؤں جوڑنے پر محفل برخواست کرنے کا فیصلہ ہوا۔
جاتے جاتے شعیب صفدر صاحب نے ہم پر ایک راز کا اظہار فرمایا:
مہدی! آپ کی اردو تو بہت مشکل ہے مجھے سمجھ نہیں آتی۔
عرض کی: ارے صاحب! آپ کو جو چیز مشکل لگ رہی ہے وہ اردو نہیں "فردو" ہے (فارسی + اردو)۔
محفلین نے خدا خدا کرکے ہمیں رخصت فرمایا تو رات کے ۸:۴۰ ہو چلے تھے۔ مزمل صاحب نے ہماری ہمراہی کرنے کی زحمت فرمائی اور اس ڈھنگ سے پہنچے ہم گھر کو۔