فاخر رضا
محفلین
موت فنا کا پیغام نہ ہومثلاً ۔۔۔ ؟
بیماری وبال جان اور نا پسندیدہ نہ ہو
زندگی خواہشات کی اسیر نہ ہو
موت فنا کا پیغام نہ ہومثلاً ۔۔۔ ؟
زندگی کو بقا والوں سے جوڑ نا موت کو فنا نہیں بننے دیتا بلکے موت کو بھی زندگی دے دیتا ہے۔موت فنا کا پیغام نہ ہو
بیماری وبال جان اور نا پسندیدہ نہ ہو
زندگی خواہشات کی اسیر نہ ہو
بھائی آج فلسفیانہ موڈ میں ہیںزندگی کو بقا والوں سے جوڑ نا موت کو فنا نہیں بننے دیتا بلکے موت کو بھی زندگی دے دیتا ہے۔
بیماری کو گناہوں کا کفارہ سمجھ لیں تو گوارا ہو جائے گی۔
زندگی کو ضرورت کے لیے ہے ۔۔ خواہشات کے لیے نہیں ۔۔۔یہ نکتہ سمجھنا تیسری صورتحال میں افاقہ دے گا۔۔
فلسفے کی باتیں مختلف زاویے رکھتی ہیں ایک فلسفیانہ سوچ دوسرے کی فلسفی سوچ کو قطع کر سکتی ہے جب کے میری بات میں فلسفہ نہیں حقیقت ہے ۔۔کیونکہ مآخذ authentic ہےبھائی آج فلسفیانہ موڈ میں ہیں
آپ کے بچے آپ جیسے ہیں؟اب ہر بات قبل از وقت نہیں بتائی جا سکتی۔ یہ قصہ ہماری غیر موجودگی میں ہی کھلے گا
عشبہ کچھ کچھ۔۔۔ محمد زین العابدین باتوں میں تو بالکل کاربن کاپی۔آپ کے بچے آپ جیسے ہیں؟
عشبہ کچھ کچھ۔۔۔ محمد زین العابدین باتوں میں تو بالکل کاربن کاپی۔
زین کو محاورات استعمال کرنے کا بڑا شوق ہے۔۔۔
میرے خیال سے کم تو نہیں ہاں مدھم ضرور ہو جاتا ہے ۔۔۔ ؟چیزیں عموما اپنی پیدائش کے وقت چھوٹی ہوتی ہیں پھر آہستہ آہستہ بڑہتی اور درجۂ کمال تک پہنچتی ہیں غم وہ احساس ہے جو اپنی ابتداء میں بہت بڑا ہوتا ہے پھر وقت کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے
ایسا ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تقریباً آٹھ دس دن پہلے ہمارے ساتھ بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ ہم اسکول میں تھے اور صبح صبح ہی لتا منگیشکر جی کا ایک نغمہ کہیں ہمارے ذہن سے چپک گیا۔ عموماً ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ ہم کمرا امتحان میں کھڑے تھے اور ایک طالبہ ہم سے کوئی بات کر رہی تھیں اور ہم ان کی بات بمشکل توجہ سے سن پا رہے تھے کہ ذہن میں وہی نغمہ گونج رہا تھا۔ ہم نے سوچا بھئی کیا مصیبت ہے!! البتہ ہم نے بار بار جھٹکنے کے بجائے کمپیوٹر لیب میں جا کر وہی نغمہ یو ٹیوب پہ نکالا اور سن لیا۔ اس کے بعد ہمیں پورا دن اس نغمے کا خیال نہ رہا۔پرسوں سے دماغ میں ایک گانا چل رہا تھا احمد رشدی اور مالا کا۔ چلو کبھی بندہ گنگنا لیتا ہے لیکن یہ کیا کہ دماغ میں سوتے جاگتے وہی چلتا رہے۔ تلاوت سے بھی فرق نہ پڑا تو آج آڈیو کے ساتھ ساتھ تلاوت کی۔
ماشاءاللہ افاقہ ہے۔
ایسا ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تقریباً آٹھ دس دن پہلے ہمارے ساتھ بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ ہم اسکول میں تھے اور صبح صبح ہی لتا منگیشکر جی کا ایک نغمہ کہیں ہمارے ذہن سے چپک گیا۔ عموماً ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ ہم کمرا امتحان میں کھڑے تھے اور ایک طالبہ ہم سے کوئی بات کر رہی تھیں اور ہم ان کی بات بمشکل توجہ سے سن پا رہے تھے کہ ذہن میں وہی نغمہ گونج رہا تھا۔ ہم نے سوچا بھئی کیا مصیبت ہے!! البتہ ہم نے بار بار جھٹکنے کے بجائے کمپیوٹر لیب میں جا کر وہی نغمہ یو ٹیوب پہ نکالا اور سن لیا۔ اس کے بعد ہمیں پورا دن اس نغمے کا خیال نہ رہا۔
واقعی ہر آدمی کا "علاج" مختلف ہوتا ہے۔نغمہ سُن کے ذہن میں آڈیو چلتی رہی تھی میرے۔ ہر بندے کے لئے علاج بھی وکھرا ہوتا ہے پیاری لڑکی!
میں پہلی بار یہ سمجھاکہ گانا لگا کر ساتھ ساتھ تلاوت کی۔۔۔ مگر اب سمجھ آیا کہ تلاوت کی آڈیو سنتے ہوئے تلاوت بھی کی ساتھ۔ اللہ میری کند ذہنی۔۔۔پرسوں سے دماغ میں ایک گانا چل رہا تھا احمد رشدی اور مالا کا۔ چلو کبھی بندہ گنگنا لیتا ہے لیکن یہ کیا کہ دماغ میں سوتے جاگتے وہی چلتا رہے۔ تلاوت سے بھی فرق نہ پڑا تو آج آڈیو کے ساتھ ساتھ تلاوت کی۔
ماشاءاللہ افاقہ ہے۔
سب کے رویے یا کسی ایک کے رویے کو؟ یا کسی ایک خاص رویے کو؟ یا کسی ایک صورتحال پر سب کی طرف سے متوقع رویے کو؟انسانی فطرت اور رویوں کے بھی ان گنت رنگ ہیں۔ جب آپ سمجھتے ہیں کہ آپ رویے سمجھنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں تو ایک نیا پہلو سامنے آ جاتا ہے۔ حیرانگی در حیرانگی۔
خوشی کے بارے میں کیا فرماتی ہیں آپ؟چیزیں عموما اپنی پیدائش کے وقت چھوٹی ہوتی ہیں پھر آہستہ آہستہ بڑہتی اور درجۂ کمال تک پہنچتی ہیں غم وہ احساس ہے جو اپنی ابتداء میں بہت بڑا ہوتا ہے پھر وقت کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے
دو غموں کے درمیانی وقفہ کو خوشی کہتے ہیں۔خوشی کے بارے میں کیا فرماتی ہیں آپ؟
میرا خیال ہے ہم اسے سب پر لاگو کر سکتے ہیں۔ کم از کم میرا مشاہدہ اور تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ اس میں خصوصی و عمومی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔سب کے رویے یا کسی ایک کے رویے کو؟ یا کسی ایک خاص رویے کو؟ یا کسی ایک صورتحال پر سب کی طرف سے متوقع رویے کو؟