نیرنگ خیال
لائبریرین
دفتر میں کام میں مصروف تھا کہ فون ماہی بے آب کی طرح تڑپنا شروع ہوگیا۔ دیکھا تو بھلکڑ صاحب سکرین پر چمک رہے تھے۔ رابطہ استوار ہونے پر حسب روایت سلام دعا کے بعد جناب نے حکم فرمایا کہ اگر اسلام آباد کے محفلین کے ساتھ افطاری کا پروگرام بنایا جائے تو کیسا رہے گا۔ ہم نے فورا سے پیشتر ہاں میں ہا ں ملائی۔ اور اک عدد مراسلہ بنام اسلام آبادی محفلین کھول لیا۔ احباب نے آنے کا دعوا دائر کیا۔ لیکن جن موصوف نے سب سے پہلے حامی بھری تھی۔ وہ بےوفا نکلے۔
موسم بہترین تھا۔ اور ہلکی ہلکی بارش پورا دن ہوتی رہی۔ میلوڈی فوڈ پارک ہی وہ مقام ٹھہرا جس پر اتفاق ہوا۔ اور شام ساڑھے پانچ کا وقت مقرر پایا۔ جب ہم گھر سے جانب منزل چلے تو راستے میں سر سید زبیر صاحب کھڑے نظر آئے۔ ہم نے کہا سر آئیں۔ آپ کو بھی محفلین سے ملوا لاتے ہیں۔ سر نے کہا یار دیکھ لو۔۔۔ بالکے لوگ ہیں۔۔ میں وہاں جا کر کیا کروں گا۔۔ لیکن تھوڑے سے پس و پیش کے بعد ہم نے سر کو بھی ہم رکاب کیا۔ اور معین مقام پر جا پہنچے۔ اب جو جا کر دیکھتے ہیں۔ تو الو بھی خاموش تھے۔ حیرانی ہوئی کہ چلو الو تو بولیں۔۔۔ لیکن نہ جی۔۔۔ مجال ہے جو کسی الو نے بھی بولنے کی جسارت کی ہو۔ ابھی میں اور سر اسی آٹھ و سات میں تھے۔ کہ اک لم ڈھینگ قسم کا بچہ آٹپکا۔ اور کہنے لگا۔ بھائی صاحب یہاں کچھ لوگوں نے آنا تھا۔ وہ کیا نام ہے ان کا۔۔۔ آج عید ملن ہے ناں۔۔۔ اوہ نہیں شاید پہلا روزہ۔۔۔ اففف اور پھر سر پر ہاتھ مار کر بولا ارے نہیں آج تو ستائیسویں کی رات ہے۔۔ہسپتال کدھر ہے۔۔۔۔!!! میں اور سر زبیر فورا سمجھ گئے کہ یہ ہو نہ ہو بھلکڑ ہے۔ جو گواچی ۔۔۔۔ وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ افففف میں بھی بھول گیا۔۔۔۔ چلو چھوڑو۔۔۔ ہم سارے خالی میزوں میں سے اک عدد خالی میز تاڑ کر بیٹھ گئے۔ لیکن بھئی یاد رہے۔۔۔ بیٹھے ہم میز کے ارد گرد کرسیوں پر تھے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ سمجھو۔۔۔۔ ہم میز پر بیٹھ گئے۔ ہاں۔۔۔۔!!!
اب انتظار شروع ہوا۔۔۔ چونکہ سب احباب کا تعلق برصغیر سے تھا۔ سو برصغیر میں تاخیر کی دیرینہ روایت کو دونوں امجدوں (امجد میانداد اور امجد علی راجا) نے برقرار رکھا۔ اور ہم نے شکر کیا۔ کہ کوئی تو ہے۔ وگرنہ آج ہم سے تو یہ روایت نہ نبھائی گئی تھی۔ اور ہم شرمندہ تھے کہ اسلاف کو اس روایت کی بابت کیا منہ دکھائیں گے۔ سید زبیر اور بھلکڑ نے تو شاید کوئی مناسب سا بہانہ بھی تراش لیا تھا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ کہ جیسے یہ دونوں سوچ میں ڈوبے تھے۔ غیر ممکن ہے کہ اسی بابت نہ سوچ رہے ہوں۔۔۔ چونکہ ہمارے سوچنے کی رفتار سست ہے تو ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے۔ کہ کیا بہانہ تراشا جائے گا اتنے میں @امجدمیانداد اور ان کے فرزند ثوبان تشریف لے آئے۔ ان کو دیکھ کر ہم تینوں احباب کو دلی خوشی ہوئی۔ ہم تینوں نے فردا فردا ان کو تاخیر سے آنے پر مباکباد دی۔ اور رسمی جملوں کے تبادلہ کے بعد کہا کہ شکر ہے اس دور نفسا نفسی میں ابھی چند لوگ زندہ ہیں۔ جو دیرینہ روایات کے امین ہیں۔ اس پر امجد بھائی نے کہا۔۔ ۔گستاخی تو مجھ سے ہوگئی ہے۔ کہ زیادہ تاخیر کارواج ہے۔ اور میں اس معیار تک نہ پہنچ سکا۔ خیر میرے ہم نام لاج رکھیں گے۔ اور امجد کے نام پر روایت شکن کا دھبا نہ لگنے دیں گے۔ اب ادھر ادھر کی باتیں شروع ہوئیں۔ اتنے میں امجد بھائی کے اک دوست تشریف لے آئے۔ ہم سب ان کو بہت خوشی سے ملے۔ اور وہ بھی شاید ہمیں خوشی ہی سے ملے۔ چونکہ ہمارے پاس کوئی میز چلانے والا نہ تھا۔ تو میز بان کی مسند پر امجد میانداد بھائی کو بٹھا دیا گیا۔ اس میزبانی کی مسند پر جلوہ فروز ہونے کی تقریب کے بعد سر زبیر نے اعلان کیا کہ حضرت امجد علی راجا اپنے گھر سے چل پڑے ہیں۔ اور بس کسی لمحے پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ ہم نے اندازہ لگانے کو پوچھا کہ کدھر سے آئیں گے ۔ تو اک دوست نے جواب سے سرفراز فرمایا کہ آئی-8 سے آنا ہے۔ اور بس دس نہیں تو پندرہ منٹ تک پہنچتے ہونگے۔ آئی-8 سے ہمیں بےساختہ آئی-ٹو-آئی یاد آگیا۔۔ ۔لیکن بعد میں پتا چلا یہ تو آیا –تو-آیا تھا۔ اور نہ آیا-تو-نہ آیا۔ ایسے میں امجد میانداد نے فاتحانہ اعلان کیا کہ جناب خرم شہزاد خرم صاحب تشریف لاچکے ہیں۔ اور ہمیں تلاشتے پھر رہے ہیں۔ اس کے بعد جتنی دیر میں خرم بھائی تشریف لائے۔ اتنی دیر میں تو آدمی پورے اسلام آباد کی تلاشی لے لی۔ لیکن ہم نے اس ڈر سے نہ پوچھا کہ کوئی ہو سکتا ہے جن کو تلاش کر رہے ہوں۔ وہ ہم نہ ہوں۔ آخر کو اک نوجوان شاعر کے راستے میں کئی مقام آہ و فغاں آتے ہیں۔ خرم بھائی سے بھی سب لوگ ہنسی خوشی ملے۔ میں حیران اس بات پر تھا کہ کسی نے بھی منہ نہ بنایا۔ آخر کیوں۔۔۔ کیوں اتنی خوش اخلاقی سب کے سر پر سوار تھی۔۔۔۔ ان کے بعد سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا گیا۔ جہاں آخری بار چھوڑا نہیں گیا تھا۔
امجد علی راجا بھائی نہ آئے۔۔۔۔ ہماری وہ حالت ہوگئی ۔۔۔ کہ اب کس کی بات کریں آخر ۔۔ ہم نے تو اپنی بات بھی کر لی۔۔۔ آخر ہم نے پوچھا کہ کیا حضرت پیدل آرہے ہیں۔ تو اس کے ساتھ ہی جناب نمودار ہوگئے۔ جیسے ہماری اسی بات کا انتظار کر رہے تھے۔ اور فرمانے لگے۔ نہیں میں نہیں گاڑی پیدل آرہی تھی۔ ہم سب نے امجد بھائی کو تاخیر کی روایت کے نئے معیار قائم کرنے پر مباکباد دی۔ بھلکڑ نے فرمایا کہ یہ جو نیا معیار آج راجا بھائی نے قائم کیا۔ اس سے ایک سو چھ سالہ پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ بلاشبہ راجا بھائی نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔
اس کے بعد امجد میانداد نے بحر کو اک بیکار اور فضول چیز قرار دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ جسے ددنوں شاعر حضرات خرم بھائی اور راجا بھائی نے اک بہت میٹھی مسکان کے ساتھ رد کر دیا۔ اور کہا
اک بار جو عادت پڑ جائے بحر کی۔۔۔ ۔
پھر تالاب کنارے وہ مزا نہیں رہتا۔۔۔
ہم سب نے اس خوبصورت فی البدیہہ رائے پر خوب داد دی۔ راجا بھائی اور خرم بھائی نے کہا کہ اک بار جو عادت پڑ جائے اور بحر خدانخواستہ سمجھ آجائے۔ کہ الفا ظ کیسے جوڑنے ہیں۔ تو بس پھر اس کے بعد سے جو آپ کی زندگی کے دو یا تین سال باقی بچتے ہیں۔ اس میں آپ کو محنت نہیں کرنی پڑتی۔ اشعار ڈھلے ڈھلائے اترتے ہیں۔ راجا بھائی نے مزید گفتگو فرماتے ہوئے عربی و عجمی و ہندی بحروں پر اس قدر گراں معلومات دیں کہ وہ ہم سب غیر شاعر حضرات پر خاطر خواہ گراں گزریں۔ خرم بھائی نے بیچ میں الفاظ کو گرانے اور اٹھانے پر روشنی ڈالی۔ کئی ایک الفاظ جو سماعتوں سے گرے تو پھر ذہن تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔
ابھی یہ بحری سفر جاری تھا کہ اللہ بھلا کرے مؤذن کا۔۔۔ جس نے ہم کو بھنور سے نکال کر ساحل پر لا پھینکا۔ جنابِ داغؔ کو بھلے ہی مؤذن سے ہزار اختلافات ہوں پر ہمیں تو اس وقت مؤذن کی یہ ادا بڑی بھا گئی۔۔۔۔ ایسے میں امجد میانداد کے دوست نے میری طرف دیکھتے ہوئے جو کہ اس ادبی گفتگو میں کبھی کسی کا منہ دیکھ رہا تھا تو کبھی کسی کا۔۔۔ آہستگی سے پوچھا۔۔۔ کیا یہ سب ایم-اے اردو ہیں۔۔۔ اس پر ہم نے اس کے خیالات کو مثبت رخ دیتے ہوئے کہا کہ جناب اردو تو ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ دیکھ نہیں رہے کیا لونڈی والا سلوک ہورہا ہے۔۔۔ اس نے سر تو ہلا دیا اب پتا نہیں وہاں پہنچا جہاں میں پہنچانا چاہ رہا تھا یا پھسل گیا۔ افطار کے بعد راجا بھائی نے ہمارے ساتھ والی کرسی کو رونق بخشی۔ اور سگریٹ سلگا لی۔ ادھر ہمارے بالکل دائیں جانب سید زبیر سر نے بھی کسی ایک طرف جھکاؤ سے بچانے کے لیے سگریٹ سلگا لی۔ ہم نے بھلکڑ کو دیکھا جو بھولے پن سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ اور پوچھا نوجوان کیا مسئلہ ہے۔ تو کہنے لگا۔۔۔ ایسی محفلوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اک آدھی بات بھی سمجھ آجائے تو بندہ پار ہوجاتا ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کو ایک سے زیادہ باتیں سمجھ آگئی ہیں۔
اب گفتگو کا رخ غیر سیاسی ہوگیا۔ اور راجا بھائی نے اپنے اشعار کی پرچی نکال لی۔ اور کہا کہ میاں آدھا دیوان مکمل ہوگیا ہے۔ بس ذرا سن لو۔۔۔ ہم سب نے اجتماعی درخواست محفل کے بڑے استاد امجد میانداد سے کی کہ اپنی مدھر اور خوبصورت آواز میں یہ اشعار گا کر سنائیں۔ لیکن میانداد بھائی راجا بھائی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر پڑھنے سے کنی کترا گئے۔شادی شہداؤں کا موضوع بھی زیربحث رہا۔ اس پر راجا بھائی نے تکیے میں منہ دے کر رونے کے طریقوں پر روشنی ڈالی۔ سر زبیر نے اک مصیبت کا علاج دوسری مصیبت تجویز کیا۔ جس پر احباب کا غورو فکر دیدنی تھا۔
کچھ گفتگو خاص رموز میں بھی ہوئی۔ جو کہ عموما چند دوستوں کے باہم ملنے پر ہوتی ہے۔ بھلکڑ سمجھ نہ پائے تو ان کو دو سالہ ہاسٹل کورس کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ امجد میانداد اور خرم بھائی نے کچھ شارٹ کورس بھی تجویز کیے۔۔۔ امید ہے اگلی ملاقات تک ان کو کافی افاقہ ہوگا۔ کیوں بھلکڑ۔۔۔۔!!!
اس کے بعد کھانے اور چائے کا دور چلا۔۔ اس دوران بھی چھیڑ چھاڑ اور جملہ بازی کا سلسلہ چلتا رہا۔ رات کافی بھیگ چلی تھی۔ تو سب احباب نے رخصت چاہی۔ اور اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔۔۔اور ہم نے بھی۔۔۔ یوں ہماری یادوں کے چمن میں اک خوبصورت شام کا اضافہ ہوا۔
موسم بہترین تھا۔ اور ہلکی ہلکی بارش پورا دن ہوتی رہی۔ میلوڈی فوڈ پارک ہی وہ مقام ٹھہرا جس پر اتفاق ہوا۔ اور شام ساڑھے پانچ کا وقت مقرر پایا۔ جب ہم گھر سے جانب منزل چلے تو راستے میں سر سید زبیر صاحب کھڑے نظر آئے۔ ہم نے کہا سر آئیں۔ آپ کو بھی محفلین سے ملوا لاتے ہیں۔ سر نے کہا یار دیکھ لو۔۔۔ بالکے لوگ ہیں۔۔ میں وہاں جا کر کیا کروں گا۔۔ لیکن تھوڑے سے پس و پیش کے بعد ہم نے سر کو بھی ہم رکاب کیا۔ اور معین مقام پر جا پہنچے۔ اب جو جا کر دیکھتے ہیں۔ تو الو بھی خاموش تھے۔ حیرانی ہوئی کہ چلو الو تو بولیں۔۔۔ لیکن نہ جی۔۔۔ مجال ہے جو کسی الو نے بھی بولنے کی جسارت کی ہو۔ ابھی میں اور سر اسی آٹھ و سات میں تھے۔ کہ اک لم ڈھینگ قسم کا بچہ آٹپکا۔ اور کہنے لگا۔ بھائی صاحب یہاں کچھ لوگوں نے آنا تھا۔ وہ کیا نام ہے ان کا۔۔۔ آج عید ملن ہے ناں۔۔۔ اوہ نہیں شاید پہلا روزہ۔۔۔ اففف اور پھر سر پر ہاتھ مار کر بولا ارے نہیں آج تو ستائیسویں کی رات ہے۔۔ہسپتال کدھر ہے۔۔۔۔!!! میں اور سر زبیر فورا سمجھ گئے کہ یہ ہو نہ ہو بھلکڑ ہے۔ جو گواچی ۔۔۔۔ وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ افففف میں بھی بھول گیا۔۔۔۔ چلو چھوڑو۔۔۔ ہم سارے خالی میزوں میں سے اک عدد خالی میز تاڑ کر بیٹھ گئے۔ لیکن بھئی یاد رہے۔۔۔ بیٹھے ہم میز کے ارد گرد کرسیوں پر تھے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ سمجھو۔۔۔۔ ہم میز پر بیٹھ گئے۔ ہاں۔۔۔۔!!!
اب انتظار شروع ہوا۔۔۔ چونکہ سب احباب کا تعلق برصغیر سے تھا۔ سو برصغیر میں تاخیر کی دیرینہ روایت کو دونوں امجدوں (امجد میانداد اور امجد علی راجا) نے برقرار رکھا۔ اور ہم نے شکر کیا۔ کہ کوئی تو ہے۔ وگرنہ آج ہم سے تو یہ روایت نہ نبھائی گئی تھی۔ اور ہم شرمندہ تھے کہ اسلاف کو اس روایت کی بابت کیا منہ دکھائیں گے۔ سید زبیر اور بھلکڑ نے تو شاید کوئی مناسب سا بہانہ بھی تراش لیا تھا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ کہ جیسے یہ دونوں سوچ میں ڈوبے تھے۔ غیر ممکن ہے کہ اسی بابت نہ سوچ رہے ہوں۔۔۔ چونکہ ہمارے سوچنے کی رفتار سست ہے تو ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے۔ کہ کیا بہانہ تراشا جائے گا اتنے میں @امجدمیانداد اور ان کے فرزند ثوبان تشریف لے آئے۔ ان کو دیکھ کر ہم تینوں احباب کو دلی خوشی ہوئی۔ ہم تینوں نے فردا فردا ان کو تاخیر سے آنے پر مباکباد دی۔ اور رسمی جملوں کے تبادلہ کے بعد کہا کہ شکر ہے اس دور نفسا نفسی میں ابھی چند لوگ زندہ ہیں۔ جو دیرینہ روایات کے امین ہیں۔ اس پر امجد بھائی نے کہا۔۔ ۔گستاخی تو مجھ سے ہوگئی ہے۔ کہ زیادہ تاخیر کارواج ہے۔ اور میں اس معیار تک نہ پہنچ سکا۔ خیر میرے ہم نام لاج رکھیں گے۔ اور امجد کے نام پر روایت شکن کا دھبا نہ لگنے دیں گے۔ اب ادھر ادھر کی باتیں شروع ہوئیں۔ اتنے میں امجد بھائی کے اک دوست تشریف لے آئے۔ ہم سب ان کو بہت خوشی سے ملے۔ اور وہ بھی شاید ہمیں خوشی ہی سے ملے۔ چونکہ ہمارے پاس کوئی میز چلانے والا نہ تھا۔ تو میز بان کی مسند پر امجد میانداد بھائی کو بٹھا دیا گیا۔ اس میزبانی کی مسند پر جلوہ فروز ہونے کی تقریب کے بعد سر زبیر نے اعلان کیا کہ حضرت امجد علی راجا اپنے گھر سے چل پڑے ہیں۔ اور بس کسی لمحے پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ ہم نے اندازہ لگانے کو پوچھا کہ کدھر سے آئیں گے ۔ تو اک دوست نے جواب سے سرفراز فرمایا کہ آئی-8 سے آنا ہے۔ اور بس دس نہیں تو پندرہ منٹ تک پہنچتے ہونگے۔ آئی-8 سے ہمیں بےساختہ آئی-ٹو-آئی یاد آگیا۔۔ ۔لیکن بعد میں پتا چلا یہ تو آیا –تو-آیا تھا۔ اور نہ آیا-تو-نہ آیا۔ ایسے میں امجد میانداد نے فاتحانہ اعلان کیا کہ جناب خرم شہزاد خرم صاحب تشریف لاچکے ہیں۔ اور ہمیں تلاشتے پھر رہے ہیں۔ اس کے بعد جتنی دیر میں خرم بھائی تشریف لائے۔ اتنی دیر میں تو آدمی پورے اسلام آباد کی تلاشی لے لی۔ لیکن ہم نے اس ڈر سے نہ پوچھا کہ کوئی ہو سکتا ہے جن کو تلاش کر رہے ہوں۔ وہ ہم نہ ہوں۔ آخر کو اک نوجوان شاعر کے راستے میں کئی مقام آہ و فغاں آتے ہیں۔ خرم بھائی سے بھی سب لوگ ہنسی خوشی ملے۔ میں حیران اس بات پر تھا کہ کسی نے بھی منہ نہ بنایا۔ آخر کیوں۔۔۔ کیوں اتنی خوش اخلاقی سب کے سر پر سوار تھی۔۔۔۔ ان کے بعد سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا گیا۔ جہاں آخری بار چھوڑا نہیں گیا تھا۔
امجد علی راجا بھائی نہ آئے۔۔۔۔ ہماری وہ حالت ہوگئی ۔۔۔ کہ اب کس کی بات کریں آخر ۔۔ ہم نے تو اپنی بات بھی کر لی۔۔۔ آخر ہم نے پوچھا کہ کیا حضرت پیدل آرہے ہیں۔ تو اس کے ساتھ ہی جناب نمودار ہوگئے۔ جیسے ہماری اسی بات کا انتظار کر رہے تھے۔ اور فرمانے لگے۔ نہیں میں نہیں گاڑی پیدل آرہی تھی۔ ہم سب نے امجد بھائی کو تاخیر کی روایت کے نئے معیار قائم کرنے پر مباکباد دی۔ بھلکڑ نے فرمایا کہ یہ جو نیا معیار آج راجا بھائی نے قائم کیا۔ اس سے ایک سو چھ سالہ پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ بلاشبہ راجا بھائی نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔
اس کے بعد امجد میانداد نے بحر کو اک بیکار اور فضول چیز قرار دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ جسے ددنوں شاعر حضرات خرم بھائی اور راجا بھائی نے اک بہت میٹھی مسکان کے ساتھ رد کر دیا۔ اور کہا
اک بار جو عادت پڑ جائے بحر کی۔۔۔ ۔
پھر تالاب کنارے وہ مزا نہیں رہتا۔۔۔
ہم سب نے اس خوبصورت فی البدیہہ رائے پر خوب داد دی۔ راجا بھائی اور خرم بھائی نے کہا کہ اک بار جو عادت پڑ جائے اور بحر خدانخواستہ سمجھ آجائے۔ کہ الفا ظ کیسے جوڑنے ہیں۔ تو بس پھر اس کے بعد سے جو آپ کی زندگی کے دو یا تین سال باقی بچتے ہیں۔ اس میں آپ کو محنت نہیں کرنی پڑتی۔ اشعار ڈھلے ڈھلائے اترتے ہیں۔ راجا بھائی نے مزید گفتگو فرماتے ہوئے عربی و عجمی و ہندی بحروں پر اس قدر گراں معلومات دیں کہ وہ ہم سب غیر شاعر حضرات پر خاطر خواہ گراں گزریں۔ خرم بھائی نے بیچ میں الفاظ کو گرانے اور اٹھانے پر روشنی ڈالی۔ کئی ایک الفاظ جو سماعتوں سے گرے تو پھر ذہن تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔
ابھی یہ بحری سفر جاری تھا کہ اللہ بھلا کرے مؤذن کا۔۔۔ جس نے ہم کو بھنور سے نکال کر ساحل پر لا پھینکا۔ جنابِ داغؔ کو بھلے ہی مؤذن سے ہزار اختلافات ہوں پر ہمیں تو اس وقت مؤذن کی یہ ادا بڑی بھا گئی۔۔۔۔ ایسے میں امجد میانداد کے دوست نے میری طرف دیکھتے ہوئے جو کہ اس ادبی گفتگو میں کبھی کسی کا منہ دیکھ رہا تھا تو کبھی کسی کا۔۔۔ آہستگی سے پوچھا۔۔۔ کیا یہ سب ایم-اے اردو ہیں۔۔۔ اس پر ہم نے اس کے خیالات کو مثبت رخ دیتے ہوئے کہا کہ جناب اردو تو ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ دیکھ نہیں رہے کیا لونڈی والا سلوک ہورہا ہے۔۔۔ اس نے سر تو ہلا دیا اب پتا نہیں وہاں پہنچا جہاں میں پہنچانا چاہ رہا تھا یا پھسل گیا۔ افطار کے بعد راجا بھائی نے ہمارے ساتھ والی کرسی کو رونق بخشی۔ اور سگریٹ سلگا لی۔ ادھر ہمارے بالکل دائیں جانب سید زبیر سر نے بھی کسی ایک طرف جھکاؤ سے بچانے کے لیے سگریٹ سلگا لی۔ ہم نے بھلکڑ کو دیکھا جو بھولے پن سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ اور پوچھا نوجوان کیا مسئلہ ہے۔ تو کہنے لگا۔۔۔ ایسی محفلوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اک آدھی بات بھی سمجھ آجائے تو بندہ پار ہوجاتا ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کو ایک سے زیادہ باتیں سمجھ آگئی ہیں۔
اب گفتگو کا رخ غیر سیاسی ہوگیا۔ اور راجا بھائی نے اپنے اشعار کی پرچی نکال لی۔ اور کہا کہ میاں آدھا دیوان مکمل ہوگیا ہے۔ بس ذرا سن لو۔۔۔ ہم سب نے اجتماعی درخواست محفل کے بڑے استاد امجد میانداد سے کی کہ اپنی مدھر اور خوبصورت آواز میں یہ اشعار گا کر سنائیں۔ لیکن میانداد بھائی راجا بھائی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر پڑھنے سے کنی کترا گئے۔شادی شہداؤں کا موضوع بھی زیربحث رہا۔ اس پر راجا بھائی نے تکیے میں منہ دے کر رونے کے طریقوں پر روشنی ڈالی۔ سر زبیر نے اک مصیبت کا علاج دوسری مصیبت تجویز کیا۔ جس پر احباب کا غورو فکر دیدنی تھا۔
کچھ گفتگو خاص رموز میں بھی ہوئی۔ جو کہ عموما چند دوستوں کے باہم ملنے پر ہوتی ہے۔ بھلکڑ سمجھ نہ پائے تو ان کو دو سالہ ہاسٹل کورس کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ امجد میانداد اور خرم بھائی نے کچھ شارٹ کورس بھی تجویز کیے۔۔۔ امید ہے اگلی ملاقات تک ان کو کافی افاقہ ہوگا۔ کیوں بھلکڑ۔۔۔۔!!!
اس کے بعد کھانے اور چائے کا دور چلا۔۔ اس دوران بھی چھیڑ چھاڑ اور جملہ بازی کا سلسلہ چلتا رہا۔ رات کافی بھیگ چلی تھی۔ تو سب احباب نے رخصت چاہی۔ اور اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔۔۔اور ہم نے بھی۔۔۔ یوں ہماری یادوں کے چمن میں اک خوبصورت شام کا اضافہ ہوا۔