یہ کہنا تو غلط نا ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اس کا پیمانہ معین نہیں ہے۔ لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی سست ہاتھی کو زکام ہو گیا ہے۔ سال کے بیشتر حصے میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن جب چھٹے ہے تو دو چار چھینٹے پڑ جاتے ہیں تو چٹیل میدانوں میں بیر بہوٹیاں اور بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنےکے لئے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشہ رش لیتا ہے ۔ عروص البلاد کے فن تعمیر میں ہوا کا بڑا حصہ ہے۔ یہاں ہر مکان قبلہ رو ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مغرب سے تیز ہوائیں چلتی ہیں جو ٹھنڈی ٹھنڈی ریت برساتی ہیں۔منہ پر باتھ پھیرو تو لگتا ہے کہ گویا ابھی ابھی تمیم کیا ہے ۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بجری کے ٹھیکیدار رات کو اپنے خالی ٹرک "درنائے ملیر" میں ہوا کے رخ پر کھڑے کر دیتے ہیں، صبح تک وہ خود بخود بھر جاتے ہیں، خالی کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے۔ (مصر اگر تحفہ نیل ہے تو کراچی تحفہ ملیر!) بعض اوقات جب موسم سہانا ہوتا ہے تو پچھوا سارا مزا کرکرا کر دیتی ہے۔ اکثر یہ ہوتے ہے کہ اچھے خاصے صحن میں بیٹھے تاش کھیل رہے ہیں کہ یکایک "چلی سمت مغرب" سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا" غالبا یہ ساحلی آب و ہوا کا اثر ہے کہ بدلتے ہوئے موسموں کے اس گنجان کاروباری شہر میں مچلھی اور مہمان پہلے ہی دن بدبو دیتے ہیں۔