ابوشامل نے کہا:
وعلیکم السلام مہوش صاحبہ! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ نہ صرف تمام باتوں کو غور سے پڑھتی ہے بلکہ ان کے حوالے سے تحقیق کے بعد گفتگو کرتی ہیں۔ یہ رویہ چونکہ آج کل کے دور میں ناپید ہوتا جارہا ہے اس لیے یہ قابل ستائش ہے۔ بغیر نظریے کے جانوروں کی طرح زندگی گذارنے سے بدرجہا بہتر ہے کہ آدمی نظریات اور اصولوں کے ساتھ زندگی گذارے۔ ہمارا اختلاف صرف نظریاتی یا معاملات کو دوسری نظر سے دیکھنے کا ہے، کسی کو نیچا دکھانا یا "شکست" دینا ہرگز ہمارا مقصد نہیں بلکہ "اختلاف امت کے لیے رحمت ہے (حدیث )" کے مصداق شاید ہم کسی اچھے نتیجے پر پہنچ جائیں۔
خیر آپ کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ آپ جامعہ حفصہ کے معاملے کو شیعہ سنی تنازع کا حصہ قرار دینے پر مُصر ہيں حالانکہ اصل بات یہ نہیں۔ گذشتہ دنوں جیو نیوز پر ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام "میرے مطابق" دیکھنے کا اتفاق ہوا جو شاید آپ نے بھی دیکھا ہو۔ اگر نہیں دیکھا تو یو ٹیوب وغیرہ پر شاید آگیا ہو وہاں دیکھ لیں اس سے جامعہ حفصہ والوں کا موقف کھل کر سامنے آیا ہے کیونکہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس میں غازی عبدالرشید کے علاوہ طالبات سے بھی گفتگو کی ہے۔ اس میں کہیں بھی میزبان کی جانب سے یا مہمانوں کی جانب سے شیعہ سنی معاملے کی گفتگو سامنے نہیں آئی حتی کہ شاہد مسعود نے کئی تلخ سوالات کے باوجود اس حوالے سے ان سے ایک سوال بھی نہیں کیا۔ بہرحال کیونکہ آپ دونوں نقطۂ نظر دیکھنے کا حامی ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی وہ والا پروگرام دیکھیں۔
معذرت کے ساتھ بی بی سی کے حوالے کے بارے میں بات پر ناراض نہ ہوں، میں ایک صحافی ہوں اس لیے سمجھتا ہوں کہ الفاظ کا ہیر پھیر کیا ہوتا ہے؟ آپ کے خیال میں "انہوں نے کہا" اور "ان کا کہنا ہے" میں کیا فرق ہے"؟ شاید ایک عام قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہی نہ ہو لیکن ایک پیشہ ور کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ دونوں الفاظ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بالکل اسی طرح یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہونے والے واقعات سے نظریں چراکر مسلم ممالک ہونے والے اپنے مطلب کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بی بی سی کا مقصد اولین رہا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل ہو، توہین رسالت کا قانون، حدود آرڈیننس، مدارس، ملا اور اس سے ملتے جلتے دیگر واقعات پر خبریں تو پاکستان کے میڈیا سے قبل بی بی سی پر آجاتی ہیں، کیا پھُرتی ہے!!۔ وسعت اللہ خان نے اپنے حالیہ کالم میں وہی بات کی ہے جو چند افراد یہاں کررہے ہیں کہ اہم واقعے کو چھپانے یا ایک نیا تاثر قائم کرنے کے لیے جامعہ حفصہ کے معاملے کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔ انہیں تو شاید اس لیے رکھا گیا ہے کہ بی بی سی کی نام نہاد "غیرجانبداری" کا بھرم قائم رہے۔
مذکورہ گھرانے کی "غربت و افلاس" کا احوال تو شاید آپ نے اظہر صاحب سے سن لیا ہے۔ اس لیے اس بارے میں مزید نہیں کہنا چاہتا۔
آپ نے بدکاری کے اڈوں کے خاتمے کو حکومت کا حق قرار دیا ہے حالانکہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا فرض ہے کہ برائی کو روکیں چاہیں کسی بھی طریقے سے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت تو مادر پدر آزاد اور فحاشی کے کلچر کو پروان چڑھا رہی ہے اور میڈیا پر "کوٹھے"، "طوائف" اور لڑکے لڑکیوں کی دوستی کو دکھانا بچوں کا کھیل بن گیا ہے۔ اگر یقین نہیں تو جیو، ہم، آج، ٹی وی ون، اے آر وائی اور دیگر چینل دیکھ لیں۔ یہاں تو حکومت خود چاہتی ہے کہ گلی گلی قحبہ خانے اور شراب خانے کھل جائیں۔ ایک ایسے ملک میں جس کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ درج ہے کیا وہاں یہ سب زیب دیتا ہے؟۔ بھئی یہاں ایک وقت میں ایک چیز چل سکتی ہے یا اسلام یا کفر، اگر کفر اختیار کرنا ہے تو اسلام سے پیچھا چھڑالیں اور واضح اعلان کردیں کہ پاکستان "اسلامی جمہوریہ پاکستان" نہیں لیکن اس دو رنگی کا کیا فائدہ کہ آپ نام تو اسلام کا لیں اور کام تمام اس کے خلاف کریں۔
آپ بتائیں گی مجھے کہ حکومت نے کتنے اڈے بند کیے؟ شراب، کباب، شباب، جوا یہ سب پولیس کی زیر سرپرستی ہورہا ہے تو کیا ہم اس وقت کا انتظار کریں جب یہ غلاظتیں ہمارے گھر تک میں داخل ہوجائیں، آپ خود سوچ کر بتائیں (معذرت کے ساتھ) کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ برائیاں آپ کے اپنے گھر میں عام ہوں، اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو میں اس بحث میں مزید حصہ نہیں لے سکتا اگر نہیں تو اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔
دوسری بات آپ کو یہ غلط فہمی کب سے ہو گئی کہ پاکستان میں مندر اور گرجے گرائے جارہے ہیں، یہاں کراچی میں میرے گھر کے سامنے مندر ہے، حالانکہ اس کے قریب کوئی بڑی ہندو آبادی بھی نہیں اور یہ پاکستان کے قیام سے قبل سے قائم ہے، یقین کریں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کسی نے اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا، حالانکہ وہ مین اسٹاپ پر واقع ہے اور وہیں پر بابری مسجد کی شہادت کے خلاف مظاہرہ بھی ہوا تھا۔
میں بقول آپ کے "فتنے" کو چھپانے کے لیے حقیقی فتنے کی آڑ نہیں لے رہا بلکہ وہ حقیقت آپ کو دکھا رہا ہوں جس سے آپ نظریں چرا رہی ہیں بلکہ شاید اس کو تسلیم نہیں کررہیں۔ امریکی اقدامات کو صرف قابل مذمت کہہ دینے سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا، یہ "مذمت" کا لفظ تو اپنی اہمیت ہی کھو گیا ہے، اس مذمت کے لفظ کی اہمیت ہی کیا ہے اب؟ کہ کسی بھی واقعے پر کوئی بھی شخص گھر بیٹھے یہ بیان داغ دے کہ میں اس کی مذمت کرتا ہوں اس سے واقعے کے پس پردہ محرکات کا کیا بگڑے گا؟ کچھ بھی نہیں۔
میرے لیے اور آپ کے لیے گھر بیٹھے کہہ دینا آسان ہے لیکن حالات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل۔ ہم اور آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ عراق میں ایک عام آدمی کی کیا صورتحال ہے؟ وہ کس طرح زندگی گذار رہا ہے؟ ایک شخص جس کے سامنے اس کے باپ اور بھائی کو قتل کردیا جائے، بہنوں اور ماؤں کی عزت لوٹی جائے اور گھر کو تباہ کردیا جائے، وہ کیا کرسکتا ہے؟ وہ آپ فلسطین اور عراق میں دیکھ رہی ہیں کہ کس طرح نوجوان اپنی سب سے پیاری چیز "زندگی" کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کررہے۔ ہم اور آپ شاید ان کی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے بلکہ اگر ہم ان کی جگہ پر ہوتے تو شاید ہم بھی یہی کرتے (شاید!!)
آپ جتنا دوسرے "فتنے" (بقول آپ کے) کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں اتنا اگر آپ بڑے فتنے (اسلام اور مسلمان دشمنی) کے بارے میں کہہ دیتیں تو میں تسلیم کرتا کہ آپ دونوں کو ایک نظر سے دیکھ رہی ہيں لیکن اس دھاگے میں آپ کے انداز سے واضح جانبداری جھلک رہی ہے۔
اگر کوئی بات بری لگی ہو تو ایک بار پھر معذرت!!
وعليکم السلام ابو شامل صاحب،
ہم يہاں اپنے خيالات کا تبادلہ کر رہے ہيں لہذا ميں آپکي کسي بات کا برا نہيں مناؤں گي اس ليے آپکو کسي بھي قسم کي معذرت کي ضرورت نہيں اور آپ بے فکر ہو کر آزادي سے اپنے خيالات پيش فرمائيے
يقيني طور پر ميرے اور آپکے سوچنے کا ڈھنگ مختلف ہے اور ہم مختلف نتائج پر پہنچتے ہيں
مثلا آپکے ليے يہ کافي ہے کہ ڈاکٹر صاحب ٹي وي پر "شيعہ کافر" کے متعلق سوال نہ کريں اور جواب ميں جامعہ کے ليڈر بھي ٹي وي پر يہ نعرہ نہيں دھرائيں
آپکے نزديک شايد اس کے بعد ان کے تمام گناھان مٹ جائيں، مگر ميرے نزديک يہ اس چيز کي کوئي دليل نہيں کيونکہ ٹي وي پر کئي قسم کي پابندياں ہوتي ہيں لہذا اس سوال کا خالي نہ اٹھنا يقينا جامعہ کے اس سلسلے ميں تمام افعال سے بري نہيں کر سکتا
اور مجھے يقينا اختلاف ہو گا کہ ميں "شيعہ کافر" کے ان نعروں پر جامعہ کے خلاف احتجاج کروں تو عصبيت پسند کہلاؤں، مگر جامعہ کے ہر فعل جيسے "شيعہ کافر" کے نعروں کے باوجود، اور ان خواتين کے بدلے مجاہدين کي رہائي کے مطالبات کے باوجود ، جامعہ ہر قسم کے عصبي اعتراضات سے بلند رہے اور صرف اس بات کے اسکے تمام گناہ معاف ہو جائيں کہ اس کے پرنسپل نے ٹي وي پر آکر شيعہ کافر نہيں کہا
\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
اسي طرح مندروں کے گرنے کے متعلق بھي آپکي دليل کم از کم ميں تو قبول نہيں کر سکي
اگر کراچي ميں آپکے گھر کے سامنے والا مندر سلامت رہا تو کيا يہ کافي ہے کہ باقي ملک ميں گرنے والے گرجوں اور مندروں کا انکار کر ديا جائے؟
يہ ايسا ہے جيسا کوئي ہندو بابري مسجد کي شہادت کا انکار اس سبب کر دے کہ اُس نے دہلي ميں جامع مسجد کا دورہ کيا تھا اور وہ ابھي تک وہاں صحيح سلامت کھڑي ہے
اصل ميں يہي طرز عمل طالبان کا تھا جب انہوں نے بدھا کے مجسمے گرائے تھے اور کہا تھا کہ دوسري عبادت گاہيں تو سلامت ہيں
\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
عراق کي صورتحال سے بھي ميں آپکي رائے سے متفق نہيں کيونکہ آپ اس چيز کا دفاع کر رہے ہيں کہ اگر امريکہ نے آپ سے زيادتي کي ہے تو آپ جا کر اپنے ديگر نہتے مسلمانوں پر بم و بارود کي بارش کر ديں
يعني يہ منطق عجيب ہے کہ امريکہ جہاں بھي مسلم ملک ميں حملہ کرے، وہاں کے مسلم امريکہ کے ساتھ ايک دوسرے کو بھي قتل کرتے پھريں
اگر آپ ميں دم اور ہمت ہے تو کھل کر امريکہ کے خلاف جہاد فرمائيے، اور امريکہ کي شہري آبادي کو نشانہ بنانے کي اجازت ديتے ہيں، تو امريکہ بہادر کو بھي اجازت ديں کہ وہ آپکي شہري آبادي کو نشانہ بنائے
بہرحال آپ اجازت ديں يا نہ ديں، فلسطين ميں اسرائيل نے مسلم خود کش حملوں کو جواز بناتے ہوئے فلسطين کي شہري آبادي پر حملے کرنے کا حق/بہانہ حاصل کر ليا ہے
اور اس کا نتيجہ کيا نکلا؟
اس کا نتيجہ يہ نکلا کہ بہت جلد حماس کے خود کش حملوں کے يہ وسائل دم توڑنے لگے اور اب عرصہ ہو گيا کہ وہ اس قابل ہي نہيں رہے کہ کوئي ايسا حملہ کر سکيں
دوسرا نتيجہ يہ نکلا ہے کہ اسرائيل کي اس انتہا پسند حکومت کو مقبوليت حاصل ہوئي اور لوگ سمجھنے لگے کہ واقعي اس انتہا پسند حکومت کو يہ حق دينا ضروري ہو گيا ہے کہ وہ مسلم شہري آبادي پر کھل کر ظلم و بربريت جاري رکھ سکے
چنانچہ، اس مرحلے پر (جب تک ہم لوگ اسلحہ کے حوالے سے کمزور ہيں) اسکے سوا کوئي چارہ نہيں کہ صبر کيا جائے اور اپنے مطالبات کے ليے خود کش حملوں کي بجائے پر امن طريقے سے عالمي رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملايا جائے
يہ مجھ ناچيز کا عالم اسلام کے ليے مختصر سا نظريہ ہے اور آپکو پورا حق حاصل ہے کہ مجھے سے اختلاف فرمائيں
والسلام