گزشتہ دنوں 8 جون کو شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے محراب پور سے چند کلو میٹر آگے ایک بڑے حادثے سے تو بال بال بچ گئی مگر کچھ وقت کے لیے ویرانے میں خراب ہو گئی۔ اب سخت گرمی میں مسافروں سے بھری یہ ریل گاڑی دو بڑے سٹیشنوں کے درمیان ایک ویران جگہ خراب کھڑی تھی۔ حادثے سے خائف مسافر، گرمی میں روتے بچے، بے حال خواتین، اور اس پر مزید یہ کہ عملے کے بقول امدادی کارروائیوں میں چھ گھنٹے کا انتظار۔ یعنی مکمل بےبسی کے عالم میں سب شدید پریشان تھے۔
مگر اچانک ایک عجب تماشہ شروع ہو گیا۔
دور کسی ٹیلے سے ریل گاڑی خراب دیکھ کر ایک دیہات کے باسی قطار اندر قطار ریل کی طرف آنا شروع ہو گئے۔ کسی کے ہاتھ میں پانی کا برتن، کسی کے ہاتھ میں گھڑا، کوئی جگ اٹھائے ہوئے اور کوئی دودھ کا برتن۔ ایک بزرگ اپنی پگڑی میں برف اٹھائے ہوئے تو کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ مسافر اسے خدمت کا موقع دیں۔ کچھ ہی لمحے بعد ایک ٹوٹے پھوٹے رکشہ پر چنے پلاؤ کی بھری ہوئی دیگ بھی لا دی گئی۔ ان غریب لوگوں کے پاس قیمتی برتن تو نہ تھے، سو وہ لوگ چاول کھلانے کے لیے مٹی کی بنی ہوئی پلیٹیں لے آئے۔ یوں ان سب نے یہ تمام چیزیں بانٹنا شروع کر دیں۔ تمام مرد مسافر ریل گاڑی سے اتر آئے اور خواتین مسافروں کو ان کی نشستوں پر ہی کھانا پانی دیا گیا۔
نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ وہ جس کی مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے، کس ذات، کس برادری، کس مذہب یا کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے یہ فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے اور کس نے بلائے یا بھیجے ہیں؟
بس انسانیت، پاکستانیت اور احساس کا ایک ایسا رشتہ تھا جس کو سندھ، محراب پور کے قریب گوٹھ "نوّں پوترا" کے یہ غریب مسکین لوگ ان مسافروں کے ساتھ نبھا رہے تھے۔
شہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے!
منقول