(دوبارہ)
دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے غالب
دل رُک رُک کر* بند ہوگیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند ہی آتی نہیں
سونا سَوگند ہوگیا ہے غالب
-----------------------------------------------------------------------
* : اس رُباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے ۔ یہ بظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا تھا ، اُس کے بعد مختلف حضرات اس پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انھوں نے
رُک رُک کر کے بجائے صرف
رُک کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ اس اصلاح سے رباعی کی جان بھی نکل گئی ہے ۔
دل رُک کر بند ہوگیا تو ایسا ہی مُہمل ہے جیسا
دل رُک کر رُک گیا یا دل بند ہو کر بند ہوگیا ۔ غالب نے
دل رک رک کر کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی طرف بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخرِ کار حرکتِ قلب کے بند ہوجانے کی تمہید بنا تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعا بے کیف رہ جاتا ہے ۔ عروض خواہ کچھ کہے
رُک کر کو
رُ ک رُک کر کی جگہ نہیں دی جاسکتی ۔