رچرڈ باؤچر کو ہلال قائد اعظم کا اعزاز عطا کردیا

جوش

محفلین
رچرڈ باؤچر کو ہلال قائد اعظم کا اعزاز عطا کردیا


اسلام آباد ۔ صدر آصف علی زرادری نے امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر کو ہلال قائد اعظم کا اعزاز دیا ہے ۔ یہ اعزاز ایوان صدر میں منعقد کی گئی مختصر تقریب میں دیا گیا ۔ رچرڈ باؤچر کو یہ اعزاز پاکستان کیلئے ان کی خدمات کے اعزاز میں دیاگیا ہے ۔ اس موقع پر جو اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا اس میں کہا گیاکہ امریکا کی طرف سے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیاء کے طور پر رچرڈ باؤچر نے پاکستان کو مستحکم بنانے اور پاک امریکا تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔رچرڈ باؤچر مسلسل پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں تاکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو مضبوط اور خطے میںامن قائم کیا جا سکے ۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا
 

نبیل

تکنیکی معاون
پیپلز پارٹی کی حکومتیں ایسے ہی لوگوں کو قومی اعزازات سے نوازتی ہیں۔ بے نظیر نے اپنے پہلے دور حکومت میں امریکی سنیٹر سٹیفن سولارز کو ہلال پاکستان کا اعزاز دیا تھا۔ یہ وہی سٹیفن سولارز تھا جس کی انڈیا کی حمایت کی وجہ سے اسے وائس آف انڈیا کہا جاتا تھا اور اس نے پاکستان پر فوجی اور اقتصادی پابندیاں لگوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
 

طالوت

محفلین
پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں کرپشن کر سکتی ہے ۔۔
بی بی کی برسی پر عام تعطیل کر کے وہ چھٹیوں میں پہلے ہی کرپشن کر چکی ۔۔
وسلام
 

جوش

محفلین
رچرڈ باؤچر اور ہلال قائد اعظم!!,,,,,نقش خیال…عرفان صدیقی


مجبوریاں ‘ معذوریاں ‘ کمزوریاں سب اپنی جگہ لیکن ہر دل میں غیرت و حمیت کا ایک دیا ضرور روشن رہتا ہے۔ شدت خوف سے ہاتھ شل اور جسم مفلوج ہوجانے کے باعث انسان دشمن کا گریبان نہیں پکڑسکتالیکن اُس کے گلے میں ہار بھی نہیں ڈالتا۔ بزدلی اگر وسوسوں ‘ واہموں ‘ اندیشوں اور مصلحتوں کا روپ دھار کر تنبو تان کر بیٹھ جائے اور قاتل کا ہاتھ جھٹک ڈالنے کا حوصلہ چھین لے ‘ تو بھی کوئی دست ستمگر پر بوسے ثبت نہیں کرتا۔ جب حالات کی بے مہریوں اور حکمرانوں کی مفاد کوشیوں کے سبب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ قومی خودی اور عزت نفس راستوں کی دھول ہوجائے تو کروڑوں افراد پر مشتمل قوم بھی خزاں رسیدہ پتوں کا ڈھیر ہوکے رہ جاتی ہے۔
ممکن ہے یہ نہایت ہی معمولی سی بات ہو‘ شاید یہ ایک روایتی سا سفارتی تقاضا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں بلاسبب ایک رسمی سی بات کو قومی انا کا مسئلہ بنارہاہوں‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ‘ رچرڈ باؤچر کے سینے پر ہلال قائد اعظم کا تمغہ سجانا اور گلے میں میڈل ڈالنا اچھا نہیں لگا۔ ٹیلی ویژن پر خبر چلی تو مجھے یوں لگا جیسے مجبوریاں ‘ معذوریاں ‘ لاچاریاں اور کمزوریاں اس قدر غالب آگئی ہیں کہ دلوں میں روشن غیرت و حمیت کے دیئے بھی بجھ گئے ہیں اور کالا سیاہ دھواں بل کھاتا ہوا باطن کو سیاہ پوش کررہا ہو۔ یا یکایک زلزلہ سا آگیا ہو اور اندر کی حویلی کھنڈر ہوگئی ہو #
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
تمغے اور اعزازات ‘ قوم و ملک کی امانت ہوتے ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس امانت کو اپنی افتاد طبع یا اپنے شخصی معاملات کے تابع کردے۔ یہ اعزازات پاکستان کے خیر خواہوں‘ دوستون اور محسنوں کے لئے ہیں۔ ممکن ہے تعلقات خارجہ کی نزاکتیں اس دائرے کو وسیع کرنے اور موقع محل کی مناسبت سے ان اعزازات کو تقاضائے مصلحت کے تحت ”نوازش بے جا“ کے طو رپر استعمال کرنے کی اجازت بھی دیتی ہوں لیکن رچرڈ باؤچر کے سینے پر بابائے قوم کے نام سے منسوب اتنا بڑا سول اعزاز سجانے کا یہ کون سا محل تھا؟۔
ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں ‘ ہلال قائد اعظم عطا کرنے سے ذرا پہلے پڑھنے والے نے بہ آواز بلندپڑھا ”جنوبی اور وسط ایشیائی ڈیسک کے انچارج نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے‘ عزت مآب رچرڈ باؤچر نے مستحکم‘ وسیع البنیاد اور طویل المیعاد پاک امریکہ تعلقات کی استواری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مسٹر باؤچر باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے نیز خطے کے امن ‘ خوشحالی اور استحکام کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل پاکستان آتے رہے ہیں… ان کی ان شاندار خدمات کے عوض صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان بصد مسرت انہیں ہلال قائد اعظم سے نوازتے ہیں“۔
جس لمحہ رچرڈ باؤچر کو اُس کی خدمات عالیہ کے صلے میں اعلیٰ پاکستانی اعزاز سے نوازا جارہا تھا‘ اُس وقت امریکہ کی پشت پر سوار اسرائیل زبردست امریکی حمایت ‘ امریکہ کی عملی مدد اور امریکی ہتھیاروں کے زور پر غزہ کی پٹی پر حملہ آور تھا اور فلسطینیوں کے پرخچے اڑارہا تھا۔ دو برس سے اسرائیل نے پندرہ لاکھ فلسطینیوں کا محاصرہ کررکھا ہے۔ اُس کے ڈرون مسلسل بم اور میزائل برسارہے ہیں۔ اُس کے ٹینک غزہ کی گلیوں میں دندنارہے ہیں۔ توپوں کے گولے گھروں کو مسمار کررہے ہیں۔ پھول جیسے معصوم بچوں کی لاشیں اور اُن کے بلکتے والدین کو دیکھ کر پتھر کا جگر بھی موم ہورہاہے۔ امریکہ سینہ تانے سلامتی کونسل کے دروازے پر کھڑا ہے کہ خبردار! اسرائیل کے خلاف کوئی قرار داد منظور نہیں ہوسکتی۔ جارج بش ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے۔ ” حماس جارحیت کا ارتکاب کررہی ہے اور اسرئیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے“۔ الله اور رسول کے نام لیواؤں کو دشت کربلا کے سے قہر کا سامنا ہے۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن کیا رچرڈ باؤچر کو اتنا بھی نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ”فلسطین پر اسرائیلی حملے اور امریکہ کی شرمناک پشت پناہی کے باعث پاکستان کے عوام دکھی ہیں۔ تم اپنا دورہ ملتوی کردو“اور اگر اُسے روکنا بس میں نہ تھا تو کیا ضروری تھا کہ فرعون وقت کے ایلچی کے سینے پر ہلال قائد اعظم آویزاں کیا جائے؟۔
رچرڈ باؤچر کی کیا خدمات ہیں؟ اُس نے کون سے پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد رکھی ہے؟ وسیع البنیاد اور طویل المیعاد تعلقات کے لئے تو امریکیوں نے بھارت کا انتخاب کرلیا ہے جس کے ساتھ وہ جوہری تعاون کا معاہدہ کرچکے ہیں۔ جسے وہ اپنا سب سے بڑا ”اسٹریٹجک پارٹنر“کہتے ہیں۔ جس کے ساتھ وہ لامحدود اقتصادی تعاون کی راہیں استوار کررہے ہیں۔ جسے وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ جس کی ہمنوائی کو انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی کا جزو اعظم بنا رکھا ہے۔ ممبئی کے واقعات کے بعد بھارت نے ہم پر اتنا دباؤ نہیں ڈالا جتنا امریکہ نے ڈالا۔ اس کے اہلکار مسلسل ہماری ننگی پیٹھ پر کوڑے برسارہے ہیں۔ وہ اُس گروہ کا سرخیل ہے جو ہمارے ایٹمی اثاثوں کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے۔ وہ خدمات کون سی لوح پر رقم ہیں جن کے طفیل باؤچر کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے؟۔
شاید دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی ایک بھی مثال نہ ملے کہ جو ملک صبح و شام آپ کی آزادی و خود مختاری کا مضحکہ اڑا رہا ہو‘ آپ کی حاکمیت اعلیٰ کو پاؤں تلے روند رہا ہو‘ آپ کی زمینی اور فضائی حدود کی عصمت دری کررہا ہو‘ آپ پر اپنے طیاروں سے بم اور میزائل برسا رہا ہو‘ آپ کی بستیاں اجاڑ رہا ہو‘ آپ کے معصوم لوگوں کو قتل کررہا ہو‘ آپ اُس کے حکومتی اہلکار کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال رہے ہوں اور اُس کے سینے پر تمغے سجا رہے ہوں۔ کیا ہمارے حکمران نہیں جانتے کہ امریکہ سے نفرت کا کیا عالم ہے؟ نائن الیون کے بعد سے وہ عراق و افغانستان کے پندرہ لاکھ مسلمانوں کا لہو پی چکا ہے۔ ہزاروں پاکستانی اُس کی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہمارے لوگ ابھی تک گوانتا نامو کے عقوبت خانے میں تڑپ رہے ہیں۔ کس قدر شرمناک اور مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم ڈرون حملوں کا گلہ کررہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے صدر اُسی شخص کو اعزاز کبیر سے نواز رہے ہیں۔
اور کیا ضرور تھا کہ رچرڈ باؤچر کے سینے پر اُس وقت ”ہلال قائد اعظم “ سجایا جاتا جب ہماری ایک بیٹی امریکہ کے پنجہ ستم میں جکڑی معصوم چڑیا کی طرح پھڑ پھڑا رہی ہے؟ حکمرانوں کو نہیں معلوم کہ قوم کی اس معصوم بیٹی کے ساتھ رچرڈ باؤچر کے درندوں نے کیا سلوک کیا؟ کیا بگرام کے اذیت کدے سے اٹھتی چیخیں اُن کے کانوں تک نہیں پہنچیں؟ مانا کہ محمد بن قاسم کی کہانی اب پرانی ہوگئی ہے۔ مانا کہ ہم میں امریکہ کے دوبدو ہونے کا دم خم نہیں‘ مانا کہ ہم نہتے ‘کمزور اور غریب ہیں‘ مانا کہ ہم ڈرون حملے نہیں روک سکتے‘ مانا کہ واحد عالمی سپر پاور کو خفا کرنا تقاضائے مصلحت کے خلاف ہے لیکن کیا قومی انا اور عزت نفس کی بے حرمتی کو ان مکروہ سرحدوں تک لے جانا بھی ضروری ہے کہ قاتلوں ‘ خونیوں ‘ سفاکوں اور اوباشوں کے سینوں پر تمغے بھی سجائے جائیں؟۔
مجھے نہیں معلوم کہ رچرڈ باؤچر کے سینے پر ہلال قائد اعظم سجانے کے بعد ہمارے حکمران کتنے مطمئن اور شانت ہوں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ بابائے قوم کی روح بے حد آزردہ اور دل گرفتہ ہوگی۔
 
امریکی افسر کو پاکستانی اعزاز دینے پر پاکستانی عوام کو شدید رنج ہے۔ زرداری کی شدید مذمت کی جانی چاہیے۔
 
میں نے کوئی ووٹ ڈالا نہیں۔ میں تو پاکستان میں‌تھا ہی نہیں۔
بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں‌پڑتا۔ غلط کام کی مذمت کم ازکم ضروری ہے
 

arifkarim

معطل
میں نے کوئی ووٹ ڈالا نہیں۔ میں تو پاکستان میں‌تھا ہی نہیں۔
بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں‌پڑتا۔ غلط کام کی مذمت کم ازکم ضروری ہے

ووٹ تو میں نے بھی نہیں ڈالا! میں صرف ان سادہ لوح پاکستانیوں کی بات کر رہا تھا جو پچھلے ۶۳ سال سے ’’ان‘‘ سیاست دانوں کے بہکاوے میں بار بار آجاتے ہیں۔ ذرا سوچیں: اگر سب لوگ ووٹ ڈالنا چھوڑ دیں‌تو کس کی مجال ہے کہ ہم پر مسلط ہو سکے؟
 
ووٹ تو میں نے بھی نہیں ڈالا! میں صرف ان سادہ لوح پاکستانیوں کی بات کر رہا تھا جو پچھلے ۶۳ سال سے ’’ان‘‘ سیاست دانوں کے بہکاوے میں بار بار آجاتے ہیں۔ ذرا سوچیں: اگر سب لوگ ووٹ ڈالنا چھوڑ دیں‌تو کس کی مجال ہے کہ ہم پر مسلط ہو سکے؟

ووٹ ڈالنا بری بات نہیں۔ ووٹ ڈال کر اپ امانیتں درست لوگوں کے سپرد کرتے ہیں۔ ووٹ غلط لوگوں کو ڈالنا غلط ہے۔ اگر ووٹ‌نہ ڈالیں‌تو مشرف، ضیا، ایوب جیسے لوگو مسلط ہوجاتے ہیں۔ ووٹ ڈال ڈال کر بہتری کی امید کم از کم کی جاسکتی ہے۔ اچھے لوگوں‌کو اقتدار میں‌لانے کا ایک ذریعہ ووٹ ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں‌کرسکتا۔
مگر مقتدر شخص غلط کام کرے تو اسپر تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ مذمت بھی کی جاسکتی ہے اسکوہٹایا بھی جاسکتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
اگر ووٹ‌نہ ڈالیں‌تو مشرف، ضیا، ایوب جیسے لوگو مسلط ہوجاتے ہیں۔ ووٹ ڈال ڈال کر بہتری کی امید کم از کم کی جاسکتی ہے۔ اچھے لوگوں‌کو اقتدار میں‌لانے کا ایک ذریعہ ووٹ ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں‌کرسکتا۔
مگر مقتدر شخص غلط کام کرے تو اسپر تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ مذمت بھی کی جاسکتی ہے اسکوہٹایا بھی جاسکتا ہے۔

ماشاءاللہ۔ اب آپکو ان مسلط شدہ اور ووٹ سے منتخبہ حضرات کا صرف ایک موازنہ پیش کرتا ہوں:

جنرل ایوب خان:
جو مارشل لاء لگا کر ملک پر مسلط ہو گئے
کارنامے:
پاکستان کا درالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنا۔
پاکستان کو پہلا تحریری آئین دینا۔
پانج دریاؤں کی برابر پانی سپلائی کیلئے انڈیا سے معاہدے کرنا۔
متعدد ڈیمز اور پاور اسٹیشنز کا قیام۔
چین سے قریبی روابط قائم کرنا، جو آجتک قائم ہیں۔
پاکستان کا سب سے پہلا خفیہ ایٹمی پروگرام شروع کرنا۔
ایوب کا دور وہ واحد عرصہ ہے جب پاکستانی معیشیت انڈیا سے بہتر تھی اور ۱۹۶۵ کی جنگ کو ایک معاہدے سے روکنا بھی پاکستانی معیشیت بچانے کیلئے کیا گیا تھا!

غلطیاں:
امریکہ سے غیر شرعی تعلقات قائم کرنا۔
پاکستان کو انڈیا کیساتھ جنگ میں دھکیلنا۔
بھٹو کے دباؤ پر اپنی طاقت یحییٰ خان جیسے ناقابل شخص کو سپرد کرنا۔

ذوالفقار علی بھٹو:
مغربی پاکستان میں اکثریت سے کامیاب ہونے والے، لیکن مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ بھی نہ نصیب ہو سکی۔ اسلئے یہ بھی ایک خود ساختہ وزیر اعظم تھے۔

کارنامے:
پاکستانی صنعت و تجارت کو نیشنلائز کرنا
۱۹۷۱ جنگ کے قیدیوں کو رہا کر وانا
پاکستان کو ’’ایک اور‘‘ نیا آئین دینا
پاکستان کے پہلے آفیشل ایٹمی پروگرام اور ری ایکٹر کا قیام
مسلم ممالک کو متحد کرنے کی ’’ناکام‘‘ کوششیں کرنا
اپنے دور حکومت میں تین بار آرمی ان چیف کو تبدیل کرنا
خیالی تقاریر کرکے عوام کو بیوقوف بنانا

غلطیاں:
۱۹۷۰ کے عوامی الیکشنز کے نتائج کو قبول نہ کرنا اور اپنے آپکو زبردستی وزارت عظمیٰ کے لیے قابل سمجھنا۔ اسکے نتیجے میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہونا!
فوجی ، مذہبی اور سیاسی معاملات میں غیر آئینی مداخلت جسکا خمذیادہ انہیں سزائے موت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
انڈسٹری کو نیشلائز کرنے کی وجہ سے مجموعی طور پر معیشیت پر اثر پڑا جسکا نقصان ہم آج تک اٹھا رہے ہیں۔
پاکستانی آئین میں اپنےے مفاد کیلئے ترمیم کرنا۔
امریکہ کیساتھ بے تکے پنگے لینا۔
پارٹی بازی کو ہوا دینا، جسکے نتیجے میں نئی نئی آپوزیشن پارٹیوں کا وجود میں آنا!

یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کا پہلا الیکٹڈ اور مقبول ترین وزیر اعظم بھی دھاندلیوں سےہی بنا تھا۔ اور جو ’’غلطیاں‘‘ اور ’’کارناے‘‘ اسنے کیے ، اسکی سزا پوری پاکستانی قوم کو ابھی تک مل رہی ہے۔
جبکہ دوسری جانب پاکستان کے پہلے فوجی آمر نے جسے بظاہر لوگوں کی حمایت بھی حاصل نہیں تھی، اس خوبی سے وطن عزیز کے معاملات کو چلایا کہ اسکے دور حکومت میں ہماری معیشیت انڈیا سے بھی بہتر تھی۔ اسکے دور میں تکمیل ہونے والے منصوبوں کا پھل ہم آجتک کھا رہے ہیں۔ اسکے بوجود اسے ’’کتا! کتا!‘‘ کہہ کر رخصت کیا گیا۔ جو کام ایوب نے کیے، وہ آجتک تمام جمہوری وزراء مل کر بھی نہ کر سکے!

اب بتائیں ، : کیا فوجی عامر کی حکومت بہتر ہے یا جمہوری طور پر الیکٹڈ سیاست دان کی؟
 
ایوب خان کی ناکام پالیسیوں جن میں پیرٹی کا قانون اور مکمل ناکام معیشی نظام تھا کا لازمی نتیجہ ملک کی دوٹکڑے کی صورت میں نکلا۔ ملک تباہ ہوگیا۔
بھٹو شھید نے باقی ماندہ ملک کو بحال کیا ۔ ملک کو متحد کیا۔ پاکستانی کو ایٹمی ملک بنانے کی تگ وود کی۔ اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے کینسر قادیانیت کو اس کے اصل مقام تک پہچایا۔ اگر تمام چیزوں سے صرف نظر کیا بھی جائے تو بھٹو کا صرف ایک کارنامہ کافی ہے کہ قادیانی متفقہ طور پر کافر قرار پائے اور مسلم اس زہر سے محفوظ ہوگئے۔یہی ایک کارنامہ بتاتا ہے الیکڈڈ بھٹو کتنا بڑا کارنامہ کرگیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ایوب خان کی ناکام پالیسیوں جن میں پیرٹی کا قانون اور مکمل ناکام معیشی نظام تھا کا لازمی نتیجہ ملک کی دوٹکڑے کی صورت میں نکلا۔ ملک تباہ ہوگیا۔
بھٹو شھید نے باقی ماندہ ملک کو بحال کیا ۔ ملک کو متحد کیا۔ پاکستانی کو ایٹمی ملک بنانے کی تگ وود کی۔ اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے کینسر قادیانیت کو اس کے اصل مقام تک پہچایا۔ اگر تمام چیزوں سے صرف نظر کیا بھی جائے تو بھٹو کا صرف ایک کارنامہ کافی ہے کہ قادیانی متفقہ طور پر کافر قرار پائے اور مسلم اس زہر سے محفوظ ہوگئے۔یہی ایک کارنامہ بتاتا ہے الیکڈڈ بھٹو کتنا بڑا کارنامہ کرگیا ہے۔

آگئے نا مذہب کو بیچ میں لیکر!:grin::grin::grin:
بھٹو اپنی کرسی بچانے کے لئے اور اقتدار کی بھوک و حوس میں جب ہزاروں لوگوں کا خون کروا سکتا ہے۔ اپنے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو طاقت کے بل پر کچل سکتا ہے تو قادیانی فرقہ کو مولویوں کے کہنے پر غیر مسلم قرار دینا کونسا مشکل کام تھا؟
اسکو تو بس اپنی حکومت کی فکر تھی کہ جان جائے، پر حکومت نہ جائے۔ اسکی خاطر وہ کچھ بھی کرنے کو بکلی تیار تھا اور اسنے کیا بھی۔ اسے آپ کارنامہ کہیں‌یا نفس پرستی، مجھے کوئی غرض نہیں۔ اس ملک کا سب سے بڑا زہر ’’نام نہاد ملا‘‘ ہیں جن کی وہ کٹپتلی بنا رہا۔

نیز بھٹو اور ایوب سے متعلق اپنی تاریخ درست کر لیں:

پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کا کھلا ہاتھ تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ۱۹۷۰ کا الیکشن بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے جیتا تھا۔ اور اسمبلی میں‌سیٹیں بھی انہی کی زیادہ تھی۔ اسکے باوجود انہیں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا حق کیوں نہیں دیا گیا؟
الٹا بنگالیوں پر چڑھائی کر دی گئی اور سیاسی ہنماؤں کو قید کیا گیا۔ ایسی صورت میں‌کیا بنگالی ، پاکستانیوں‌کے جوتے چاٹتے؟ دو ٹکڑے ہمارے نیک نامی سیادت دانوں کی کارستانی ہے۔

پاکستانی معیشیت نے سب سے زیادہ ترقی جنرل ایوب خان کے دور میں‌کی تھی۔نئے کارخانے، ڈیمز، پاور اسٹیشنز کا قیام ہوا۔آب پاشی کا جدید نظام بنایا گیا، یہ وہ دور تھا جب پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی۔ بھٹوکے سوشل ریفارم کے بعد اسکا حال آپکےے سامنے ہے:laugh:
 

arifkarim

معطل
جمہوریت کی چھلنی چھلتی رہے تو کیڑے مکوڑے چھان پھٹک لیے جاتے ہیں ، مگر آمر کی چھلنی میں سوراخ نہیں ہوتا۔۔
وسلام

جمہوریت کی کوڑا اکٹھا کرنے والی مشین چلتی رہے تو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مزید گند میں اضافہ ہوتا ہے! آمر اکیلا ملک کے فلاح کیلئے کام کرتا ہے، جبکہ سیاست دان ملکر ملک کو لوٹتے ہیں!
 

زینب

محفلین
انتہائی بےہودا کام کیا غداری نے ہمارے قائد کی توہین کی اس نے ویسے بھی غداروں سے اس کے علاوہکیا امید کی جا سکتی ہے
 
Top