سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ پنجاب کے چار دریاوں چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے قدیم پنجابی زمیندار قبائل کی بولی ہے۔ ازراہ تضحیک اس کلچر اور بولی سے وابستہ لوگوں کو جانگلی کہا جاتا ہے۔ اس کلچر کا مرکزی علاقہ راوی ہے۔ یہ کلچر شمال میں سرگودھا ڈویژن میں بھیرہ سے شروع ہوتا ہے اور فیصل آباد سے ہوتا ہوا مشرق میں ساہیوال ڈویژن میں دیپالپور (اوکاڑہ) تک چلا جاتا ہے۔ جنوب میں بہاولنگر سے وہاڑی، پھر خانیوال سے جھنگ تک اب بھی اپنی زندہ و تابندہ تہذیبی روایات کے عروج پر ہے۔ ملتان کا سرائیکی کلچر کبھی اس سے متعلق نہیں رہا۔ سرائیکی سندھی کا ایک لہجہ ہے جسے احساس کمتری کے مارے دانشور خواہ مخواہ اس کلچر سے نتھی کر دیتے ہیں۔ عددی اکثریت کے حوالے سے رچناوی پنجابی کے بعد پنجاب کی دوسری بڑی زبان ہے۔
رچناوی کا لفظ رچنا سے ماخود ہے۔ رچنا دوآب دنیا کا سب سے بڑا ہموار زمینوں کا میدان ہے۔ چناب والوں کی عشقیہ داستانیں، راوی کے باشندوں کی سرفروشی اور ستلج والوں کا اکھڑپن ضرب المثل ہیں۔ یہ بولی ذومعنی انداز گفتگو کے لحاظ سے ایک پرمزاح تفریح دیتی ہے اور مردہ دلی کی دشمن ہے۔ اس بولی کا غالب حصہ ضرب الامثال اور محاورات پر مشتمل ہے جو آفاقی حقائق سے اس کلچر کے باشندوں کے دل و دماغ کو روشن کرتے ہیں۔ یہ بولی دراصل زرعی معاشرے کی ترجمان ہے۔ اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کی یہ زرعی سائنس اور لائیوسٹاک کی اصطلاحاتی زبان بھی ہے جسے انسانوں کے ساتھ ساتھ مال مویشی اور جنگی جانور بھی سمجھتے ہیں۔
رچناوی کلچر میں سب سے بڑا تفریحی ماحول بولی اور انداز گفتگو فراہم کرتے ہیں۔ اس بولی کو لکھا نہیں جا سکتا۔ "وگتی" ذومعنی فکاہیہ گپ شپ کو کہا جاتا ہے جو دراصل دو پارٹیوں کے درمیان فقرے کسنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ خانیوال اور جھنگ کے وگتی کے دو مخالف گروپ شہرت رکھتے ہیں۔ موجودہ مزاحیہ تھیئٹر غالبا وگتی کلچر سے ہی پیدا ہوا۔ ذومعنی فقرے کسنے کا سلسلہ گھروں میں عورتوں کے مابین بھی جاری رہتا ہے۔ وفات کے موقع پر عورتوں کا ایک مخصوص گروپ بین ڈالنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ رو رو کر المیہ شاعری پڑھتی ہیں۔ دکھی اور رنجیدہ دلوں کا غم آنسووں میں بہہ جاتا ہے۔ لواحقین کا جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس کلچر سے باہر کے لوگوں کو تو غم کے موقع پر ایسا رونا بھی نہیں آتا۔ یہ کلچر دیہی میلوں اور کھیلوں سے گندھا ہوا ہے۔ خاندانی شریکہ بھی اپنے اندر کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔
ربط
رچناوی کا لفظ رچنا سے ماخود ہے۔ رچنا دوآب دنیا کا سب سے بڑا ہموار زمینوں کا میدان ہے۔ چناب والوں کی عشقیہ داستانیں، راوی کے باشندوں کی سرفروشی اور ستلج والوں کا اکھڑپن ضرب المثل ہیں۔ یہ بولی ذومعنی انداز گفتگو کے لحاظ سے ایک پرمزاح تفریح دیتی ہے اور مردہ دلی کی دشمن ہے۔ اس بولی کا غالب حصہ ضرب الامثال اور محاورات پر مشتمل ہے جو آفاقی حقائق سے اس کلچر کے باشندوں کے دل و دماغ کو روشن کرتے ہیں۔ یہ بولی دراصل زرعی معاشرے کی ترجمان ہے۔ اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کی یہ زرعی سائنس اور لائیوسٹاک کی اصطلاحاتی زبان بھی ہے جسے انسانوں کے ساتھ ساتھ مال مویشی اور جنگی جانور بھی سمجھتے ہیں۔
رچناوی کلچر میں سب سے بڑا تفریحی ماحول بولی اور انداز گفتگو فراہم کرتے ہیں۔ اس بولی کو لکھا نہیں جا سکتا۔ "وگتی" ذومعنی فکاہیہ گپ شپ کو کہا جاتا ہے جو دراصل دو پارٹیوں کے درمیان فقرے کسنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ خانیوال اور جھنگ کے وگتی کے دو مخالف گروپ شہرت رکھتے ہیں۔ موجودہ مزاحیہ تھیئٹر غالبا وگتی کلچر سے ہی پیدا ہوا۔ ذومعنی فقرے کسنے کا سلسلہ گھروں میں عورتوں کے مابین بھی جاری رہتا ہے۔ وفات کے موقع پر عورتوں کا ایک مخصوص گروپ بین ڈالنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ رو رو کر المیہ شاعری پڑھتی ہیں۔ دکھی اور رنجیدہ دلوں کا غم آنسووں میں بہہ جاتا ہے۔ لواحقین کا جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس کلچر سے باہر کے لوگوں کو تو غم کے موقع پر ایسا رونا بھی نہیں آتا۔ یہ کلچر دیہی میلوں اور کھیلوں سے گندھا ہوا ہے۔ خاندانی شریکہ بھی اپنے اندر کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔
ربط