سرور عالم راز
محفلین
یارانِ محفل: تسلیمات
اُ ردو محفل میں نو وارِد ہوں اور اس کے طریقے اور رموز سمجھنے کی کوشش میں مصروف۔ اس سلسلے میں مختلف زمروں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے اور وہاں سے تاثرات اور خیالات لے کر آتا ہوں۔زیر نظر تحریر میں میری معروضات ایک عام اور معمولی قاری کے مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہیں۔ واللہ اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت یا حیثیت نہیں ہے۔ اسی نظر سے انھیں دیکھئے، سوچئے، رائے زنی کیجئے اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیجئے۔ یہاں آج غزل کے حوالے سے کچھ عرض ہےکہ یہ میری پسندیدہ صنف سخن ہے اور محفل میں اچھے غزل گو خاصی تعداد میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ نہایت فعال ہیں اور غزل کی قابل رشک پذیرائی کر رہے ہیں۔ غالب نے اپنے ایک دوست کو کیا ہی سچ لکھاتھا کہ :غزل قافیہ پیمائی نہیں ہے بلکہ معنی آفرینی ہے۔: غزل کہنا واقعی ایک نہایت مشکل فن ہے ۔ لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو غالب جیسا عظیم شاعر اپنا پورا دیوان مومن کے اس ایک شعر پر نچھاور کرنے کے لئے کیوں کر تیار ہوتا؟تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا !
غزلوں پر آپ کی رائے، تبصرے، تنقید اور تجاویز پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور غزل کا مستقبل کچھ اور روشن نظر آنے لگتا ہے۔ غزل کو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے :اردو شاعری کی آبرو: کے لقب سے نوازا ہے اورحقیقت بھی یہی ہے۔ تاہم آپ کے تبصروں میں ایک بات اپنی کثرت اور عموم کی بنا پر تحریر طلب ہے یعنی یہ کہ بیشتر تبصرے چند الفاظ یا جملوں پر مبنی ہوتے ہیں گویا ان کی حیثیت ایک یا دو تالیوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ صورت حال اصلاح چاہتی ہے۔ ہر قاری کو تبصرے، رائے، تنقید، شائستہ تنقیص کا حق ہے اور کسی کے خیالات یا تبصرے کو کم قیمت یابے وقعت نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قدر مختصر اور سرسری رائے زنی سے شاعر اور مبصر دونوں کا حق ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔اچھی غزل کہنے میں شاعر کو جو وقت، قوت فکر، علم وفن بروئے کار لانا پڑتا ہے اس کا قرض بھلا ایک عدد:واہ ، واہ؛ سے کیسے ادا ہو سکتا ہے؟ غزل پر رائے آپ مختلف حوالوں سے دے سکتے ہیں۔وضاحت کی کمی، معنی آفرینی، الفاظ کی نشست و برخواست، زبان و بیان کی خوبی یا خرابی، یا اور کچھ جو مناسب معلوم ہو۔ یہ نہ سوچیں کہ میری رائے سے کیا ہوگا؟ آپ کی رائے سے ہی سب کچھ ہوگا۔ اگر آپ ہی خاموش ہو گئے تو کیا شعر گوئی اور کیا نثر نگاری کسی چیز کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا ہے ۔ہمارا سارا تہذیبی، تمدنی، تاریخی، مذہبی، ثقافتی سرمایہ اُردو میں ہی دستیاب و محفوظ ہے۔ صرف اسی وجہ سے بھی اردو کی بقا اور فلاح ہماری اولیں ترجیحات میں ہونی چاہئے۔تبصرے ضرور کیجئے اور اپنی مقدرت اوراستعداد بھر ان میں تفصیل،فکر اور درد مندی شامل حال رکھیں۔ آپ کی سوچی سمجھی دیانت دارانہ رائے سبھی کے لئے (خود آپ کے لئے بھی !) مفید ہے اور فال نیک کا حکم رکھتی ہے۔ تو پھر تکلف کیسا اور دیر کیوں ہو؟ بسم اللہ کیجئے اور لکھنا شروع کیجئے۔ انشا اللہ۔
آج کل محفل میں ظہیر صاحب کی غزل :تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتا ہیں: پر جو گفتگو ہو رہی ہے وہ نہایت اہم ہے۔ کیا :پتا ہیں: اور :نگاہیں: میں :ہیں: کا مختلف تلفظ قابل قبول ہے اور :نگاہیں: غزل میں بطور قافیہ استعمال ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کا واحد ذمہ دار و مکلف ظہیر صاحب کو نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہم سب کو اس بارے میں امکانی حد تک سوچنے، تحقیق کرنے اور آپس میں تبادلہ ء خیال کی سخت ضرورت ہے۔ ہر شخص مصروف ہے (سوائے میرے کہ ملازمت سے سبکدوش ہوں ، بس گلی ڈنڈا کھیلنے کی کسر ضرور باقی ہے !)۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے! یہ سوچ کر کیا بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اورمیں سب سر جوڑ کر مسئلہ کا حل تلاش کریں؟ کیا عجب کہ اجتماعی کوشش سے گتھی جلد کھل جائے، گوہر مقصود ہاتھ آجائے اور سب کے لئے فلاح اور برکت کا باعث ہو! امید ہے میری یہ درخواست صدا بصحر ا نہیں ثابت ہوگی ۔ اگر مجھ سے کوئی گستاخی سرزد ہو گئی ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ آئیے ہم سب اس نیک کام میں اپنی مقدرت بھر کوشش کریں۔ کوشش ہوگی تو توفیق بھی مل جائے گی۔ انشا اللہ۔
خاکسار: سرور عالم راز
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا !
غزلوں پر آپ کی رائے، تبصرے، تنقید اور تجاویز پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور غزل کا مستقبل کچھ اور روشن نظر آنے لگتا ہے۔ غزل کو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے :اردو شاعری کی آبرو: کے لقب سے نوازا ہے اورحقیقت بھی یہی ہے۔ تاہم آپ کے تبصروں میں ایک بات اپنی کثرت اور عموم کی بنا پر تحریر طلب ہے یعنی یہ کہ بیشتر تبصرے چند الفاظ یا جملوں پر مبنی ہوتے ہیں گویا ان کی حیثیت ایک یا دو تالیوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ صورت حال اصلاح چاہتی ہے۔ ہر قاری کو تبصرے، رائے، تنقید، شائستہ تنقیص کا حق ہے اور کسی کے خیالات یا تبصرے کو کم قیمت یابے وقعت نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قدر مختصر اور سرسری رائے زنی سے شاعر اور مبصر دونوں کا حق ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔اچھی غزل کہنے میں شاعر کو جو وقت، قوت فکر، علم وفن بروئے کار لانا پڑتا ہے اس کا قرض بھلا ایک عدد:واہ ، واہ؛ سے کیسے ادا ہو سکتا ہے؟ غزل پر رائے آپ مختلف حوالوں سے دے سکتے ہیں۔وضاحت کی کمی، معنی آفرینی، الفاظ کی نشست و برخواست، زبان و بیان کی خوبی یا خرابی، یا اور کچھ جو مناسب معلوم ہو۔ یہ نہ سوچیں کہ میری رائے سے کیا ہوگا؟ آپ کی رائے سے ہی سب کچھ ہوگا۔ اگر آپ ہی خاموش ہو گئے تو کیا شعر گوئی اور کیا نثر نگاری کسی چیز کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا ہے ۔ہمارا سارا تہذیبی، تمدنی، تاریخی، مذہبی، ثقافتی سرمایہ اُردو میں ہی دستیاب و محفوظ ہے۔ صرف اسی وجہ سے بھی اردو کی بقا اور فلاح ہماری اولیں ترجیحات میں ہونی چاہئے۔تبصرے ضرور کیجئے اور اپنی مقدرت اوراستعداد بھر ان میں تفصیل،فکر اور درد مندی شامل حال رکھیں۔ آپ کی سوچی سمجھی دیانت دارانہ رائے سبھی کے لئے (خود آپ کے لئے بھی !) مفید ہے اور فال نیک کا حکم رکھتی ہے۔ تو پھر تکلف کیسا اور دیر کیوں ہو؟ بسم اللہ کیجئے اور لکھنا شروع کیجئے۔ انشا اللہ۔
آج کل محفل میں ظہیر صاحب کی غزل :تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتا ہیں: پر جو گفتگو ہو رہی ہے وہ نہایت اہم ہے۔ کیا :پتا ہیں: اور :نگاہیں: میں :ہیں: کا مختلف تلفظ قابل قبول ہے اور :نگاہیں: غزل میں بطور قافیہ استعمال ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کا واحد ذمہ دار و مکلف ظہیر صاحب کو نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہم سب کو اس بارے میں امکانی حد تک سوچنے، تحقیق کرنے اور آپس میں تبادلہ ء خیال کی سخت ضرورت ہے۔ ہر شخص مصروف ہے (سوائے میرے کہ ملازمت سے سبکدوش ہوں ، بس گلی ڈنڈا کھیلنے کی کسر ضرور باقی ہے !)۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے! یہ سوچ کر کیا بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اورمیں سب سر جوڑ کر مسئلہ کا حل تلاش کریں؟ کیا عجب کہ اجتماعی کوشش سے گتھی جلد کھل جائے، گوہر مقصود ہاتھ آجائے اور سب کے لئے فلاح اور برکت کا باعث ہو! امید ہے میری یہ درخواست صدا بصحر ا نہیں ثابت ہوگی ۔ اگر مجھ سے کوئی گستاخی سرزد ہو گئی ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ آئیے ہم سب اس نیک کام میں اپنی مقدرت بھر کوشش کریں۔ کوشش ہوگی تو توفیق بھی مل جائے گی۔ انشا اللہ۔
خاکسار: سرور عالم راز