کیا یہ مصرعہ غالب نے استاد ابراھیم ذوق پر چوٹ کے لیے نہیں کہا تھا؟
نبیل بھائی ، میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ غاؔلب نے اپنے کئی اشعار میں استاد ذوؔق پر چوٹیں کی ہیں لیکن یہ شعر ان میں سے نہیں ہے ۔ غالب نے اس شعر میں اپنی اردو شاعری کو جو بے رنگ کہا ہے وہ دراصل اپنے فارسی کلام پر اظہارِفخر کا ایک انداز ہے ۔ پورا شعر یوں ہے:
فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
یہ بات تاریخی طور پر درست ہے اور غاؔلب کے سوانح نگاروں نے اسے وضاحت سے بیان بھی کیا ہے کہ پچیس تیس سال کی عمر کے بعد غالب نے شعر اور نثر دونوں میں فارسی کو اپنا بنیادی ذریعۂ اظہار بنالیا تھا ۔ اردو شاعری مشاعروں وغیرہ کے لیے کرتے تھے ۔ نثری تصنیفات تو تقریباً تمام کی تما م فارسی ہی میں ہیں۔ اكثر نقادوں كا خیال هے كه غالب بنیادی طور پر فارسی كے شاعر تھے۔
برادرم نبیل، آپ نے درست فرمایا، یہ شعر دراصل ایک قطعے کا ہے جس کا مخاطب استاد ذوق ہی ہے۔ غالب نے ذوق کا نام تو اس قطعے میں نہیں لیا لیکن خطاب ذوق ہی سے ہےاور بڑا جلالی خطاب ہے، اس کے اولیں اشعار ہی سے بات واضح ہو جاتی ہے:
اے کہ در بزمِ شہنشاہِ سخن رس گفتہ ای
کی بہ پُر گوئی فلاں در شعر ہمسنگِ من است
راست گفتی لیک می دانی کہ نبود جائے طعن
کمتر از بانگِ دہل گر نغمۂ چنگِ من است
اے کہ تُو نے سخن رس بادشاہ کی بزم میں کہا کہ فلاں (غالب) پُر گوئی (کلام کی مقدار) میں میرے برابر و مقابل کہاں؟ ہاں تُو نے سچ کہا لیکن تُو جانتا ہے کہ اگر میرے ساز کے نغموں کی آواز(تمھاے) ڈھول کی آواز سے کم ہے تو یہ کوئی طعنے کی بات نہیں ہے۔
اب چونکہ ذوق فارسی شاعری نہیں کرتے تھے اور غالب اپنی فارسی شاعری کو کلاسیکی شعرا کے ہم پلہ سمجھتے تھے اور ذوق کا کل سرمایہ اردو شاعری ہی تھا اس لیے حریف پر وہ چوٹ کی جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا یعنی جس اردو شاعری کی تو ڈینگیں مار رہا ہے میں تو اس کو کچھ سمجھتا ہی نہیں میرا اصل کام تو فارسی شاعری ہے:
فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
اور ایک مصرعے میں یہ کہہ دیا کہ گفتار اور شاعری میں جو چیز تیرے لیے باعثِ فخر ہے وہ میرے لیے باعث ننگ ہے۔ بعد کے اشعار میں اپنی فارسی شاعری کی خوب تعریف بھی کی ہے اور ذوق پر چوٹیں بھی کی ہیں۔ اور پھر آخری شعر میں پھر یہی ننگ والا مصرع دہرا کر تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی:
مقطعِ ایں قطعہ زیں مصرع مُصرّع باد و بس
ہر چہ در گفتار فخر تُست آں ننگِ من است
اس قطعے کا مقطع کا یہی مکرر مصرع ہونا چاہیے اور بس یہی کافی ہے کہ شاعری میں جو کچھ تیرے لیے باعث فخر ہے وہ میرے لیے باعثِ ننگ ہے۔
یہ قطعہ اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔