ریاست اور نظریہ (حصہِ اول )

ظفری

لائبریرین
محب کی فرمائش پر اس دھاگے کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ جس پر ہم بلترتیب ریاست اور نظریہ کے آپس میں بنیادی تعلق پر بحث کریں گے ۔ اور پھر انہی خطوط پر اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے نظریہ اسلام کو پاکستان کی ریاست پر لاگو کرنے کے لیے اپنی دلیلیں ، اپنی اپنی آراء اور معلومات کی روشنی میں کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔ امید ہے کہ یار دوست اپنے علم اور معلومات کے ذریعے اس دھاگے کو اس کے اصل ماخذ تک پہنچانے میں مدد فرمائیں گے ۔

ریاست اور نظریہ

قدیم یونان سے جدید دور تک انسان نے جو تجربات کیئے ہیں وہ ریاست سے متعلق ان کی کسی نظریات کی مختلف صورتوں میں نمود اور اظہار ہے ۔ ظاہر ہے مسلمان معاشرے بھی ان بحثوں سے خالی نہیں رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نظریے اور ان کی ریاست کا باہمی تعلق کیا ہونا چاہیئے ۔ اور مسلمان اس تعلق کو کس طرح دورِ جدید میں نبھاتے ہیں ۔؟ ۔ کیا کسی ریاست کو کسی نظریے کا تابع ہونا چاہیئے ۔ ؟ انسان کا جو فطری سفر ہے اس میں کیا کوئی نظریہ ایسا ہے جو ریاست کی تکمیل میں ناگزیر ہو ۔ ؟

اسی بات کو میں آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں اس بحث کا ایک ابتدائی خاکہ سامنے رکھتا ہوں ۔ تاکہ بحث نہ صرف آسان و فہم ہو بلکہ اپنی مرکزیت کی طرف بھی مرکوز رہے ۔

ریاست سوسائٹی کا ایک ناگزیر ادارہ ہے ۔ معاشرہ جن اقدار پر قائم ہے یا قائم رہنا چاہتا ہے ۔ ریاست ان اقدار کی استواری کے بہت ضروری وسائل فراہم کرتی ہے ۔ لہذا ریاست اسی نظریہ حیات یا اسی نظامِ اقدار کا ایک فعال عنصر ہوگی ۔ جس نظریے پر معاشرہ قائم ہے ۔ انسانوں میں ہیتِ اجتماعی وحدت اور ایک بامقصد یکسوئی ہمیشہ بامعنی ہوتی ہے ۔ یعنی کلچرل اقدار کو واجب العمل بنانا اور کلچر اساس کے ساتھ معاشرے کے تعلق کی تمام سطحوں کو بامعنی بنانا ، Protective بنانا ۔

یہ معاشرے کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو معاشرہ اپنے اندر موجود معاشرتی قوت سے پورا نہیں کرسکتا ۔ ۔ لہذا معاشرے کی اس ضرروت کی تکمیل کے لیئے ریاست کا ادارہ وجود میں آتا ہے جو کہ معاشرتی کُل کا ایک جُز ہے ۔
ریاست میں فوری فلاح پیدا کرنے کی قوت ہوتی ہے ۔ معاشرے کی ترکیبِ ہیت ہی ایسی ہوتی ہے یا انسانی اجتماعیت کے بعض اصول ایسے ہوتے ہیں کہ وہ فلاح کو اخلاقی معنی سے منقطع کرکے قبول نہیں کر سکتی ۔ معاشرہ اپنی ایک اخلاقی بناوٹ اور ایک اخلاقی تقاضا بھی رکھتا ہے ۔ اور ان پر پورا اترنے کے لیئے اُسے ریاست کی فیصلہ کن مدد کی ضرروت ہوتی ہے ۔ انسان میں فلاح کا تصور چیزوں کی افراط نہیں ہے ۔

نظریہ کوئی ریاستی قانون نہیں ہوتا ۔ نظریہ ایک معاشرتی حقیقت ہے ۔ یعنی معاشرہ نظریہ کو آئیڈلائز کرتا ہے ۔ اور ریاست اس کو ایکچولائز کرتی ہے ۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ معاشرے کے آئیڈلز کو عمل میں لانے کے موثر اسباب پیدا کرے ۔ انسانوں کی اجتماعیت کے اندر کوئی بھی نظریہ ایک لمحہ کے لیئے بھی پنپ نہیں سکتا جو اُس معاشرے میں موجود تنوع یا تضاد کو اپنے اندر سے خارج کردے ۔ ریاست کا نظریاتی کردار یہ ہے کہ اگر نظریہ تنوع کو قبول نہیں کرتا تو وہ انسانوں کے لیئے نہیں ہے ۔ ریاست نظریے کی آئیڈل حدوں کو متاثر نہیں کرتی ۔ اور اس کے بغیر انسان میں اجتماعیت کا کوئی بھی تصور خواہ وہ معاشرتی ہو ، ریاستی ہو کسی بھی سطح پر آج تک قائم نہیں ہوا ۔

ہر ریاست اور ہر معاشرے میں اپنے بنیادی نظریات کے خلاف قوتوں کو روکنے کا اپنا اپنا ایک مختلف نظام موجود ہے ۔ اور یہ نظام مغرب میں بھی موجود ہے اور بہت شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی Theory Of Revolution کی تردید کے لیئے ” سرکاری سطح " پر اجازت طلب کرے گا تو اس کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ہاں شاید Big Bang کے خلاف اجازت مل جائے اور اسی طرح جہموریت کے خلاف آپ نہیں جاسکتے ۔ تو ایسا نظام انسانی اجتماعیت کو انتشار سے بچانے کے لیئے معاون ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر میرا محدود نظریہ نہیں ہے تو میرا ہر نظریہ انتشار پر ختم ہوگا ۔ اور کسی معونیت کی تشکیل نہیں کر پائے گا ۔

ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے مذہب کو قانونی اصطلاحات میں اسیر کرکے ایک طاقت پر قائم رہ جانے والا نظام بنا کر پیش کیا ۔ ہمارا معاشرہ ہو یا ریاست ، اس نے دین کے احکامات کی اخلاقی روح کو اقدار بنانے کے بجائے دین کے احکام کو مجموعہِ قوانین بنا کر اس کو بلا لحاظ نافذ کردینے کا ایک تصور پال رکھا ہے ۔ جو ہمارے یہاں ریاست اور نظریے کے تعلق میں ایک تصنوع ، جبر اور ناکامی کا سبب بنا ہے ۔ جب ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اقدار پر مبنی کسی تصور کی بات کررہے ہیں بلکہ ہم قوانین پر ایک فکر کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں جس پر ہمارا تمام اصرار اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ قانین نافذ کر دیئے جائیں یا یہ حدودِ قوانین آجائیں تو اس سے فلاح آسکتی ہے لہذاٰ اس طرزَ عمل سے ریاست اور نظریہ کا جو بنیادی تعلق ہے وہ مجروع ہوجاتا ہے ۔ اسلام بنیادی طور پر اقدار پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قانون بھی بنے گا ۔ ناکہ قانون سازی کے ذریعے وہ ریاست یا سوسائٹی پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے ۔
 
ظفری، آپ نے نہائت مناسب الفاظ میں نظریہ کی ضرورت ایک معاشرے کے لئے اور اس کے نتیجے میں ریاست پر زور دیا۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو زبردست شکریہ۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظریہء ریاست کا ترجمان آئین ہے جو اک ریاست کے بنیادی اصولوں کی ترجمانی کرتا ہے، جن سے انحراف ممکن نہیںِ۔ اور پھر آئین میں دئے گئے بنیادی اصولوں سے قوانین بنائے جاتے ہیں؟

اس طرح‌آئین سازی یا اصول سازی اور قانون سازی پر بحث نمایاں طریقے سے ہو سکے گی۔ اور ہم سب کو کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
والسلام
 

ظفری

لائبریرین
میں بلترتیب فاروق سرور صاحب ، قیصرانی اور وارث بھائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس پوسٹ میں دلچسپی ظاہر کی ۔

فاروق صاحب آپ نے صحیح سمت پیش قدمی کی ہے انشاءاللہ جلد ہی ہم اس طرف بھی آئیں گے ۔ مگر جس ابتدائی خاکے کا میں نے حوالہ دیا ہے ۔ اس کے بارے میں اگر کوئی اختلاف َ رائے موجود ہے تو ہم پہلے اس پر بحث کر لیں تاکہ آگے بڑھتے ہوئے کسی قسم کی ابہام نہ رہے ۔ آپ اور دیگر دوست کیا کہتے ہیں اس بارے میں ۔ ؟
 
آپ کے خاکے سے جو تصور میرے ذہن میں بنتا ہے وہ میرے سوال سے واضح‌ہے۔ میری رائے میں آپ درست سمت میں پیشرفت کر رہے ہیں۔
کہ 1) نظریہ ریاست = 2) آئین ریاست => 3) قانون ریاست۔
اس پہ بحث نہ صرف دلچسپ رہے گی بلکہ امید ہے کہ "اسلامی نظام" کے کھوکھلے سیاسی نعرے میں قوس قزح کے رنگ بھی بھر دے۔

ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے مذہب کو قانونی اصطلاحات میں اسیر کرکے ایک طاقت پر قائم رہ جانے والا نظام بنا کر پیش کیا ۔ ہمارا معاشرہ ہو یا ریاست ، اس نے دین کے احکامات کی اخلاقی روح کو اقدار بنانے کے بجائے دین کے احکام کو مجموعہِ قوانین بنا کر اس کو بلا لحاظ نافذ کردینے کا ایک تصور پال رکھا ہے ۔ جو ہمارے یہاں ریاست اور نظریے کے تعلق میں ایک تصنوع ، جبر اور ناکامی کا سبب بنا ہے ۔ جب ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اقدار پر مبنی کسی تصور کی بات کررہے ہیں بلکہ ہم قوانین پر ایک فکر کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں جس پر ہمارا تمام اصرار اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ قانین نافذ کر دیئے جائیں یا یہ حدودِ قوانین آجائیں تو اس سے فلاح آسکتی ہے لہذاٰ اس طرزَ عمل سے ریاست اور نظریہ کا جو بنیادی تعلق ہے وہ مجروع ہوجاتا ہے ۔ اسلام بنیادی طور پر اقدار پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قانون بھی بنے گا ۔ ناکہ قانون سازی کے ذریعے وہ ریاست یا سوسائٹی پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے ۔

سو فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ قانون سازی قدریں نہیں‌پیدا کرتی ہے، اور قرآن بنیادی طور پر قدریں اور اصول پیدا کرنا چاہتا ہے۔

مجھے تو آج بھی اس میں شک ہے کہ چند سزائیں اور فتاوی جو نہ قرآن اور نہ سنت میں پائی جاتی ہیں وہ حقیقت میں اسلامی ہیں بھی یا نہیں۔ انشاءاللہ جب بات آگے بڑھتی ہے تو خیالات پیش کروں گا آُپ سب کی عدالت میں۔
 
سب سے پہلے تو میں انتہائی مشکور ہوں ظفری کا کہ اس نے اس حساس موضوع پر گفتگو کو شروع کیا اور گہرائی میں جائزہ لینے کا آغاز کیا ہے اور سیاست جس میں ہم بھیڑ چال کا شکار ہو رہے تھے اس کی بنیاد اور جزئیات کو بغور سمجھنے اور دیکھنے کی تحریک شروع کی ہے جس سے یقینا لوگوں کو سیاسیات کو بطور علم سمجھنے اور اس کے اصولوں پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف نظاموں کی خصوصیات اور نقائص سمجھنے کا بھی موقع ملے گا۔ اس کام کے لیے خاص میں نے اصول سیاسیات کی بی اے برائے سال اول ( احمد شفیع چوھدری) کی کتاب خریدی ہے جس میں سے اقتباسات پیش کرتا رہوں گا تاکہ بات نصابی بھی رہے اور علمی بھی۔

“ معاشرہ افراد کی تمام سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے اس میں سیاسی اور غیر سیاسی تمام قسم کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ افراد کی زیادہ تر سرگرمیوں کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ حکومت سے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس سیاسی نظام کا حصہ تصور کی جاتی ہیں۔ ان میں اخلاقی اقدار اور عقیدے سے متعلق ایسی سرگرمیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ جو افراد کے سیاسی طرز عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں اور حکومت کے فیصلوں کو متاثر کرتی ہیں چنانچہ معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں کا باہم قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی سیاسی نظام کا تجزیہ کرتے وقت اس کے معاشرتی ڈھانچے کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ سیاسی نظام معاشرہ کے بعض مقاصد کی تکمیل کے لیے وجود میں آتا ہے اور اس کی پالیسی اور بنیادی فیصلے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے علم سیاسیات میں سیاسی نظامی کا مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔“

ہمیں نظریات جو سیاسی نظام سے متعلق ہیں ان پر غور و فکر کرنا ہوگا اور ان سب کا اگر تفصیلی نہیں تو مختصرا جائزہ لینا ضروری ہوگا تاکہ پھر ہم مشہور سیاسی نظاموں پر بحث کر سکیں اور آخر میں پاکستان میں قائم نظام پر بات کر سکیں۔ سیاسی نظام کی خصوصیات ، فرائض کو دیکھنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ نظریہ مطالعہ نظام ( System approach) اور نظریہ سلوکیت ( behavioural approach) کو بھی دیکھنا ہوگا تاکہ ہم ریاست اور حکومت کے کردار کا گہرائی میں جا کر جائزہ لے سکیں۔

ہم بہت سے موضوعات پر بحث کریں گے اور میرا خیال ہے ہمیں کئی موضوعات پر الگ الگ دھاگے کھولنے پڑیں گے جیسے جیسے بحث اور گفتگو آگے بڑھے گی اس لیے میں امید کرتا ہوں تمام دوست اسے خوشدلی سے قبول کریں گے تاکہ ہم گفتگو کے دوران ایک خاص موضوع پر مرکوز رہ سکیں۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کے خاکے سے جو تصور میرے ذہن میں بنتا ہے وہ میرے سوال سے واضح‌ہے۔ میری رائے میں آپ درست سمت میں پیشرفت کر رہے ہیں۔
کہ 1) نظریہ ریاست = 2) آئین ریاست => 3) قانون ریاست۔
اس پہ بحث نہ صرف دلچسپ رہے گی بلکہ امید ہے کہ "اسلامی نظام" کے کھوکھلے سیاسی نعرے میں قوس قزح کے رنگ بھی بھر دے۔

جی فاروق صاحب آپ صحیح سمجھے ۔ مگر جہاں تک آئین ِ ریاست کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس مرحلے پر بحث کافی طوالت اختیار کرے گی کیونکہ جب ہم نظریے اور ریاست کے تعلق کو سمجھ کر اسلام کو ایک نظریے کے طور پر ریاست کی بنیاد بنائیں گے ( کیونکہ ریاست سے ہماری مراد بلآخر پاکستان ہی ہے ) تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں ۔ یہ اقدار کا مسئلہ ہے یا احکام کا ۔ اور یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے ۔ اس کی تفہیم اور تشریح بہت ضروری ہے ۔ جو اُس موقع پر زیرِ بحث آئے گی ۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ اور محب اس موضوع میں پوری دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اُمید ہے اور بھی ساتھی اس بحث میں ضرور شامل ہونگے ۔
 
نظریہ ‘مطالعہ نظام‘ امریکی مصنف ڈیوڈ ایسٹن David Easton نے 1953 میں پیش کیا۔ اس مکتبہ فکر کے حامی سیاسی موضوعات کا مطالعہ کرتے وقت پورے سیاسی نظام کا جائزہ لیتے ہیں ( یہ انتہائی اہم نکتہ ہے کیونکہ عموما جائزہ لیتے ہوئے لوگ پورے سیاسی نظام کا جائزہ نہیں لیتے اور چند چیزوں کو ہی پورا نظام سمجھ لیتے ہیں)۔ وہ سیاسی نظام کی ساخت ، کارکردگی اور نوعیت کا تجزیہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ ڈیوڈ ایسٹن نے اپنی کتاب “The Political System“ میں سیاسی نظام کا ماڈل پیش کیا اور وضاحت کی کہ سیاسی نظام معاشرہ میں تمام اہم سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس لیے اس نے سیاسی تجزیہ کے لیے حکومتی نظام کی بجائے سیاسی نظام کو ہی بنیاد قرار دیا۔

سیاسی نظام کی خصوصیات ؛
اس نظریہ کی رو سے ہر سیاسی نظام مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔

۱۔ ساخت: ہر سیاسی نظام اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے ایک ایسا ڈھانچہ ترتیب دیتا ہے۔ جو اس کی معاشی ، سماجی اور تہذیبی روایات سے مطابقت رکھتا ہو تاکہ اسکی اپنی صورت برقرار رہے۔
۲۔ سیاسی اقدار: ہر سیاسی نظام بعض مخصوص سیاسی اقدار Political Values کو نمایاں کرتا ہے جو اس کے مخصوص مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
۳۔ ذیلی نظام : ہر سیاسی نظام کئی ذیلی نظاموں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک مربوط صورت میں اپنی سرگرمیاں اختیار کرتے ہیں۔
۴۔ فرائض کی ادائیگی : ہر سیاسی نظام کچھ فرائض سر انجام دیتا ہے ۔ اس ضمن میں وہ کچھ بنیادی سیاسی فیصلے کرتا ہے جو اس کی پالیسی اور قوانین کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
۵۔ رائے عامہ : سیاسی نظام کو پالیسی وضع کرتے وقت رائے عامہ اور اس کے رجحان کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے چنانچہ مختلف ادارے عوامی مطالبات کو مرتب شکل میں پیش کرتے ہیں جو اس نظام کی پالیسی کی بنیاد بنتے ہیں۔

سیاسی نظام کی تعریف :
ڈیوڈ ایسٹن نے سیاسی نظام کی تعریف یوں کی ہے:۔
٬ کسی معاشرہ میں باہمی عمل کا ایسا نظام جس کے ذریعے معاملات بااختیار طریقے سے طے کئے جاتے ہیں۔ ٬

اس تعریف کی رو سے سیاسی نظام کا تعلق محض حکومتی اداروں سے نہیں ہوتا بلکہ پالیسی کی تشکیل اور سیاسی فیصلہ سازی سے متعلق تمام امور اسکے دائرہ کار میں شامل ہیں۔

فیصلہ سازی : ایسٹن کے نزدیک ہر سیاسی نظام کو فیصلہ سازی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ عمل اس کی روح کی حیثیت رکھتا ہے جو مندرجہ ذیل مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔

فیصلہ سازی کے مراحل :
مسائل : سب سے پہلے معاشرہ کے اندر بعض مسائل جنم لیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ مسائل شدت اختیار کر لیتے ہیں اور عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
مطالبات : جب مسائل کا دباؤ اور شدت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو ان کی اہمیت کا جائزہ لے کر سیاسی جماعتیں ، مفاداتی گروہ یا منظم طبقے انہیں ٹھوس مطالبات کے قالب میں ڈھال لیتے ہیں۔ ان کی تشہیر کرتے ہیں اور انہیں تسلیم کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں۔
انضباطی نظام : عوامی مطالبات کو مروجہ ضابطے کی حدود میں پابند رکھنے اور انہیں مرتب شدہ صورت میں پیش کرنے کے لیے معاشرے میں ایک انضباطی نظام کارفرما ہوتا ہے۔ یہ نظام سیاسی جماعتوں ، مفاداتی گروہوں اور روایات کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ امور ذرائع ابلاغ بھی اسے حدود کا پابند بنانے میں اپنا کردار انجام دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کے اداروں کے ساتھ باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے بھی انہیں اپنی حدود کے اندر رکھا جاتا ہے۔
سیاسی فیصلے : ہر سیاسی نظام اپنے آپ کو معاشرے کے مسائل اور مطالبات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس ضمن میں وہ اہم سیاسی فیصلے کرتا ہے اور مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں قانونی شکل عطا کرتا ہے۔
فیصلے کا رد عمل: بعض اوقات سیاسی فیصلوں پر رد عمل ظاہر ہوتے ہیں اور اس سے کئی دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس طرح مطالبات کا ایک طویل سلسلہ چلتا ہے۔ ہر سیاسی نظام ان اثرات کا جائزہ لیتا ہے اور مزید فیصلے کرتا ہے تاکہ معاشرے میں اطمینان کی صورت پیدا ہو۔
فرائض کی بجاآوری : ہر سیاسی نظام کی بہتری کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی فیصلوں کے ذریعے اپنی پالیسی اور عوامی مطالبات میں کیسے یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ یہی اس کے حسن کارکردگی کی کسوٹی ہے اور اسی کارکردگی کی بنا پر اسے استحکام حاصل ہوتا ہے۔


تبصرہ :
ڈیوڈ ایسٹن نے علم سیاسیات میں تحقیق اور جستجو کا ایک نیا اسلوب پیش کیا ہے ۔ اس نے فیصلہ سازی اور اسے متعلقہ عوامل کے ذریعے مطالعہ کے نئے موضوعات تلاش کئے ہیں اب علم سیاسیات کا مطالعہ محض حکومتی اداروں اور سیاسی نظریات تک محدود نہیں رہا۔ اس سے مزید وسعت پیدا ہوئی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
نظریہ ریاست کی مزید قسطوں کا انتظار ہے۔
معافی چاہوں گا کہ کچھ مصروفیات کی وجہ سے کچھ دن محفل سے غیر حاضر رہا ۔ امید ہے آپ سمیت دیگر دوستوں نے بھی برا نہیں‌ منایا ہوگا ۔چلیئے وہیں سے سلسلہ جوڑتے ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
انیسویں صدی کو مغرب میں ایج آف آئیڈلوجی کہا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے مفکرین جنہوں نے مغرب کو متاثر کیا وہ اسی صدی میں پیدا ہوئے ۔ بیسویں صدی کو اگر ہم دیکھیں تو اسلامی فکر اس صدی میں نمایاں ہے اور اسی اعتبار سے ہم اسے ایج آف آئیدلوجی کہہ سکتے ہیں ۔ مسلمان مفکرین دنیا بھر میں پیدا ہوئے اور خاص طور پر اجتماعیت کی تشکیل کی ضمن میں اسلامی فکر ارتقاء کے بہت سے مراحل سے گذری ۔ اس دوران نظریے اور سیاست کا بنیادی تعلق مسلمان معاشروں میں بہت شدت کے ساتھ زیرِ بحث آیا ۔ اور مسلم اہلِ علم نے اس پر بہت قابلِ قدر کام کیا ۔ عملاً بھی ہم نے بیسویں صدی میں بہت سے تجربات کیئے ۔ اور آج بھی ہم اس نوعیت کے مباحث کا سامنا کرتے ہیں ۔ جن سے ہم گذر رہے ہیں کہ ایک ریاست کی تشکیل میں ایک نظریے کا بنیادی کردار کیا ہے ۔ اور جب مسلمان معاشرہ ایک ریاست بناتا ہے تو اس کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں ۔

جب ہم ریاست اور نظریے کے باہمی تعلق کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس میں ضمن میں جو تجربہ بیسویں صدی میں سویت یونین کی شکل میں ہمارے سامنے ہوا ۔ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سویت یونین کی ناکامی کی اصل وجہ نظریہ کی بنیاد ہے ۔ اور یہ کہ بھی نظریے اور ریاست کو باہم مجتمع رکھنے کا بھی ایک ناگزیر نتیجہ ہے ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔سویت یونین کی ناکامی کا سبب ان کے نظریے میں نہیں ہے بلکہ نظریے کو معاشرتی قدر بنانے میں ہے ۔ انہوں نے فلاح کو آزادی کے ساتھ جمع کرنے میں ناکامی حاصل کی ۔انہوں نے بہت سے بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کیا ۔ جن کے بغیر انسانی زندگی کا گذارہ ناممکن ہے ۔ مثال کے طور جیسے آزادی چاہے وہ ڈسپلن آزادی ہو لیکن اس آزادی کو اگر کوئی نظریہ اپنی حالتِ نفاذ میں فراہم نہیں کرتا تو وہ نظریہ اس معاشرے میں اپنی موجودگی کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ تو سویت یونین کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے کہ انہوں نے نظریے کو جبر بنا دیا ۔ اگرچہ انہوں نے فلاحی ریاست بنانے میں غالباً جدید دنیا میں پہلی کامیابی حاصل کی ۔ اس کے علاوہ ترقی یعنی ریاست کے مضبوط ہونے اور ترقی یافتہ ہونے کے بعض جو مظاہر ہیں اس میں بھی سویت یونین نے Capitalist West سے پنجہ کشی کر کے دکھائی اور بہت سے اُمور مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی میں اگر ویسٹ سےآگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں رہے ۔ اسی طرح طاقت جو ریاست کا ایک بڑا ستون ہے اس کی فراہمی میں بھی وہ ناکام نہیں رہے ۔ میرے خیال میں سویت یونین کی ناکامی کی بنیادی وجوہات یہ ہیں ۔

  • وہ نظریے کو نظریہِ راحت نہ بنا سکے بلکہ انہوں نے نظریے کو جبر بنا دیا ۔
  • ۔ ان کا نظریہ ریاستی اصطلاح میں ایک مفہوم پانے کے باوجود اپنے اہل ترجمانوں سے محروم رہا ۔
  • ۔ ہر نظریہ اپنے ساتھ اختلاف رکھنے کا حق دیتا ہے ایک میدان فراہم کرتا ہے مگر انہوں نے اس کو بھی ختم کردیا ۔
  • ۔ وہ جس شیطانی نظام (Capitalism ) سے لڑ رہے تھے ۔ جو بلاشبہ مذہبی اور انسانی دونوں اصطلاح میں شیطانی نظام ہے ۔ انہوں نے اس نظام کو اپنے عوام کے لیئے پُرکشش بنا دیا ۔

مگر یہ ان کی نظریاتی ناکامی نہیں ہے ۔ ریاست نظریہ پر منحصر نہیں ہے ۔ ریاست ایک عارضی ادارہ ہے ۔ ان کا نظریہ اپنی موجودگی کے عالمی مظاہر رکھتا ہے ۔ حتیٰ کہ Capitalist west کے شوشل نظام میں بہت ساری ترمیمیں نہ آتیں اگر کارل مارکس نہیں ہوتا ۔


Capitalism Society بھی ایک نظریے پر کھڑی ہے ۔ لیکن اس نے صلاحیت کا ایک یہ مظاہرہ کیا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیوں کو بھی جگہ دی یعنی اس طرح اس نظریے نے ایک ارتقاء کا مظاہرہ کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ نظریہ بنیادی طور پر مستقل نوعیت کی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ وقت کے ساتھ وہ بدلتا رہتا ہے بلکہ بدلنا بھی چاہیئے ۔ اگر کوئی آئیڈیل ریاست ہے تو اس کا یہ فرض ہوگا کہ نفع حاصل کرنے کی جو بھی انفرادی خواہشیں ہیں اس کی اجتماعیت کے ساتھ ایسی مطابقت پیدا کرے کہ انفرادی حدودوں کوکوئی نقصان نہ پہنچے ۔
 
Capitalism Society بھی ایک نظریے پر کھڑی ہے ۔ لیکن اس نے صلاحیت کا ایک یہ مظاہرہ کیا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیوں کو بھی جگہ دی یعنی اس طرح اس نظریے نے ایک ارتقاء کا مظاہرہ کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ نظریہ بنیادی طور پر مستقل نوعیت کی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ وقت کے ساتھ وہ بدلتا رہتا ہے بلکہ بدلنا بھی چاہیئے ۔ اگر کوئی آئیڈیل ریاست ہے تو اس کا یہ فرض ہوگا کہ نفع حاصل کرنے کی جو بھی انفرادی خواہشیں ہیں اس کی اجتماعیت کے ساتھ ایسی مطابقت پیدا کرے کہ انفرادی حدودوں کوکوئی نقصان نہ پہنچے ۔

درست فرمایا آپ نے، کہ نظریہ Dogmatic نہ ہو اور Pragmatic رہے۔ گویا، Mutual Consultation یا باہمی مشاورت جو کہ ریاست کے ہر عضو کے ساتھ ہو، جس میں بلا واسطہ ڈایئریکٹ جزو، جیسے Secretary' Offices یا ان ڈایریکٹ بلواسطہ جزو، جیسے کارپوریشنز کا مسلسل فیڈ بیک، مانیٹرنگ اور ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ تاکہ باہمی مشاورت سے نظریہ میں مسلسل تبدیلی کے نتیجے میں، نفع اور خوشی حاسل کرنے کی انفرادی و اجتماعی کوششوں کو بقاٌ اور عروج دونوں حاصل ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ ارتقاء کے ان مراحل میں بنیادی نظریہ " نظریہ خوشی، فلاح اور حفاظت" نہ کھو جائے۔

صاحبو، آپ کے خیالات کا انتظار رہے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
پاکستان کے حوالے سے جب ہم بات کرتے ہیں تو پاکستان کا نظریہ جس کی بنیاد ہی جمہوریت پر تھی ۔ جو برو ئے کار ہی جمہوری عمل کے ذریعے سے آیا اور ہم نے اس کو ایک آئینی شکل دی ۔ جس کا مقصد ہماری اجتماعی صورت گری کرنا ہے تو اس میں ہماری جمہوریت اور سیاسی آزادیاں کی اہمیت ایک بنیادی جُز بن گئیں ۔ قراردادِ مقاصد میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ وہ اقدار کے ہیں کہ وہ جو پاکستان کے رہنے والے ہیں ان کی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اسلامی اقدار کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں ۔

پاکستان ایک جہموری تجربہ ہے ۔ جمہوریت میں جو منبع ِ اختیار ہے وہ عوام ہیں ۔ جبکہ اسلامی نظام میں وہ اختیار ایک الہامی ہدایت ہے ۔ تو کیا ایک اسلامی ریاست میں ایک جمہوری ریاست بن سکتی ہے ۔ ؟ جب ایک اسلامی معاشرے میں ہم نفاذِ اسلام کی بات کرتے ہیں یا اسلام کے قانونی نفاذ کے تناظر ہم ریاست لانا چاہتے ہیں تو کیا اس عمل کے نتیجے میں جبر وجود نہیں آئے گا جو اس کے ارتقاء کے نتیجے میں اثرانداز ہوگا ۔؟

اس حوالے سے دراصل اب ہم کو دو قومی نظریے کی تفہیمِ نو کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ جس طرح ہم نے 1947 میں دو قومی نظریئے کوDefined کیا تھا مگر اب ہم پاکستان بننے کے بعد اس طرح سے ڈیفائن نہیں کر پائیں گے ۔ دو قومی نظریہ اب کوئی ریفرینس رہ نہیں گیا ہے ۔ دو قومی نظریہ آزادی کا سبب بنا تھا اب آزادی کے بعد ہمیں ایک نئی سوشل تھیوری بنانی چاہیئے ۔ اب دو قومی نظریہ ہماری سوشل تھیوری نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر یہ دو قومی نظریئے اگر اب کہیں سے اٹھے گا تو وہ اقلیتیوں کی جانب سے اٹھے گا ۔ دو قومی نظریہ ہمارا بحثیت اقلیت کے ایک سیاسی اور مذہبی موقف تھا۔ جو ہم نے بخیرو خووبی حاصل کر لیا ۔

جب ہم پاکستان میں نفاذِ اسلام کی بات کرتے ہیں ، نظریئے اور ریاست کے بنیادی تعلق کے حوالے سے تو عام طور پر ہم کچھ قوانین کے نفاذ کی بات کرتے ہیں ۔ اگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست بنے تو پہلے وہ اقدار پیدا کیئے جائیں ۔ جس کے نتیجے میں اسلامی ریاست وجود میں آئے ۔کیونکہ ریاست معاشرے کا ایک فعال عنصر ہے مگر اصولی بات یہ ہے کہ معاشرہ ریاست کو پیدا کرتا ہے ۔ معاشرہ بیمار ہے تو ریاست بیمار ہے اور اگر معاشرہ صحت مند ہے تو ریاست صحت مند ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ ایک غلط فہمی جو ریاستی اور معاشرتی پر تنقید کرتے ہوئے پیدا ہوجاتی ہے کہ نظریہ ایک مستقل آئیڈل ہے جس کی Actualisation کبھی کامل نہیں ہوسکتی ۔ یعنی کامل معاشرہ وہیں ہوگا جس کے افراد کامل ہونگے ۔ ایسے معاشرے کا وجود محال ہے ۔ اور نہ ہی یہ کسی نظریے کا متحمل ِ نظر ہے ۔ یعنی کامل اور بلانقص معاشرہ پیدا کرنا ۔ ہمارے ساتھ جو مشکل درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آئیڈل کی طرف جو پیش قدمی کرتے ہیں وہ عملی سے زیادہ خیالی ہے ۔ اگر اس میں ترتیب قائم کرنا ناگزیر ہوجائے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دین Systematized ہونے نہیں بلکہ Culturized ہونے آیا ہے ۔ اس کی اصل شکل Culturized اصطلاح میں ہے ، organiztion set up میں نہیں ہے ۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سیاسی یا معاشی نظام ہے تو یہ تصور غلط ہے ۔ کیونکہ جب ہم ریاست کی بات کریں گے تو ریاست ایک Intentity organiztion ہے ۔ تو دین اپنی آخری manifestation. کو organiztion نہیں رکھتا ۔
دین میں مطلوبہ manifestation. کلچرل ہے ۔ Civilisational ہے ۔ اور ہم اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔
 
دو قومی نظریہ ہمارا بحثیت اقلیت کے ایک سیاسی اور مذہبی موقف تھا۔ جو ہم نے بخیرو خووبی حاصل کر لیا ۔

درست، یہ ہدف یا گول ہم نے 23 مارچ 1940 کو قائم کیا اور 14 اگست 1947 کو یہ ہدف پورا ہوگیا۔ اب ہمارے پاس کوئی نیا ہدف نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ مکمل طور پر ڈیفائینڈ نہیں‌ ہے۔
 
پاکستان ایک جہموری تجربہ ہے ۔ جمہوریت میں جو منبع ِ اختیار ہے وہ عوام ہیں ۔ جبکہ اسلامی نظام میں وہ اختیار ایک الہامی ہدایت ہے ۔ تو کیا ایک اسلامی ریاست میں ایک جمہوری ریاست بن سکتی ہے ۔ ؟ جب ایک اسلامی معاشرے میں ہم نفاذِ اسلام کی بات کرتے ہیں یا اسلام کے قانونی نفاذ کے تناظر ہم ریاست لانا چاہتے ہیں تو کیا اس عمل کے نتیجے میں جبر وجود نہیں آئے گا جو اس کے ارتقاء کے نتیجے میں اثرانداز ہوگا ۔؟

کیا اس عمل کے نتیجے میں جبر وجود نہیں آئے گا جو اس کے ارتقاء کے نتیجے میں اثرانداز ہوگا ۔؟
بہت خوبصورت خیالات ہیں اور بہت ہی اچھا سوال، اس سوال کا جواب چھوٹا نہیں۔
اس سلسلے میں جبر ضرور وجود میں آئے گا اور جبر موجود تھا جب یہ نظام تقریباَ 500-600 سال تک برصضیر پاک ہند میں چلا۔ لیکن اس نظام کا ماخذ بنیادی طور پر قرآن نہیں تھا،
جبر کیسے پیدا ہوا اور کیا نتائج نکلے، دیکھئے: یہ تجربہ ایک ناکام تجربہ تھا۔ اس کا ماخذ روایتی اصول اور کچھ سزائیں تھیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8124

میں سمجھتا ہوں کے قران کی الہامی ہدایت، باقاعدہ طور پر ایکسٹینڈ ہوتی ہے، باہمی مشاورت کے اصولوں میں۔ اس طرح الہامی ہدایت لمیٹڈ ہے، اگر آپ درج ذیل آرٹیکل دیکھئے تو مزید میرا مؤقف سمجھنے میں‌ آسانی ہوگی۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7570

مزید روشنی ان خیالات کے اظہار پر اس آرٹیکل سے پڑے گی۔کہ یہ ایک کامیاب تجربہ رہا ہے : اور اس تجربہ کے نظریات اور ان نظریات کے اصولوں میں اور مندرجہ بالا اصولوں‌میں حد درجہ مشابہت نظر آتی ہے۔
http://www.openburhan.net/usconst.htm
 

ظفری

لائبریرین
نظریہ ایک مستقل چیز ہے اور ریاست اس کوAcheaved کرتی ہے نظریہ ایک مستقل قدر ہے جو ہر دور میں باقی رہتا ہے ۔
Metanarrative ہر معاشرہ رکھتی ہے کوئی بھی ریاست جو اس معاشرے میں قائم ہوگی ۔ وہ اس Metanarrative کے خلاف نہیں جاسکتی ۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ Metanarrative اپنا ذاتی مظاہر بھی رکھتا ہے کہ نہیں اور ایسا بھی انسانی دنیا میں ہونا ناممکن ہے کہ معاشرے کی کوئی قدرِ اعلیٰ اس معاشرے میں بسنے والے تمام افراد پر عائد اور وارد ہوسکے ۔ ان دو چیزوں میں فرق ہونا چاہیئے ۔ ایک تو یہی کہ ایک نظریاتی قوت جو ریاست کی ہے ۔ وہ اس نظریے سے مناسبت نہ رکھنے والے مظاہر کی آیباری میں بھی استعمال ہونی چاہیئے ۔ اگر ہم نظریے کو صرف قانون کے معنی لیں گے تو ہم یہ ہدف حاصل نہیں کرسکتے ۔ میری نظریاتی قوت ایک ریاست کی حیثیت اس اس شخص کی آیباری میں بھی اس کی فلاح کے لیئے صرف ہونی چاہیئے جو میری نظریاتی اساس سے متصادم یا ایک مختلف ر خ کھڑا ہے ۔ اس کو جدید اصطلاح میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ :
” انسانی معاشرہ کلچر اور اسٹیٹ دونوں سطحوں پر حتیٰ کہ ذاتی سطح پر بھی Metanarrative سے خالی نہیں ہوتا ۔ اور Metanarrative کی تشکیل ہی استقلال کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ اگر وہ مستقل ہوتا ہے تو رہے گا ورنہ اپنی جگہ چھوڑ جائے گا ۔"
مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست کا جو تعلق ہے وہ غالباً ایک آئیڈل سطح پر کوئی چیز اگر Actualized ہوسکتی ہے ۔ تو وہ ہم مسلمانوں نے صدیوں Acheaved کر کے اور نافذ کر کے یعنی معاشرتی اصطلاح میں موجود رکھ کر دکھایا ہے ۔ ہمارا جو معاشرتی ڈھانچہ تھا کہ ایک طرف دربار ، ایک طرف خانقاہ ایک طرف مدارس اور ایک طرف عوام ہیں ۔ ہم نے ان کے درمیان ایک قابلِ عمل Blend دریافت کر کے دکھایا ہے ۔ جو آئیڈیل نہ سہی مگر Social Activities کے قیام کے لیئے ضروری ہوتی ہے ۔
ہم ریاست کے حوالے سے پاکستان کی طرف آتے ہیں تو ہم یہ جانتے ہیں کہ ریاست کی جو ذمہ داری ہے اس کا تعلق قانون کے نفاذ سے ہے ۔قانون سازی سے ہے ۔ ہم نے قانون سازی کا جوعمل کیا مثلاً حدودِ نفاذ کے لیئے پارلمینٹ نے جو بل منظور کیا وہ کم بیش ہر مذہبی جماعت نے ماننے سے انکار کردیا ۔ قانون سازی کا عمل ایک حقیقی ریاست کے بغیر ناممکن ہے اور ہم ویسے بھی ابھی تک حقیقی پارلیمنٹ بنانے میں ہی کامیاب نہیں سکے ہیں ۔ یہ بات واضع ہونی چاہیئے کہ اسلام قانون کا نام نہیں ہے ۔ یعنی اگر آپ یہ کہیں کہ کسی چور کے ہاتھ کاٹنے ہیں ، کسی شرابی کو کوڑے مارنے ہیں یا زانی کو یہ سزائیں دینی ہیں تو اسلام نافذ ہوگیا ۔ یعنی کسی مجموعہِ تعزیرات کا نفاذ اسلا م کا نفاذ نہیں ہے ۔ اسلام اس سے بھی بہت اعلیٰ و ارفع چیز ہے ۔ اصل چیز ہے ایک کلچر اور اقدار پیدا کرنا ہے ۔اور ہم نے دین کی جو تعبیر دی ہے اس میں ایک نظام اور قانون کی شکل میں پیش کیا ۔ اس سے نقصان یہ ہو کہ ہم وہ اقدار پیدا نہیں کر سکے لیکن وہ قانون بھی وہ نتائج نہیں دیکھ سکا جو معاشرے کی تشکیل میں دکھانے چاہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
بہت اچھی بات ہے کہ فاروق صاحب آپ بھی اس وقت موجود ہیں اور میری پوسٹ پر نہ صرف اپنی آراء دے رہے ہیں بلکہ اس ٹاپک پر اور بھی مفید معلوماتی اضافہ کر رہے ہیں ۔ میں ابھی آپ ہی کے پوسٹ کیئے ہوئے ٹاپکس دیکھ رہا ہوں ۔ جبر کے حوالے سے اور ملائیت پر آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ بلاشبہ ستائش کے قابل ہے ۔ ملائیت بھی ایک نظام ہے اس کو بہت احتیاط سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں میں اس نے ہمارے معاشرے کو اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ ہم اس کا احاطہ کر سکیں ۔ اور جنہوں نے کوشش کی وہ فتوؤں کی زد میں آئے ۔
میں انشاءاللہ جلد ہی تمام پوسٹیں پڑھکر کی اپنی ناقص رائے دینے کی کوشش کروں‌گا ۔
 
ظفری صاحب آپ انتہائی خوبصورت لکھ رہے ہیں۔ میں معترف ہوں آپ کے زاویہ نگاہ کا اور معلومات کا۔ آپ کی تحاریر سے یقین ہے کہ ایک جدید ترین نظریہ ریاست جو کہ ہماری قوم کا ہدف ہونا چاہئے، سامنے آئے گا۔ یعنی ایک نیا اقبال، ایک نیا چودھری رحمت علی !
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔​
 

رضوان

محفلین
بہت اچھی بات ہے کہ فاروق صاحب آپ بھی اس وقت موجود ہیں اور میری پوسٹ پر نہ صرف اپنی آراء دے رہے ہیں بلکہ اس ٹاپک پر اور بھی مفید معلوماتی اضافہ کر رہے ہیں ۔ میں ابھی آپ ہی کے پوسٹ کیئے ہوئے ٹاپکس دیکھ رہا ہوں ۔ جبر کے حوالے سے اور ملائیت پر آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ بلاشبہ ستائش کے قابل ہے ۔ ملائیت بھی ایک نظام ہے اس کو بہت احتیاط سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں میں اس نے ہمارے معاشرے کو اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ ہم اس کا احاطہ کر سکیں ۔ اور جنہوں نے کوشش کی وہ فتوؤں کی زد میں آئے ۔
میں انشاءاللہ جلد ہی تمام پوسٹیں پڑھکر کی اپنی ناقص رائے دینے کی کوشش کروں‌گا ۔
ظفری آپکی رائے ناقص نہیں بلکہ بہت ہی صائب ہے۔ آپکی تحریر ایک محب الوطن پاکستانی کی دل کی آواز لگتی ہے جسے کسی پارٹی کسی گٹھ جوڑ سے مطلب نہیں فقط اپنی قوم کا درد ہے۔ ایسا شخص جو فکری و نظریاتی مسائل پر بے لاگ انداز مگر دردمندی سے اپنے خیالات کا اظہار کرے اس کی تحریر سکہ بند بقراطوں سے ہمیشہ ہی بھاری رہتی ہے جن کا کام ہی اپنے دیوتاؤں کے ہر اچھے برے قدم کی تاویلیں پیش کرنا ہوتا ہے۔
 
انیسویں صدی کو مغرب میں ایج آف آئیڈلوجی کہا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے مفکرین جنہوں نے مغرب کو متاثر کیا وہ اسی صدی میں پیدا ہوئے ۔ بیسویں صدی کو اگر ہم دیکھیں تو اسلامی فکر اس صدی میں نمایاں ہے اور اسی اعتبار سے ہم اسے ایج آف آئیدلوجی کہہ سکتے ہیں ۔ مسلمان مفکرین دنیا بھر میں پیدا ہوئے اور خاص طور پر اجتماعیت کی تشکیل کی ضمن میں اسلامی فکر ارتقاء کے بہت سے مراحل سے گذری ۔ اس دوران نظریے اور سیاست کا بنیادی تعلق مسلمان معاشروں میں بہت شدت کے ساتھ زیرِ بحث آیا ۔ اور مسلم اہلِ علم نے اس پر بہت قابلِ قدر کام کیا ۔ عملاً بھی ہم نے بیسویں صدی میں بہت سے تجربات کیئے ۔ اور آج بھی ہم اس نوعیت کے مباحث کا سامنا کرتے ہیں ۔ جن سے ہم گذر رہے ہیں کہ ایک ریاست کی تشکیل میں ایک نظریے کا بنیادی کردار کیا ہے ۔ اور جب مسلمان معاشرہ ایک ریاست بناتا ہے تو اس کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں ۔

جب ہم ریاست اور نظریے کے باہمی تعلق کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس میں ضمن میں جو تجربہ بیسویں صدی میں سویت یونین کی شکل میں ہمارے سامنے ہوا ۔ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سویت یونین کی ناکامی کی اصل وجہ نظریہ کی بنیاد ہے ۔ اور یہ کہ بھی نظریے اور ریاست کو باہم مجتمع رکھنے کا بھی ایک ناگزیر نتیجہ ہے ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔سویت یونین کی ناکامی کا سبب ان کے نظریے میں نہیں ہے بلکہ نظریے کو معاشرتی قدر بنانے میں ہے ۔ انہوں نے فلاح کو آزادی کے ساتھ جمع کرنے میں ناکامی حاصل کی ۔انہوں نے بہت سے بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کیا ۔ جن کے بغیر انسانی زندگی کا گذارہ ناممکن ہے ۔ مثال کے طور جیسے آزادی چاہے وہ ڈسپلن آزادی ہو لیکن اس آزادی کو اگر کوئی نظریہ اپنی حالتِ نفاذ میں فراہم نہیں کرتا تو وہ نظریہ اس معاشرے میں اپنی موجودگی کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ تو سویت یونین کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے کہ انہوں نے نظریے کو جبر بنا دیا ۔ اگرچہ انہوں نے فلاحی ریاست بنانے میں غالباً جدید دنیا میں پہلی کامیابی حاصل کی ۔ اس کے علاوہ ترقی یعنی ریاست کے مضبوط ہونے اور ترقی یافتہ ہونے کے بعض جو مظاہر ہیں اس میں بھی سویت یونین نے Capitalist West سے پنجہ کشی کر کے دکھائی اور بہت سے اُمور مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی میں اگر ویسٹ سےآگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں رہے ۔ اسی طرح طاقت جو ریاست کا ایک بڑا ستون ہے اس کی فراہمی میں بھی وہ ناکام نہیں رہے ۔ میرے خیال میں سویت یونین کی ناکامی کی بنیادی وجوہات یہ ہیں ۔

  • وہ نظریے کو نظریہِ راحت نہ بنا سکے بلکہ انہوں نے نظریے کو جبر بنا دیا ۔
  • ۔ ان کا نظریہ ریاستی اصطلاح میں ایک مفہوم پانے کے باوجود اپنے اہل ترجمانوں سے محروم رہا ۔
  • ۔ ہر نظریہ اپنے ساتھ اختلاف رکھنے کا حق دیتا ہے ایک میدان فراہم کرتا ہے مگر انہوں نے اس کو بھی ختم کردیا ۔
  • ۔ وہ جس شیطانی نظام (Capitalism ) سے لڑ رہے تھے ۔ جو بلاشبہ مذہبی اور انسانی دونوں اصطلاح میں شیطانی نظام ہے ۔ انہوں نے اس نظام کو اپنے عوام کے لیئے پُرکشش بنا دیا ۔

مگر یہ ان کی نظریاتی ناکامی نہیں ہے ۔ ریاست نظریہ پر منحصر نہیں ہے ۔ ریاست ایک عارضی ادارہ ہے ۔ ان کا نظریہ اپنی موجودگی کے عالمی مظاہر رکھتا ہے ۔ حتیٰ کہ Capitalist west کے شوشل نظام میں بہت ساری ترمیمیں نہ آتیں اگر کارل مارکس نہیں ہوتا ۔


Capitalism Society بھی ایک نظریے پر کھڑی ہے ۔ لیکن اس نے صلاحیت کا ایک یہ مظاہرہ کیا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیوں کو بھی جگہ دی یعنی اس طرح اس نظریے نے ایک ارتقاء کا مظاہرہ کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ نظریہ بنیادی طور پر مستقل نوعیت کی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ وقت کے ساتھ وہ بدلتا رہتا ہے بلکہ بدلنا بھی چاہیئے ۔ اگر کوئی آئیڈیل ریاست ہے تو اس کا یہ فرض ہوگا کہ نفع حاصل کرنے کی جو بھی انفرادی خواہشیں ہیں اس کی اجتماعیت کے ساتھ ایسی مطابقت پیدا کرے کہ انفرادی حدودوں کوکوئی نقصان نہ پہنچے ۔

ظفری کیا اس پوسٹ کو الگ کرکے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک الگ موضوع نہ بنا لیا جائے جس میں گہرائی میں جا کر صرف اسی نظام کا مطالعہ کیا جائے اور اس کا موازنہ دوسرے نظاموں سے کیا جائے۔ چونکہ اب گفتگو پھیلتی جا رہی ہے اور مجھے یقین ہے جیسے جیسے ہم گفتگو کو آگے بڑھائیں گے گفتگو مزید پھیلے گی اور ہمیں الگ الگ دھاگے کھولنے پڑیں گے ۔ صارفین اور اپنی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم ان دھاگوں کو وقتا فوقتا آگے بڑھائیں گے جیسے میں نے دیکھا کہ تم نے ایک اور دھاگہ بھی شروع کر دیاہے ویسے پاکستان پر بات کرنے سے پہلے ہم ریاست ، نظریات اور سیاسی نظام کی اساس پر زیادہ گفتگو نہ کر لیں کیونکہ پاکستان کے حوالے سے بات شروع ہو گئی تو شاید پھر ان موضوعات کی طرف ہم واپس نہ آ سکیں۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری صاحب آپ انتہائی خوبصورت لکھ رہے ہیں۔ میں معترف ہوں آپ کے زاویہ نگاہ کا اور معلومات کا۔ آپ کی تحاریر سے یقین ہے کہ ایک جدید ترین نظریہ ریاست جو کہ ہماری قوم کا ہدف ہونا چاہئے، سامنے آئے گا۔ یعنی ایک نیا اقبال، ایک نیا چودھری رحمت علی !
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔​

میں کوشش کر رہا ہوں کہ ہم آغاز سے ان اہم امور کی بارے میں جانکنی حاصل کریں اور سمجھیں کہ نظریہ ، ریاست ، آئین اور قانون کیا چیزیں ہیں ۔ پہلے ان کو سمجھنا ضروری ہے اور ان سب کا آپس میں باہمی تعلق بھی دیکھنا ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ آپس میں مل کر کسطرح عمل پیرا ہوتیں ہیں ۔ اس لیئے میں کوشش کر رہا ہوں کہ ہر پڑھنے والے کو کہیں الجھن محسوس نہ ہو ۔ کوئی تشنگی نہ رہے ۔ جب ان اہم موضوعات پر کوئی ابہام نہ رہے اور اس طرف یکسوئی حاصل ہوجائے تو میں پھر آئین سازی اور قانون سازی کی طرف بڑھوں تاکہ ان کے اطلاق پر جو الجھیں پیدا ہوں وہ آسانی سے بحث کرکے ختم کر لی جائیں ۔ اسی لیئے میں‌ نے آغاز میں نظریہ کو ریاست کے لیئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے اب پاکستان نے تاریخی اور سیاسی پس منظر پر گفتگو شروع کی ہے ۔ تاکہ جب ہم اپنے ہدف تک پہنچے تو آئین سازی اور قانون سازی کی پیچدگیوں کو سمجھنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اس لیئے میں نے بہت محتاط انداز سے اس موضوع پر کچھ لکھنا شروع کیا ہے کہ بات اپنے ملک کی ہے اس لیئے مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو کسی بدمزگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ خندہ دلی سے ان زمینی حقائق کو تسلیم کر کے مثبت انداز سے کسی بحث کا آغاز کر سکیں ۔

میں آپ سمیت تمام دوستو کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس طرف متوجہ ہورہے ہیں ۔ سب دوستو کو پوری اجازت ہے کہ وہ اس موضوع پر اپنی بھی رائے کیساتھ کوئی مفید معلومات یہاں شئیر کر سکتے ہیں ۔
 
Top