محب کی فرمائش پر اس دھاگے کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ جس پر ہم بلترتیب ریاست اور نظریہ کے آپس میں بنیادی تعلق پر بحث کریں گے ۔ اور پھر انہی خطوط پر اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے نظریہ اسلام کو پاکستان کی ریاست پر لاگو کرنے کے لیے اپنی دلیلیں ، اپنی اپنی آراء اور معلومات کی روشنی میں کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔ امید ہے کہ یار دوست اپنے علم اور معلومات کے ذریعے اس دھاگے کو اس کے اصل ماخذ تک پہنچانے میں مدد فرمائیں گے ۔
ریاست اور نظریہ
قدیم یونان سے جدید دور تک انسان نے جو تجربات کیئے ہیں وہ ریاست سے متعلق ان کی کسی نظریات کی مختلف صورتوں میں نمود اور اظہار ہے ۔ ظاہر ہے مسلمان معاشرے بھی ان بحثوں سے خالی نہیں رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نظریے اور ان کی ریاست کا باہمی تعلق کیا ہونا چاہیئے ۔ اور مسلمان اس تعلق کو کس طرح دورِ جدید میں نبھاتے ہیں ۔؟ ۔ کیا کسی ریاست کو کسی نظریے کا تابع ہونا چاہیئے ۔ ؟ انسان کا جو فطری سفر ہے اس میں کیا کوئی نظریہ ایسا ہے جو ریاست کی تکمیل میں ناگزیر ہو ۔ ؟
اسی بات کو میں آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں اس بحث کا ایک ابتدائی خاکہ سامنے رکھتا ہوں ۔ تاکہ بحث نہ صرف آسان و فہم ہو بلکہ اپنی مرکزیت کی طرف بھی مرکوز رہے ۔
ریاست سوسائٹی کا ایک ناگزیر ادارہ ہے ۔ معاشرہ جن اقدار پر قائم ہے یا قائم رہنا چاہتا ہے ۔ ریاست ان اقدار کی استواری کے بہت ضروری وسائل فراہم کرتی ہے ۔ لہذا ریاست اسی نظریہ حیات یا اسی نظامِ اقدار کا ایک فعال عنصر ہوگی ۔ جس نظریے پر معاشرہ قائم ہے ۔ انسانوں میں ہیتِ اجتماعی وحدت اور ایک بامقصد یکسوئی ہمیشہ بامعنی ہوتی ہے ۔ یعنی کلچرل اقدار کو واجب العمل بنانا اور کلچر اساس کے ساتھ معاشرے کے تعلق کی تمام سطحوں کو بامعنی بنانا ، Protective بنانا ۔
یہ معاشرے کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو معاشرہ اپنے اندر موجود معاشرتی قوت سے پورا نہیں کرسکتا ۔ ۔ لہذا معاشرے کی اس ضرروت کی تکمیل کے لیئے ریاست کا ادارہ وجود میں آتا ہے جو کہ معاشرتی کُل کا ایک جُز ہے ۔
ریاست میں فوری فلاح پیدا کرنے کی قوت ہوتی ہے ۔ معاشرے کی ترکیبِ ہیت ہی ایسی ہوتی ہے یا انسانی اجتماعیت کے بعض اصول ایسے ہوتے ہیں کہ وہ فلاح کو اخلاقی معنی سے منقطع کرکے قبول نہیں کر سکتی ۔ معاشرہ اپنی ایک اخلاقی بناوٹ اور ایک اخلاقی تقاضا بھی رکھتا ہے ۔ اور ان پر پورا اترنے کے لیئے اُسے ریاست کی فیصلہ کن مدد کی ضرروت ہوتی ہے ۔ انسان میں فلاح کا تصور چیزوں کی افراط نہیں ہے ۔
نظریہ کوئی ریاستی قانون نہیں ہوتا ۔ نظریہ ایک معاشرتی حقیقت ہے ۔ یعنی معاشرہ نظریہ کو آئیڈلائز کرتا ہے ۔ اور ریاست اس کو ایکچولائز کرتی ہے ۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ معاشرے کے آئیڈلز کو عمل میں لانے کے موثر اسباب پیدا کرے ۔ انسانوں کی اجتماعیت کے اندر کوئی بھی نظریہ ایک لمحہ کے لیئے بھی پنپ نہیں سکتا جو اُس معاشرے میں موجود تنوع یا تضاد کو اپنے اندر سے خارج کردے ۔ ریاست کا نظریاتی کردار یہ ہے کہ اگر نظریہ تنوع کو قبول نہیں کرتا تو وہ انسانوں کے لیئے نہیں ہے ۔ ریاست نظریے کی آئیڈل حدوں کو متاثر نہیں کرتی ۔ اور اس کے بغیر انسان میں اجتماعیت کا کوئی بھی تصور خواہ وہ معاشرتی ہو ، ریاستی ہو کسی بھی سطح پر آج تک قائم نہیں ہوا ۔
ہر ریاست اور ہر معاشرے میں اپنے بنیادی نظریات کے خلاف قوتوں کو روکنے کا اپنا اپنا ایک مختلف نظام موجود ہے ۔ اور یہ نظام مغرب میں بھی موجود ہے اور بہت شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی Theory Of Revolution کی تردید کے لیئے ” سرکاری سطح " پر اجازت طلب کرے گا تو اس کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ہاں شاید Big Bang کے خلاف اجازت مل جائے اور اسی طرح جہموریت کے خلاف آپ نہیں جاسکتے ۔ تو ایسا نظام انسانی اجتماعیت کو انتشار سے بچانے کے لیئے معاون ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر میرا محدود نظریہ نہیں ہے تو میرا ہر نظریہ انتشار پر ختم ہوگا ۔ اور کسی معونیت کی تشکیل نہیں کر پائے گا ۔
ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے مذہب کو قانونی اصطلاحات میں اسیر کرکے ایک طاقت پر قائم رہ جانے والا نظام بنا کر پیش کیا ۔ ہمارا معاشرہ ہو یا ریاست ، اس نے دین کے احکامات کی اخلاقی روح کو اقدار بنانے کے بجائے دین کے احکام کو مجموعہِ قوانین بنا کر اس کو بلا لحاظ نافذ کردینے کا ایک تصور پال رکھا ہے ۔ جو ہمارے یہاں ریاست اور نظریے کے تعلق میں ایک تصنوع ، جبر اور ناکامی کا سبب بنا ہے ۔ جب ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اقدار پر مبنی کسی تصور کی بات کررہے ہیں بلکہ ہم قوانین پر ایک فکر کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں جس پر ہمارا تمام اصرار اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ قانین نافذ کر دیئے جائیں یا یہ حدودِ قوانین آجائیں تو اس سے فلاح آسکتی ہے لہذاٰ اس طرزَ عمل سے ریاست اور نظریہ کا جو بنیادی تعلق ہے وہ مجروع ہوجاتا ہے ۔ اسلام بنیادی طور پر اقدار پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قانون بھی بنے گا ۔ ناکہ قانون سازی کے ذریعے وہ ریاست یا سوسائٹی پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے ۔
ریاست اور نظریہ
قدیم یونان سے جدید دور تک انسان نے جو تجربات کیئے ہیں وہ ریاست سے متعلق ان کی کسی نظریات کی مختلف صورتوں میں نمود اور اظہار ہے ۔ ظاہر ہے مسلمان معاشرے بھی ان بحثوں سے خالی نہیں رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نظریے اور ان کی ریاست کا باہمی تعلق کیا ہونا چاہیئے ۔ اور مسلمان اس تعلق کو کس طرح دورِ جدید میں نبھاتے ہیں ۔؟ ۔ کیا کسی ریاست کو کسی نظریے کا تابع ہونا چاہیئے ۔ ؟ انسان کا جو فطری سفر ہے اس میں کیا کوئی نظریہ ایسا ہے جو ریاست کی تکمیل میں ناگزیر ہو ۔ ؟
اسی بات کو میں آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں اس بحث کا ایک ابتدائی خاکہ سامنے رکھتا ہوں ۔ تاکہ بحث نہ صرف آسان و فہم ہو بلکہ اپنی مرکزیت کی طرف بھی مرکوز رہے ۔
ریاست سوسائٹی کا ایک ناگزیر ادارہ ہے ۔ معاشرہ جن اقدار پر قائم ہے یا قائم رہنا چاہتا ہے ۔ ریاست ان اقدار کی استواری کے بہت ضروری وسائل فراہم کرتی ہے ۔ لہذا ریاست اسی نظریہ حیات یا اسی نظامِ اقدار کا ایک فعال عنصر ہوگی ۔ جس نظریے پر معاشرہ قائم ہے ۔ انسانوں میں ہیتِ اجتماعی وحدت اور ایک بامقصد یکسوئی ہمیشہ بامعنی ہوتی ہے ۔ یعنی کلچرل اقدار کو واجب العمل بنانا اور کلچر اساس کے ساتھ معاشرے کے تعلق کی تمام سطحوں کو بامعنی بنانا ، Protective بنانا ۔
یہ معاشرے کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو معاشرہ اپنے اندر موجود معاشرتی قوت سے پورا نہیں کرسکتا ۔ ۔ لہذا معاشرے کی اس ضرروت کی تکمیل کے لیئے ریاست کا ادارہ وجود میں آتا ہے جو کہ معاشرتی کُل کا ایک جُز ہے ۔
ریاست میں فوری فلاح پیدا کرنے کی قوت ہوتی ہے ۔ معاشرے کی ترکیبِ ہیت ہی ایسی ہوتی ہے یا انسانی اجتماعیت کے بعض اصول ایسے ہوتے ہیں کہ وہ فلاح کو اخلاقی معنی سے منقطع کرکے قبول نہیں کر سکتی ۔ معاشرہ اپنی ایک اخلاقی بناوٹ اور ایک اخلاقی تقاضا بھی رکھتا ہے ۔ اور ان پر پورا اترنے کے لیئے اُسے ریاست کی فیصلہ کن مدد کی ضرروت ہوتی ہے ۔ انسان میں فلاح کا تصور چیزوں کی افراط نہیں ہے ۔
نظریہ کوئی ریاستی قانون نہیں ہوتا ۔ نظریہ ایک معاشرتی حقیقت ہے ۔ یعنی معاشرہ نظریہ کو آئیڈلائز کرتا ہے ۔ اور ریاست اس کو ایکچولائز کرتی ہے ۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ معاشرے کے آئیڈلز کو عمل میں لانے کے موثر اسباب پیدا کرے ۔ انسانوں کی اجتماعیت کے اندر کوئی بھی نظریہ ایک لمحہ کے لیئے بھی پنپ نہیں سکتا جو اُس معاشرے میں موجود تنوع یا تضاد کو اپنے اندر سے خارج کردے ۔ ریاست کا نظریاتی کردار یہ ہے کہ اگر نظریہ تنوع کو قبول نہیں کرتا تو وہ انسانوں کے لیئے نہیں ہے ۔ ریاست نظریے کی آئیڈل حدوں کو متاثر نہیں کرتی ۔ اور اس کے بغیر انسان میں اجتماعیت کا کوئی بھی تصور خواہ وہ معاشرتی ہو ، ریاستی ہو کسی بھی سطح پر آج تک قائم نہیں ہوا ۔
ہر ریاست اور ہر معاشرے میں اپنے بنیادی نظریات کے خلاف قوتوں کو روکنے کا اپنا اپنا ایک مختلف نظام موجود ہے ۔ اور یہ نظام مغرب میں بھی موجود ہے اور بہت شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی Theory Of Revolution کی تردید کے لیئے ” سرکاری سطح " پر اجازت طلب کرے گا تو اس کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ہاں شاید Big Bang کے خلاف اجازت مل جائے اور اسی طرح جہموریت کے خلاف آپ نہیں جاسکتے ۔ تو ایسا نظام انسانی اجتماعیت کو انتشار سے بچانے کے لیئے معاون ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر میرا محدود نظریہ نہیں ہے تو میرا ہر نظریہ انتشار پر ختم ہوگا ۔ اور کسی معونیت کی تشکیل نہیں کر پائے گا ۔
ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے مذہب کو قانونی اصطلاحات میں اسیر کرکے ایک طاقت پر قائم رہ جانے والا نظام بنا کر پیش کیا ۔ ہمارا معاشرہ ہو یا ریاست ، اس نے دین کے احکامات کی اخلاقی روح کو اقدار بنانے کے بجائے دین کے احکام کو مجموعہِ قوانین بنا کر اس کو بلا لحاظ نافذ کردینے کا ایک تصور پال رکھا ہے ۔ جو ہمارے یہاں ریاست اور نظریے کے تعلق میں ایک تصنوع ، جبر اور ناکامی کا سبب بنا ہے ۔ جب ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اقدار پر مبنی کسی تصور کی بات کررہے ہیں بلکہ ہم قوانین پر ایک فکر کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں جس پر ہمارا تمام اصرار اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ قانین نافذ کر دیئے جائیں یا یہ حدودِ قوانین آجائیں تو اس سے فلاح آسکتی ہے لہذاٰ اس طرزَ عمل سے ریاست اور نظریہ کا جو بنیادی تعلق ہے وہ مجروع ہوجاتا ہے ۔ اسلام بنیادی طور پر اقدار پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قانون بھی بنے گا ۔ ناکہ قانون سازی کے ذریعے وہ ریاست یا سوسائٹی پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے ۔