معاذ ذوالفقار
محفلین
ریاضی کو اُردو میں پڑھنا
اسکول میں ہمارا سب سے ناپسندیدہ مضمون ریاضی تھا۔ اس لیے ریاضی کے بارے میں مجھے یہ مضمون لکھتے ہوئے کچھ ریاضی پسند عناصر اعتراض کریں گے کہ یہ مسائلِ ریاضی یہ ترا بیان غالب۔سو انہی یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام کہ ہم ریاضی کو سراسر اردو میڈیم کے تناظر میں بیان کریں گے۔اردو میڈیم میں ریاضی پڑھنا صرف ایک وجہ سے پُرلطف تھا وہ یہ کہ عربی و اُردو کی ثقیل اصطلاحات پڑھنے کو ملتیں۔آج کا مضمون اُنھی فراموش شدہ اصطلاحات کے بارے میں ہے۔
ابتدائی جماعتوں کی ریاض تو اتنی ادبی نہیں تھی اور چند اصطلاحات ہی قابل ذکر تھیں ۔مثلامعاشرتی علوم کا برِّاعظم ریاضی میں آ کر عادِاعظم ہو جاتا۔یا کبھی ذواضعاف قل نکال کر ہم خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگ جاتے۔ اس کے علاوہ مفرد تجزی ، جذرالمربع اور مشترک اجزائے ضربی بھی باہمی اشتراک سے نکال لیتے۔لیکن جوں جوں ہم جماعتوں میں ترقی پاتے گئے ریاضی بھی علم و ادب کی معراج طے کرتی گئی۔
نہم اور دہم کی ریاضی تو اُردو کا سرمایہ تھی۔ اتنے مشکل الفاظ اردو کی کتاب کے نہ تھے جتنے ریاضی کی کتاب میں تھے۔مقادیرِ اصم کا نام جب پہلی دفعہ سنا تو ہم اسے کسی حکیم کی دَوا ہی سمجھے۔ضربِ چلیپائی کو ہم سہولت کی خاطر ضربِ جلیبی پکارتے۔
دائرہ جو ایک سادہ سی شکل تھی مگر محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ واقعی گول ہے، ہمیں رداس، قطر، مُماس، محیط، قاطع خط،وَتر اورقطعہ وغیرہ سے پنجہ آزمائی کرنا پڑتی۔الجبرا یجاد کر کے الخوارزمی نے بھی ریاضی کے ذخیرہ الفاظ میں قُوت نما، عددی سر، یک درجی مساوات اورمتغیر جیسی اصطلاحات کا اضافہ کیا۔
جیومیٹری کی اشکال کے نام بڑے دلچسپ تھےجیسے متوازی الاضلاع، مثلث، مربع، مخمس اور مسدسِ حالی۔پھر وہ قیس ہو، کوہ کن ہو یا حالی، یا پھر ہم ہوں،ان اشکال کا مدارجِ عمل لکھتے ہوئے ہر کوئی خود کو ایک مکمل انشاء پرداز سمجھتا تھا۔
مثلث جیسی سہ طرفی شکل کے اندر بھی ریاضی دانوں نے ایک پوری دنیا دریافت کر لی تھی اور باب کے باب مثلث کی کہانیوں اور قصوں پر مشتمل تھے۔سب سے پہلا مسئلہ تو مثلث کی اقسام کا تھا۔ اقسام کے بھی دو گروہ تھے بلحاظِ اضلاع اور بلحاظِ زاویہ۔ منفرجتہ الزاویہ مثلث، متماثل الاضلاع مثلث اور مساوی الساقین مثلث جیسے نام پڑھ کر ہم میٹرک کے ساتھ ساتھ عربی فاضل کورس بھی کر رہے تھے۔ اگر بات اقسام تک تو رہتی تو ٹھیک تھا مگر بادلِ نخواستہ ہمیں مثلث کا رقبہ، احاطہ، اضلاع کی لمبائی اور نامعلوم زاویے بھی معلوم کرنے پڑتے۔
کسرِ اعشاریہ بھی الجھن سے بھرپور تھی۔ کبھی یہ یاد نہ رہتا کہ شمار کنندہ اور مخرج میں سے اوپر کون ہوتا ہے اور نیچے کون۔اور کبھی کسور کی اقسام میں فرق واضح نہ کر پاتے۔ کون یاد کرے کہ ناطق و غیر ناطق کسور اعشاریہ واجب و غیرواجب کسور اعشاریہ سے کیسے مختلف ہیں۔ہم آشفتہ سروں نے بھی علم کی محبت میں واجب وغیر واجب تمام قرض اتارے ہیں۔
ٰٰزاویہ صعود اور زاویہ نزول کا فرق ہر امتحان میں آتا ،مگر جذبہء دِل کی تاثیر الٹی ہوتی سو ہر دفعہ ہم اُلٹا ہی جواب لکھ کر آئے۔ یہی حال خاصیت مبادلہ اور خاصیت تلازم کے فرق کا تھاٰٰ۔
پہلے ہی وطن عزیزمیں اتنے مسائل تھے (اور ہیں) ،ستم بالائے ستم دسویں کی ریاضی کا آخری باب بہ تمام و کمال مسائل پر مشتمل تھاجن کے حل ریاضی کے عوامل کے بجائےبیانات اور دلائل سے ثابت کرنا ہوتے تھے۔نمونے کے طور پرآپ ایک مسئلے کی عبارت ملاحظہ فرمائیں اور پھر دیکھیے آپ کو مسئلہ کشمیر، مسئلہ بےروزگاری اور قومی ٹیم کی بیٹنگ کے مسائل کیسے بُھولتے ہیں۔
کسی دائرے میں قوسِ صغیرہ سے بننے والا مرکزی زاویہ مقدار میں اپنی متعلقہ قوسِ کبیرہ کے محصور زاویے سے دوگُنا ہوتا ہے
جس سوال کی عبارت ہی بلائے جاں ہو اس کی اشارت اور ادا کیا ہوں گی۔قصہ مختصرایسے ہی مسائل کے باعث ہم ریاضی کے اساتذہ کے منظورِ نظر نہ ہو سکے لیکن ان کی چھڑی ہماری اسکول لائف کا جزوِلاینفک رہی۔ اب اگرچہ بفضلِ تعالی ریاضی کی گتھیاں سُلجھاتے سلجھاتےہم سِول انجینئرنگ سے بھی فارغ التحصیل ہو چکے ہیں مگر اسکول کی ریاضی کے متعلق ہمارااب بھی پختہ عقیدہ ہے کہ
ہے دِل کے لیے موت ریاضی کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں اعداد
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں اعداد