یہ تو معروف اشکال ہیں ، ایک شکل ہوتی ہے ۔ذوزنقہ ۔ بتائیے بھلا کیا ؟ :)
خوب! بچے کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ جی مجھے بھی معروف اشکال ہی آتی ہیں۔ اگر ذوزنقعہ مجھے معلوم ہوتی تو میں بھی ایک مضمون بنام " ریاضی بزبان اردو" ضرور لکھتا اور اس کے تمام اضلاع کا حشر نشر کرتا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکفتہ شگفتہ تحریر پر شگفتہ شگفتہ باتیں بھی ہو گئیں اور اب یہ کہ کیا اس طرح کی اصطلاحات کا ترجمہ کرنا چاہیئے اور پھر بچوں کو پڑھانا بھی چاہیئے؟

یہ تو ریاضی ہے، سنا ہے کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن وغیرہ کے بھی جناتی ترجمے ہو چکے ہیں۔ اردو میں ریاضی ہم نے زیادہ سے زیادہ میٹرک تک پڑھا تھا اور اس کے بعد ایف ایس سی میں انگریزی میں۔ کچھ "خوش قسمت" دوستوں نے اس کے بعد بھی پڑھا ہوگا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ترجمہ کر بھی لیں اور پڑھا بھی لیں تو زیادہ سے زیادہ میٹرک تک، اس کے بعد پھر پرانی اصطلاحات کو نئے سرے سے دوسری زبان میں سیکھنے کی تگ و دو۔ کیا اس سے بہتر نہیں ہے کہ ترجمہ کیا ہی نہ جائے اور اگر اردو میں پڑھانا ہی ہے تو ایسے ہی انہی اصطلاحات کے ساتھ پڑھایا جائے جنہوں نے بعد میں بھی استعمال ہونا ہے!
 
کیا اس سے بہتر نہیں ہے کہ ترجمہ کیا ہی نہ جائے اور اگر اردو میں پڑھانا ہی ہے تو ایسے ہی انہی اصطلاحات کے ساتھ پڑھایا جائے جنہوں نے بعد میں بھی استعمال ہونا ہے!
صد فی صد متفق ۔۔۔ میں خود ایک عرصے سے اس بات کا داعی رہا ہوں کہ اردو میں سائنسی کام کو آگے بڑھانا ہے تو اصطلاحات کے ترجمے کے بجائے ٹرانسلٹریشن کو فروغ دینا ہوگا ۔۔۔ اور بچوں کو شروع سے ہی انگریزی کی معیاری تعلیم بھی دینی پڑے گی ۔۔۔اور’’جو قومیں اپنی زبان میں پڑھتی ہیں‘‘ جیسے ادھورے اور جذباتی تصورات سے باہر آنا ہوگا ۔۔۔فی زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان انگریزی ہے ۔۔۔ بڑےبڑے غیر انگریزی دان سائنسدانوں کو بھی اپنی تحقیقات انگریزی میں شائع کروائے بغیرچارہ نہیں ۔۔۔ اور جوممالک اپنی اپنی زبانوں کو لے کر چل رہے ہیں ان کےپاس اپنی زبانوں میں اچھاخاصا سائنسی مواد انیسویں صدی سے ہی دستیاب ہے ۔۔۔ جبکہ بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسا کوئی خزانہ میسر نہیں ۔۔۔ اور اتنےوسیع علمی ذخیرے کا اردو ترجمہ کرنا نہ تو عقلا ممکن ہے، نہ ہی معاشی نکتہ نظر سے قابل عمل ۔۔۔تراجم میں بے انتہا وسائل جھونکنے سے بہتر ہے کہ طلبا میں انگریزی زبان سمجھنے کی مناسب استعداد پیدا کی جائے ۔۔۔یوں بھی جب تک ہم اس ترجمے کی مہم سے فارغ ہوں گے، دنیا مزید سو سال آگے جاچکی ہوگی ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاء اللّٰہ! کیا بات ہے بھئی! یعنی ایک مزاحیہ تحریر پر ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوئے محفل کے قابل ذہنوں نے انتہائی کام کے نکات اٹھادیئے۔ بہت اچھی تعمیری گفتگو ہورہی ہے ۔ ریاضی تو خیر عمیق اور دقیق مضمون ہے مجھے توجغرافیہ اور حیاتیات کی اصطلاحات بھی زہر لگتی تھیں ۔ اس وقت تو رٹ رٹا کر اچھے نمبر لے آتے تھے لیکن اب کوئی پوچھے تو یاد بھی نہیں آتیں ۔ عربی سے درآمدہ یہ اصطلاحات انتہائی غیر مانوس اور پیچیدہ ہیں اور ان کی بناوٹ میں کوئی واضح قاعدہ قرینہ نظر نہیں آتا کہ جسے سمجھ کرطالب علم اگلی اصطلاح کو خود سے سوچ سکے۔ ۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے ۱۹۴۹میں مولوی عبدالحق کی ایک مختصر کتاب بعنوان اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ شائع کی تھی۔ اس کتاب کی ابتدا میں مولوی صاحب نے دہلی کالج کا ذکر کیا ہے کہ جہاں سو سال سے تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور متعدد سرکاری رپورٹوں کے مطابق دہلی کالج کے طلبا قابلیت میں کسی بھی طرح ان طلبا سے کم نہیں تھے جن کا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا۔ دہلی کالج کی مجلسِ ترجمہ نے تقریباً ڈیڑھ سو درسی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا ۔ اور نہ صرف ترجمہ کیا تھا بلکہ اصطلاحات وضع کرنے کے اصول بھی تجویز کیے تھے۔ مولوی صاحب نے وہ اصول اپنی کتاب میں درج کیے ہیں ۔وہ اصول کم و بیش انہی نکات کے عکاس ہیں کہ جو اپنے مراسلوں میں جناب وارث اور راحل صاحبان نے بیان کیے ہیں ۔
اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے۷۵ سال پہلے مولوی صاحب اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ سائنسی اور علمی اصطلاحات کو زبردستی اُردوانے کے بجائے انگریزی سے جوں کا توں لینا زیادہ بہتر ہے ۔ صرف وہ گنی چنی اصطلاحات جن کے معقول مترادفات اردو میں پہلے ہی سے معروف اور رائج ہیں انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں ۔
محمد وارث اور راحل صاحبان کا یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ اب تقریباً پوری دنیا میں اعلیٰ سائنسی تعلیم انگریزی ہی میں دی جاتی ہے اس لیے انگریزی اصطلاحات کو شروع ہی سے ہماری درسی کتب کا حصہ بننا چاہیے ۔ میٹرک کے بعد تو ویسے ہی تمام درسی کتب انگریزی میں پڑھائی جاتی ہیں ۔ نیز یہ کہ اس وقت انٹرنیٹ تقریباً ہر شعبے میں تحصیلِ علم کا ایک اہم ذریعہ بلکہ جزوِ لاینفک بن چکا ہے اور انٹرنیٹ کی غالب زبان انگریزی ہی ہے ۔ چنانچہ یہ رائے نہایت معقول ہے کہ اب اس مرحلہ پر سائنسی اور علمی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کرنے اور انہیں رائج کرنے کی کوشش کرنا غیر مفید بلکہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ہمیں تعلیمی طور پر اور پیچھے دھکیل دے گا۔ ویسے بھی اگر ہم پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار اس معاملے میں صرف باتیں ہی کرتے رہیں گے اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوپائے گا۔ ہم اور پیچھے ہوتے رہیں گے ۔ چنانچہ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ سائنسی اور علمی اصطلاحات کو اب اُردوانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اکثر انگریزی اصطلاحات( جو بیشتر لاطینی الاصل ہیں) عالمگیرحیثیت حاصل کرچکی ہیں سو انہیں استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔
واللّٰہ اعلم باالصواب۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آج سے۷۵ سال پہلے مولوی صاحب اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ سائنسی اور علمی اصطلاحات کو زبردستی اُردوانے کے بجائے انگریزی سے جوں کا توں لینا زیادہ بہتر ہے ۔ صرف وہ گنی چنی اصطلاحات جن کے معقول مترادفات اردو میں پہلے ہی سے معروف اور رائج ہیں انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں ۔
1- اردو میں سائنس کا ابلاغ نہیں ہونا چاہیے اور صرف انگریزی میں سائنسی تعلیم دی جائے
2- اردو میں سائنس کا ابلاغ ہونا چاہیے اور اصطلاحات کو جوں کا توں لینا چاہیے (ٹرانسلٹریشن)
3- اردو میں سائنس کا ابلاغ ہونا چاہیے اور کچھ اصطلاحات جو اردو میں پہلے سے معروف ہیں انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں بقیہ اصلاحات کو انگریزی سے جوں کا توں لے لیا جائے( اصطلاحات کا معروف ترجمہ + ٹرانسلٹریشن)
 
آخری تدوین:
1- اردو میں سائنسی کا ابلاغ نہیں ہونا چاہیے اور صرف انگریزی میں سائنسی تعلیم دی جائے
ایسا تو کسی نے نہیں کہا، آپ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا ۔۔۔ کم از کم میرا یہ ماننا یہ ہے کمرہ جماعت میں لیکچرز اور سوال جواب عام بول چال کی زبان، جو بھی کسی علاقے میں رائج ہو، میں ہی کیے جانے چاہئیں ۔۔۔جس سے طلبا کو کسی بھی مضمون یا عنوان کی بابت اپنے نظریات واضح کرنا میں سہولت ہو ۔۔۔ تاہم جس قسم کے ثقیل اور جناتی تراجم تکنیکی اصطلاحات کے کیے گئے ہیں انہیں سمجھنے کے لیے کم از کم منشی فاضل ہونا چاہیے ۔۔۔ میں ان اصطلاحات کو بطور ’’ناولٹی‘‘ برقرار رکھنے کے بھی خلاف نہیں ۔۔۔ لیکن تعلیم و تعلم کے لیے ان کا مستقل استعمال سود مند نہیں۔اردو والوں کو تو ویسے بھی ٹرانسلٹریشن سےکوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری زبان میں تقریبا ہر طرح کی آوازموجود ہےجس کی وجہ سے بدیسی الفاظ کی ادائیگی زیادہ مشکل نہیں ہوتی اوربہت سے الفاظ بڑی آسانی سے اردو میں ضم ہوجاتےہیں ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top