نمونے کے طور پر یہ پوسٹ حاضر ہے
ویسے تو مکمل پوسٹ سے درگزر کرچکا ہوں مگر چونکہ یہاں میرے ایک جملے کو بطور مثال پیش کیا جارہا ہے اس لئے وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔
الف) انتظامیہ نے جو ریٹنگ کرنے کی صلاحیت عطا کررکھی ہے اس کا استعمال ہونا چاہیئے ، اس میں کوئی بات نامناسب نہیں لگتی، یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی جگہ املا کی اغلاط موجود ہوں، نشاندہی کی جائے، ایک آسان طریقہ ناقص املا کی ریٹنگ ہے۔ کوئی شے ناپسندیدہ ہے تو ناپسندیدہ کا نشان لگایا جائے کوئی شے مضحکہ خیز ہے تو کہا جائے کہ ہاں یہ مضحکہ خیز ہے نشان لگایا جائے۔ اس طرح کسی پوسٹ یا کمنٹ کے بارے میں عوامی (یا خواص کی) رائے دیکھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ یہ بالکل فطری طریقہ ہے ۔ آپ نے ایک محفل میں ایک بات کی ہے اہلِ محفل کی نظر میں اس بات کی کیا اہمیت ہے لوگ اسے درست سمجھتے ہیں یا غلط سمجھتے ہیں یہ ظاہر ہونا کسی طور بُرا نہیں ۔آخر آپ کے جملے پوری دنیا کے سامنے رکھے ہیں دنیا میں کسی بھی کونے سے کوئی بھی شخص اس پڑھ سکتا ہے تو اس کا یہ بھی حق ہے کہ جان سکے کہ اہلِ محفل اس بات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ایسے میں ریٹنگ کا نظام معاون و مددگار ہے ۔
ب) اب سوال ہے اہل محفل کا اس اختیار کی آزادی کے استعمال کا معاملہ ، ظاہر ہے اس میں اختلاف کی صورت ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں اور انسان پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں اور ہر کیفیت میں اس کا اختیار مساوی رہتا ہے ۔ اس لئے ممکن ہے کسی بات پر وہ ایک منصفانہ رائے سے ہٹ کر ایک رائے اختیار کرلے۔ یہ بھی اگر عین فطری انداز میں ہو تو کوئی برائی محسوس نہیں ہوتی یعنی کسی لمحے مجھے کوئی بات بالکل پسند نہیں اس لمحے اگر میری نظروں کے سامنے وہی بات آجائے تو میں اسے "ناپسندیدہ" قرار دے سکتا ہوں۔ تاہم اس اختیار کا انتقامی استعمال غلط ہوگا۔ یعنی مجھے ایک شخص کے نظریات سے کد ہے اب میں اس کی اس بات کو بھی "ناپسندیدہ یا دیگر منفی" ریٹ کردوں جو اس نے اپنے نظریات کے علاوہ کہیں کہی ہو۔
اسی کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ایک ٹولہ ، گروہ ، جماعت اپنے ہم خیال لوگوں کی حمیت میں مخالفت کرنے والے فرد کو ریٹنگ کے زریعے زچ کرنا شروع کردے۔ اس میں بھی کئی طرح کی صورتحال ممکن ہے لیکن صورتحال کوئی بھی ہو جہاں بھی اس اختیار کا استعمال منصوبہ بندی کے زریعے زچ کرنے کیلئے کیا جائے وہ غلط ہے۔
پ) ایسی صورتحال میں جب کسی فرد کے ساتھ ایسا کوئی کام کیا جا رہا ہو کہ اس کے مراسلوں کو منصوبہ بندی کے تحت منفی قرار دیا جارہا ہو تو اس غریب کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ چپ سادھ لے یا پھر ترکی بہ ترکی جواب دے ، چونکہ انٹرنیٹ پر آپ کو فوری پٹائی کا خطرہ نہیں ہوتا اس لئے لوگ قدرے بہادر نظر آتے ہیں اور "ریٹنگ وار" کا آغاز ہوجاتا ہے۔
ج) اس مسئلے کا حل تو بہرحال انتظامیہ کو ہی ڈھونڈنا ہے اور اب جبکہ محفل کو دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو انتظامیہ کے پاس ٹھیک ٹھاک مواد بھی اکھٹا ہو گیا ہوگا جو اس سلسلے میں کسی بہترین سروے سے کم نہیں ہوگا ۔ لہذا انتظامیہ کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے انتظامیہ سے ہی درخواست کی جائے کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے۔ اس سلسلے میں اگر وہ مناسب سمجھیں تو اہلِ محفل سے بھی رائے لی جاسکتی ہے ۔
آخر میں اس جملے کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جب مجھے اسی طرح کی ذہنیت اور اس طرح کی کاروائی کا سامنا ہوا تو میں نے خاموشی سے برداشت کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ لیکن اگر میں ایک کا جواب ایک سے دیتا تو یہ سلسلہ چل نکلتا لہذا دشمنوں کے دل میں رعب ڈالنے کیلئے میں نے ایک کا جواب دس دس سے دیا تا کہ جنگ وہیں ٹھنڈی ہو جائے اور آگے نہ بڑھ سکے بہرحال دشمن کو اپنے اور میرے مراسلوں کی تعداد میں فرق نظر آرہا تھا اور اسے اندازہ تھا کہ میرے لے دے کر وہ ہزار دو ہزار مراسلوں کو ہی منفی ریٹ کر سکتا ہے مگر اس رفتار سے اگر جواب ملنا شروع ہو گیا تو اس کے ہزار ہا مراسلے تہہ تیغ ہو جائیں گے ۔ لہذا میرے "دس ، دس" والے جواب کو جنگ بندی کی حکمت عملی سمجھا جائے نہ کہ انتقامی کاروائی۔۔۔۔