زاویہ

ماوراء

محفلین
زاویہ​

بہروپ​

یہ ایک بھری برسات کا ذکر ہے۔ آسمان سے ڈھیروں پانی برس رہا تھا اور میری کیفیت اس طرح تھی کہ جیسے میرے دل کے اندر بارش ہو رہی ہے، کچھ ایسا ہی مینہ بستی کے اوپر بھی برس رہا تھا۔ میں تھوڑا سا زخم خوردہ تھا۔ اس زخم کا مداوا میرے پاس نہ تھا، ماسوائے اس کے کہ میں ڈیرے پر چلوں اور اپنے بابا کی خدمت میں اظہار کروں۔ بات یہ تھی کہ میرے ایک بہت ہی پیارے دوست، جو میرے ساتھی بھی تھے، وہ افسانہ نگار تھے اور کالم بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے کالموں میں میری بڑی کھچائی کی تھی۔اور جب کالم نویس رگیدتا ہے تو جس کی کھچائی ہوتی ہے اس کے پاس کوئی اخبار نہیں ہوتا جس میں وہ جواب الجواب لکھ سکے۔ وہ بے چارہ غم زدہ ہو کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ میرے ساتھی بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی کیا تھا اور تابڑ توڑ چار سخت حملے کیے تھے۔
میں اپنے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے ڈیرے پر چلا گیا اور بابا جی سے کہا، “ میں بڑا دکھی ہوں اور اس بات کی مجھے بڑی تکلیف ہے۔ اس شخص نے جو میرے بظاہر دوست ہیں، ہم سے محبت کے ساتھ ملتے ہیں اور ٹی ہاؤس میں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے ہیں اور لوگوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ اس طرح کی کارستانی میرے لیے کر سکتا ہے۔ پھر یہ کیا ہے؟“
انہوں نے کہا: “اوہ پت! آپ اس کو سمجھے نہیں، یہ بڑی سمجھ داری کی بات ہے۔ دو صوفی تھے۔ ایک بڑا صوفی ٹرینڈ اور ایک چھوٹا صوفی انڈر ٹریننگ۔ چھوٹے صوفی کو ساتھ لے کر بڑا صوفی گلیوں، بازاروں میں گھومتا رہا۔ چلتے چلاتے اس کو لے کر ایک جنگل میں چلا گیا۔ جیسے کہ میں نے پہلے عرض کی، بڑی تابڑ توڑ بارش ہوئی تھی، جنگل بھیگا ہوا تھا اور اس جنگل میں جگہ جگہ لکڑیاں کے ڈھیر تھے۔ پتوں کے، شاخوں کے انبار تھے۔ اس بڑے صوفی نے دیکھا کہ شاخوں اور پتوں کے ڈھیر میں ایک سانپ کچھ مرجھایا ہوا، کچھ سنگھڑایا ہوا پڑا ہوا ہے۔ وہ پہلے آگ کی حدت سے زخم خوردہ تھا اور پھر اس پر جو بارش پڑی تو وہ زندہ سانپوں میں سے ہو گیا۔ صوفی کو بڑا ترس آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر سانپ کو اٹھا لیا۔
چھوٹے صوفی نے کہا، حضور کیا کرتے ہیں، سانپ ہے موذی ہے، اس کو اٹھایا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا: ‘ نہیں بے چارہ ہے، مجبور ہے، زخمی ہے،زخم خوردہ ہے اللہ کی مخلوق ہے۔ اس کی کچھ غورو پرداخت کرنی چاہیے‘ تو وہ سانپ کو ہاتھ میں لے کر چلے۔ پھر دونوں باتیں کرتے کرتے کافی منزلیں طے کرتے گئے۔ جب ٹھنڈی ہوا لگی، جھولتے ہوئے سانپ کو، تو اسے ہوش آنے لگا اور جب ہوش آیا تو طاقتور ہو گیا۔طاقتور ہو گیا تو اس نے صوفی صاحب کے ہاتھ پر ڈس لیا۔ جب ڈسا تو انہوں نے سانپ کو بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ایک درخت کی جڑ کے پاس رکھ دیا کیونکہ وہ اب ایک محفوظ جگہ پر پہنچ گیا ہے۔ اب یہ یہاں پر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ریوائیو(Revive) کر لے گا۔ جہاں بھی اس کا دل ہو گا، چلا جائے گا۔ چھوٹے صوفی نے کہا: ‘دیکھیں سر! میں نے کہا تھا نا کہ یہ موذی جانور ہے، آپ کو ڈس لے گا۔ پھر کیوں ساتھ اٹھا کے لے جا رہے ہیں؟ آپ تو بہت دانشمند ہیں، مجھے سکھانے پر مامور ہیں۔ ‘ تو انہوں نے کہا: “ڈسا نہیں اس کا شکریہ ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔سانپ اسی طرح شکریہ ادا کیا کرتے ہیں۔ “یہ جو تمھارے خلاف لکھتا ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ تم ناراض نہ ہو۔“میرے دل پر بڑا بھاری بوجھ تھا، دور ہو گیا اور میں بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا۔ تو خواتین و حضرات! یہ ڈیرے، یہ خانقاہیں یا جن کو تکیے کہہ لیں، یہ اسی کا مقصد کے لیے ہوتے ہیں کہ دل کا بوجھ جو آدمی سے خود اٹھائے نہیں اٹھتا، وہ ان کے پاس لے جائے۔ اور “بابے“ کے پاس جا کر آسانی سے سمجھ میں آنے کے لیے عرض کرے۔ فرض کریں ماڈرن دنیا میں کسی قسم کا ایک ڈیرہ ہو، جس میں سائیکی ایٹ رسٹ(Psychiatrist) بیٹھا ہو، لیکن وہ فیس نہ لے، یا سائیکالوجسٹ ہو جس کے پاس وہ بنچ نہ ہو جس پر لٹا کر Analysis کرتے ہیں، بلکہ بچھانے کے لیے صف ہو۔ اس پر ایسا سامان ہو کہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر سکیں۔ تو ان ڈیروں کو، ان تکیوں کو شمالی افریقہ میں، الجزائر میں تیونس میں“زاویے“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کو “زاویہ“ کہتے ہیں۔ کچھ “رباط“ بھی کہتے ہیں وہاں پر، لیکن زاویہ زیادہ مستعمل ہے۔ حیران کن بات ہے، باوجود اس کے کہ زاویہ ایک خاص اسم ظرف مکان ہے شمالی افریقہ کا، لیکن اندلس کے زمانے میں اندلس کی سرزمین پر زاویے نہیں تھے۔تیونس، الجزائر میں رباط تھے۔ یہاں صوفی لوگ بیٹھ کر لوگوں کو، آنے جانے والوں کو ایک چھت فراہم کرتے تھے۔ رہنے کے لیے جگہ دیتے تھے۔کھانے کے لیے روٹی، پانی دیتے تھے۔ کچھ دیر لوگ بیٹھتے تھے۔ دکھی لوگ آتے تھے۔ اپنا دکھ بیان کرتے تھے اور ان سے شفا حاصل کر کے ڈائیلاگ کرتے تھے۔ سچ مچ! جو سائیکالوجسٹ کہا کرتے ہیں، وہ مہیا کرتے تھے، ہم نے بھی اسی تقلید میں پروگرام کا نام زاویہ رکھا ہے۔ اس لحاظ سے تو مجھے تھوڑی سی شرمندگی ہے کہ یہ اصل زاویہ نہیں ہے۔نقل بمطابق اصل ہے لیکن سپرٹ(روح) اس کی وہی ہے۔ کوشش اس کی یہی ہے کہ اس طرح کی باتیں یہاں ہوتی رہیں اور طبیعت کا بوجھ، جو پروگراموں میں کالموں اور کتابوں سے دور نہیں ہوتا، وہ کسی طور پر یہاں دور ہو سکے۔
 

ماوراء

محفلین
آپ جب بھی کسی ڈیرے پر، کسی بزرگ سے ملنے جائیں گے تو آپ کے لاشعور میں ٹیسٹ کا ایک میٹر(Meter) ضرور ہو گا۔ میں دیکھوں، یہ کیسا آدمی ہے؟ آپ اکثر یہ کہہ کر چلے آتے ہیں کہ یار وہاں گئے تھے، وہ تو کچھ نہیں ہے۔ اپنے معیار کے ساتھ آدمی چیک کرتا ہے، لیکن جب آپ پوری طلب کے ساتھ، امتحان پاس کرنے کا اندازہ اختیار کیے ہوئے جائیں تو پھر آپ کو ان خاکستروں میں سے عجیب قسم کے لعل مل جاتے ہیں۔مشکل تو ہو گی کہ وہاں سندھ چلے جائیں۔ تھر پارکر کے ڈیزرٹ میں چلے جائیں یا روہی میں چلے جائیں۔ کچھ نہ کچھ آپ کو دانش کی بات مل جائے گی۔ دانش کی بات جو ہے، یہ ایسے ہی لوگوں سے ملتی ہے،کتابوں سے نہیں ملتی۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ زاویہ، باوجود اس کے کہ یہ اصل زاویہ نہیں ہے لیکن اس کی خوبی اس کی سپرٹ ویسی ہی رکھنی کی کوشش کی گئی ہے۔
سپرٹ سے یاد آیا کہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اسنے کہا: “ باوجود اس کے کہ آپ رنگ ورامش، گانے بجانے کو برا سمجھتے ہیں، شہنشاہِ معظم! لیکن میں فن کار ہوں اور ایک فن کار کی حیثیت سے آپ کے خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور میں بہروپیا ہوں۔ میرا نام کندن بہروپیا ہے اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں کہ شہنشاہِ معظم، جن کو اپنے تبحرِ علمی پر بڑا ناز ہے، دھوکا دے سکتا ہوں، اور میں غچہ دے کر بڑی کامیابی کے ساتھ نکل جاتا ہوں۔
اورنگزیب عالمگیر نے کہا: “ یہ بات توضیعِ اوقات ہے۔ میں تو شکار کو بھی بیکار سمجھتا ہوں۔ یہ تم جو چیز میرے پاس لائے ہو، اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔“اس نے کہا: “ نہیں صاحب ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ آپ اتنے شہنشاہ ہیں اور دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ میں بھیس بدلوں گا، آپ پہچان کر دکھایئے۔“
تو انہوں نے کہا: “ منظور ہے۔“
اس نے کہا: “ حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں۔ اگر تو آپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کا دینے دار ہوں۔ لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلا تو میں آپ سے پانچ سو روپیہ لوں گا۔“ ظاہر ہے اس وقت پانچ سو بہت ہوں گے۔ شہنشاہ نے کہا: “ٹھیک ہے۔ پانچ سو میرے لیے کچھ نہیں ہے، منظور ہے،جاؤ۔“ تو وہ شرط طے کر کے چلا گیا اور پھر سوچنے لگا۔ گھر جا کر بھی پریشان ہوا کہ میں شیخی میں ایسی شرط بد کر آ گیا ہوں۔میں کون سا ایسا روپ بدلوں کہ بادشاہ کو پتا نہ ۔ پھرتا پھراتا تحقیق و تفتیش کرتا رہا لوگوں سے پتہ چلا اورنگ زیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا میں مرہٹوں پر اور بہمنی سلطنتوں پر اکثر حملے کیا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا، یہ سال چھوڑ کر اگلے سال پھر ان پر حملہ کرے گا۔ یہ خبر بہروپیے کو جو وقائع نگار تھے، انہوں نے بتائی۔ اس نے کہا، ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ یہاں سے پاپیادہ سفر کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا جہاں بہمنی سلطنت تھی۔وہاں جاکر اس نے ایک بزرگ کا روپ دھارا۔ ڈاڑھی بڑھا لی۔ سبز کپڑے پہن لیے۔ بڑے بڑے منکے گلے میں ڈال لیے، اور اللہ کی یاد میں ایسا مستغرق ہوا ک بڑی دیر تک بہت دور تک لوگوں کو اپنے اس سحر میں مبتلا کرتا رہا۔ ارد گرد کے لوگ جو تھے، بابا پیر کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ لوگ آنے لگے اور طرح طرح کے چڑھاوے چڑھانے لگے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں کا رواج ہے۔ دور دور تک اس کا نام آنے لگا۔ لیکن استقامت کے ساتھ سال بھر اس کی ریاضت میں مصروف رہا جو بزرگ کیا کرتے ہیں۔
ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگ زیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچھا اور پڑاؤ ڈالا تو تھوڑا سا وہ خوف زدہ تھا۔ اور جب اس نے مرہٹوں کے پیشوا پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے اس کی فوجیں توڑ نہ سکیں۔ پریشانی کا عالم ہو گیا اور یقین ہو گیا کہ شاید اس کو نا کام لوٹنا پڑے اور اس کی حکومت پر برا اثر پڑے۔ چنانچہ لوگوں نے کہا، یہاں ایک درویش ولی اللہ رہتے ہیں۔ درخت کے نیچے۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان سے جا کر ڈسکس کریں۔ پھر دعا کریں اور پھر ٹوٹ پڑیں۔ شہنشاہ پریشان تھا، بے چارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس۔ سلام کیا اور کہا: “ حضور میں آپ کی خدمت میں ذرا۔۔۔۔“ انہوں نے کہا: “ ہم فقیر آدمی ہیں۔ ہمیں ایسی چیزوں سے کیا لینا دینا۔“ شہنشاہ نے کہا: “ نہیں عالم اسلام پر بڑا مشکل وقت ہے(جیسے انسان بہانے کیا کرتا ہے) آپ ہماری مدد کریں۔ میں کل اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں۔ تو فقیر نے فرمایا: “ نہیں کل مت کریں، پرسوں کریں اور پرسوں بعد نمازِ ظہر۔“اور نگزیب نے کہا جی بہت اچھا۔ چنانچہ اس نے نمازِ ظہر جو حملہ کیا اور ایسے زور کا کیا اور جذبے سے کیا اور پیچھے فقیر کی دعا تھی، اور ایسی دعا کہ وہ قلعہ ٹوٹ گیا اور فتح ہو گئی۔ مفتوح جو تھے وہ پاؤں پڑ گئے۔ بادشاہ مرہٹوں کے پیشوا پر فتح مند کامران ہونے کے بعد سیدھا درویش کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باوجود کہ وہ ٹوپیاں سی کے اور قرآن لکھ کر گزارا کرتا تھا لیکن سبز رنگ کا بڑا سا عمامہ پہنتا تھا بڑے زمرد اور جواہر لگے ہوتے تھے۔ اس نے جا کر عمامہ اتارا اور کھڑا ہو گیا۔ دست بستہ کہ حضور یہ سب کچھ آپ ہی کی بدولت ہوا ہے۔
اس نے کہا: “ نہیں جو کچھ کیا اللہ نے کیا ہے۔ “ انہوں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں حضور۔ درویش نے کہا: “ نہیں ہم فقیر لوگ ہیں۔“ اس نے کہا کہ دو پر گنے کی معافی دو بڑے قصبے۔ اتنے بڑے جتنے آپ کے اوکاڑہ اور پتوکی ہیں۔ وہ ان کو دیتا ہوں اور زمین اور آئندہ پانچ سات پشتوں کے لیے ہر طرح کی معافی ہے۔
اس نے کہا: “ بابا یہ ہمارے کس کام کی ہیں ساری چیزیں۔ ہم تو فقیر لوگ ہیں۔ تیری بڑی مہربانی۔“
 

ماوراء

محفلین

اورنگزیب نے بڑا زور لگایا، لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کر واپس آ گیا۔ اس نے اپنے تخت کے اوپر متمکن ہو کر ایک نیا فرمان جاری کیا۔ جب شہنشاہ فرمان جاری کر رہا تھا، عین اس وقت کندن بہروپیا اسی طرح منکے پہنے آیا۔ شہنشاہ نے کہا:
“حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے۔ آپ مجھے حکم دیتے، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔“ کندن نے کہا: نہیں شہنشاہِ معظم! اب یہ ہمارا فرض تھا، ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، تو جنابِ عالی میں کندن بہروپیا ہوں۔ میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں۔“
اس نے کہا: تم وہ ہو ؟ اس نے کہا، ہاں وہی ہوں جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا۔
اورنگزیب نے کہا: “ مجھے پانچ سو روپیہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں، جب میں نے آپ کو دو پر گنے اور دو قصبے کی معافی دی۔ جب آپ کے نام اتنی زمین کر دی۔ جب میں نے آپ کی سات پشتوں کو یہ رعایت دی کہ اس میری مملکت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں۔ آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا۔ یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں۔“
اس نے کہا: “حضور بات یہ ہے جن کا روپ دھارا تھا، ان کی عزت مقصود تھی۔ وہ سچے لوگ ہیں۔ ہم جھوٹے لوگ ہیں۔ یہ میں نہیں کر سکتا تھا۔ کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں۔“
تو خواتین و حضرات! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہمارا زاویہ دو نمبر ہی سہی، بے شک بہروپ ہی سہی، تو آپ دعا کریں۔ اس میں کچھ ایسا باتیں، کچھ ایسے مسئلے، کچھ ایسی پیچیدگیاں، کچھ ایسے بوجھ دور ہوتے رہیں جو کسی اور طرح سے نہیں ہو پاتے۔

زاویہ کے پہلے پروگرام میں حاضرین کے جناب اشفاق احمد سے کچھ سوالات اور ان کے جوابات:

سوال: اس طرح کی نشست تو رورل ٹریڈیشن ہے ہماری ۔ یہ بھی اسی کا ایک سلسلہ ہے۔ پرنٹڈ ورڈ(Printed Word) نے اس کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔
جواب: ہاں یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ Oral Tradition طاقتور ہے۔ پیغمبروں کا علم عام کرنے کے لیے Oral Tradition ہی ہوتی ہے۔ پیغمبر بھی کھڑے ہو کر اپنی بات بیان فرماتے تھے۔ اسی لیے اللہ قرآن میں بار بار ہر پیغمبر کے بارے میں فرماتا ہے: “ اے لوگو! دیکھو۔ “ اور اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا پیغمبر ہے۔ یہ تو بازاروں میں کھڑا ہوتا ہے۔ ہم لوگوں سے باتیں کرتا ہے۔ فرعون نے بھی یہ کہا تھا کہ میں موسٰٰی کو کیسے مان لوں، اس کے بازوؤں میں تو کنگن بھی نہیں ہیں۔ تو میں نہیں مانتا۔ Tradition بالکل Oral ہی چلا اور میں یہ سمجھتا ہوں، میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ یہ Oral Tradition پرنٹڈورڈ کے راستے سے ہو کر الیکٹرانک میڈیا کی معرفت Oral Tradition میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ہونا چاہیے، بشرطیکہ اس کا روپ بہروپ ویسا ہی ہونا چاہیے۔ جس طرح ابتدائی قدیم زمانے سے ہے۔

سوال: ماڈرن ورشن میں میں سمجھتا ہوں اس کاروپ یقیناً ہو گا۔ لیکن یہ ہیومین Presence کی بات ہے۔ جو عوام تھے، Oral Tradition میں موجود تھے۔ اس کو ہم کیسے ریوائیو (Revive) کریں۔
جواب: اس کو ہم Revive کر سکیں گے۔ بالکل دوبارہ جنم دینے سے کر سکیں گے۔ جہاں انسان انسان سے ملے گا۔ انسان انسان سے بات کرے گا۔ ورنہ ہم اپنی سوچ ہر سوچ کو (Realize) کرتے رہ جائیں گے۔
سوال: سر! میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جب ہم کسی شخص کو Condemn کرتے ہیں یا اس کا بطلان کرتے ہیں یا کسی شخص کو برا بھلا کہتے ہیں تو کیا ہمارے ذہن میں یہ آرزو تو نہیں پوشیدہ ہوتی کہ ہم خود ویسا بننا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ حسین آدمی کو کم حسین آدمی رد کرتے ہیں۔ امیر آدمی کو کم امیر آدمی رد کرتا ہے۔ طاقت ور کم صحت مند کو رد کرتا ہے تو کیا اس کے پیچھے کوئی ایسی آرزو تو نہیں ہوتی کہ کاش میں بھی ایسا بن جاتا۔
کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یقیناً اس میں ہے ۔ اگر کوئی محروم شخص ہے، کسی بھی اعتبار سے، تو پھر وہ کنڈم تو کرے گا، لیکن اس کی محرومی کے پیچھے کچھ اسباب ہیں۔ کہ جو جائز نہیں ہیں، مناسب نہیں ہیں یا جس کو معاشرہ دور کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے تو پھر اس کے کنڈم کرنے کا جواز بن جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خالص انسانی بات ہے کہ جو بنیادی محرومی ہے، کسی بھی حوالے سے، وہ ایک ری ایکشن (ردعمل) تو جنریٹ کرے گی، تو اب اس سے کیسے بچا جائے۔
سوال: بچنے کی بات بعد میں آتی ہے۔ کیسے پتا لگایا جائے کہ یہ شخص جس بات کا اظہار کر رہا ہے اس کے پیچھے عوامل جو تھے، وہ مختلف ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ان کو سچ مچ کنڈم کر رہا ہے۔ ان کے پیچھے یہ آرزو ہے کہ میں بھی ایسا ہوتا جب اس مقام پر بندہ پہنچتا ہے۔ اس مقام پر بندہ پہنچتا ہے۔ اس مقام کی ایک ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے ایکٹ نہیں کرے گا۔ وہ دوسرے نیچے اتار دیں گے۔ جو بندہ غریب ہوتا ہے، ویسا کام نہیں کرے گا تو وہ بالکل ختم ہو جائے گا۔ جب بندہ امیر ہوتا ہے، اس کے پاس پیسا آتا ہے، دولت آتی ہے۔ ویسا Behave نہیں کرے گا تو لوگ اس سے چھین گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں یہ جب غریب تھا تو بہت اچھا ہوتا تھا۔ اللہ میاں نے اسے دولت دی ہے تو بہت غلط ہو گیا ہے۔
جواب: برخوردار! یہ آدمی جو امیروں کو Run down کر رہا ہے کہ دیکھو جی کتنا ظالم ہے۔
سوال: یہ سر! کہیں ایسا تو نہیں کہ حسد بول رہا ہو؟
جواب: حسد بھی بولتا ہے۔ اگر حسد بولتا ہے تو پھر وہ خود ہوناچاہتا ہے نا۔ میں ڈرتا ہوں۔میرے منہ میں خاک۔ میں کہیں جرات نہیں کر سکتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مارکس کچھ اور تھا۔
کوئی بھی نظریہ آدمی جو دیتا ہے، کوئی فلسفہ ہے یا کوئی بات۔ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں، اس بندے کی ذات کے اندار وہ کچھ اور ہی ہو سکتا ہیں۔ مطلب جو اس کے ظاہری نظریات ہیں، وہ بالکل مختلف ہو سکتے ہیں، مثلاً یہ بچپن کی محرومی اور شدید غربت مارکسزم کی طرف لے جاتی ہے یا کچھ اور وقت اس نے گزارا ہے۔ کسی اور طریقے سے تو ممکن ہے کہ وہ کوئی یہ نظریہ اختیار کر لے تو اب وہ اس بندے کی سٹڈی بن جائے گی۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ جو اس نے پیش کیا ہے، وہ کیا ہے؟ اس کو الگ سطح پر جانچیں۔
آپ کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں اگرHuman Dignity کو Ensure کر لیں، ہر آدمی کی عزت کو بحال کر دیا جائے تو پھر ایسی صورت حال بن جائے گی۔ پھر کنڈم کرنے کا سلسلہ کم ہو جائے گا۔
میرے خیال میں بھی کچھ کم ہو جائے گا، لیکن اس کے باوجود بھی ایک بے چینی تو انسان میں رہے گی۔ ہمیشہ ایک بہت اچھا Player ہے۔ اچھی Games کھیلتا ہے۔ میں نہیں کھیل سکتا، میں تو ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ مجھے چاہیے کہ میں خوش ہوں۔ واہ جہ واہ، کیا اچھا کھیلتا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ تو کچھ بھی نہیں، فضول ہے۔ اس میں کیا ہے۔
انسان میں اپنی کمزوریاں اور اپنے اندر جو خامیاں ہوتی ہیں، ان کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس میں جو ہے، وہ مجھ میں کیوں نہیں، تو ایک حسد کہہ سکتے ہیں یا انسان کی شخصی کمزوری کہہ سکتے ہیں۔ کچھ قدرتی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر خوب صورت پیدا ہوتے ہیں۔ وہ مارجن (Margin) لے کر آتے ہیں اور جس کے پاس مارجن نہیں، وہ کیا کرے ؟ صورت کو ایک معیار بنا دیا گیا ہے۔ آدمی جتنا بڑا ہو جاتا ہے۔ اتنا بڑا اس کا ظرف ہو جاتا ہے۔ وہ چیزوں کو برداشت بھی کر لیتا ہے۔ سن بھی لیتا ہے کنڈم بھی نہیں کرتا۔ اگر ایسی صورتِ حال پیدا کی جائے کہ ہر آدمی کو عزتِ نفس ملے۔ اس کو بڑا ہونے کا احساس دیا جائے تو پھر کنڈم نہیں کرے گا۔
بڑا ہونے کے لیے جو لیور(Lever) آپ اسے عطا کر رہے ہیں، وہ عزت نفس کا ہے۔ دولت یا شہرت یا حسن ہی سب کچھ نہیں ہیں۔
ابھی تک تو ہماری سوچ کا جو رخ ہے، وہ ذرا سا مختلف ہے۔ جس کی ہمیں پریکٹس ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آہستہ آہستہ جب یہ انٹرایکشن بڑھے گا جو آپ نے سوال کیا تھا، انسانی لیول کے اوپر اس کے اندر پہنچ کر سوچئے۔
آپ کا بہت بہت شکریہ اور مہربانی کہ آپ یہاں تشریف لائے اور آپ نے اس پرگرام کو رونق بخشی۔ انشاءاللہ پھر بھی آپ کے ساتھ ملاقات ہو گی۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
ناشکرا انسان​


بہت ساری چیزیں طبیعت پر بوجھ ڈالتی ہیں اور تسلسل کے ساتھ ڈالتی رہتی ہیں، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ کچھ چیزیں جو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں، اور جو ہماری طبیعتوں کے اوپر بوجھ ڈالتی ہیں، ان میں تسلسل کا رنگ آ جاتا ہے، اور وہ بہت دور تک دیر تک پھیل جاتی ہے۔ ہم اسے اللہ کی مصلحت کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد بھی تسلی نہیں ہوتی انسان کی، اور وہ زیادہ جاننا چاہتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا اور کیوں ہوتا رہتا ہے؟ مثلاً یہ کہ چھوٹا بچہ ہے۔ اس کو کینسر ہو گیا ہے تو انسان بڑا سوچنے پر مجبور ہوتاہے کہ اس کا کیا قصور تھا، کیا کوتاہی تھی۔ لیکن اس کا قصور یا کوتاہی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ عقلِ مطلق ہے۔ جانتا ہے کہ کہاں پر کیا ہونا چاہیے۔ اس کے بارے میں مغرب کے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور ولایت کا ادب اس موضوع سے مالا مال ہے۔ اور نظم میں، نثر میں Palys میں۔ مجھے Thonken Wilter کا ناول یاد آ رہا ہے The Eight Man اس نے بھی اس میں یہ موضوع لیا ہے، بلکہ اس نے تو زندگی بھر جتنی بھی کتابیں لکھیں، لوٹ لوٹ کر پلٹ کر اسی
موضوع پر لکھیں۔ اس کی کہانی مختصر یہ ہے کہ آٹھ آدمی دریا عبور کر رہے تھے۔(لوہے کے رسے والا دریا) آٹھوں آدمی ایک دوسرے کے پیچھے جا رہ تھے اور خدا کا کرنا کیا ہوا کہ درمیان میں وہ رسا ٹوٹ گیا اور وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پہاڑی دریا میں گرے اور فوت ہو گئے، اور ان کا نام ونشان تک نہ ملا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک آدمی گھر سے نکلا حجامت بنوانے کے لیے اور وہ ابھی سیلون میں داخل نہیں ہو سکا کہ ایک اندھی گولی، امریکہ میں عام رواج ہے، اس کو آ کر لگی۔ ایک عورت جو بس سٹاپ پر کھڑی اپنی سہیلی سے باتیں کر رہی تھی اور اس کی سہیلی کو کسی بندے نے نشانہ بنایا ہوا تھا، سہیلی تو چلی گئی، نشانہ وہ معصوم عورت بن گئی جس نے روک کر اسے پوچھا تھا کہ تمھارے بیٹے کا کیا حال ہے اور تم کہاں ہو۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک بیوہ نے اپنا بیٹا بڑی آرزوؤں اور امنگوں کے ساتھ پالا تھا۔ ایک ہی اس کا بیٹا تھا۔ پلا بڑھا اور جوان ہوا اور اس نے C.S.S کیا، وہ A.C لگا۔ ماں کے ہاں تو شبِ برات ہو گئی۔ اس نے گھنٹی سنی اور وہ دروازہ کھولا، اور دروازے سے اس کی لاش گھر آئی۔ کچھ ایسا ہوا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے۔ تو تھامکن یہ کہتا ہے کہ ایک غالیچے کو آپ دیکھو، اس کے اوپر ایک پھول بنا ہوا ہوتا ہے اور بڑا خوب صورت پھول ہوتا ہے جو آپ اتنے مہنگے بھاؤ اس کو خرید کر لاتے ہیں، لیکن اگر آپ اس غالیچے کو اٹھا کر دیکھیں تو وہ کچھ لمبے دھاگے کچھ چھوٹے دھاگے بے ہودہ قسم کے دھاگے ایسے ہوتے ہیں، ان پر نگاہ ڈالنے کو دل نہیں کرتا۔ لیکن ہوتا ایسے ہی ہے کہ پھول بننے کے لیے کچھ ایسے عمل کی ضرروت ہے، جو کہ آپ کو غالیچے کے لیے درکار ہے۔ ہاں بہت اچھی بات ہے لیکن انسان بے چارہ کیا کرے، اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے وہ ایسی باتیں کرتا ہے، لیکن اس کو تسلی ہو نہیں سکتی۔ میکلیش (Macleish) کا معروف ڈراما J.B جو حضرات ایوب (علیہ السلام) کی زندگی کے بارے میں ہے۔
اور جسے پڑھ کر ہم نے سبقاً سبقاً بہت کچھ سیکھا ہے۔ شکسپیئر کے Play آپ کے سامنے ہیں۔
مغرب نے اس پر بہت کچھ لکھا، اور وہ کہتے ہیں، کچھ چیزیں ایسی ہیں جس کا کوئی فیصلہ، کوئی “تُک“ نہیں بنتا، ایسا کیوں؟ لیکن ہوتا رہتا ہے۔ وہ جو علیم مطلق ہے۔ جو مالک ہے سب کا، اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے، کرتا ہے اور اس کی مرضی میں کوئی راز ہوتا ہے۔ تو پھر ہم پوچھتے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ کچھ ہم بھی تو دانش رکھتے ہیں، عقل رکھتے ہیں۔ ہمارے بابے کہتے ہیں، اگر کوئی چار پانچ سل کا بچہ اتفاق سے ہسپتال کے کسی تھیٹر میں چلا جائے، اور دروازہ کھلا ہوا ہو اور سرجن کام کر رہے ہوں ایک بندے کے اوپر، ان کے ہاتھ میں چھریاں، اور نشتر پکڑے ہوں اور ان کے منہ پر ربڑ چڑھائی ہوئی ہو، ماسک وغیرہ، تو وہ چیخیں مارتا ہوا باہر نکلے گا اور کہے گا کہ ظلم ہو رہا ہے، اچھے بھلے آدمی کا پیٹ کاٹ رہے ہیں، چھریوں کے ساتھ۔ اے لوگو! جاؤ اور بچاؤ۔ تو کچھ ایسا ہی حال انسان کا ہے۔ وہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ میری عقل و دانش کے مطابق ہے۔ میں نے جیسے پچھلی مرتبہ کہا تھا کہ چیونٹی جیسے ایک سمندر کو نہیں سمجھ سکتی، انسان اللہ کے راز، افعال اور اس کا کام اور قانون کو نہیں جان سکتا۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس نے ہمیں احکام دیئے ہیں۔ بڑی خوش قسمتی ہے۔ میں نے اپنے ایک پروگرام میں عرض کیا تھا کہ میں تو اس دنیا میں آگیا، اپنی مرضی کے خلاف حکم دیا کہ تم چلو، ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ یہاں آ کر ایسے گھر میں پیدا ہو گیا جو غریب سا گھر تھا، میں امیر گھرانے میں پیدا ہونا چاہتا تھا۔ میری آرزو تھی کہ فرسٹ کلاس موٹریں ہوں، لیکن جہاں حکم ہوا، وہاں آ گیا، اور میں جمعرات کو پیدا ہونا چاہتا تھا، ہفتہ کو پیدا ہو گیا۔ تاریخ مجھے یہ پسند نہیں تھی، ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک کیا۔ جب یہ برسا کوزہ (میں) بن گیا تو کوزہ گر (خدا) سے دست بدست پوچھا کہ اے کوزہ گر اس میں ڈالنا کیا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا۔ میں تو بن کے یہاں آیا ہوں۔ تو پھر اس کی مہربانی ہے، اس کا کرم ہے کہ اس نے فرمایا کہ میں نے انسان نبی کے ذریعے سب کچھ جان چکنے، سمجھ لینے کے لیے ایک پروگرام، ایک فریم ورک دے دیا گیا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
تو کچھ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کو ہم بہت قریب سے جا کر دیکھتے ہیں۔ میں ان کو بڑے شوق سے دیکھتا ہوں، اور میں ان کو بابے کہتا ہوں کہ اللہ کے دیئے ہوئے احکام کو کس خوش دلی کے ساتھ اور کس محبت کے ساتھ مانتے ہیں، مانتے چلے جاتے ہیں۔ کوتاہی ہوتی ہے تو پھر اٹھ کر ماننا شروع کر دیتے ہیں۔
میں حرم شریف میں جب پہلی مرتبہ گیا، بڑی دیر کی بات ہے۔ جب حرم شریف کی شکل و صورت ایسی نہیں تھی جیسی اب ہے۔ ماشاءاللہ جب بھی پیاری تھی لیکن اس کے اندر سخت پتھر تھے۔ کھڑے ہونے کے لیے کچا راستہ تھا، وہاں پر زم زم کے پاس، کسی نے زم زم سے اپنی پگڑی دھو کے ان پتھروں پر ڈالی ہوئی تھی سوکھنے کے لیے۔ تو میں وہاں بیٹھا تھا۔ مجھے کچھ اچھا نہ لگا۔ حرم شریف میں کپڑے سوکھنے کے لیے، لیکن لوگ ڈالتے تھے، کہہ بھی کچھ نہیں سکتا تھا۔ وہ آدمی جب پگڑی سوکھی ہوئی اٹھانے کے لیے آیا، تو میں نے پوچھا، بھائی صاھب آپ کہاں کے ہیں؟ کہنے لگا، میں پاکستان سے ہوں۔ میں نے کہا، بڑی خوشی کی بات ہے۔ پگڑی سے اندازہ لگایا تھا کہ آپ وہیں کے ہوں گے۔ ویسے آپ کون سے علاقے سے ہیں؟ کہنے لگا، سائیں میں سندھی ہوں۔ میں نے کہا، بڑی برکت والی بات ہے۔ چونکہ آپ مذہب کے بہت قریب ہوتے ہیں، بڑے ماننے والے لوگ ہوتے ہیں، اور ان میں بڑی محبت اور جذبہ ہوتا ہے، تو میں نے کہا، سائیں آپ یہاں کب سے ہیں۔ کہنے لگا، بابا میں تو اٹھارہ برس سے ہوں۔ تو میں نے کہا، آپ یہاں کیا کرتے ہیں۔ لگتا ہے آپ کسی خاص پروجیکٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ کہنے لگا، ہم ایسے ہی چل کے آ گئے تھے یہاں رہنے کے لیے۔ صبح سویرے اٹھ کے منڈی میں بوجھ ڈھوتے ہیں۔ اس کے دو چار پانچ ریال مل جاتے ہیں۔ اس سے ہم اپنا روٹی کھانا کرتے ہیں۔ پھر ہم آ کے حرم میں بیٹھ جاتے ہیں اور اس پر نگاہ لگا کے بیٹھ جاتے ہیں اور اس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا تو پھر آپ جب یہاں آ جاتے ہیں اور حرم میں بیٹھتے ہیں تو آپ حرم میں کیا کرتے ہیں، یعنی ۔۔۔۔کہنے لگا، سائیں ہم گر پڑتے ہیں اور پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھرگر پڑتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اٹھارہ برس سے۔ میں نے کہا، “ بہت خوش نصیب انسان ہیں جو گر بھی پڑے اور اٹھ کے کھڑا بھی ہو جائے۔پھر گر پڑے، پھر اٹھ کے کھڑا ہو جائے۔“ تو یہ بڑی برکت کی بات ہے۔ ان ماننے والے لوگوں کی جو تسلیم کر لیتے ہیں اس بات کو، جو ہمیں فریم ورک عطا کیا گیا ہے۔ وہ صیحح ہے۔ مناسب ہے اور اسی کے مطابق ہم زندگی کو بسر کریں گے۔
لیکن اس کے ساتھ انسانی کمزوری ہے۔ گرنے والا جو مقام آتا ہے تو وہ بھی ساتھ چلتا ہے۔ اس وقت آدمی یہ ضرور سوچتا ہے کہ یہ میرے ساتھ، میرے دوستوں کے ساتھ، میرے عزیزوں کے ساتھ کیا ہوا؟ تو اس میں عزیزانِ گرامی، زیادہ کوتاہی اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان جو ہے، وہ بڑا بے صبرا اور نا شکرا ہے، اور اس کی خاصیت ہے۔
چھوٹے سے دھبے کو پھیلا کر نہ صرف اپنی زندگی پر، نہ صرف اپنے علاقے پر، بلکہ ساری دنیا پر محیط کر لیتا ہے اور اس کے دائرے کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو مصائب اور مشکلات اتنی ہی شدید ہوتی ہیں، جتنا کہ آپ نے ان کو بنا دیا ہوتا ہے، اور وہ آپ کی ساری میری زندگی ہے اور وہ برباد ہو گئی، تباہ ہو گئی۔ مجھے یاد آیا، آپ سے بات کرتے ہوئے ایک منگ بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔ گاؤں کا رہنے والا۔ بہت ہی غریب آدمی تھا، لیکن تھا وہ صوفی آدمی۔ روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ تو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوب صورت گھوڑا تھا، اعلٰی درجے کا گھوڑا۔ دنیا اسے دیکھنے کے لیے آتی۔ اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا اصطبل بنا رکھا ہوا تھا۔ اس کا عشق اور کچھ نہیں تھا۔ ایک گھوڑا ہی تھااس کے پاس۔ بادشاہِ وقت کو پتہ چلا کہ ایک گھوڑا اس کے پاس ہے جو کہ بہت اعلٰی درجے کا ہے تو یہ حاصل کرنا چاہیے۔ تو بادشاہ اپنے حواریوں کے ساتھ امیروں، وزیروں کے ساتھ اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا، “ اے فقیر مانگ کیا مانگتا ہے اس گھوڑے کے بدلے؟“ اس نے کہا،“ حضور یہ بکاؤ مال نہیں ہے۔ یہ شوق سے رکھا ہوا ہے۔ یہ بیچا نہیں جا سکتا۔ یہ تو بیچنے والی چیز ہی نہیں ہے۔“ اس نے کہا، نہیں ہم تجھے منہ مانگی قیمت دیں گے۔ اس نے کہا، نہیں جی میں نے بیچنا نہیں ہے۔ اس نے کہا، پھر غور کر لے۔ ہم تجھے پرگنہ ایک ریاست دیں گے۔ اس کے بدلے ہمیں یہ گھوڑا دے دے۔ وہ پھر بھی نہیں مانا۔ ضدی آدمی تھا۔ سودا چکتے چکتے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے کہا، “ آدھی سلطنت لے لے، گھوڑا مجھے دے دے۔“ اس نے کہا، “ جناب عالی! میں نے بتایا کہ اس کا مول کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ بکنے والی چیز ہوتی تو میں دے دیتا آپ کو، لیکن یہ بکنے والی چیز نہیں ہے۔“ تو اس نے کہا، اچھا تیری مرضی۔ جب بادشاہ چلا گیا تو گاؤں کے لوگوں نے کہا تو کتنا نالائق، بے وقوف اور کتنا جاہل ہے کہ بادشاہِ وقت تیرے پاس آیا۔ اس نے آدھی سلطنت آفر کی۔ اگر ظالم تجھے مل جاتی تو ہم بھی مزے کرتے۔ سارے گاؤں کے مزے ہوتے۔ تو ہمارا بادشاہ ہوتا۔ ظالم تو نے یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے۔ کتنی بڑی خوش نصیبی کو گھر آئے، دھکا دے دیا، باہر پھینک دیا۔ تو اس نے کہا، وہ عجیب و غریب آدمی تھا۔ کہ میرا گھوڑا ہے، اس نے اس کا مول لگایا، میں نے نہیں دیا۔ اس میں خوش نصیبی یا بدنصیبی کی کیا بات ہے۔ یہ تو میری زندگی ہے۔ میرا گھوڑا ہے۔ خوش نصیبی تم کدھر سے نکال رہے ہو۔ میں نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا تو ضدی آدمی ہے۔ تو شروع ہی سے ایسا ہے اور تیرا مزاج ہی ایسا ہے۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔
 

ماوراء

محفلین
تھوڑے عرصے بعد کیا ہوا۔ صبح اٹھا چارہ ڈالنے کے لیے تو وہاں دیکھا کہ اصطبل خالی تھا۔ گاؤں کے لوگ آئے، روتے پیٹتے۔ کہنے لگے ہمارے گاؤں کا حسن تباہ ہو گیا۔ تجھ سے کہا تھا نا کہ بادشاہِ وقت کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتے۔ تیرا گھوڑا تیرے پاس نہیں رہا۔ تیرے ساتھ بڑا ظلم ہوا تو تباہ ہو گیا، برباد ہو گیا۔ اس نے کہا، میں کہاں سے تباہ ہو گیا۔ کہاں سے برباد ہو گیا۔ ایک گھوڑا تھا، چھوٹی سی چیز تھی۔ میری زندگی تو بہت بڑی ہے۔ یہ اس کا حصہ تھا۔ حصے کے اوپر میری ساری زندگی کو کیوں پھیلا کر کہہ رہے ہو، کہ چونکہ تمھارا گھوڑا چلا گیا، اس لیے تم برباد ہو گئے۔ معمولی سی بات ہے۔ انہوں نے کہا، نہیں تو بے وقوف آدمی ہے۔تجھے اللہ نے عقل نہیں دی۔
وہ پھر واپس چلے گئے۔ کوئی ایک مہینہ گیارہ دن کے بعد اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا واپس آ گیا۔ اس کے ساتھ گیارہ نئے جنگلی گھوڑے تھے۔ وہ کہیں بھاگ گیا تھا جنگل میں، اور جنگل میں جا کر انہیں سیٹ کرتارہا اور وہ سارے اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ تو گیارہ گھوڑے نئے، اعلٰی درجے کے ساتھ لے کر آگیا۔ جب اس نے دیکھا تو بڑا خوش ہوا۔ انہوں نے رسے ڈال کر سب کو وہاں کھڑا کر دیا۔ گاؤں کے لوگ آئے۔ انہوں نے کہا “ تو بڑا خوش نصیب ہے تیرا گھوڑا کھو گیا تھا اور دیکھ تجھے کمال کی چیز لا کر دی۔“ اس نے کہا، میری کہاں خوش نصیبی ہے۔ گھوڑا تھا، چلا گیا تھا۔ واپس آگیا۔ تو میری ساری زندگی کچھ اور ہے، اور تم ایک واقعہ پکڑ لیتے ہو۔ تم اتنے نالائق لوگ، سمجھتے نہیں ہو۔ تم آ کر کہتے ہو، کیا خوش نصیبی ہے۔ وہ جو گھوڑے جنگل سے آئے تھے اور وہ جنگلی گھوڑے تھے۔ اب ان کو سدھانا بڑا مشکل کام تھا۔ تو اس آدمی کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ بہت پیارا، جی جان سے عزیز تھا۔ ایک باپ تھا، ایک بیٹا تھا۔ اس نے کہا، باپ یہ جنگلی گھوڑے ہیں۔ میں ان کو سدھاؤں گا۔ بریک ان کروں گا ان ہارسز کو۔ چنانچہ اس نے ایک کو رسہ پھنک کر پکڑا۔ پکڑ کر اس کے منہ میں لگام دے کر اس کے اوپر چڑھا۔ چڑھ کے سب سے صحت مند جنگلی منہ زور گھوڑے سے گر گیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی، اور زمین پر تڑپنے لگا۔ اس کا باپ آیا، اس کو اٹھا کر لے گیا گھر۔ گاؤں کے لوگ روتے پیٹتے آئے، تیری بدقسمتی ہے۔ تیرا ایک ہی بیٹا تھا تو تو مارا گیا۔ تباہ ہو گیا۔ برباد ہو گیا۔ ہم تو رونے، سیاپا کرنے آئے ہیں۔ اتنا جواں سال بیٹا اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں رہا۔ اس نے کہا، بھائی اس میں میری بد قسمتی کدھر سے آ گئی۔ یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بیٹے کی ران ٹوٹ گئی ہے۔ مشکل آئی ہے تو ٹھیک ہے۔ تم مجھے سارے کے سارے کیوں کہہ دیتے ہو کہ تو تو مارا گیا، تو تو برباد ہو گیا۔ تیرے گھر میں بد نصیبی آئی ہے۔ تاؤ ایک مذہب ہے۔ اس کے پیروکار بڑے وحدانیت کے قائل ہوتے ہیں۔ Oneness کے ماننے والے۔ تو یہ جو ٹوٹے آتے ہیں، ان کو نہیں مانتے۔ پوری زندگی کو مانتے ہیں۔ اب وہ بد نصیب باپ اور بد نصیب بیٹا اور ان کے بارہ گھوڑے رہ گئے۔
تھوڑے دنوں کے بعد بادشاہ کی قریبی ہمسایہ بادشاہ سے جنگ لگ گئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ جنگ طول اختیار کر گئی تو بادشاہِِ وقت کو جبری بھرتی کی ضرورت پڑی۔ اس نے ڈنکا بجا دیا گاؤں گاؤں میں ڈونڈی پھیر دی اور جو نوجوان بچے تھے، ان کی زبردستی جبری بھرتی کے لیے وہ گاؤں میں آ گئے۔ جتنے خوب صورت تگڑے بچے تھے، ان کو کان سے پکڑ کر چلے گئے۔ اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، وہ کسی کام کا ہی نہیں تھا وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ گاؤں کے لوگ اس کے پاس آ کر کہنے لگے، یار ہمارے تو پیارے بیٹے تھے، سب کو ہانک کر لے گئے۔ تو بہت اچھا رہا، خوش قسمت ہے۔ اس نے کہا، یار تم بندے اس قابل نہیں ہو کہ تمھارے ساتھ رہا جائے۔ یہ گاؤں ہی نالائق لوگوں کا ہے جو زندگی کے چھوٹے سے حصے کو ساری زندگی پر پھیلا کر اس کا نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ تو میں معافی چاہتا ہوں۔ میں تمھارے درمیان نہیں رہوں گا اور میری اور تمھاری جدائی ہے۔
چنانچہ وہ اپنے گھوڑے اور بیٹا لے کر کسی اور گاؤں چلا گیا۔ اس کا یہ فلسفہ چینی فلسفہ ہے۔ دائرے کا ایک بہت بڑا حصہ بنا کر زندگی کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے اور اس کو آنکنے کے لیے، ایک فٹا لے کر اس کا دائرہ کار طے کرنے کے لیے۔ کبھی مت کہیے۔ آپ کی زندگی میں اگر کوئی برا واقعہ ہوا ہے۔ کوئی ایک دھبا آیا ہے کہ وہ ساری کی ساری آپ کی زندگی پر محیط ہو گیا ہے۔ لیکن انسان کا یہ خاصا ہے کہ جب ذرا سی تکلیف پڑتی ہے تو وہ چیختا چلاتا ہے۔ جب ذرا سی خوشی کا لمحہ آتا ہے وہ اس کو بھی پھیلاتا ہے۔ کہ میں سارے کا سارا خوش ہو گیا۔ حالانکہ اس میں خامیاں، کمزوریاں، کوتاہیاں بدستور موجود ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ خوشی کا لمحہ آ گیا ہو۔
مجھے آپ سے بات کر کے اچانک یاد آیا۔ میرا پوتا چھوٹا، وہ آرہا تھا، گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے اسے گود میں اٹھا کے بازو پر بٹھایا۔ میں نے کہا، دیکھو یار کیسا اچھا موسم ہے ذرا دیکھ باہر نکل۔ اس دن موسم بہت اچھا تھا۔ ہمارے بڑے بڑے شیشے تھے۔ آگے درخت لہلہا رہے تھے۔ پودے لگے ہوئے تھے بانس کے، جو زیادہ خوب صورت لگتے تھے۔ کالے سیاہ بادل تھے۔ ان کے اندر سے بادلوں کی قطاریں جا رہی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ میتے پوتے کو حسن و جمال میں دلچسپی ہو۔ وہ دیکھے اور اس کو پسند کرے بجائے اس کے کہ، وہ لکڑی کے اور پلاسٹک کے واہیات کھلونوں سے کھیلے، جن سے زیادہ قاتل اور حملہ کرنے والے ہیں۔ پتا نہیں، آج کل ان کو کیا کہتے ہیں، عجیب و غریب۔ ان سے کھیلتا رہتا تھا۔ جب میں نے اسے گود میں اٹھا کر کہا، دیکھو باہر کا منظر اور اس کا حسن، یہ بادل اور پرندے اور یہ درخت اور یہ لہلہاتی شاخیں، تو وہ بالکل نہیں دیکھ رہا تھا اور گھٹن سی اس کے اندر ہے، اور ایک ہی جگہ اس کی نگاہیں مرکوز ہیں، اور گھبرایا ہوا ہے، اور میری گود میں چڑھا ہوا ہے۔ میں نے جب اس کی نگاہوں کو غور سے دیکھا تو وہ شیشے کے پار ہی نہیں جا رہی تھیں۔ میں نے کہا، یہ کیا مسئلہ ہے۔ اتنا معصوم بچہ اور یہاں پر پھنسا ہوا ہے۔ تو خواتین و حضرات! میں نے دیکھا کہ وہ جو بڑا سا شیشہ، جس میں سے میں اسے جمال اور خوب صورتی سے متعارف کروا رہا تھا، اس شیشے کے ساتھ ایک مری ہوئی کھی چپکی ہوئی تھی۔ مر گئی ہو گی کب کی۔ جیسے ہم کہتے ہیں چھی چھی لگی ہوئی تھی۔ اس نے سب کچھ چھوڑ کر ساری کائنات چھوڑ کر سارا حسن و جمال چھوڑ کر اپنی نگاہیں اس چھی چھی پر مرکوز کی تھیں، اور منہ بسور کے بیٹھا ہوا تھا کہ یہ دنیا جو ہے ساری کی ساری، چھی چھی ہے، اور مری ہوئی مکھی ہے اور وہ نالائق چیز ہے اور میں ان ساری چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکاتا جن سے میرا دادا کرنا چاہتا ہے۔
تو جب مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں، تو اگر آپ غور سے دیکھیں کہ ان کا ایک حصہ بالکل چھوٹا سا فریکشن، آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہم نے وہ دھبا پھیلا کر اتنا وسیّ کر لیا ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنے ہمارے اختیار میں نہیں رہتا، اور وہ پھر پھیلا ہوا دھبا ہمارا حکمران بن جاتا ہے، اور جہاں جہاں چاہتا ہے، ہم کو اٹھائے پھرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پچھلی مرتبہ کہا، اگر اللہ کی ذات اور اس کے افعال کو جاننے کی آرزو ہے تو پھر اس کے احکام کے اندر داخل ہونا پڑے گا، اور اس فریکونسی کو حاصل کرنا پڑے گا جس فریکونسی کو پکڑ کر، اچھی طرح سے اختیار کر کے ہم ان افعال کو سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
بچوں کی نفسیات​


آپ سب کی خدمت میں میرا سلام پہنچے۔
بچے کی نفسیات کے بارے میں بہت سی دلیلیں ایک دوسرے کے متضاد بھی ملتی ہیں کہ یہ بچہ کام کرتا ہے یا نہیں کرتا، تو میرا اس سے کوئی ایسا تعارف نہیں تھا۔ اور میں سائیکالوجی کے بارے میں اتنا کچھ نہیں جانتا تھا جتنا کہ میرے ہم سفر جانتے تھے۔ میرا یہ واقعہ 1952ء کا ہے اور یہ مجھے شہزاد کی فرمائش پر پھر یاد آرہا ہے۔ بہت دیر کی بات ہے۔ میں 1952ء میں ملک روم میں تھا۔ روم یونیورسٹی میں اردو پڑھاتا تھا اور ساتھ ساتھ فرانسیسی اور اطالوی پڑھتا ہے۔ وہاں پر ہمارا ایک دوست تھا مسودی ریاک۔ وہ بہت اچھا مصور تھا۔ میری بہت اچھے سے مراد یہ کہ اس کی تصویریں گاہے بگاہے بک جاتی تھیں اور وہ ہمارا دوست تھا۔ دوست تھا تو اس کے ساتھ ادھر للے تللے کرنے میں گھوم پھر لیتا تھا۔ وہ اچھا شریف آدمی تھا۔ ہمیں بہت آسانی ہوتی تھی، کیونکہ اس کے پاس کچھ پیسے ہوتے تھے۔ ہم تین دوست تھے۔ ریاک، میں اور ایک ہری چند، جو ہندوستان کا تھا۔ ہم اس تاڑ میں رہتے تھے کہ کوئی اچھا سا موقع ہمیں ایسا ملے کہ جہاں پر ہم پیسے خرچے بغیر گھوم سکیں اور اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ پتا نہیں کتنی دیر یورپ میں رہنا ہے۔ تو ان دنوں 31 دسمبر 1952ء کو ریاک کی ایک تصویر بک گئی تو اس نے کہا، میں تمھاری دعوت کروں گا۔وییا وینی تو کے اوپر، جہاں پر ایمبیسیز ہیں۔ بہت قیمتی سڑک ہے جیسے ہمارے ہاں شارع قائداعظم ہے۔ اس ریسٹورنٹ میں جس کا نام علی بابا چالیس چور تھا۔ وہ ایک بہت بڑا ریسٹورنٹ تھا۔ اور اس کے اوپر چھت اٹھائی ہوئی تھی اور اس کے اندر آرکسٹرا برا خوب صورت بجتا تھا۔ہماری خوش قسمتی کہ وہاں عام طور پر ایکٹر لوگ زیاہ جاتے تھے۔ عام آدمی کی وہاں اتنی پہنچ نہیں تھی کہ وہاں پہنچ سکتا یہ جو ہمارا انتھونی کوئن تھا، اس کو وہاں آنے کا بہت شوق تھا۔ انتھونی کوئن کی ایک بڑی عجیب و غریب عادت تھی کہ عورتوں جیسا مزاج تھا اس کا۔ ہر وقت اپنے ساتھ ایک شیشہ رکھتا تھا، دو منٹ بعد نکال کے تھوڑی لپ اسٹک لگاتا تھا۔ اتنا نازک مزاج اور یوں کر کے بال۔ انتھونی کوئن سے ہم بہت متاثر تھے۔ اور پھر اس سے وہاں ملنا ہوا۔ انہی دنوں ہمارے مشرقی پاکستان کے ربیع الدین وہاں پر فلم ڈائریکشن کی کچھ تعلیم لینے آ گئے۔ ہماری ایوننگ کلاسیں ہوتی تھیں، اس لیے انہوں کہا، چھ مہینے کا کورس ہے اس میں آپ کو پتا چلے گا کہ ڈراما کیسے لکھا جاتا ہے۔ لائٹنگ کیسے کی جاتی ہے۔ تو چینی چتا ہم جانے لگے۔
ہمارے جو استاد تھے، پرنسپل تھے، ریکٹر تھے وہ تھے وکٹوریا ڈسیکا۔ ان کی ایک بہت مشہور بایئسکل تھی۔ تو ڈسیکا صاحب کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ لیکن ہم ڈسیکا صاحب سے نہ تو اتنا ڈرتے کیونکہ ان کا مزاج اچھا نہ تھا، اور نہ ان سے اتنے زیادہ متاثر تھے جتنے ان ایکٹروں سے جن کا کہ پینترا اور طرح کا تھا۔ تو ایک دفعہ انہوں نے ہم سے کلاس میں سوال پوچھا: “ بھئی بتاؤ کہ سب سے زیادہ مشکل رول کون سا ہے جو ایکٹر کر سکتا ہے؟“ مجھے بات یاد آگئی۔ ہم سب نے ہاتھ کھڑے کیے تقریباً لڑکے لڑکیوں کا مشترکہ جواب تھا کہ ہنچ بیک آف ناسٹ ڈم کا رول ہے۔ کیونکہ ٹوٹی ہوئی ناک، گندی شکل، بد نصیب آدمی، ساری ہمدردیاں اس کے ساتھ، وہ رول تو کوئی بھی آدمی کر سکتا ہے۔ وہ تو سب سے آسان ہے۔ ہنچ بیک آف نو ٹرے ڈم، اگر کسی نے کیا ہے تو آپ اسے بڑا ایکٹر نہ مانیں۔ مشکل ترین رول یہ ہے کہ عام گھرانے کا ایک عام باپ ہے۔ ٹوپی اتار کے رکھتا ہے، چھتری پکڑ کر رکھتا ہے۔ دفتر سے آتا ہے اور پھر اس کو اپنا رول کرنا ہے جو سب سے مشکل ہے۔ وہ کیا کرے، اس کے پاس کوئی سہارا نہیں؟
یہ بات دوسری طرف چلی گئی، تو ہم چلے گئے علی بابا چالیس چور والے ریسٹورنٹ میں۔ 31 دسمبر کی رات میں تمھاری وہاں لگواؤں گا، اور تم دیکھو گے کہ دن کس طرح طلوع ہوتا ہے اور سال کس طرح ختم ہوتا ہے۔ کیا کیا کچھ ہنگامہ ہوتا ہے۔ ہم بڑے خوش تھے۔ ہم بڑے خوش تھے۔ ہم وہاں چلے گئے تو جا کے جب دیکھا تو چھما چھم بینڈ باجے بج رہے ہیں اور دنیا جہاں کے ایکٹر ایکٹرس آئے ہوئے ہیں۔ سارے تقریباً وہاں پر موجود تھے اور وہ بڑا اچھا زمانہ تھا۔ جب پوسٹ واسل میں اٹلی کی بن رہی تھیں عمارتیں، جب وہاں گئے تو وہاں سٹیج کے اوپر بلیک نیگرو تھے۔ اس زمانے میں بلیک ڈرمر کا بہت رواج تھا۔ اب نہیں رہا۔ بیٹ بہت پیاری تھی۔ ہر ایک کا ناچنے کو دل کر رہا تھا۔ اچانک ریاک اٹھا، ہم سمجھے شائد کوئی اپنی چیز ڈرنک، کوئی سگریٹ لیے گیا ہے۔ جا کر ان سے ملا، میوزک والوں سے۔ پھر لوٹ کر واپس آ گیا تو اچانک ایک اعلان ہوا۔ سینوری سینوری بونیرا چے اون کایتن تے پاکستان وترادی نصرالی میں تو یہی سمجھا کہ ہمارے درمیان کوئی پاکستانی موجود ہے جو بڑا اچھا گاتا بجاتا ہے۔ میں نے کہا، شائد ہو گا۔ میں تھوڑا سا کانپا۔ اعلی اے ای پروفسورے اعلٰی ادنستی زاوی روما سواد نامے کاغذ اٹھایا اشفاق احمد۔ جب انہوں نے یہ کہا تو میری جان عذاب بن گئی۔
 

ماوراء

محفلین
مجھے گانے کا پتا ہی نہیں ہوتا کیا ہے۔ شائد اب یاد ہو۔ اب یہ وہاں نہیں ہو سکتا کہ میرا گلا خراب ہے۔ یوں ہے وہ ہے میں نہیں آ سکتا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ برا لگتا ہے۔ یااللہ مجھے کچھ ایسی بات یاد دلا کہ میں کیا گاتا، ہمیں لب پہ آتی ہے دعا بن کے وہ اس پر ڈرم نہیں بجا سکتے تھے۔ کچھ میوزک نہیں بج سکتا۔ پھر ڈانس، تو الحمدوللہ میں گاؤں کو رہنے والا تھا اور ہمارے سکھ علاقے میں بولیاں دولیاں بہت چلتی تھیں۔ میں اپنی کرسی سے سٹیج پر جاتے ہوئے سوچتا گیا۔ یااللہ میں کیا کروں۔ اچانک ایک بولی یاد آ گئی، شائد یہی کچھ کام دے جائے۔ سٹیج پر پہنچ گیاتو سٹیج فیئر (Stage Fear) ختم ہو گیا۔ کچھ پہلے بھی، ریڈیو کی دنیا سے تعلق تھا میرا، وہاں پہنچ گیا۔ اپنے کان پر ہاتھ رکھا، سٹائل اپنا جو ہوتا ہے، میں نے کہا “ بودی والا چڑھیا کار کار ہوں۔ وچارا گیڑا گناماں پیالا لیا روپ ہینڈاراں ہزار ہابھیڈاں چار دیاں، بے قدراں دیاں ناریاں بھیڈاں چار دیاں“ جب یہ شروع ہوا تو انہوں نے لہر اٹھا لی۔ جناب ادھر سے جم چکھدار جم چکھدار شروع ہو گئے۔ مجھے خالی یہی بند یاد آرہا ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں آ رہا، میں یہ گاتا رہا آدھا گھنٹہ تک اب Once More شروع ہو گیا۔ میں وہاں کا ہیرو بن گیا۔ اچھے اچھے گانے والے آئے ہوئے تھے۔ نامور گانے والے پیچھے ہو گئے۔ انہوں نے کہا، نہیں سینورے نہیں اشفاق احمد دے فی وے دنال تر ولوتا اعلٰی کنتار۔“ میں نے کہا، جی بس میرا اتنا ہی گانا تھا۔
اب جب میں بیٹھ گیا تو میں نے کہا، تم سے بعد میں بدلہ لوں گا۔ اب چونکہ مجھے اپنی اتنی شیشک مل رہی ہے تو لوگ آگئے مجھ سے دستخط کروانے، آٹو گراف کے لیے، میں اس کو دے رہا ہوں، اُس کو دے رہا ہوں۔ اشفاق احمد۔ میں جس میز پر بیٹھا ہوں، وہاں پر ایک بہت معزز چودھری بنا ہوا تھا۔ دور ایک میز تھی۔ اس پر ایک نہایت گریس فل خاتون تھی۔ اکیلی چپ چاپ بیٹھی ہوئی تو انہوں نے پلٹ کر ایسے میری طرف دیکھا تو میری بالکل سٹی گم ہو گئی۔ یعنی اس کا کچھ ایسا چارم تھا اس کی Personality اتنی بڑی تھی۔ میں اس کے پاس بہ ادب چلا گیا۔
اس نے کہا۔ “ سی کم دا “ میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا Give me Sign مجھے بھی دیں آٹو گراف۔ میں نے اس پر لکھا، بخدمت ملکہ عالیہ انگرڈ برگ مان اور نیچے اپنا نام لکھا۔ اب اس کے بعد وہ انگریزی میں پوچھتی ہے What you have written? تو میں نے کہا I have written your name اور یہ مجھے بڑی آرزو تھی۔ میں خود اس لیے اٹھ کر آگیا تھا کہ اتنے قریب سے اتنی بڑی آرٹسٹ کو دیکھنے کی حسرت تھی۔ تو آپ کی خدمت میں آ گیا وہ کہنے لگی Thank you very much میں نے کہا، “ سینور یو بیر تور سیلنی سے بھی ملنے کو میرا بڑا جی چاہتا ہے۔ وہ اس کے خاوند تھے جو رسیلنی۔ تو اس نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا، مجھے رنگ کریں۔ میں آپ کو وقت دوں گی، فلاں دن اور پھر آپ آئیں۔ تو میں نے وہاں سے آ کر سب کو بتایا۔
ایک دن میں نے ٹیلی فون کیا۔ اس نے کہا، آپ آئیں اور دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔ رسیلنی باوجود اس کے کہ وہ سیٹ پر ہوں گے، لیکن انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں آ جاؤں گا اور کھانا اکھٹے کھائیں گے۔ this will be sort of Family Union ہم تم کو ایک گھر کا ہی بندہ سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا، جی I am honoured عزت افزائی کی بات ہے۔
تو لو جی میں وہاں پہنچا، کار چلاتا۔ پولین اسے کہتے تھے۔ تو پولین کے معنی ہیں، چوہیا۔ چوہیا کار۔ صابن دانی تو آپ لوگوں نے یہاں نام رکھا ہے۔اسی کو تو پولین چوہیا کار کہتے ہیں۔ اب میں تو پولینو میں وہاں پہنچا۔ Villa کوئی روم سے 21۔22 کلو میٹر کے فاصلے پر۔ جب میں وہاں پہنچا تو میرا خیال تھا کہ امیر لوگ ہیں تو اچھا خاصا بڑا سا گھر ہو گا۔ لیکن جی وہ تو اتنا بڑا تھا اور اتنے ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا کہ میری سٹی گم ہوئی اس کو دیکھ کے۔ باہر کھڑے دربان نے پوچھا، آپ کو کس سے ملنا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
سینوریو پاکستان میں نے۔ کہنے لگا، سی کماں دا، اس نے وہاں بڑا گیٹ کھول کے چھوٹی کار اندر داخل کی تو یہ زندگی کی شرمندگیوں میں سے ایک تھی۔ انہوں نے گڑ۔ڑ۔ڑ۔ڑ۔ بڑا دروازہ کھولا کہ کوئی ملنے والا ہے تو اس میں چوہیا جا رہی ہے۔ مجھے افسوس ہوا، یا اللہ یہ ایسی کار۔ کاش اس وقت کے لیے اور بڑی مل جاتی، کم از کم لیموسین ہوتی۔ میں نے جا کے اس کو روکا۔ اس چوکیدار نے کہا، ابھی آپ کو تھوڑا سا پیدل چلنا پڑے گا۔ آگے آپ کو ایک اور برک انداز ملے گا، باوردی۔ وہ آپ کو لے جائے گا، تو میں نے کہا، بہت اچھا۔ میں پیدل چلتا رہا پٹڑی کے اوپر۔ دونوں طرف بہت خوب صورت لان تھے۔ آگے گئے تو ایک اور باوردی آدمی ملا، اس نے بڑے خوبصورت اور اس کے اوپر بیلیں لٹکی ہوئیں۔ اس نے وہاں جا کر کہا، میری حد یہاں ختم ہوتی ہے۔ آپ اب ایک اور صاحب کے ساتھ چلے جائیں۔ ایک اور صاحب جو کہ عورت اور مرد تھے تو ان کو میں Greet کر کے ان کے ساتھ چلا، تو انہوں نے کہا، میڈم بہت خوش تھیں۔ سب کو بتایا تھا کہ ہمارا ایک معزز مہمان آرہا ہے۔ میں آگے چلا گیا جا کر ایک بڑے ہال میں، انہوں نے مجھے اس خاتون نے اس مرد نے بٹھا دیا۔ ایک لمبی سی میز تھی۔ کالی سیاہ رنگ کی اور اس کے اوپر میں اکیلا بیٹھا تھا۔ تو انہوں نے کہا، ہم نے میڈم کو اناؤنس کر دیا ہے، وہ آتی ہوں گی۔ میں نے کہا، بہت خوشی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا، وہ معذرت کر رہی ہیں کہ تھوڑا سا آپ کو انتظار پڑے گا۔ اب بیٹھے بیٹھے مجھے کوئی مشکل سے چار پانچ منٹ ہوئے ہوں گے اور میں تھوڑا سا بور بھی ہو رہا تھا۔ وہاں سیڑھیاں تھیں آٹھ دس، وہاں سے ٹپ ٹپ کرتا ہوا ایک لڑکا، جس نے نیلی نیکر پہنی ہوئی، کالے سیاہ بوٹ اور کتنے سارے بٹنوں والی جیکٹ سی پہنی ہوئی وہ نیچے اترا۔ لڑکا کوئی سات آٹھ سال کا تھا۔ نیچے اترا کھٹ کھٹ کرتا مجھ تک پہنچا۔ میں نے اس کو مسکرا کر کہا، بنجو جی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور سیدھا میرے پاس آ کر کھڑا ہو کے غور سے میری شکل دیکھنے لگا۔ اب میں بڑا ایمپریس ہو رہا تھا۔ میں نے اس کو کہا How are you? You belong to a rich class. اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے کہنی رکھ کے میز کے اوپر، جہاں میں تھا، ایسے میری شکل دیکھی۔ اب ایک آدمی کا چہرہ اتنا قریب ہو، اس اینگل پر ہو، بڑی پریشانی کا باعث بنتا ہے اس زمانے میں میں نے تھوڑی تھوڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک آرٹسٹ تھا ڈالی، وہ اپنی مونچھوں کو موم لگا کے ذرا اونچی رکھتا تھا۔ میں نے بھی ڈالی کے فیشن میں مونچھیں اوپر کی تھیں تو جب اس نے چہرہ قریب کیا تو وہ میرے بہت نزدیک آ گیا۔ سیدھے کھڑے ہو کے اس نے میری ایک مونچھ کو پکڑا اور زور سے کھینچا۔ میرا ہونٹ سارا اوپر کو کھنچ گیا۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ ایک ملازم آ گیا اور مجھے آ کے کہنا لگا، یہ رسیلنی کا بڑا بیٹا ہے اور میڈم کا بڑا لاڈلا بچہ ہے۔ میں نے کہا، ہاں ماشاءاللہ بہت پیارا ہے۔ تھپڑ مار کے زور سے وہ بھاگ گیا، کہیں کھیلنے۔ پتا نہیں کہاں چلا گیا۔ میں نے کہا، یا اللہ جتنی خوشی خوشی میں آیا تھا اور جتنا میرا دبدبہ تھا، جو کچھ میں نے سنا تھا، یہ کیا ہوا میرے ساتھ۔ خیر رنج تو ہوا، آج تک ہے۔ یہ ہو کیا گیا میرے ساتھ۔ وہ چلا گیا اور میں بیٹھا رہا، اتنے میں میڈم آ گئی اور معذرت کرنے لگی، مجھے کچھ کام تھا۔ میں نے ابھی رسیلنی کو فون کیا ہے، اس نے کہا، میرا ایک آخری شاٹ رہ گیا ہے۔I hope بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ جب تک ہم بیٹھ کے باتیں کریں گے۔ کہنے لگی Would you like outside میں نے کہا، نہیں اندر ہی ٹھیک ہے۔ اندر میری کافی مرمت ہو گئی ہے۔ میں دوبارہ باہر جا کے پھر کسی کے سامنے پیش ہوں گا۔ تو بیٹھ کے باتیں کرنے لگ گئی۔ پاکستان کے بارے میں اس کو اتنا معلوم تھا کہ چھوٹا سا ملک ہے۔ دو ڈھائی سال کا۔ ابھی بنا ہے۔ میں نے کہا، آپ کے شوہر آئیں گے، ان کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ پھر وہ معذرت کر کے چلی گئ۔ اس کا ایک ٹیلی فون آ گیا تھا۔ میڈم کو ٹیلی فون بہت آتے تھے۔ چلی گئ تو اب میں بہت Conscious ہو کے بیٹھا ہوا ہوں۔ یا اللہ وہ ظالم کا بچہ پھر نہ آ جائے۔ ایک ڈر ہوتا ہے نا آدمی کو کہ ایک گھوم رہا ہے آفت کا پرکالہ۔ بعد میں یہ پتا چلا کہ رسیلنی نے کہا، آپ کھانا کھائیں، میں آپ کو Join نہیں کر سکوں گا، کیونکہ میں Delay ہو گیا۔ میرا شاٹ تیار نہیں ہوا تو میں پھر اشفاق سے ضرور ملوں گا۔ یہ بات طے ہے، پھر اس نے کہا، Would u like۔ میں نے کہا، جیسا کہیں ٹھیک ہے۔ وہ ڈونگے لے کر آنے لگے۔ ان کے ملازم باوردی دستانے پہنے ہوئے چیزیں لارہے ہیں۔ میری جان پر بنی ہوئی تھی کہ وہ چھری کانٹے سے کھاتے تھے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کیسے کھانا ہے۔ جب بھی کبھی وہ آلو میرے آگے بھاگتا رہتا ہے، پکڑا نہیں جاتا۔ نہیں آتا، تو میں ڈرا ہوا ہوں۔ ایسی جگہ پر خاص طور پر بندے کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چیزیں آ گئیں۔ اتنے میں وہ چھوٹا آفت کا پرکالہ تھا، اس کے بجائے پھر ایک اور نکل آیا۔ چار سال کا چھوٹا پرکالہ سا۔ تو میڈم نے کہا، یہ میرا چھوٹا بچہ ہے۔ دو ان کے بیٹے تھے۔ تو میں نے کہا ہیلو ہائے ویری کیوٹ۔ جیسے کہتے ہیں۔
تو وہ چھوٹا آ گیا۔ اس نے کرسی میرے اس طرف ڈال دی اور میرے قریب بیٹھ گیا، اور میرے چہرے کو غور سے دیکھتا جا رہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے، عجیب و غریب سی۔ کیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ کس قسم کا آدمی ہے۔ باوجود اس کے کہ دونوں بچے بہت اچھی اٹالین بولتے تھے۔ میں بھی ٹھیک ٹھاک بولتا تھا۔ باتیں ہم کرتے رہے۔ جب کھانا لگ گیا بڑے طلائی اور زریں برتنوں میں۔ تو ہم نے شوربہ ڈال دیا، جو آغاز کرنے والا شوربہ ہوتا ہے۔ تو وہ جو چھوٹا بچہ تھا، دوسرا بڑا ادھر بیٹھا تھا، دوسرا بھی آ گیا۔ کھانا تو کھانا تھا نا ساتھ۔ تو چھوٹے نے کیا کیا، وہ دہی کا ایک پیالہ اس کو لے میرے شوربے میں ڈال دیا اور چمچہ لے کر اس میں ہلا دیا اور اپنی طیز کچھ کھانے لگا۔ تو میں نے کہا، کوئی بات نہیں۔ شوربے میں دہی پڑا ہے۔ اس میں کیا خرابی ہو سکتی ہے تو میں نے ایک آدھ چمچ لیا تو میڈم نے کہا: I am very sorry بچے نے misbehave کیا آپ کے ساتھ۔ ہم بچوں کو ٹوکتے نہیں ہیں۔ ہم ان کو نفسیاتی طریقوں پر پال رہے ہیں، کیونکہ اگر بچوں کو ٹوکا جائے، ان کو منع کیا جائے تو ان کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ یہ نئی نئی تحقیق آئی ہے۔ ہم سارے لوگ یورپ کی اس تحقیق پر چل رہے ہیں۔ ہمارے جیسے پڑھے لکھے والدین اس معاملے میں بہت ہی محتاط ہیں۔ ہم بچوں کو کچھ نہیں کہتے۔ ملازم سے کہا کہ یہ پلیٹ اٹھا دو۔ اس کی جگہ اس نے نئی لا کر رکھ دی تو میں نے شوربہ ڈالا تو اس کے بڑے بیٹے نے کیچپ کی ساری بوتل پلیٹ میں انڈیل دی۔ تو میں نے کہا، میں کھاتا نہیں ہوں۔ میں ذرا سی چکن اور آلو گول سے کٹے ہوئے، وہ لے لیتا ہوں۔ وہ ڈال دیئے تو وہ جو بڑا بیٹا تھا، اس نے دیکھا کہ یہ بڑے شوق سے کھانے والا ہے۔ ابھی ایک نوالہ لیا ہی تھا کہ اس نے اپنا آلو چڑھایا فورک کے اوپر اور یوں تلکا کے ٹھک کر کے جیسے غلیل نہیں ہوتی، میری ناک کے اوپر، میں بہت اچھے کپڑے پہن کے گیا تھا، ٹھنا ٹھن مرچیں ڈال کے، آلووہ گیا۔ اس نے کہا، میں پھر معذرت چاہتی ہوں۔ اگر ہم ان کو کچھ کہیں گے، منع کریں گے تو ان کی شخصیت پر اثر پڑے گا۔ ہم نہیں چاہتے بچے کی شخصیت خراب ہو یوں آگے چل کر وہ بہتر انسان بنتا ہے۔ تو میں نے کہا، ہاں کوئی بات نہیں۔ ( پھر میں نے ہاتھ ایسے کیے) جو بھی آدمی Protection کر سکتا ہے، لیکن ہو نہیں سکی۔ ہاتھ ایسے کیا تو چھوٹے نے کھڑے ہو کر میرے پاؤں کے اوپر اپنا پاؤں بڑے زور سے مارا۔ اس کے نیچے لوہے کے وہ لگے ہوئے تھے نیلز میری چیخ نکلی خوفناک قسم کی۔ میں نے سوچا کس لیے یہاں آگیا۔ دفع کرو، لعنت بھیجو، یہ ایکڑوں کے گھر ہوتے ہیں۔ میں کہاں پھنس گیا۔ اتنے میں رسیلنی کا ٹیلی فون آ گیا تو ملازم نے آ کر اعلان کیا۔ اس نے کپڑا رکھا ٹک ٹک کرتی اوپر چلی گئی۔ اب میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں، اوپر جا رہی ہے کہ ان اب جا کے ٹیلی فون سننے لگ گئی ہے۔ جب وہ ٹیلی فون سن رہی ہو گی، بچے دونوں تاک میں بیٹھے تھے۔ میں نے گالی دی۔ کی سور میں تیرا گاٹا اتار دوں گا کتے۔ اس بے چارے نے کبھی گالی نہیں سنی تھی۔ اتنی گندی گالیاں جتنی مجھے آتی تھیں، جو کہیں بھی نہیں آ سکتیں تو وہ کانپ گیا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسا دیکھا نہیں تھا، وہ بے چارے ڈر گئے اور رنگ فق ہو گیا۔ میں نے کہا، اگر تم نے آواز نکالی تو کوئی اٹالین نہیں۔ کوئی انگریزی نہیں۔ خالص پنجابی “ جے توں فیرایہہ کیتا نا گل وڈ کے تھالی وچ رکھ دیاں گا“ اور اب چہرے سے پتا چل گیا اور دہشت آ گئی ان پر۔ اتنے میں وہ اپنا فون سن کے واپس آگئی اور انہوں نے کہا، وہ پھر معذرت کر رہے ہیں۔ کوشش میں کر رہا ہوں، موقع مجھے اگر مل جائے تو جانے نہ دینا، جائن ضرور کروں گا۔ میں نے کہا، بڑے مہربانی۔ پھر وہ کھانا کھانے لگی۔ اور دونوں بچے بھی۔
ہم بھی کھاتے رہے تو کھانے کے دوران جب ہم اختتام پر پہنچے تو میڈم نے کہا، پروفیسر! دیکھا آپ نے، اگر بچوں کو ڈانٹا نہ جائے تو شخصیت کیسی ہوتی ہے۔ پرسکون ہوتی ہے۔ کس شرافت سے کھانا کھا رہے ہیں۔
ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ نفسیات کا اچھا اصول ہے۔
سائیکالوجسٹ کہتے ہیں چونکہ بچے میں اگریشن (Aggression) ہوتا ہے تو وہ اس کو نکالنے کے لیے تکیہ لے کر ڈنڈے کے ساتھ ستون کے ساتھ باندھ کے پنچ مارو۔ کسی پر لکھ دو، “ اماں جی“ ، کسی پر لکھ دو “ ابا جی “ اماں پر غصہ آئے تو اماں پر اور ابا پر غصہ آئے تو ابا پر ٹھا ٹھا۔ اور اس طرح سے اگریشن نکل جاتا ہے۔ یہ ان کا خیال ہے۔ چنانچہ پوری ایک دہائی سے۔ میں کہوں گا، سائیکالوجی اس بات پر مصر ہے کہ ان کا اگریشن نکل جانا چاہیے۔ ماں باپ کے خلاف اگریشن تو ہوتا ہی ہے، بہتر یہی ہے۔ جو طریقہ اب خاص طور پر برٹش سائیکالوجی میں ہے، یہ کہتے ہیں، ڈانٹنا ڈپٹنا، اس کو اس کا مقام بتانا ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
دیے سے دیا


یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نیا نیا ولایت وے آیا تھا، تو اس بات کی دھن سوار تھی کہ کسی سے ہمارے یہاں جسے Wisdom of the East کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں، تو اس سلسلے میں مجھے مختلف علاقوں، میں مختلف جگہوں پر، مختلف کونوں کھدروں میں جانا پڑا۔ خاص طور پر میں نے ایسے ڈیرے تلاش کیے جہاں بابے لوگ رہتے تھے، اور آپ نے یہ لفظ میرے منہ سے بارہا سنا ہو گا تو میں حضرت سائیں، حضرت شاہ کے ڈیرے پر جاتا تھا، اور ان سے اس علم کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا جو علم کتاب میں موجود نہیں ہے۔ اور وہ میرے علم کے ساتھ بڑی بری طرح سے ٹکراتا تھا، کیونکہ میں ایک اور طرح سے کیا گیا تھا علم کے معاملے میں۔ وہاں کا علم ایک اور طرح کا علم تھا لیکن مجھے اس میں دلچسپی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک خرابی تھی کہ جو میرے ساتھی، اور میرے عصر ادیب تھے، لکھنے والے تھے، اس بات کو بہت برا سمجھتے تھے کہ ہمارا ایک پڑھا لکھا آدمی سیانا بیانا اتنی دور سے ہو کر آیا ہے، ولایت میں پڑھتا بھی رہا۔ یہ کس بے ہودہ کاروبار میں لگ گیا ہے اور ان کو بڑی تکلیف بھی ہوتی تھی، اور میرے خلاف بڑے کالم بھی لکھے گئے۔ میری بیوی بہت ناراض ہوئی کہ آپ یہ کیا کام کرتے ہیں۔ تو میں چھپ چھپا کے ڈر ڈرا کے جاتا تھا۔

ایک دن میں شام کے وقت گیا اور ہم وہاں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے تو بابا جی میرے ساتھ کھڑے تھے۔ مولوی صاحب نماز پڑھا رہے تھے تو ایک آدمی روتا چیختا چلاتا ہوا آیا۔ کہنے لگا کہ جلدی چلو یونس کو تو مرض الموت ہو گیا ہے، اور اس کا گھنگھرو بج رہا ہے، اور وہ مرنے کے قریب ہے۔ اس نے کہا ہے کہ بابا جی کو بُلا کر لاؤ۔ وہ میرے سرہانے بیٹھ کر سورہ یٰسین پڑھیں۔ اس وقت ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ تو بابا جی نے مجھے کہنی مار کے کہا، بیٹا نیت توڑ دو۔ نماز پڑھتے ہوئے نیت کیوں توڑی جائے؟ میں پہلے ان کی اس بات کو نہیں سمجھا، لیکن انہوں نے کہا، نیت توڑ دو۔ میں نے کہا اچھا جی۔

میں چونکہ انڈر ٹریننگ تھا تو میں نے کہا جیسے یہ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ کہنے لگے، دیکھو اعلان ہو گیا ہے ایک آدمی مشکل میں ہے، پہلے اس کی مشکل دور کی جانی چاہیے۔ پھر آ کر نماز پڑھ لیں گے۔ بعد میں پڑھ لیں گے، کیونکہ نماز کی قضا ہے۔ خدمت کی قضا نہیں۔ کوئی آدمی سائیکل سے گر جائے، زخمی ہو جائے۔ آپ کہیں میں مغرب پڑھ آؤں، پھر آ کر اٹھاتا ہوں۔ یہ ٹھیک نہیں۔ اب یہ بات میرے لیئے بالکل نئی تھی، اور عجیب تھی۔ خیر اٹھے، جس گھر جانا تھا گئے۔ وہ بھی دیکھا۔ خیر وہ ایک لمبی کہانی ہے۔ میں آپ کو پھر کبھی سناؤں گا۔ اور وہ دلچسپ ہے۔ واپس اپنی جگہ پر ہم لوٹ کے آئے، رکشہ سے اترے تو میں نے رکشہ والے کو کچھ پیسے دیئے۔ اس کے کوئی تین روپے اسی پیسے بنتے تھے۔ میں نے اس کو چار روپئے دے دیئے۔ وہ یہ سمجھا کہ میں نے بہت بڑا مرکہ مارا ہے تو بابا جی نے پوچھا، پُت پیسے دے دیئے؟ میں نے کہا دے دیئے۔ کہنے لگے کتنے دیئے؟ میں نے کہا چار روپئے تو کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا، اس کے تین روپئے پچاس پیسے یا اسی بنتے تھے میں نے اسے چار دے دیئے۔ انہوں نے کہا، نہیں پنج دے دینے سی۔ میں نے کہا، پانچ؟ مجھے بڑا دھچکا لگا کہ پانچ کیوں دے دوں۔ میں نے کہا، “ کیوں؟ “ کہنے لگے تسیں وی تاں دتے وچوں دینے سی، تسیں کہڑے پلیوں دینے سی“ (خدا کے دیئے ہوئے پیسوں میں سے دینے تھے کون سے اپنی جیب سے ادا کرنے تھے)۔ پھر اس نے مجھے تھوڑا سا ہلایا، لیکن میں نے اس کو سمجھا عقلی طور پر۔ اقتصادی طور پر - Emotionally میرے اندر نہیں اتری وہ بات لیکن اس کے بارے میں سوچتا رہا، غور کرتا رہا۔
اگلے دن ہمارے اک دوست بہت پیارے دوست ابنِ انشاء وہ کراچی سے آئے۔ وہ مجھے گھر ڈھونڈتے رہے پھر انہیں پتا چلا کہ میں اس وقت کہیں اور جگہ موجود نہیں ہوں۔ کسی لائبریری میں نہیں۔ انہوں نے سوچا میں (اشفاق) ضرور ڈیرے پر گیا ہو گا۔ چنانچہ وہ اتنا ایک بڑا ڈنڈا لے کر، وہ بانس کا تھا، مجھے ڈھونڈتا ڈھونڈتا ڈیرے پر آ گیا۔ اسے پتا تھا۔ اب اندر تو داخل نہیں ہوا، باہر کھڑا رہا۔ اس کو تکلیف بھی تھی، شرمندگی بھی کہ یہ آدمی کس جگہ پر آ کر بیٹھتا ہے۔ میں اندر بیٹھا رہا۔ میں ڈرا ہوا تھا۔ اس نے کہا، باہر آو تم۔ خیر ڈرتا ہوا صاحب اس کے قریب پہنچا۔ اس نے کہا تمہیں شرم آنی چاہیے۔ تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے، یہ زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ تم کس فضول جگہ پر آ کر بیٹھ جاتے ہو، اور کیا سیکھتے ہو یہاں پر۔ میرے دہ دوست تھے۔ ایک ابنِ انشاء اور ایک ن۔ م۔ راشد۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہت مرعوب تھے، اور کہتے تھے، کمال ہی کر دیا ہے سائنس نے۔ میں U. N. O میں گیا۔ ن۔ م۔ راشد کے دفتر میں- اوپر کی منزل سے کوئی بیالیسویں منزل تھی۔ جب نیچے اترے تو میرے ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے تو جب ہم ایک ڈاکخانہ پر رکے، تو کہنے لگے، خیر آ گئے ہو تم گاؤں سے، نہ تمہارے پاس تعلیم ہے، نہ حسن ہے، نہ صحت ہے۔ تم لوگ کس طرح سے زندگی گزارتے ہو۔ تم نے یہ ڈاکخانہ دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی دیکھا ہے۔ امریکا کا ڈاکخانہ ہے۔ واقعی بڑا خوب صورت ہے۔ کہنے لگے خوب صورتی کی بات نہیں ہے۔ یہ دیکھو تمہیں آواز آ رہی ہے۔ کر - کرز - کرززز - اس میں سے آواز آ رہی تھی۔ پتا ہے یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ٹکٹوں کہ مہریں لگ رہی ہیں۔ اور مشین خود بخود لگا رہی ہے۔ نہ کوئی آدمی ہے نہ کوئی بندہ ہے۔ نہ کوئی پرندہ ہے۔ یہ دیکھو وہاں پر لا کر پیکٹ رکھ دیتے ہیں۔ ٹرززز - - اسی طرح سے sorting ہو جاتی ہے۔ میں تمہیں نوٹ گننے کی مشین دکھاتا ہوں۔ میں نے کہا، راشد صاحب ان چیزوں سے اتنا متاثر نہ ہوا کریں۔ کہنے لگے، نہیں- تم گھامڑ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں۔ تو یہ خیر مجھے بیچ میں یاد آ گیا، اللہ بخشے بڑے پیارے آدمی تھے دونوں- تو ابنِ انشاء کو غصہ تھا اس بات کا، تو وہ مجھے ہٹانا چاہتا تھا۔ باہر کھڑے اسی طرح سے بانس کا وہ باریک سا ڈنڈا لیئے۔ کہنے لگے مجھے یہ بتاؤ یہاں کیا ہے؟ جو تمہیں کسی کتاب میں کسی لائبریری میں نہیں ملتا۔ کونسی چیز ہے۔ میں نے کہا انشا کچھ خاص نہیں، کچھ ایسی چیزیں مشاہدے سے گزرتی ہیں جو مختلف ہوتی ہیں۔ کہنے لگا کیا۔ میں کہا، کل ہم گئے تھے۔ اس طرح رکشہ کا کرایہ دیا۔ اس رکشہ میں سے اترے۔ اس طرح سے میں نے پیسے دیئے۔ اس طرح سے بابا جی نے کہا، تو نے پانچ ہی دے دینے تھے، تو کیا تھا۔ تو نے “ دتے سے دینا ہے۔ تو نے کون سا پلے سے دینا ہے۔“ تو انشا خاموش ہو گیا یہ سن کے۔ اب وہ شاعر آدمی تھا۔ اس کی روح بہت پیاری تھی۔ وہ یہ تو برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ بڑی اچھی بات ہے، لیکن اس نے سن لی، ختم ہو گیا یہ سین۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کے کوئی دہ مہینے بعد میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا۔ انشا بیٹھا کام کر رہا ہے، ہم گپ لگا رہے ہیں۔ ادھر کی باتیں ادھر کی باتیں، بہت خوش۔ ایک لڑکی آئی۔ اس کی صحت بہت خراب تھی، اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا۔ اس نے چھپانے کے لیئے اپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی تو کالا برقع اس نے پہنا ہوا، آ کر کھڑی ہو گئی انشاء جی کے سامنے۔ اس نے ایک خط ان کو دیا وہ خط لے کر رونے لگا۔ پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا۔ پھر میز پر رکھا، پھر دراز کھولا۔ کہنے لگا بی بی میرے پاس اس وقت یہ تین سو روپے ہی ہیں۔ یہ تو تم لے لو، پھر بعد میں بات کریں گے۔ کہنے لگی، بڑی مہربانی۔ وہ بچکی سی ہو گئی بیچاری، اور ڈر سی گئی، گھبرا سی گئی۔ اس نے کہا، بڑی مہربانی دے دیں۔ وہ لے کر چلی گئی۔

جب چلی گئی تو میں نے انشا سے کہا، انشاء یہ کون تھی۔ کہنے لگا پتہ نہیں۔ میں نے کہا، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی۔ تو نے تین سو روپے دے دیئے تو اس کو جانتا نہیں۔ کہنے لگا، نہیں میں اتنا ہی جانتا ہوں۔ یہ خط ہے۔ اس میں لکھا تھا۔ محترم انشا صاحب میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں، اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری سکول میں ٹیچر ہوں، اور میری 130 روپے تنخواہ ہے۔ میں اور میرا بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں، جس کا کرایہ ایک سو ساٹھ روپے ہو گیا ہے، اور ہم وہ ادا نہیں کر سکتے، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کر باہر پھینک رہا ہے۔ اگر آپ مجھے 160 روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کر کے 10 - 10 روپے کر کے اتار دوں گی۔ میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے، وہ بھی کالم کی وجہ سے۔ میں نے کہا، اوئے بے وقوف آدمی اس نے تجھ سے ایک سو ساٹھ روپے مانگے تھے تو نے تین سو دے دیئے۔ کہنے لگا، میں نے بھی تو “ دِتوں میں سے دیا ہے، میں نے کون سا پلے سے دیا ہے۔“ اس کو بات کی سمجھ آ گئی تھی۔ یہ نصیبوں کی بات ہے یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں جو بڑے دھیان سے جاتا تھا، ڈکٹیشن لیتا تھا، کوششیں کرتا تھا جاننے کی۔ میں نے کہا، اوئے یہ فقرہ تو میں نے کہیں سنا ہوا ہے۔ کہنے لگا، میں نے کچھ کالم لکھے تھے یہ ان کا معاوضہ تھا۔ یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے۔ میں نے دے دیئے۔

تو کوئی آٹھ مہینے بعد میری پھر اس سے ملاقات ہوئی۔ لاہور آیا تو کہنے لگا، وہ جو فلسفہ تیرے بابا کا ہے، بڑا خوفناک ہے، اور بہت بڑا ہے۔ اس میں سے تو آدمی باہر نہیں نکل سکتا۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا، میں نے اس لڑکی کو تین سو روپے دیئے تھے تو میری جان عذاب میں پڑ گئی مین ٹوکیو ایک میٹنگ اٹینڈ کرنے گیا تھا۔ وہاں مجھے یونیسکو سے خط آیا۔ تمہارے ایک ہزار ڈالر ہمارے پاس پڑے ہیں، وہ بتائیں ہم آپ کو کہاں بھیجیں۔ میں نے اس کے جواب میں لکھا، میں چونکہ سرکاری ملازم ہوں، اور سرکاری حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس لیئے میرے گورنمنٹ نے مجھے سارا T.A.' D.A دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری طرف سے ہے جو سارے Participants کو تحفے میں دی ہوئی رقم ہے، تو میں نے فوراً خط لکھا کہ خبردار اس کو ہاتھ نہ لگانا، وہیں رکھنا۔ اس زمانے میں یہی حالات تھے، ڈالر کے، جو آج کل چل رہے ہیں۔ میں وہاں آ کر لے لوں گا۔ اس کی یہ کیفیت ہوئی، اس ایک سال کے اندر اندر یورش ہو گئی پیسوں کی۔ ایسی جگہ سے آنے شروع ہو گئے کہ اس نے سوچا تک نہیں تھا۔ دو سال اس کی یہ کیفیت رہی۔ پھر وہ وہی ڈنڈا لے کر میرے گھر آیا۔ لڑائی کرنے کہ تو نے مجھے یہ بڑی لعنتی بات بتا دی ہے۔ میں اتنا تنگ آ گیا ہوں، اس سے اتنے پیسے میرے پاس آنے لگے ہیں کہ میں بھرتا نہیں ہوں۔ اب میں نے دینے بند کر دیئے ہیں۔ خدا نہ کرئے میرے سامنے کوئی تڑپ کر مر جائے۔ میں کچھ نہیں دیتا یہ تو عذاب ہے، دیتے جاؤ تو آتے جاتے ہیں۔ دیتے جاؤ تو آتے جاتے ہیں۔ What is this میں نے کہا، اس کا علم تو مجھے بھی نہیں۔ میں تو ابھی پوچھ رہا ہوں، اور سیکھ رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو میں نے یہ بات زندگی میں عجیب و غریب دیکھی کہ اگر آپ دیتے ہیں تو وہ لوٹ کر آپ کے پاس آتا ہے۔ یہ صدائے بازگشت ہے جو کہ لوٹ کر واپس آتی ہے۔ آدمی سوچتا لے۔ یہ 70 روپے تھے۔ اس میں سے میں نے 30 روپے دے دیئےتو میں نے ابھی تھیسز لکھنا ہے۔ Ph.D کرنی ہے تو بعد میں خرچ کرنے ہوں گے۔ کہاں سے آئیں گے۔ حالانکہ یہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اب اللہ میاں کا عجیب و غریب System ہے۔ وہ یہ کہ جو کچھ آپ دیتے رہتے ہیں، وہ کچھ آپ کا جمع رہتا ہے، اور اللہ میاں وہ رجسٹر کبھی نہیں دیکھتا۔ وہ دوسرا لیجر مانگتا ہے جس میں سے آپ چھوڑ آئے ہوتے ہیں، اور پیچھے رہ گیا ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے یاد آ گیا، حضرت مجدد الف ثانی - وہ بہت سخت، اصولی بزرگ تھے، لیکن ایک بات میں ان کی کبھی نہیں بھولتا۔ انہوں نے فرمایا، جو شخص تجھ سے مانگتا ہے، اس کو دے۔ کیا یہ تیری انا کے لیئے کم ہے کہ کسی نے اپنا دستِ سوال تیرے آگے دراز کیا ہے۔ بڑے آدمی کی کیا بات ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے، اور وہی سرچشمہ ہے پھر فرماتے ہیں، اور عجیب و غریب انہوں نے یہ بات کی ہے کہ جو حقدار ہ، اس کو بھی دے، اور جو ناحق کا مانگنے والا ہے، اس کو بھی دے، تاکہ تجھے جو ناحق کا مل رہا ہے، کہیں وہ ملنا بند نہ ہو جائے۔ دیکھیں نا، ہم کو کیا ناحق مل رہا ہے۔ اس کی ساری مہربانیاں ہیں، کرم ہے اور ہمیں اس کا شعور نہیں ہے کہ ہمیں کہاں کہاں ناحق مل رہا ہے۔ کبھی آپ آرام سے بیٹھ کر اپنی زندگی کو اپنے کام کو اپنے آپ کو بیلنسنگ شیٹ بنانے کی کوشش کریں، تو آپ کو پتا چلے گا 90-80 فیصد تو ایسے ہی آ رہا ہے۔ یہ میرا استحقاق نہیں بنتا، لوگ ایسے ہی روتے ہیں کہ میرا حق، اور میں اپنے حق کی خاطر لڑوں گا، اور مروں گا- یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا۔ ایسا کبھی ہوتا نہیں۔ بعض اوقات ایسی جگہ سے آ جاتا ہے جہاں آدمی تصور نہیں کر سکتا بلکہ بیشتر ایسے ہوتا ہے، اور آتا چلا جاتا ہے، لیکن آدمی گھبراتا ہے کہ اگر میں کچھ دے دوں گا اور دتے میں سے دے دوں گا، کمی ہو جائے گی، ہوتی نہیں، لیکن وہ ہمارے جیسے پڑھے لکھے لوگ سیانے اس قسم کی بات کرتے ہیں۔

ایک ہمارے ماڈل ٹاؤن میں قلعی گر تھا، بہت اچھا، امیر دین قلعی گر ہمارا بہت پیارا تھا۔ بھانڈے وغیرہ قلعی کرتا تھا۔ فوت ہو گیا تو مولوی صاحب نے مسجد میں اعلان کیا کہ امیر علی فوت ہو گیا ہے اس کی دعا کروانی ہے مغرب کے بعد علاقے کے سب لوگ، بلاک میں اکٹھے ہوں، تو ہم ابھی کچھ پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک لڑکا آ گیا، اور اس نے آ کر کہا، جی میرا والد تو بہت بیمار ہے۔ اس نے امیر علی قلعی گر کے لیئے دعا بھیجی ہے۔ تو ہم نے کہا، دعا بھیجی کیا ہوتا ہے۔ دعا تو آدمی آ کر کرتا ہے۔ اس نے کہا میرا والد، اس کا بڑا یار تھا، دونوں بہت پکے دوست تھے۔ اس کو درد ہے، شیاٹیکا پین (Sciatica Pain) وہ چل پھر نہیں سکتا۔ میں اس کی دعا لیکر آیا ہوں۔ تو ہم نے کہا، دعا کیا لے کر آیا ہے، ہم لوگ گٹھلیاں وغیرہ پڑھ رہے تھے، اٹھ کے ایک آدمی نے باہر دیکھا تو لڑکا ٹریکٹر لے کر آیا تھا، پیچھے ٹرالا تھا اور اس کے باپ نے دو بوری گندم، آٹا، ایک بوری چاول، گڑ کا پورا ایک گٹھا، اور اس قسم کی چیزیں تھیں۔ کبھی اس قسم کی باتیں سوچنے کا، دینے کا، بھیجنے کا، یعنی درویش کا یہ طریقہ ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میری بہو ہے، بڑی اچھی، پیاری، نیک۔ اُس کو خیال آیا کچھ خیرات کرنی چاہیے، لیکن اس کو طریقہ نہیں آتا، یہ بھی بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ اب کیا کریں خیر وہ اپنا پرس لے کر، اور اس میں کچھ پیسے ڈال کر چلی گئی۔ جھگیوں میں، کواٹرز میں۔ وہاں جا کر کھڑی ہو گئی تو ایک بی بی آئی اس کے پاس۔ اس نے کہا، “ کڑیئے کس طرح آئی ایں“ (لڑکی کس کام کو آئی ہو)۔ اس نے کہا، میں آئی ہوں، آپ لوگوں سے ملنے تو میں کچھ آپ لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ تو اس نے کہا، تو اناڑی معلوم ہوتی ہے۔ کہنے لگی، ہاں جی۔ کہنے لگی، “ٹھہر جا میں تیری مدد کرنی آں“ (میں تمہاری مدد کرتی ہوں)۔ تو وہ جھگیوں میں سے ایک کرسی کھینچ کر لے آئی۔ کہنے لگی “اس پر بیٹھ جا۔ سانوں پنج چار حدیثاں سنا۔ دو بارہ نیک گلاں سنا۔ سانوں اچھے رہن دی تعلیم دے تے اک اک روپیا پھڑا جا ساریاں نوں“ (آپ اس پر بیٹھ جائیں، ہمیں چار پانچ احادیث سنائیں۔ دس بارہ اچھی اچھی نیکی کی باتیں سنائیں، اچھے رہن سہن کی تعلیم دیں اور سب کو ایک ایک روپیہ دے دیں)۔ تو اصل میں یوں بی بی آتی ہو گی، اور ساری بیبیاں ایسی آتی ہیں۔ نیکی بھی سکھاتی ہیں، یہ ان کا کریکٹر ہے۔ اس طرح سے بھی ہوتا ہے کہ آدمی داد و دہش میں اپنا آپ بھی پروجیکٹ کرتا ہے۔

ہم جو اپنے آباواجداد سے، بزرگوں سے، اپنے بڑوں سے سنتے آئے، کتابوں میں بھی کبھی کبھی پڑھنے کو مل جاتا تھا۔ ہم اپنی اس ثقافت کو کہیں رکھ کے بھول گئے ہیں، یا ہم نے دانستہ ان سے نظر بچا لی ہے، ہٹا لی ہے، کسی نئی ترقی کی جانب۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہم رکھ کے بھولے نہیں ہیں، اور نہ ہی دانستہ نظر بچائی، ہماری مصروفیات کا عالم کچھ اس طرح سے ہو گیا لے کہ آپ اپنے آپ کو گروی رکھ چکے ہیں۔ ہر طرح کی مصروفیات کے ہاتھوں ضروری بھی غیر ضروری بھی۔ آپ جانچنے، اور آنکنے بیٹھے ہوں گے تو آپ دیکھیں گے کہ غیر ضروری مصروفیات ضروری مصروفیات سے کہیں زیادہ ہیں۔ میرا پوتا ہے اس کو ہم نے سکول ابھی داخل کروایا ہے۔ ابھی سے مراد چھٹیوں سے چار پانچ مہینے پہلے۔ تو اُسے کاغذ تختی وغیرہ سب کچھ لے کر دے دیا، وہ سکول جاتا رہا، آتا رہا۔ تو ایک دن اس کے والد کہنے لگے، یار تجھے سکول میں داخل کروایا ہے تو کبھی پڑھتا نہیں۔ کہنے لگا کیا کروں، ڈیڈی ٹائم ہی نہیں ملتا، ٹائم نہیں ملتا، ڈیڈی کیا کروں؟

حاضرین میں موجود ایک صاحب بولتے ہیں، آپ کی خیرات سے مجھے اپنی دادی کا واقعہ یاد آیا۔ وہ بچپن میں ہمیں کہا کرتی تھیں کہ مٹھی کو آپ جتنا کس کے بند کریں اس میں اتنی چیز کم آتی ہے۔ اگر مٹھی ڈھیلی بند کریں گاے تو اس میں زیادہ آئے گا تو خیرات دینے کا یہی ہے کی ہم جتنا اپنا پیسا کس کے رکھتے جائیں تے- اللہ میاں اس میں اتنی کمی کرے گا۔

یہی تو آذر کہہ رہے ہیں۔ یہ جو چیزیں تھیں، ہماری قسمت سے نکلتی جا رہی ہیں۔ (حاضرین میں موجود ایک صاحب کو مخاطب کرتے ہوے)

دیکھیں نا خان صاحب نے بات شروع کی، اس وقت کچھ ذکر آیا تو انہوں نے اپنی تعلیم کا حوالہ دیا پھر یہاں کے بابوں کی بات کی، جو اَن پڑھ لوگ ہوتے تھے، خان صاحب آپ اجازت دیں تو اس کو دہ حصوں میں تقسیم کر لیں۔ ایک کچھ لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں، اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر تعلیم یافتہ پڑھا لکھا ہو، لیکن وہ جو ہمارے بزرگ ہوتے تھے، بڑے لوگ ہوتے تھے، بابے ہوتے تھے، یہ پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے۔ ان کا مشاہدہ، ہر چیز کو جانچنے کا، ان کا طریقہ، گہرائی میں جانا، اور پھر تجزیہ کرنا اپنے طور پر، اور وہ تجزیہ سو فیصد درست ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کے بھی نواسے پوتے انہی کے ہیں۔ نسل چلی آ رہی ہے۔ میں اپ سے پوچھتا ہوں، ایک سوال میرے ذہن میں آ گیا ہے۔ میں نے آپ سے اتنی باتیں کیں تو آپ بھی میری مدد کریں کہ انسان جس شخص پر تنقید کرتا ہے، اور جس میں کیڑے نکالتا ہے، اور جس کو بہت برا سمجھنے لگتا ہے، کیا خود اس جیسا ہونا چاہتا ہے یا آپ کے مشاہدے میں آیا ہے کہ اس کے جیسا ہو جایا کرتا ہے۔ ہاں ہے تو یہی اگر آپ نگاہ ڈالیں اور دیکھیں۔ آپ کا کوئی سیاستدان ہے جو آپ کی وزارتِ داخلہ پر تنقید کر رہا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہو کہ پلٹ کر خود وہ ہوم منسٹری میں آ جاتا ہے، ہے نا بات۔ میں نے یہ سوال آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ مجھے یہ دقت ہو رہی تھی مگر اردگرد دیکھتا ہوں کہ غریب امیر آدمیوں پر بڑی تنقید کرتا ہے۔ لیکن ہم ان کو کوئی مارکسزم وغیرہ لا کے دیں کہ اس میں تمہاری بڑی بہتری ہو گی تو وہ اسے فیل کر دیتے ہیں۔ وہ خود چاہ رہے ہوتے ہیں۔ خود موقع ملے تو ہم بھی امیر ہو جائیں۔

(انسان کی فطرت میں، لاشعور میں ہے نا، وہ اک بات جو اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ بنیادی طور پر تنقید کی ایک وجہ، یہ بھی ہے۔ انسان کے لاشعور میں ایک بات ہوتی ہے۔ کوئی Aim ہوتا ہے، Goal ہوتا ہے۔ اس کو نہیں حاصل کر سکتا تو جو اس کو حاصل کر چکا ہوتا ہے، اُس پر وہ تنقید کرتا ہے)۔

مثلاً لڑکیاں دیکھیں کسی دوسری لڑکی کو دیکھ کر کہتی ہیں۔ کیا شکل اس کی کوہجی سی لگتی ہے۔ اکثر لڑکیاں تو یہ کہتی ہیں۔ اس کے کان چھوٹے ہیں وغیرہ، رنگ نہیں گورا لیکن فرض کریں کہ وہ اچھی نہیں ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ تنقید کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا جی چاہ رہا ہوتا ہے کہ جو جو کچھ خوبیاں بیان کر رہی ہوں میں ویسی بن جاؤں، اور اس میں اس کو کچھ کچھ خوبیاں محسوس ہوتی بھی ہیں۔ ہمارے گھروں میں رشتے وغیرہ کے لیئے جاتے ہیں جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا دیکھ کے آئی ہیں- جواب ملتا ہے، اگر ملا جلا کر دیکھیں تو خوب صورت لگتی ہے۔ اک اک چیز تو کچھ بھی نہیں تھی۔ لاحول ولاقوۃ یہ کیا بات کرتی ہیں۔ نہیں نقص، تو ٹھیک تھی۔ یہ جو Cosmatics کی اتنی بڑی انڈسٹری ہے جو کہ سٹیل کے بعد دنیا میں دوسری بڑی انڈسٹری ہے، تو شاید اس خوف سے تو نہیں پیدا ہوئی کہ دیکھو میں تنقید کرتی ہوں یا کرتا ہوں اور پھر اس کے بعد مجھ میں یہ چیز پیدا ہو جائے تو میں ذاتی طور پر ایک نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ تنقید کر رہا ہوتا ہے، وہ آرزومند اس بات کا ضرور ہوتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے۔ آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ مہربانی۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
بابا کی تعریف​


ہم زاویہ کے بیشتر پروگرموں میں بابوں کی بات کرتے ہیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بابوں کی Definition سے یا ان کی تعریف سے ہیئتِ ترکیبی سے آپ یقیناً بہت اچھی طرح واقف ہوں گے، لین میرا یہ اندازہ بالکل صیحح نہیں تھا۔ اب میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں، اور اس کی ایک چھوٹی سی تعریف بھی کروں، بابا کی۔
بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے۔ یہ اس کی تعریف ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ آتا ہو گا کہ بابا ایک بھاری فقیر ہے۔ اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔ گلے میں منکوں کی مالا ہے۔ ہاتھ میں اس کے لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے، اور آنکھوں میں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی بات تھی۔ ایک تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے اعلٰی درجے کی سرخ رنگ کی ٹائی لگائی ہے۔ بیچ میں سونے کا پن لگائے ہوئے ایک بہت اعلٰی درجے کا بابا ہوتا ہے۔ اس میں جنس کی بھی قید نہیں ہے۔ مرد عورت، بچہ، بوڑھا، ادھیڑ نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں، اور ہو گزرتے ہیں۔ لمحاتی طور پر ایک دفعہ کچھ آسانی عطا کرنے کا کام کیا۔ اور کچھ مستقلاً اختیار کر لیتے ہیں اس شیوے کو۔ اور ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ میری زندگی میں بابے آئے ہیں اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سلیقے سے جانتے ہیں۔
میری یہ حسرت ہی رہی۔ میں اس عمر کو پہنچ گیا۔ میں اپنی طرف سے کسی کو نہ آسانی عطا کر سکا، نہ دے سکا اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ نہ ہی آئندہ کبھی اس کی توقع ہے۔
جب ہم تھرڈایئر میں تھے تو کرپال سنگھ ہمارا ساتھی تھا۔ ہم اس کو کرپالاسنگھ کہتے تھے۔ بیچارہ ایسا ہی آدمی تھا جیسے ایک پنجابی فوک گانے والا ہوتا ہے۔ لال رنگ کا لباس پہن کے بہت ٹیڑھا ہو کے گایا کرتا ہے۔ ایک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی میں جا رہے تھے تو سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا اللہ کے نام پر کچھ دے تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے کرپال سنگھ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بابا سائیں کچھ دے۔ تو کہنے لگا کہ بھاجی اس وقت کچھ ہے نہیں، اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ تو فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چبھی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیئے، سب کچھ تو نے لٹا دیا۔ تیرے پاس سب کچھ ہے۔ تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج کسی نے بھا جی نہیں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
ان دنوں ہم سارے ہوسٹل کے لڑکے چوری چھپے سینما دیکھنے جاتے تھے۔ تو لاہور بھاٹی کے باہر ایک تھیٹر تھا اس میں فلمیں لگتی تھیں۔ میں ارواند، غلام مصطفٰی، کرپال یہ سب۔ ہم گئے سینما دیکھنے، رات کو لوٹے تو انار کلی میں بڑی یخ بستہ سردی تھی، یعنی وہ کرسمس کے قریب کے ایام تھے سردی بہت تھی۔ سردی کے اس عالم میں کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ ایک دکان کے تختے پر پھٹا جو ہوتا ہے، ایک دردناک آواز آ رہی تھی ایک بڑھیا کی۔ وہ رو رہی تھی اور کراہ رہی تھی، اور بار بار یہ کہے جا رہی تھی کہ ارے میری بہوجھے بھگوان سمیٹے تو مر جائے نی، مجھے ڈال گئی، وہ بہو اور بیٹا اس کو گھر سے نکال کے ایک دکان کے پھٹے پر چھوڑ گئے تھے۔ وہ دکان تھی جگت سنگھ کواترا کی جو بعد میں بہت معروف ہوئے۔ ان کی ایک عزیزہ تھی امرتا پرتیم، جو بہت اچھی شاعرہ بنی۔ وہ خیر اس کو اس دکان پر پھینک گئے تھے۔ وہاں پر وہ لیٹی چیخ و پکار کر رہی تھی۔ ہم سب نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی کہ دیکھو کتنا ظالم سماج ہے، کتنے ظالم لوگ ہیں۔ اس غریب بڑھیا بیچاری کو یہاں سردی میں ڈال گئے۔ اس کا آخری وقت ہے۔ وہاں اروند نے بڑی تقریر کی کہ جب تک انگریز ہمارے اوپر حکمران رہے گا، اور ملک کو سوراج نہیں ملے گا ایسے غریبوں کی ایسی حالت رہے گی۔ پھر وہ کہتے حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ پھر کہتے ہیں۔ اناتھ آشرم (کفالت خانے، مقیم خانے) جو ہیں وہ کچھ نہیں کرتے۔ ہم یہاں کیا کریں۔ تو وہ کرپال سنگھ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ہم نے کہا، پیچھے رہ گیا یا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔ تو ابھی ہم تقریریں کر رہے تھے۔ اس بڑھیا کے پاس کھڑے ہو کے کہ وہ بایئسکل کے اوپر آیا بالکل پسینہ پسینہ سردیوں میں، فق ہوا، سانس اوپر نیچے لیتا آگیا۔ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں چارپائی کے آگے ایک پرانا کمبل ہوتا تھا جو اس کے والد کبھی گھوڑے پر دیا کرتے ہوں گے۔ وہ ساہیوال کے بیدی تھے۔ تو وہ بچھا کے نا اس کے اوپر بیٹھ کر پڑھتے وڑھتے تھے۔ بدبودار گھوڑے کو کمبل جسے وہ اپنی چارپائی سے کھینچ کر لے آیا بایئسکل پر، اور لا کر اس نے بڑھیا کے اوپر ڈال دیا، اور وہ اس کو دعائیں دیتی رہی۔ اس کو نہیں آتا تھا وہ طریقہ کہ کس طرح تقریر کی جاتی ہے۔ فنِ تقریر سے ناواقف تھا۔ بابا نور والے کہا کرتے تھے انسان کا کام ہے دوسروں کو آسانی دینا۔ آپ کا کوئی دوست تھانے پہنچے، اور وہ تھانے سے آپ کو ٹیلی فون کرے کہ میں تھانے میں آگیا ہوں۔

 

ماوراء

محفلین
تو کبھی یہ مت پوچھو کہ کیا ہوا، کس طرح ہوا، کیسے پہنچے۔یہ پوچھو کون سے تھانے میں ہو، بس یہ آسانی عطا کرنے کا طریقہ ہے، اور یہ فن ہم نے سیکھا نہیں تھا۔ ہمارے کورس میں، کتاب میں اس قسم کی چیزیں ہی نہیں تھیں تو میرے ایک بھائی ہیں۔ میرے تایا زاد میری عمر کے۔ تو وہ مجھ سے تھوڑے دن خفا ہوئے۔ اس نے کہا، یہ تم نے کیا پروگرام شروع کیا ہے۔ دنیا ترقی کر رہی ہے، زمانہ آگے بڑھ رہا ہے اور تم پیچھے مڑ کے بابوں کی طرف لیے جا رہے ہو۔ جب آدمی ترقی کا مطلب لیتا ہے تو وہ بہانہ، اور سہارا دوسروں کا لیتا ہے۔ اپنی زندگی بنانے کا صرف اکیلا خواہش مند ہوتا ہے۔ کہتے ہیں اس میں کسی اخلاق یا موریلٹی کی ضرورت نہیں، چھوڑو انسان کو۔ اب تم کوئی ایسا کام کرو جو ٹیکنالوجی کے ساتھ تولق رکھتا ہو، اور علم عطا کرو، اور ان کو بتاؤ۔ تو جب وہ مجھ سے بات کر رہے تھے، مجھے اپنے بابا جی کا زمانہ یاد آ رہا تھا کہ یہاں پر سبّی میں ایک میلہ ہوتا ہے۔ سالانہ مویشیوں کا میلہ وہ ہمارے پاکستان میں بہت مشہور ہے۔ میلہ بہت اعلٰی درجے کا ہوتا ہے وہاں کے کچھ لوگوں نے مجھے خط لکھا، بڑی محبت کے ساتھ کہ ہمارا بھی آپ کے اوپر کوئی حق ہے، تو آپ کبھی اشفاق صاحب یہاں پر تشریف لائیں۔ تو میں نے سنا تھا کہ سبی میں بہت گرمی ہوتی ہے، اور میں کیا کروں گا جا کر۔ میں کچھ ٹال جاتا تھا۔ خط تقریباً چار سال تک آتا رہا۔ پھر مجھے بہت شرمندگی ہوئی، اور ضمیر نے ملامت کی۔ بھئی ایسی کون سی مصیبت ہے آپ نہیں جا سکتے میں نے کہا، میں تیار ہوں جانے کے لیے۔ میں نے ارادہ باندھا تو میں قادری بابا سے جا کر پوچھا۔ اجازت لینے کے لیے۔ ہم زور لگا کے یہ رسم سیکھ رہے تھے، ورنہ کون اجازت لیتا ہے۔ میں نے کہا، سرکات وہ مجھے سبّی جانا ہے۔ کہنے لگے بہت خوشی کی بات ہے۔ بڑی اچھی بات ہے، ضرور جاؤ۔ میں نے کہا، جی وہاں کے لوگ نے بلایا ہے۔ کہنے لگے، نہیں نہیں اس میں پوچھنے کی کیا بات ہی کوئی نہیں، اور تم جانا اور ضرور جانا۔ میں نے کہا، جی آپ کی طرف سے اجازت ہے۔ کہنے لگے ضرور ہاں، بالکل اجازت ہے۔ میں بلکہ بہت خوش ہوں۔ تو میں ان سے اجازت لے کر چلا۔ ابھی میں ڈیرے سے دروازے تک پہنچا، باہر جھاڑ جھنکار کی جسے جسے کہتے ہیں نا ایک باڑ لگی ہوئی تھی، وہاں سے مجھے آواز دے کر پھر بلایا۔ کہنے لگے بیٹا بات سنو، جب میں لوٹ کے آیا تو مجھ سے کہنے لگے، سبّی جا رہے ہو، بڑی خوشی کی بات ہے۔ وہاں جا کر لوگوں کو اپنا علم عطا کرنے نہ بیٹھ جانا، ان کو محبت دینا۔ میں نے کہا، سر محبت تو ہمارے پاس گھر میں دینے جاگی نہیں، وہ کہاں سے دوں۔ میرے پاس علم ہی علم ہے۔ کہنے لگے نہ انہیں علم نہ دینا۔ انہوں نے محبت سے بلایا ہے، محبت سے جانا اگر ہے تو لے کر جانا، لین ہم تو ظاہر علم سکھاتے ہیں کہ اتنا اونچا روشن دان رکھو، مویشی کو اندر مت باندھو، ناک سے سانس لو، منہ سے ایکسیل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ محبت! میں نے کہا، جی یہ بڑا مشکل کام ہے۔ میں کیسے یہ کر سکوں گا۔ میں گیا کوششیں بھی کیں، لیکن بالکل ناکام لوٹا، کیونکہ علم عطا کرنا، اور ان کی نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے، اور محبت دینا بڑا مشکل کام ہے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بابے وہ ہوتے ہیں جن میں تخصیص نہیں ہوتی۔ اگر آپ زندگی میں کبھی کسی شخص کو آسانی عطا کر رہے ہیں تو آپ بابے ہیں۔ اگر آسانی عطا نہیں کر رہے تو پھر آپ اپنی ذات کے ہیں۔ ان بابوں کی بات کیا کرتا ہوں۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر رہا تھا کہ اس میں جنس کی بھی تخصیص نہیں ہوتی، قید نہیں ہوتی، عمر کی، Age کی۔ میری چھوٹی پوتی نے اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک عجیب و غریب بات کی جو میں تو نہیں کر سکا، اس نے سکول کی تھرماس لے کے اس میں سکنجبین بنائی۔ بہت اچھی ٹھنڈی، اور برف ڈالی، اور اس کو جہاں ہمارا لیٹر بکس لگا ہے، درخت کے ساتھ ہے، اس درخت کی کھوہ میں رکھ دیا۔ اور ایک خط لکھ کے پن کر دیا اس کے ساتھ۔ اس نے لکھا، انکل پوسٹ مین۔ آپ گرمی میں خط دینے آتے ہیں، تو آپ بایئسکل چلاتے ہو، بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے آپ کے لیے یہ سکنجبین بنائی ہے۔ یہ آپ پی لیں۔ میں آپ کی بڑی شکر گزار ہوں گی۔ ہاں جی تو دوپہر کو ہم روز زبردستی سلا دیتے تھے بچوں کو۔ شام کو جب جا گی تو وہ لے آئی، تھرماس دیکھا تو وہ خط تھا اس کا۔ اس کے اوپر ہرکارے نے جو خاص کان میں رکھتے ہیں بال پوائنٹ، ان کا خاص انداز ہوتا ہے، تو اس نے لکھا تھا، پیاری بیٹی تیرا بہت شکریہ۔ میں نے سکنجبین نے دو گلاس پئیے، اور اب میری رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ میں ایک پیڈل مارتا ہوں تو دو کوٹھیاں آسانی سے گزر جاتا ہوں، تو جیتی رہ۔ اللہ تجھے خوش رکھے۔ کل جو بنائے گی، اس میں چینی کے دو چمچ زیادہ ڈال دینا۔ یہ اس کی محبت ہے نا۔ یہ بچی جو ہے چھوٹی سی خواتین و حضرات اس نے بابا کی طرح آسانی دی تھی۔ اس نے ایک Relatedness ایک تعلق محسوس کیا اس نے۔ اس طرح سے میں کہا کرتا ہوں کہ ہماری زندگیوں میں ہمارے اس جلتے ہوئے ماحول میں تکلیفوں بھرے ماحول میں آپ اکثر دیکھا ہو گا کہ دفاتر، سرکاری دفاتر سے بیورو کریسی سے کوئی خیر نہیں پڑتی۔ لوگ بہت دکھی رہتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارا ایک محکمہ ایسا ہے جو خیر بانٹتا ہے، اور میں اس سے بہت خوش ہوں۔ وہ ڈاک کا محکمہ ہے یعنی آپ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی چیز لے جائیں، اور ٹھپا لگا کر آپ کو رسید دیتا ہے میں دعا کرتا ہوں۔ آپ یقین کریں میں سچی بات عرض کرتا ہوں کہ جس طرح سے وہ لوگ کسی درگاہ کے قریب سے گزرتے ہوئے سلام کرتے ہیں، میں جب بھی کسی ڈاک خانے کے پاس سے گزرتا ہوں، چاہے میں گاڑی میں جا رہا ہوں میں انہی سلام ضرور کرتا ہوں کہ میں آپ کی، اور کوئی خدمت نہیں کر سکا۔ اب آپ کہنے والے ہوں گے۔ جناب یہ منی آرڈر چوری کر لیا تھا، انہوں نے اخبار میں آتی ہیں ایسی چیزیں۔ میں مجموعی طور پر بات کر رہا ہوں۔ وہ بڑی خوبی کے مالک ہوتے ہیں، اور وہ آپ کو آسانیاں عطا کرتے ہیں۔
آپ اپنا پارسل لے کر جائیں، اور وہ بابو جو بیٹھا ہوا کہے، جناب اس پر پیلا کاغذ لگا کر لائیں۔ یہ نیلا نہیں قابلِ قبول۔
 

ماوراء

محفلین

آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ دوسرا یہ کہ ڈوری اس پر سرخ باندھیں۔ یہ جو سیبا ( دھاگہ) آپ نے باندھا ہے یہ قابلِ قبول ہے، کچھ بھی اعتراض کر سکتا ہے، یعنی آپ دیکھیے ایک چیز جو میرا استحاق ہے جس پر مجھے پورا حق ہے، اور جس پر ریاض صاحب، قادری صاحب کوئی بھی اس کے اوپر حق نہیں رکھتے۔ اتنی وہ چیز میری ہے کہ اس دنیا میں اس دنیا میں اس کرہ ارض پر، اور کسی کی نہیں، اور اس میں شامل ہی نہیں، اور میرا نام، اور میری تاریخ پیدائش ہے۔ اگر مجھ کو وہ خدانخواستہ تاریخ پیدائش دفتر سے لینی پڑ جائے۔ کئی دفعہ Date of Birth نکلوانی پڑتی ہے نا۔ تو وہ کہتے ہیں، اشفاق صاحب چھ مہینے کے اندر اتنی جلدی آپ کیسے نکال دیں گے۔ اب رویے کی بات ہے۔ وہ آسانی کے بجائے Objection لگا دیتے ہیں اس کے ساتھ۔ وہ لگائیں اپنا شناختی کارڈ، وہ لگایا، پھر کہا، جی اس کی دو کاپیاں کر کے لائیں، کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔تو میں بڑی دعا کرتا ہوں، اور دعا دیتا ہوں، اور یہ جو بابا پن ہے، ڈاکخانے نے اپنا قائم رکھا ہوا ہے، اور جس میں ہلکی ہلکی کوتاہیاں آتی رہتی ہیں۔ اللہ کے واسطے وہ انہیں دور کریں، تاکہ ہم فخر کے ساتھ اس کو دنیا کے اور اداروں کے ساتھ موازنے اور مقابلے میں پیش کر سکیں۔
میں جب نیا نیا آیا ولایت سے آیا تو میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ ڈیرے کیا ہوتے ہیں۔ میں نے وہاں جو پہلی بات نوٹ کی، وہ یہ تھی کہ ہم لوگ اندر بیٹھے ہیں۔ کھانا کھا رہے ہیں۔ بابا سے باتیں ہو رہی ہیں تو جب ہم باہر نکلتے تھے تو ساروں کی جوتیاں ایک قطار میں ہوتی تھیں، اور ان کا رخ باہر کی طرف ہوتا تھا۔ آدمی جوتی اتار دیتا ہے۔ اونچی نیچی پڑی رہتی ہیں تو ڈیروں پر اس کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے۔
میں نے جب دیکھا تو یہ مباح، اچھا فعل ہے۔ لوگوں کی جوتیاں ٹھیک کرنا، اور مجھ میں کیونکہ تھوڑا سا استکبار تھا، گھمنڈ تھا کہ میں ولایت سے پڑھ کے آیا ہوں، بڑا کوالیفیکیشن والا ہوں، ہوتا ہے عام طور پر۔ میں نے ہمت کر کے جوتیاں سیدھی کرنے کی کوشش کی۔ یہ مشکل کام تھا، لیکن میں نے زور لگا کے، اور آنکھ بچا کے ( میری بھی عزت کا سوال تھا)۔ تین چار پانچ ٹھیک کی تھیں تو اوپر سے بابا جی آ گئے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ( کہ نہ نہ نہ پت تسیں ایہہ کم نہ کرو۔ بالکل نہیں کرنا)۔ آپ نے نہیں کرنا۔ میں نے کہا نہیں جی۔میں شرمندہ سا تھا، اٹھا لیا مجھے۔ سب لوگ دیکھ رہے ہیں، مجھے منع کر دیا، منع تو ہو گیا۔ لیکن میری طبیعت پر بڑا بوجھ رہا، اور میں یہ ساچتا رہا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ میں ایک اچھے فعل میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ ہاں جی میری ساتھ یہ کیوں کیا تو دوپہر کے وقت ہم اکیلے تھے۔ میں نے کہا، جی میں عرض کروں ایک بات، کیونکہ میری طبیعت پر اس کا بڑا بوجھ ہے۔ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کہا، یہ ٹھیک ہے جو علم آپ کو عطا کرنا ہے، وہ زیادہ بہتر ہے۔ میں نے کہا، لیکن وہ سر میں تو اچھا کام کر رہا تھا۔ کہنے لگے آپ کے لیے ضروری نہیں تھا کہ ایسا فعل آپ کے تکبر میں، اور اضافہ کر دیتا ہے، کیونکہ چند لوگ دیکھتے کہ جناب سبحان اللہ اشفاق صاحب یہ کام کر رہے ہیں۔ آپ نے، اور “پاٹے خان“ بن جانا تھا۔ آپ اس کو دیکھیں ہمارے ذہن میں بات نہیں آتی نا۔ بڑی دور کی بات ہے۔ نہیں آتی تو اس لیے ہم نے ان لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا، ہم ہر گز ہر گز پیچھے کی طرف نہیں جا رہے ہیں۔ ہم تو بہت آگے ذرا زیادہ Advance جا رہے ہیں۔ ہم لوٹ کے آنا چاہتے ہیں۔ اس استحکام، اور مضبوطی کی طرف جو کسی زمانے میں ہمارا طرہ امتیاز تھا۔
ہمارے ایک یہاں پروفیسر تھے۔ بہت اچھے سایئکالوجی کے بھلے آدمی۔ میرا بھانجا ان سے پڑھتا تھا تو وہ ایک دن آیا، کہنے لگا، ماموں وہ ہماری ایکسڑا کلاسیں لیتے ہیں شام کے وقت اور دس
Student ان کے پاس بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ امی تو پیسے نہیں دے سکتیں، ابو کا ہاتھ کچھ تنگ ہے۔ تو آپ ایسے کریں کہ پروفیسر صاحب سے مل کر کچھ طے کریں۔ ابو کہتے ہیں کہ ہم ان کو 500 روپیہ دے سکتے ہیں، تو میں ان پروفیسر صاحب کے پاس گیا۔ شام کے وقت گھاس پر پرانے انداز میں بیٹھے ہوئے پڑھا رہے تھے۔ بڑے انہماک، اور لگن کے ساتھ۔ تو میں نے گستاخی کی۔ میں نے کہا، پروفیسر صاحب میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو وہ کہنے لگے، اچھا۔ وہ چھوڑ کے آئے۔ میں نے کہا، میں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔ آپ جانتے ہیں۔ کہنے لگے، ہاں جی ہاں آپ کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ تو میں نے کہا آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ یہ میری بہن زیادہ صاحبِ حیثیت نہیں ہے وہ صرف پانچ سو روپیہ آپ کو دے سکیں گے۔ کہنے لگے اشفاق صاحب مجھے پڑھانے کے پیسے تو ملتے ہیں۔ میں نے کہا، وہ دوسرے لڑکے آپ کو زیداہ دیتے ہوں گے۔ کہنے لگے، نہیں نہیں مجھے سرکار سے ملتے ہیں۔ میری تنخواہ ہے۔ میں نے کہا، وہ تو کالج میں پڑھانے کے ملتے ہیں یہ تو آپ ایکسٹرا پڑھا رہے ہیں۔ کہنے لگے نو نو نو All the time Teacher is Teacher وہ صبح پڑھائے یا شام۔
 

ماوراء

محفلین
اس کے پیسے تو مجھے سرکار ہی دیتی ہے۔ یہ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ میں 500 روپیہ لیتا ہوں۔ آپ تو مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ یہ تو میرا فرض ہے، اور یہ میری محبت ہے، اور یہ بڑی محبت کے ساتھ لوگ آئے ہیں۔ تو وہ پروفیسر تھے جو آسانی عطا کرتے تھے، اور ان کے پاس اور کلاسیں آتی رہیں، میں ان کو دیکھتا رہا، اور ان کو سلام کرنے جاتا رہا، کیونکہ وہ بھی ایک بابا تھے، جس طرح میری پوتی ایک بابا ہے۔ میں اسے سلام کرتا ہوں، ڈاکخانے ایک بابا ہے۔ یہ ایک استعارہ ہے جس میں سچ مچ لوگ بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا سا جھٹکا اس لیے لگتا ہے کہ اس میں ایمپوسٹرز تو ضرور آ ہی جاتے ہیں۔ جعلی بندے شامل ہو ہی جاتے ہیں جس طرح کئی دفعہ ٹھگ جو ہوتا ہے، وہ فوجی میجر کی وردی پہن کر دکان چیک کرنے چلا جاتا ہے۔ کہ تمھارے کیا حساب و کتاب ہیں، اور گلے میں سے ہزار روپیہ کھسکا کے لے آتا ہے تو آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جو میجر ہوتا ہے، وہ ٹھگ ہوتا ہے اس لیے آرمی میں سے میجر کا رینک نکال دیں۔ نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ایمپوسٹرز جو ہے، ٹھگ جو ہے، وہ اپنے انداز کا ہے، ویسا ہی رہے گا۔ آپ کو اب یہ دیکھنا ہے، اور ذرا سا اس کا آسان ٹیسٹ یہ جو آپ اپنی ذات پر بھی Apply کر سکتے ہیں کہ اس نے کسی سطح پر کسی طریقے سے بنی نوع انسان کو آسانی عطا کی یا نہیں۔
آپ نے اپنے بچپن میں دیکھا ہو گا۔ آپ کے محلے کے آپ کے گاؤں کے، اور آپ کے قصبے کے یا آپ کے شہر کے بزرگ جو تھے وہ جب راہ چلتے تھے تو اپنی چھڑی کے ساتھ کوئی کیلے کا چھلکا پڑا ہوا ہے یا کوئی ایسی گری پڑی چیز اینٹ، روڑا ہٹاتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ بد نصیبی ہے۔ جس دن اپنی چھڑی کے ساتھ، ایک اکیلا آدمی اس آلائش کو دور کرتا چلا جائے گا، اور مجھے یقین ہے کہ وہ پیچھے چلنے والے آتے جائیں گے، اور ملتے رہیں گے۔ ہماری یہ کوتاہی رہی ہے کہ ہم اس کے بارے میں علم عطا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ وہ بابا جی نے جو کہا تھا کہ علم عطا کرنے نہ بیٹھ جانا۔ ان کو محبت دینا۔ آپ کو مجھ سے محبت دینے کی ضرورت ہے ورنہ علم اندر نہیں جاتا۔ وہ پروفیسر جو گھاس پر بیٹھ کے لڑکوں کو پڑھاتا تھا، اس کا علم جاری رہا تھا۔ وہ اس لیے کہ اس کے پاس ایک ایسا پرنالہ تھا جو محبت کا تھا، اور وہ پھسل پھسل کر لڑکوں میں داخل ہو رہا تھا۔ یہ اس کے بغیر نہیں ہو گا۔ خواتین و حضرات آج ہلکی سی وضاحت یہ بابے کی ہوئی، اور آپ کے ذہن سے بہت سے شکوک، میرا خیال ہے دور ہوتے رہیں گے، نہ ہوتے ہوں تو کوئی ایسی بری بات نہیں۔ شکوک کو ساتھ لے کر چلنا ہی اچھی بات ہے۔ کیونکہ شک جو ہے خلافِ ایمان نہیں ہے۔ ایمان کا ایک حصہ ہے، کیونکہ اس کے ذہن میں شک پیدا ہو گا جو ایمان والا ہے، اللہ کو مانتا ہے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں، لیکن مجھے خوشی ہے کہ ہر ہفتے آپ سے ملاقات ہو جاتی ہے، اور کچھ ایسی باتیں ہو جاتی ہیں، جو میں اپنے لیے جاننا نہیں چاہتا، کیونکہ یہ آپ کا حصہ ہے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
صاحبانِ علم​


ہم سب کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔ جن بابوں کامیں اثر ذکر کیا کرتا ہوں، اور جن میں خاص طور پر بابا نور والے کا ذکر رہتا ہے۔ ان کے بات کرنے کا اندازہ، اور بات کو سمیٹنے کا، پیش کرنے کا جو رویہ تھا، عام لوگوں سے بے حد مختلف تھا۔ آپ یہ سمجھ لیں، ان کی باتیں کوٹ ایبل کوٹس، افور سیزم کا درجہ رکھتی تھیں۔ مثلاً کہا کرتے تھے: جو خیر کو قبول نہیں کرے گا، خیر اس کے گلے پڑ جائے گا۔ کہتے تھے: نماز کی قضا ہے، خدمت کی قضا نہیں۔ پھر ایک اور اسی طرح لمبا بیان جس کے اوپر ہم ذرا الجھ گئے تھے، اور اب میں اس الجھن سے تھوڑا سا آزاد ہوا ہوں، وہ یہ تھا: بھیجنے والے نے انسان کو کسی کام کے لیے، کسی عمل کے لیے بھیجا ہے، صرف پڑھنے پڑھانے کے لیے نہیں۔ جو لوگ پڑھنے پڑھانے کو عمل سمجھتے ہیں، وہ عمل کے لیے دیا گیا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اب یہ بڑی بوجھل سی بات تھی۔ ہم لوگ جو لکھنے لکھانے والے تھے، پڑھنے پڑھانے والے تھے، ان کے لیے گویا یہ ایک بم، شیل تھا۔ لیکن ایمانداری سے سوچا جائے، اس پر غور کیا جائے۔ ڈیرے پر بیٹھ کر اس قسم کی گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ جس قسم کی ہم ٹی وی پر بیٹھ کر یا پروگرام میں یا یونیورسٹی کی کلاسوں میں یا کالج کے کمروں میں کیا کرتے ہیں۔ ہم نے اس پر غور کیا، اور غور کرنے والوں میں حبیب جالب مرحوم بھی تھے۔ وہ بھی وہاں آیا کرتے تھے، اور خاص طور پر صفدر میر، وہ بھی مرحوم ہو گئے ہیں، وہ بحث میں شریک تو نہیں تھے لیکن موجود تھے۔ پھر ہمارے ساغر صدیقی۔ سوچتے سوچتے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ جو ریٹ آف لٹریسی، ہماری شرح تعلیم ہے، اور اس کے بارے میں ہم نے قول فیصل دیا ہے کہ شرحِ تعلیم 17۔18۔20۔21 فیصد ہے، اس سے زیادہ نہیں ہے۔ تو بابا جی نے کہا کہ جس تعلیم کو یا جس علم کی شرح آپ یہاں محدود کیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے اندازے کے مطابق پاکستان میں شرحِ تعلیم جو ہے، وہ 90 سے 92 فیصد ہے۔ اب یہ ایک عجیب و غریب بات تھی۔ انہوں نے کہا جب آپ تعلیم کو جانچتے ہیں، آنکتے ہیں، بیٹھ کے تولتے ہیں تو آپ صاحبانِ علم کو نہیں لیتے، صاحبانِ قلم کو لیتے ہیں۔ اور صاحبانِ علم میں، اور صاحبانِ قلم میں آپ تخصیص کر دیتے ہیں، حالانکہ ان کو ملا کر رکھنا چاہیے۔۔۔
 

ماوراء

محفلین
صاحبانِ علم میں وہ سارے لوہار، ترکھان، ویلڈر، ٹیکنیشن، دھوبی، اعلٰی درجے کے درزی خاص طور پر شامل ہیں۔ اسی طرح گاڑی والے سب لوگ شامل ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنا ایک علم اتنی شدت، اور اتنی ہی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے جس طریقے کا دوسرا علم۔ لیکن ہم لوگ صرف اہلِ قلم کو یا حرف شناس کو ہی صاحبانِ علم سمجھتے ہیں۔ یہ زیادتی کی بات ہے تو وہاں سے کچھ متاثر ہو کر جب میں آیا، گھر پہنچا تو میں نے اپنی بیوی( بانو قدسیہ) سے بات کی۔ انہوں نے کہا لاحول ولاقوۃ یہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ صاحبانِ علم تو ہم ہیں، کیونکہ لکھتے ہیں، ہم رائڑ، ہم ادیب ہیں۔ ہماری تو کتابیں چھپتی ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ایک بڑھئی جو ہے، وہ بھی ایسا ہے تو وہاں ہمارے ایک پرنسپل صاحب بیٹھے تھے جو کہ اب بھی ایک بہٹ بڑے کالج کے پرنسپل ہیں۔ اشفاق یہ بالکل زیادتی کی بات ہے، انہوں نے کہا۔ ہم ان کو کیسے صاحبانِ علم کہیں۔ میں نے کہا، آپ کا کیا شعبہ ہے۔ انہوں نے کہا، کیمسٹری۔ وہ کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ میں نے کہا، دیکھیے پروفیسر صاحب اگر کیمسٹری کے شعبے کے، اور آپ کی لیبارٹری کے دروازے خراب ہو جائیں، اور آپ انہیں تبدیل کرنا چاہیں تو آپ کس کو بلائیں گے تو جب وہ کار پینٹر آئے گا، اس کا جائزہ لے گا تو وہ کہے گا، دیکھیے یہ تین دروازے ہیں، آپ ڈھائی مکسر لکڑی منگوا لیں۔ اب آپ کا سارا کالج بتادے کہ ڈھائی مکسر لکڑی کتنی ہوتی ہے۔ وہ ایک پورا علم ہے نا اس کا۔ اب جب وہ ڈھائی مکسر لکڑی کہہ چکے گا تو پھر کہے گا۔ پرنسپل صاحب چونکہ یہ دروازہ اندر کے ہیں، اور ان کو بارش کا پھانڈا یورش نہیں ہو گی، اور جب ہم یہاں دیار لگانے کے بجائے پڑتل استعمال کریں گے تو بہتر ہے کہ آپ ڈھائی مکسر لکڑی پڑتل کی منگوا لیں، اور جب آپ کا اکاؤنٹ آفیسر جانے لگے گا تو پھر وہ کہے گا۔ یہ پورے چھے فٹے کا دروازے نہیں ہیں، ساڑھے پانچ فٹ ہیں۔ اس لیے آپ شہتیری نہ لیں، پھاڑا لے لیں۔ تو یہ کچھ Terms ہیں، پورے کا پورا علم ہے۔ وہ آپ کے دیکھتے دیکھتے ان چوکھٹوں کے دروازے چڑھا دے گا تو وہ صاحب علم ہے یا نہیں۔ کہنے لگے ہم تو صاحبِ نہ کہیں گے لیکن ہم اسے فن کا ماہر کہیں گے۔ ویسے آپ بھی اپنے فن کے ماہر ہیں، وہ بھی ہے۔ آپ اسے تسلیم کریں۔ لیکن ان کے لیے یہ تسلیم کرنا بہت مشکل تھا۔
پھر تھوڑے دن ہوئے، میں یہ بوجھ لے کر، یہ بہت بڑا بوجھ ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ ایک یہاں پر ہماری محفل تھی۔ ایک ہوٹل میں تو حکیم سعید مرحوم کیا کرتے تھے۔ وہاں بڑے دانش مند لوگ اکھٹے ہوتے تھے۔ وہاں میں نے کہا، یہ ایک مسئلہ ہے۔ آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم ہے؟ تو وہاں ایک جج صاحب ریٹائرڈ تھے۔ کہنے لگے اشفاق صاحب! آپ خدا کا خوف کریں۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک معمار، مستری، راج، چنائی کا کام کرنے والا صاحبِ علم ہے۔
 
Top