ماوراء
محفلین
زاویہ
بہروپ
یہ ایک بھری برسات کا ذکر ہے۔ آسمان سے ڈھیروں پانی برس رہا تھا اور میری کیفیت اس طرح تھی کہ جیسے میرے دل کے اندر بارش ہو رہی ہے، کچھ ایسا ہی مینہ بستی کے اوپر بھی برس رہا تھا۔ میں تھوڑا سا زخم خوردہ تھا۔ اس زخم کا مداوا میرے پاس نہ تھا، ماسوائے اس کے کہ میں ڈیرے پر چلوں اور اپنے بابا کی خدمت میں اظہار کروں۔ بات یہ تھی کہ میرے ایک بہت ہی پیارے دوست، جو میرے ساتھی بھی تھے، وہ افسانہ نگار تھے اور کالم بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے کالموں میں میری بڑی کھچائی کی تھی۔اور جب کالم نویس رگیدتا ہے تو جس کی کھچائی ہوتی ہے اس کے پاس کوئی اخبار نہیں ہوتا جس میں وہ جواب الجواب لکھ سکے۔ وہ بے چارہ غم زدہ ہو کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ میرے ساتھی بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی کیا تھا اور تابڑ توڑ چار سخت حملے کیے تھے۔
میں اپنے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے ڈیرے پر چلا گیا اور بابا جی سے کہا، “ میں بڑا دکھی ہوں اور اس بات کی مجھے بڑی تکلیف ہے۔ اس شخص نے جو میرے بظاہر دوست ہیں، ہم سے محبت کے ساتھ ملتے ہیں اور ٹی ہاؤس میں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے ہیں اور لوگوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ اس طرح کی کارستانی میرے لیے کر سکتا ہے۔ پھر یہ کیا ہے؟“
انہوں نے کہا: “اوہ پت! آپ اس کو سمجھے نہیں، یہ بڑی سمجھ داری کی بات ہے۔ دو صوفی تھے۔ ایک بڑا صوفی ٹرینڈ اور ایک چھوٹا صوفی انڈر ٹریننگ۔ چھوٹے صوفی کو ساتھ لے کر بڑا صوفی گلیوں، بازاروں میں گھومتا رہا۔ چلتے چلاتے اس کو لے کر ایک جنگل میں چلا گیا۔ جیسے کہ میں نے پہلے عرض کی، بڑی تابڑ توڑ بارش ہوئی تھی، جنگل بھیگا ہوا تھا اور اس جنگل میں جگہ جگہ لکڑیاں کے ڈھیر تھے۔ پتوں کے، شاخوں کے انبار تھے۔ اس بڑے صوفی نے دیکھا کہ شاخوں اور پتوں کے ڈھیر میں ایک سانپ کچھ مرجھایا ہوا، کچھ سنگھڑایا ہوا پڑا ہوا ہے۔ وہ پہلے آگ کی حدت سے زخم خوردہ تھا اور پھر اس پر جو بارش پڑی تو وہ زندہ سانپوں میں سے ہو گیا۔ صوفی کو بڑا ترس آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر سانپ کو اٹھا لیا۔
چھوٹے صوفی نے کہا، حضور کیا کرتے ہیں، سانپ ہے موذی ہے، اس کو اٹھایا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا: ‘ نہیں بے چارہ ہے، مجبور ہے، زخمی ہے،زخم خوردہ ہے اللہ کی مخلوق ہے۔ اس کی کچھ غورو پرداخت کرنی چاہیے‘ تو وہ سانپ کو ہاتھ میں لے کر چلے۔ پھر دونوں باتیں کرتے کرتے کافی منزلیں طے کرتے گئے۔ جب ٹھنڈی ہوا لگی، جھولتے ہوئے سانپ کو، تو اسے ہوش آنے لگا اور جب ہوش آیا تو طاقتور ہو گیا۔طاقتور ہو گیا تو اس نے صوفی صاحب کے ہاتھ پر ڈس لیا۔ جب ڈسا تو انہوں نے سانپ کو بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ایک درخت کی جڑ کے پاس رکھ دیا کیونکہ وہ اب ایک محفوظ جگہ پر پہنچ گیا ہے۔ اب یہ یہاں پر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ریوائیو(Revive) کر لے گا۔ جہاں بھی اس کا دل ہو گا، چلا جائے گا۔ چھوٹے صوفی نے کہا: ‘دیکھیں سر! میں نے کہا تھا نا کہ یہ موذی جانور ہے، آپ کو ڈس لے گا۔ پھر کیوں ساتھ اٹھا کے لے جا رہے ہیں؟ آپ تو بہت دانشمند ہیں، مجھے سکھانے پر مامور ہیں۔ ‘ تو انہوں نے کہا: “ڈسا نہیں اس کا شکریہ ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔سانپ اسی طرح شکریہ ادا کیا کرتے ہیں۔ “یہ جو تمھارے خلاف لکھتا ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ تم ناراض نہ ہو۔“میرے دل پر بڑا بھاری بوجھ تھا، دور ہو گیا اور میں بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا۔ تو خواتین و حضرات! یہ ڈیرے، یہ خانقاہیں یا جن کو تکیے کہہ لیں، یہ اسی کا مقصد کے لیے ہوتے ہیں کہ دل کا بوجھ جو آدمی سے خود اٹھائے نہیں اٹھتا، وہ ان کے پاس لے جائے۔ اور “بابے“ کے پاس جا کر آسانی سے سمجھ میں آنے کے لیے عرض کرے۔ فرض کریں ماڈرن دنیا میں کسی قسم کا ایک ڈیرہ ہو، جس میں سائیکی ایٹ رسٹ(Psychiatrist) بیٹھا ہو، لیکن وہ فیس نہ لے، یا سائیکالوجسٹ ہو جس کے پاس وہ بنچ نہ ہو جس پر لٹا کر Analysis کرتے ہیں، بلکہ بچھانے کے لیے صف ہو۔ اس پر ایسا سامان ہو کہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر سکیں۔ تو ان ڈیروں کو، ان تکیوں کو شمالی افریقہ میں، الجزائر میں تیونس میں“زاویے“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کو “زاویہ“ کہتے ہیں۔ کچھ “رباط“ بھی کہتے ہیں وہاں پر، لیکن زاویہ زیادہ مستعمل ہے۔ حیران کن بات ہے، باوجود اس کے کہ زاویہ ایک خاص اسم ظرف مکان ہے شمالی افریقہ کا، لیکن اندلس کے زمانے میں اندلس کی سرزمین پر زاویے نہیں تھے۔تیونس، الجزائر میں رباط تھے۔ یہاں صوفی لوگ بیٹھ کر لوگوں کو، آنے جانے والوں کو ایک چھت فراہم کرتے تھے۔ رہنے کے لیے جگہ دیتے تھے۔کھانے کے لیے روٹی، پانی دیتے تھے۔ کچھ دیر لوگ بیٹھتے تھے۔ دکھی لوگ آتے تھے۔ اپنا دکھ بیان کرتے تھے اور ان سے شفا حاصل کر کے ڈائیلاگ کرتے تھے۔ سچ مچ! جو سائیکالوجسٹ کہا کرتے ہیں، وہ مہیا کرتے تھے، ہم نے بھی اسی تقلید میں پروگرام کا نام زاویہ رکھا ہے۔ اس لحاظ سے تو مجھے تھوڑی سی شرمندگی ہے کہ یہ اصل زاویہ نہیں ہے۔نقل بمطابق اصل ہے لیکن سپرٹ(روح) اس کی وہی ہے۔ کوشش اس کی یہی ہے کہ اس طرح کی باتیں یہاں ہوتی رہیں اور طبیعت کا بوجھ، جو پروگراموں میں کالموں اور کتابوں سے دور نہیں ہوتا، وہ کسی طور پر یہاں دور ہو سکے۔