ماوراء
محفلین
ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں
علم کے بارے میں انسان ہمیشہ سرگرداں رہا ہے، اور آج کے دور میں حصولِ علم کے لیے بہت سی کوششیں ہیں، یہ انسان کے ایک بہتر مستقبل کی نوید کے لیے یقیناً ممدو معاون ثابت ہوں گی۔
علم حاصل کرنے کے لیے جب ہم بھائی اپنے گاؤں سے لاہور آئے، تو ہمارے ابا جی نے ایک گھر لے کر دیا، فلیمنگ رود پر۔ وہاں اختر شیرانی رہتے تھے۔ میں تو چونکہ فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، اس لیے ان کے نام سے یا ان کے کام سے اتنا آشنا نہیں تھا، لیکن میرے بڑے بھائی ان کو جانتے تھے اور ان کی بڑی قدرومنزلت کرتے تھے۔ بہرحال جہاں ہمارے ابا جی نے، اور بہت ساری مہربانیاں کی تھیں، وہاں یہ کہ ایک خانساماں بھی دیا تھا جو ہمارا کھانا پکاتا تھا۔ اس کا نام عبدل تھا۔ عبدل کو زندگی میں دو شوق بڑے تھے، ایک تو انگریزی بولنے کا، انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا جیسے آج کل بہت زیادہ انگریزی ہی کو علم سمجھا جاتا ہے، اور اگریزی کے حصول کے لیے ہی جان لڑائی جاتی ہے۔ عبدل کو بھی اس کا بڑا شوق تھا۔ دوسرے اس کو اچھی کنوینس کا بڑا چسکا تھا۔ چنانچہ کبھی اسے بھائی خط پوسٹ کرنے کے لیے جی پی او بھیجتے تو وہ کہتا تھا، اگر آپ اپنی سائیکل دے دیں تو میں بڑی خوشی سے جاؤں گا، اور آؤں گا۔ ان کی سائیکل کے قریب سے جب ہم گزرتے تھے سلام کر کے، لیکن ہم نے بھی اسے کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا، تو عبدل پر وہ کبھی مہربان ضرور ہوتے تھے، اور وہ سائیکل لے کر ان کا خط پوسٹ کرنے کے لیے فلیمنگ روڈ سے جی پی او جاتا تھا۔ اور میرے حساب کے مطابق چار ساڑھے چار منٹ میں واپس آ جاتا تھا، اور اس کی حالت میں سانس اس کی پھولی ہوئی اور ماتھے پر پسینہ ہوتا تھا۔
میں اس کی مستعدی سے بہت خوش تھا کہ یہ جو اپنی سائیکل ہے اس کو اتنے شوق سے، اور اتنی مستعدی سے استعمال کرتا ہے۔ ایک مرتبہ اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے دیکھا بازار میں وہ واپس آ رہا تھا، جی بی اور سے خط پوسٹ کر کے۔ اسطرح کہ سائیکل کا ہینڈل اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا۔ اس کے اوپر سوار نہیں تھا۔ تو میں نے اسے روک لیا۔ میں نے کہا، عبدل یہ کیا۔ کہنے لگا، “ میں بھاجی دا خط پا کے آیاں تے جلدی واپس آیاں۔“ میں نے کہا تو سائیکل لے کر گیا تھا۔ کہنے لگا ہاں جی۔ تو میں نے کہا، اس پر سوار کیوں نہیں ہوا۔ کہنے لگا، عزت کی خاطر لے کر جاتا ہوں۔ سائیکل مجھے چلانی نہیں آتی۔ تو آج بھی تقریباً ہمارا معاملہ عبدل جیسا ہی ہے۔ دوسرے اس کو جب چھٹی ملتی تھی، وہ انگریزی فلم دیکھنے جاتا تھا۔ مال روڈ پر یہاں دو سینما تھے، جن میں انگریزی فلم لگتی تھی۔ اس کو اس کی بڑی دیوانگی تھی، انگریزی سیکھنے کا چسکا، اور انگریزی سیکھنے کی لگن۔ آج ہی نہیں اس وقت بھی بہت زیادہ تھی تو جب وہ فلم دیکھ کر آتا تھا تو میرے بھائی پوچھتے، کیسی تھی۔ کہتا بہت کمال کی تھی۔ اس میں ایک مس تھی، وہ تیرتی بہت اچھا تھی۔ ویری بیوٹی۔ لیکن وہ فلمیں دیکھ دیکھ کے اندازے لگاتا مگر اس میں اتنی استعداد نہ تھی کہ سمجھ سکتا۔ کوئی لفظ اسے انگریزی کا سمجھ نہیں آتا تھا۔ نہ ہی وہ اس کا تلفظ ادا کر سکتا تھا، نہ ہی اس کو بیان کر سکتا تھا، لیکن ایک دن میرے بھائی نے پوچھا کہ تو اتنا وقت ضائع کرتا ہے، اتنے پیسے ضائع کرتا ہے، اور اس توجہ، اور لگن کے ساتھ اپنی زندگی مستغرق کی ہوئی ہے۔ اگر تو مجھے انگریزی کے چار حرف بتا دے، پورے چار۔ چار الفاظ، تو مین تمھیں پورا ایک روپیہ دوں گا۔ تو اس نے کہا کہ میٹرو گولڈون میئر۔ انہوں نے کہا یہ تو چار نہیں ہوئے تین ہوئے ہیں۔ کہنے لگا “اوں“ چوتھا بھی اس نے ادا کر دیا۔ تو وہ انگریزی جو جانتا تھا، وہ اس قسم کی تھی اب بھی ہم کوشش کر رہے ہیں، اور انگریزی کے اندر کچھ ایسے ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ شیر کی بھوگی مارتے ہیں۔ انگریزی چلتی نہیں۔
یہ تو تھی بات جو برسبیل تذکرہ آ گئی۔ میرا آج کا موضوع تھا وہ بتانا نہیں چاہتا تھا۔ پروفیسر صاحب یہاں آج تشریف فرما ہیں۔ جس زمانے میں میں روم میں لیکچرر تھا، روم یونیورسٹی میں، اور میں سب سے Youngest پروفیسر تھا۔ یونیورسٹیوں میں چھٹیاں تھیں۔ گرمیوں کا زمانہ تھا۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سٹیشن پر مجھے اردو براڈ کاسٹنگ کرنی پڑتی تھی۔ لوٹ کے آ رہا تھا تو خواتین و حضرات روم میں دوپہر کے وقت سب لوگ قیولہ کرتے تھے۔ ٤ بجے تک سوتے تھے، اور روم کی سڑکیں تقریباً خالی ہوتی تھیں، اور کارپوریشن نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ وہاں پر پانی کے حوض لگا کر سڑکیں دھوتے ہیں، اور شام تک سڑکیں ٹھنڈی بھی ہو جاتی ہیں، خوشگوار بھی ہو جاتی ہیں، صاف بھی ہو جاتی ہیں۔ تو وہ سڑکوں کو دھو رہے تھے۔ اکا دکا کوئی ٹریفک کی سواری آ جارہی تھی۔ تو میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا جا رہا تھا۔ اب دیکھیے انسان کے ساتھ ایک دیسی مزاج چلتا ہے کہ آدمی کہیں بھی چلا جائے، تو میں گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ گول دائرہ ہے اس کے اوپر سے میں چکر کاٹ کے آؤں گا۔ پھر میں اپنے گھر کی طرف مڑوں گا تو یہ بڑی بے ہودہ بات ہے۔ بیچ میں سے چلتے ہیں۔ اس وقت کون دیکھتا ہے، دوپہر کا وقت ہے۔ تو میں بیچ میں سے گزرا وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا، اس نے مجھے دیکھا، اور اس نے پروا نہیں کی۔ جانے دیا کہ یہ جا رہا ہے یہ نوجوان تو کوئی بات نہیں۔ جب میں نے دیکھا شیشے میں سے گردن گھما کے کچھ مجھے تھوڑا سا یاد پڑتا ہے۔ میں طنزاً مسکرایا۔ کچھ اپنی فیٹ (Fate) کے اوپر کچھ اپنی کامیابی کے اوپر۔ میں نے خوشی منانے کے لیے ایک مسکراہٹ کا پھول اس کی طرف پھینکا۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ اس نے میری یہ عزت کی ہے تو اس نے سیٹی بجا کے روک لیا۔ اب وہاں پر سیٹی بجنا موت کے برابر تھی اور رکنا بھی، میں رکا، وہ آ گیا، اور آ کے کھڑا ہو گیا۔ پہلے سلیوٹ کیا، ولایت میں رواج ہے کہ جب بھی آپ کا چلان کرتے ہیں۔ آپ کو پکڑنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے آ کر سلیوٹ مارتے ہیں۔ تو اس نے کھڑے ہو کر سلیوٹ مارا اب میں اندر تھر تھر کانپ رہا ہوں۔ شیشہ میں نے نیچے کیا تو مجھے کہنے لگا کہ آپ کا لائسنس۔ تو میں نے اس سے کہا میں زبان نہیں جانتا۔ اس نے کہا، چنگی بھلی بول رہے ہو۔ میں نے کہا میں نہیں جانتا تم ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہو۔ میں تو نہین جانتا۔ اس نے کہا، نہیں آپ اپنا لائسنس دیں۔ تو میں نے کہا، فرض کریں جس کے پاس اس کا لائسنس نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے گا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ میں آپ کا چالان کر دیتا ہوں۔ پر چی پھاڑ کے تو یہ آپ لے جائیں اور جرمانہ جمع کروا دیں۔ میں تو ایسے ہی مانگ رہا تھا۔ میں نے کہا، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا غلطی ہو گئی تھی تو چلے جاتے۔ اس نے بغیر مجھ سے پوچھے کاپی نکالی اور چالان کر دیا، اور چالان بھی بڑا سخت، بارہ آنے جرمانہ۔ میں نے لے لی پرچی۔ میں نے کہا، میں اس کو لے کر کیا کروں۔ اس نے کہا اپنے کسی بھی قریبی ڈاکخانے میں منی آرڈر کی کھڑکی پر جمع کروا دیں۔ بس وہاں کچہری نہیں جانا پڑتا، دھکے نہیں کھانے پڑتے۔ بس آپ کا جرمانہ ہو گیا، آپ ڈاکخنانے میں دیں گے تو بس۔ میں جب چالان کروا کے گھر آ گیا تو مین نے اپنی لینڈ لیڈی سے کہا، میرا چالان ہو گیا ہے۔ کہنے لگی، آپ کا۔ میں نے کہا، میں کیا کروں۔ اب ان کو ایسے لگا کہ ہمارے گھر میں جیسے ایک بڑا مجرم رہتا ہے۔ اور اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ پروفیسر کا چالان ہو گیا ہے۔ بڈھی مائی تھی۔ اس کی ایک ساس تھی اس کو بھی بتایا، سارے روتے ہوئے میرے پاس آ گئے۔ میں بڑا ڈرا کہ یااللہ یہ کیا۔ کہنے لگے تو شریف آدمی لگتا تھا۔ اچھے خاندان کا اچھے گھر کا لگتا تھا۔ ہم نے تجھے یہ کرائے پر کمرا بھی دیا ہوا ہے لیکن تو ویسا نہیں نکلا خیر گھر خلای کرنے کو تو نہیں کہا۔ جو بڈھی مائی تھی، ان کی ساس، اس نے کہا۔ ہو تو گیا ہے برخودار چالان۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا۔ محلے داری کا معاملہ ہے۔ اگر ان کو پتہ چل گیا کہ اس کا چلان ہو گیا ہے تو بڑی رسوائی ہو گی۔ لوگوں کو پتا چلے گا۔ میں نے کہا، نہیں میں پتا نہیں لگنے دوں گا۔ میری لاابالی طبیعت، ٢٦ سال کی عمر تھی۔ چالان جیب میں ڈالا اور نکل گیا دوستوں سے ملنے۔ اگلے دن مجھے جمع کروانا تھا، بھول گیا۔ پھر سارا دن گزر گیا۔ اس سے اگلے دن مجھے اصولاً جمع کروا دینا چاہیے تھا تو میں نے کپڑے بدلے تو اس پرانے کوٹ میں رہ گیا۔ شام کے وقت مجھے ایک تار ملا کی محترمی جناب پروفیسر صاحب فلاں فلاں مقام پر فلاں چوراہے پر آپ کا چالان کر دیا گیا تھا، فلاں سپاہی نے۔ یہ نمبر ہے آپ کے چالان کا۔ آپ نے ابھی تک کہیں بھی چالان کے پیسے جمع نہیں کروائے یہ بڑی حکم عدولی ہے۔ مہربانی فرما کر اسے جمع کروا دیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ تقریباً ٢١ روپے کا تا ر تھا۔ میں نے سارے لفظ گنے۔ مجھ سے یہ کوتاہی ہوئی کہ میں پھر بھول گیا، اور ان کا پھر ایک تار آیا۔ اگر آپ اب بھی رقم جمع نہیں کروائیں گے تو پھر ہمیں افسوس ہے کہ کورٹ میں پیش کر دینا پڑے گا۔ مجھ سے کوتاہی ہوئی، نہیں جا سکا۔ تب مجھے کورٹ سے ایک سمن آ گیا۔ کہ فلاں تاریخ کو عدالت میں پیش ہو جائیں، اور یہ جو آپ نے حکم عدولی کی ہے، قانون توڑا ہے، اس کے بارے میں آپ سے پورا انصاف کیا جائے گا۔ ان کی بولی، چونکہ رومن لاء وہیں سے چلا ہے تو بڑی تفصیل کے ساتھ۔ اب میں ڈرا، میری سٹی گم ہوئی۔ پریشان ہوا کہ اب میں دیارِ غیر میں ہوں۔ کوئی میرا حامی و ناصر مددگار نہیں ہے۔ میں کس کو اپنا والی بناؤں گا۔ میرا ڈاکٹر تھا۔ ڈاکٹر بالدی اس کا نام تھا، توجوان تھا۔ میں نے اس سے کہا، مجھے وکیل کر دو۔ اس نے کہا، میرا ایک دوست ہے۔ اس کے پاس چلتے ہیں۔ اس کے پاس گئے۔ اس نے کہا، یہ تھوڑا سا پیچیدہ ہو جائے گا۔ اگر میں گیا عدالت میں۔ بہتر یہی ہے پروفیسر صاحب جائیں، اور جا کر خود Face کریں عدالت کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ میں چونکہ اس قانون کو ٹھیک طرح سے نہیں جانتا تھا۔ میں یہاں پر ایک غیر ملکی ہوں تو مجھے معافی دی جائے۔ میں ایسا آئندہ نہیں کروں گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں ڈرتا ڈرتا چلا گیا۔ اگر آپ کو روم جانے کا اتفاق ہو تو “پالاس آف دی جستی“ Palace of Justice وہ رومن زمانے کا بہت بڑا وسیع و عریض ہے، اسے تلاش کرتے کرتے ہم اپنے جج صاحب کے کمرے میں پہنچے تو وہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے ترتیب کے ساتھ بلایا گیا تو مین چلا گیا۔ اب بالکل میرے بدن میں روح نہیں ہے، اور میں خوفزدہ ہوں، اور کانپنے کی بھی مجھ میں جراءت نہیں۔ اس لیے کہ تشنج جیسی کیفیت ہو گئی تھی، انہوں نے کہا حکم دیا، آپ کھڑے ہوں اس کٹہرے کے اندر۔ اب عدالت نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا چالان ہوا تھا، اور آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ یہ بارہ آنے ڈاک خانے میں جمع کروائیں، کیوں نہیں کروائے؟ میں نے کہا، جی مجھ سے کوتاہی ہوئی، مجھے کروانے چاہئیں تھے، لیکن میں۔۔۔۔اس نے کہا، کتنا وقت عملے کا ضائع ہوا۔ کتنا پولیس کا ہوا، اب کتنا “جستیک کا“ ہوا (جسٹس عدالت کا ہو رہا ہے) اور آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ ہم اس کے بارے میں آپ کو کڑی سزا دیں گے۔ میں نے کہا، میں یہاں پر ایک فارنر ہوں۔ پردیسی ہوں۔ جیسا ہمارا بہانہ ہوتاہے، میں کچھ زیادہ آداب نہیں سمجھتا۔ قانون سے میں واقف نہیں ہوں۔ تو میرے پر مہربانی فرمائیں۔ انہوں نے کہا، آپ زبان تو ٹھیک بولتے ہیں۔ وضاحت کر رہے ہیں۔ آپ کیا کرتے ہیں تو میں چپ کر کے کھڑا رہا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ عدالت آپ سے پوچھتی ہے کہ آپ کون ہیں، اور آپ کا پیشہ کیا ہے؟ میں نے کہا، میں ایک ٹیچر ہوں۔ پروفیست ہوں۔ روم یونیورسٹی میں۔ تو وہ جج صاحب کرسی کو سائیڈ پر کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے اعلان کیا Teacher in the Court. Teacher in the Court. جیسے اعلان کیا جاتا ہے، اور وہ سارے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ منشی، تھانیدار، عمل دار جتنے بھی تھے، اور اس نے حکم دیا کہ Chair should be brought for the teacher has come to the court.
اب وہ کٹہرا چھوٹا سا، میں اس کو پکڑ کر کھڑا ہوں۔ وہ کرسی لے آئے۔ حکم ہوا کہ تو Teacher ہے، کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تو پھر اس نے ایک بانی بڑھنی شروع کی۔ جج نے کہا کہ اے معزز استاد! اے دنیا کو علم عطا کرنے والے استاد! اے محترم ترین انسان! اے محترم انسانیت! آپ نے ہی ہم کو عدالت کا، اور عدل کا حکم دیا ہے، اور آپ ہی نے ہم کو یہ علم پڑھایا ہے، اور آپ ہی کی بدولت ہم اس جگہ پر براجمان ہیں۔ اس لیے ہم آپ کے فرمان کے مطابق مجبور ہیں۔ عدالت نے جو ضابطہ قائم کیا ہے، اس کے تحت آپ کو چیک کریں، باوجود اس کے کہ ہمیں اس بات کی شرمندگی ہے، اور ہم بے حد افسردہ کہ ہم ایک استاد کو جس سے محترم، اور کوئی نہیں ہوتا، اپنی عدالت میں ٹرائل کر رہے ہیں، اور یہ کسی بھی جج کے لیے انتہائی تکلیف دہ موقع ہے کہ کورٹ میں، کٹہرے ایک استادِ مکرم ہو اور اس سے Trail کیا جائے۔ اب میں شرمندہ اپنی جگہ پر یا اللہ یہ کیا شروع ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، حضور جو بھی آپ کا قانون ہے، علم یا جیسے کیسے بھی آپ کا ضابطہ ہے، اس کے مطابق کریں، میں حاضر ہوں۔ تو انہوں نے کہا، ہم نہایت شرمندگی کے ساتھ، اور نہایت دکھ کے ساتھ، اور گہرے الم کے ساتھ آپ کو ڈبل جرمانہ کرتے ہیں۔ ڈیڑھ روپیہ ہو گیا۔ اب جب میں اٹھ کے اس کرسی میں اس کٹہرے میں سے نکل کر شرمندہ، باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ جو جج، اس کا عملہ تھا، اس کے منشی تھے، وہ سارے جناب میرے پیچھے پیچھے (Ateacher in the court) جا رہے تھے کہ ہم احترام فائقہ کے ساتھ آپ کو رخصت کرتے ہیں۔ میں کہوں، میری جان چھوڑیں۔ یہ باہر نکل کر میرے ساتھ کیا کریں گے۔ آگے تک میری موٹر تک چھوڑ کے آئے۔ جب تک میں وہاں سے سٹارٹ نہیں ہو گیا، وہ عملہ وہاں پر ایسے ہی کھڑا تھا۔ اب میں لوٹ کے آیا تو میں سمجھا یا اللہ میں بڑا معزز آدمی ہوں، اور محلے والوں کو بھی آکر بتایا کہ میں ایسے گیا تھا، اور وہاں پر یہ یہ ہوا۔ وہ بھی جناب، اور میری جو لینڈ لیڈی تھی، وہ بھی بڑی خوشی کے ساتھ محلے میں چوڑی ہو کے گھوم رہی تھی کہ دیکھو ہمارا یہ ٹیچر گیا، اور کورٹ نے اتنی عزت کی۔ اس کی عزت افزائی ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ اس کے ساتھ ساتھ میری تنخواہ میں بھی اضافہ ہو گا، دیسی آدمی جو ہے نا وہ چاہے ٹیچر بھی ہو، وہ گریڈ کا ضرور سعچے گا۔ کتنی بھی آپ عزت دے دیں، کتنا بھی احترام دے دیں، وہ پھر بھی ضرور سوچے گا کہ مجھے کہیں سے چار پیسے بھی ملیں گے کہ نہیں، میں نے اپنے ریکٹر سے پوچھا، تو اس نے کہا، نہیں تنخواہ یہاں پروفیسر کی اتنی ہی ہے جتنی تمہارے پاکستان میں ہے۔ وہ کوئی مالی طور پر اتنے بڑے نہیں ہیں، لیکن عزت کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ رتبہ ان کا بہت زیادہ ہے، اور کوئی شخص یہاں کوئی بیورو کریٹ ہو، یہاں کوئی جج ہو۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ یہاں کا تاجر ہو، یہاں کا فیوڈل لارڈ ہو، وہ استاد کے رتبے کے پیچھے اسی طرح چلتا ہے، جیسے روم کے دنوں میں غلام اپنے آقا کے پیچھے چلتے تھے۔ مالی طور پر وہ بھی بے چارے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے کہ مالی طور پر کمتر ہیں، لیکن رتبے کے اعتبار سے بہت اونچے ہیں۔ جیسے سقراط جو تھا، وہ اپنے کھنڈروں میں، اور فورم میں کھڑا ہو کے ننگے پاؤں بات کرتا تھا، لیکن اس کا احترام تھا۔ وہ کوئی امیر آدمی نہیں تھا۔ میرا باس کہا کرتا تھا۔
You have changes your profession for a handfull silver.
ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں
علم کے بارے میں انسان ہمیشہ سرگرداں رہا ہے، اور آج کے دور میں حصولِ علم کے لیے بہت سی کوششیں ہیں، یہ انسان کے ایک بہتر مستقبل کی نوید کے لیے یقیناً ممدو معاون ثابت ہوں گی۔
علم حاصل کرنے کے لیے جب ہم بھائی اپنے گاؤں سے لاہور آئے، تو ہمارے ابا جی نے ایک گھر لے کر دیا، فلیمنگ رود پر۔ وہاں اختر شیرانی رہتے تھے۔ میں تو چونکہ فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، اس لیے ان کے نام سے یا ان کے کام سے اتنا آشنا نہیں تھا، لیکن میرے بڑے بھائی ان کو جانتے تھے اور ان کی بڑی قدرومنزلت کرتے تھے۔ بہرحال جہاں ہمارے ابا جی نے، اور بہت ساری مہربانیاں کی تھیں، وہاں یہ کہ ایک خانساماں بھی دیا تھا جو ہمارا کھانا پکاتا تھا۔ اس کا نام عبدل تھا۔ عبدل کو زندگی میں دو شوق بڑے تھے، ایک تو انگریزی بولنے کا، انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا جیسے آج کل بہت زیادہ انگریزی ہی کو علم سمجھا جاتا ہے، اور اگریزی کے حصول کے لیے ہی جان لڑائی جاتی ہے۔ عبدل کو بھی اس کا بڑا شوق تھا۔ دوسرے اس کو اچھی کنوینس کا بڑا چسکا تھا۔ چنانچہ کبھی اسے بھائی خط پوسٹ کرنے کے لیے جی پی او بھیجتے تو وہ کہتا تھا، اگر آپ اپنی سائیکل دے دیں تو میں بڑی خوشی سے جاؤں گا، اور آؤں گا۔ ان کی سائیکل کے قریب سے جب ہم گزرتے تھے سلام کر کے، لیکن ہم نے بھی اسے کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا، تو عبدل پر وہ کبھی مہربان ضرور ہوتے تھے، اور وہ سائیکل لے کر ان کا خط پوسٹ کرنے کے لیے فلیمنگ روڈ سے جی پی او جاتا تھا۔ اور میرے حساب کے مطابق چار ساڑھے چار منٹ میں واپس آ جاتا تھا، اور اس کی حالت میں سانس اس کی پھولی ہوئی اور ماتھے پر پسینہ ہوتا تھا۔
میں اس کی مستعدی سے بہت خوش تھا کہ یہ جو اپنی سائیکل ہے اس کو اتنے شوق سے، اور اتنی مستعدی سے استعمال کرتا ہے۔ ایک مرتبہ اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے دیکھا بازار میں وہ واپس آ رہا تھا، جی بی اور سے خط پوسٹ کر کے۔ اسطرح کہ سائیکل کا ہینڈل اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا۔ اس کے اوپر سوار نہیں تھا۔ تو میں نے اسے روک لیا۔ میں نے کہا، عبدل یہ کیا۔ کہنے لگا، “ میں بھاجی دا خط پا کے آیاں تے جلدی واپس آیاں۔“ میں نے کہا تو سائیکل لے کر گیا تھا۔ کہنے لگا ہاں جی۔ تو میں نے کہا، اس پر سوار کیوں نہیں ہوا۔ کہنے لگا، عزت کی خاطر لے کر جاتا ہوں۔ سائیکل مجھے چلانی نہیں آتی۔ تو آج بھی تقریباً ہمارا معاملہ عبدل جیسا ہی ہے۔ دوسرے اس کو جب چھٹی ملتی تھی، وہ انگریزی فلم دیکھنے جاتا تھا۔ مال روڈ پر یہاں دو سینما تھے، جن میں انگریزی فلم لگتی تھی۔ اس کو اس کی بڑی دیوانگی تھی، انگریزی سیکھنے کا چسکا، اور انگریزی سیکھنے کی لگن۔ آج ہی نہیں اس وقت بھی بہت زیادہ تھی تو جب وہ فلم دیکھ کر آتا تھا تو میرے بھائی پوچھتے، کیسی تھی۔ کہتا بہت کمال کی تھی۔ اس میں ایک مس تھی، وہ تیرتی بہت اچھا تھی۔ ویری بیوٹی۔ لیکن وہ فلمیں دیکھ دیکھ کے اندازے لگاتا مگر اس میں اتنی استعداد نہ تھی کہ سمجھ سکتا۔ کوئی لفظ اسے انگریزی کا سمجھ نہیں آتا تھا۔ نہ ہی وہ اس کا تلفظ ادا کر سکتا تھا، نہ ہی اس کو بیان کر سکتا تھا، لیکن ایک دن میرے بھائی نے پوچھا کہ تو اتنا وقت ضائع کرتا ہے، اتنے پیسے ضائع کرتا ہے، اور اس توجہ، اور لگن کے ساتھ اپنی زندگی مستغرق کی ہوئی ہے۔ اگر تو مجھے انگریزی کے چار حرف بتا دے، پورے چار۔ چار الفاظ، تو مین تمھیں پورا ایک روپیہ دوں گا۔ تو اس نے کہا کہ میٹرو گولڈون میئر۔ انہوں نے کہا یہ تو چار نہیں ہوئے تین ہوئے ہیں۔ کہنے لگا “اوں“ چوتھا بھی اس نے ادا کر دیا۔ تو وہ انگریزی جو جانتا تھا، وہ اس قسم کی تھی اب بھی ہم کوشش کر رہے ہیں، اور انگریزی کے اندر کچھ ایسے ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ شیر کی بھوگی مارتے ہیں۔ انگریزی چلتی نہیں۔
یہ تو تھی بات جو برسبیل تذکرہ آ گئی۔ میرا آج کا موضوع تھا وہ بتانا نہیں چاہتا تھا۔ پروفیسر صاحب یہاں آج تشریف فرما ہیں۔ جس زمانے میں میں روم میں لیکچرر تھا، روم یونیورسٹی میں، اور میں سب سے Youngest پروفیسر تھا۔ یونیورسٹیوں میں چھٹیاں تھیں۔ گرمیوں کا زمانہ تھا۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سٹیشن پر مجھے اردو براڈ کاسٹنگ کرنی پڑتی تھی۔ لوٹ کے آ رہا تھا تو خواتین و حضرات روم میں دوپہر کے وقت سب لوگ قیولہ کرتے تھے۔ ٤ بجے تک سوتے تھے، اور روم کی سڑکیں تقریباً خالی ہوتی تھیں، اور کارپوریشن نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ وہاں پر پانی کے حوض لگا کر سڑکیں دھوتے ہیں، اور شام تک سڑکیں ٹھنڈی بھی ہو جاتی ہیں، خوشگوار بھی ہو جاتی ہیں، صاف بھی ہو جاتی ہیں۔ تو وہ سڑکوں کو دھو رہے تھے۔ اکا دکا کوئی ٹریفک کی سواری آ جارہی تھی۔ تو میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا جا رہا تھا۔ اب دیکھیے انسان کے ساتھ ایک دیسی مزاج چلتا ہے کہ آدمی کہیں بھی چلا جائے، تو میں گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ گول دائرہ ہے اس کے اوپر سے میں چکر کاٹ کے آؤں گا۔ پھر میں اپنے گھر کی طرف مڑوں گا تو یہ بڑی بے ہودہ بات ہے۔ بیچ میں سے چلتے ہیں۔ اس وقت کون دیکھتا ہے، دوپہر کا وقت ہے۔ تو میں بیچ میں سے گزرا وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا، اس نے مجھے دیکھا، اور اس نے پروا نہیں کی۔ جانے دیا کہ یہ جا رہا ہے یہ نوجوان تو کوئی بات نہیں۔ جب میں نے دیکھا شیشے میں سے گردن گھما کے کچھ مجھے تھوڑا سا یاد پڑتا ہے۔ میں طنزاً مسکرایا۔ کچھ اپنی فیٹ (Fate) کے اوپر کچھ اپنی کامیابی کے اوپر۔ میں نے خوشی منانے کے لیے ایک مسکراہٹ کا پھول اس کی طرف پھینکا۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ اس نے میری یہ عزت کی ہے تو اس نے سیٹی بجا کے روک لیا۔ اب وہاں پر سیٹی بجنا موت کے برابر تھی اور رکنا بھی، میں رکا، وہ آ گیا، اور آ کے کھڑا ہو گیا۔ پہلے سلیوٹ کیا، ولایت میں رواج ہے کہ جب بھی آپ کا چلان کرتے ہیں۔ آپ کو پکڑنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے آ کر سلیوٹ مارتے ہیں۔ تو اس نے کھڑے ہو کر سلیوٹ مارا اب میں اندر تھر تھر کانپ رہا ہوں۔ شیشہ میں نے نیچے کیا تو مجھے کہنے لگا کہ آپ کا لائسنس۔ تو میں نے اس سے کہا میں زبان نہیں جانتا۔ اس نے کہا، چنگی بھلی بول رہے ہو۔ میں نے کہا میں نہیں جانتا تم ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہو۔ میں تو نہین جانتا۔ اس نے کہا، نہیں آپ اپنا لائسنس دیں۔ تو میں نے کہا، فرض کریں جس کے پاس اس کا لائسنس نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے گا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ میں آپ کا چالان کر دیتا ہوں۔ پر چی پھاڑ کے تو یہ آپ لے جائیں اور جرمانہ جمع کروا دیں۔ میں تو ایسے ہی مانگ رہا تھا۔ میں نے کہا، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا غلطی ہو گئی تھی تو چلے جاتے۔ اس نے بغیر مجھ سے پوچھے کاپی نکالی اور چالان کر دیا، اور چالان بھی بڑا سخت، بارہ آنے جرمانہ۔ میں نے لے لی پرچی۔ میں نے کہا، میں اس کو لے کر کیا کروں۔ اس نے کہا اپنے کسی بھی قریبی ڈاکخانے میں منی آرڈر کی کھڑکی پر جمع کروا دیں۔ بس وہاں کچہری نہیں جانا پڑتا، دھکے نہیں کھانے پڑتے۔ بس آپ کا جرمانہ ہو گیا، آپ ڈاکخنانے میں دیں گے تو بس۔ میں جب چالان کروا کے گھر آ گیا تو مین نے اپنی لینڈ لیڈی سے کہا، میرا چالان ہو گیا ہے۔ کہنے لگی، آپ کا۔ میں نے کہا، میں کیا کروں۔ اب ان کو ایسے لگا کہ ہمارے گھر میں جیسے ایک بڑا مجرم رہتا ہے۔ اور اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ پروفیسر کا چالان ہو گیا ہے۔ بڈھی مائی تھی۔ اس کی ایک ساس تھی اس کو بھی بتایا، سارے روتے ہوئے میرے پاس آ گئے۔ میں بڑا ڈرا کہ یااللہ یہ کیا۔ کہنے لگے تو شریف آدمی لگتا تھا۔ اچھے خاندان کا اچھے گھر کا لگتا تھا۔ ہم نے تجھے یہ کرائے پر کمرا بھی دیا ہوا ہے لیکن تو ویسا نہیں نکلا خیر گھر خلای کرنے کو تو نہیں کہا۔ جو بڈھی مائی تھی، ان کی ساس، اس نے کہا۔ ہو تو گیا ہے برخودار چالان۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا۔ محلے داری کا معاملہ ہے۔ اگر ان کو پتہ چل گیا کہ اس کا چلان ہو گیا ہے تو بڑی رسوائی ہو گی۔ لوگوں کو پتا چلے گا۔ میں نے کہا، نہیں میں پتا نہیں لگنے دوں گا۔ میری لاابالی طبیعت، ٢٦ سال کی عمر تھی۔ چالان جیب میں ڈالا اور نکل گیا دوستوں سے ملنے۔ اگلے دن مجھے جمع کروانا تھا، بھول گیا۔ پھر سارا دن گزر گیا۔ اس سے اگلے دن مجھے اصولاً جمع کروا دینا چاہیے تھا تو میں نے کپڑے بدلے تو اس پرانے کوٹ میں رہ گیا۔ شام کے وقت مجھے ایک تار ملا کی محترمی جناب پروفیسر صاحب فلاں فلاں مقام پر فلاں چوراہے پر آپ کا چالان کر دیا گیا تھا، فلاں سپاہی نے۔ یہ نمبر ہے آپ کے چالان کا۔ آپ نے ابھی تک کہیں بھی چالان کے پیسے جمع نہیں کروائے یہ بڑی حکم عدولی ہے۔ مہربانی فرما کر اسے جمع کروا دیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ تقریباً ٢١ روپے کا تا ر تھا۔ میں نے سارے لفظ گنے۔ مجھ سے یہ کوتاہی ہوئی کہ میں پھر بھول گیا، اور ان کا پھر ایک تار آیا۔ اگر آپ اب بھی رقم جمع نہیں کروائیں گے تو پھر ہمیں افسوس ہے کہ کورٹ میں پیش کر دینا پڑے گا۔ مجھ سے کوتاہی ہوئی، نہیں جا سکا۔ تب مجھے کورٹ سے ایک سمن آ گیا۔ کہ فلاں تاریخ کو عدالت میں پیش ہو جائیں، اور یہ جو آپ نے حکم عدولی کی ہے، قانون توڑا ہے، اس کے بارے میں آپ سے پورا انصاف کیا جائے گا۔ ان کی بولی، چونکہ رومن لاء وہیں سے چلا ہے تو بڑی تفصیل کے ساتھ۔ اب میں ڈرا، میری سٹی گم ہوئی۔ پریشان ہوا کہ اب میں دیارِ غیر میں ہوں۔ کوئی میرا حامی و ناصر مددگار نہیں ہے۔ میں کس کو اپنا والی بناؤں گا۔ میرا ڈاکٹر تھا۔ ڈاکٹر بالدی اس کا نام تھا، توجوان تھا۔ میں نے اس سے کہا، مجھے وکیل کر دو۔ اس نے کہا، میرا ایک دوست ہے۔ اس کے پاس چلتے ہیں۔ اس کے پاس گئے۔ اس نے کہا، یہ تھوڑا سا پیچیدہ ہو جائے گا۔ اگر میں گیا عدالت میں۔ بہتر یہی ہے پروفیسر صاحب جائیں، اور جا کر خود Face کریں عدالت کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ میں چونکہ اس قانون کو ٹھیک طرح سے نہیں جانتا تھا۔ میں یہاں پر ایک غیر ملکی ہوں تو مجھے معافی دی جائے۔ میں ایسا آئندہ نہیں کروں گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں ڈرتا ڈرتا چلا گیا۔ اگر آپ کو روم جانے کا اتفاق ہو تو “پالاس آف دی جستی“ Palace of Justice وہ رومن زمانے کا بہت بڑا وسیع و عریض ہے، اسے تلاش کرتے کرتے ہم اپنے جج صاحب کے کمرے میں پہنچے تو وہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے ترتیب کے ساتھ بلایا گیا تو مین چلا گیا۔ اب بالکل میرے بدن میں روح نہیں ہے، اور میں خوفزدہ ہوں، اور کانپنے کی بھی مجھ میں جراءت نہیں۔ اس لیے کہ تشنج جیسی کیفیت ہو گئی تھی، انہوں نے کہا حکم دیا، آپ کھڑے ہوں اس کٹہرے کے اندر۔ اب عدالت نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا چالان ہوا تھا، اور آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ یہ بارہ آنے ڈاک خانے میں جمع کروائیں، کیوں نہیں کروائے؟ میں نے کہا، جی مجھ سے کوتاہی ہوئی، مجھے کروانے چاہئیں تھے، لیکن میں۔۔۔۔اس نے کہا، کتنا وقت عملے کا ضائع ہوا۔ کتنا پولیس کا ہوا، اب کتنا “جستیک کا“ ہوا (جسٹس عدالت کا ہو رہا ہے) اور آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ ہم اس کے بارے میں آپ کو کڑی سزا دیں گے۔ میں نے کہا، میں یہاں پر ایک فارنر ہوں۔ پردیسی ہوں۔ جیسا ہمارا بہانہ ہوتاہے، میں کچھ زیادہ آداب نہیں سمجھتا۔ قانون سے میں واقف نہیں ہوں۔ تو میرے پر مہربانی فرمائیں۔ انہوں نے کہا، آپ زبان تو ٹھیک بولتے ہیں۔ وضاحت کر رہے ہیں۔ آپ کیا کرتے ہیں تو میں چپ کر کے کھڑا رہا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ عدالت آپ سے پوچھتی ہے کہ آپ کون ہیں، اور آپ کا پیشہ کیا ہے؟ میں نے کہا، میں ایک ٹیچر ہوں۔ پروفیست ہوں۔ روم یونیورسٹی میں۔ تو وہ جج صاحب کرسی کو سائیڈ پر کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے اعلان کیا Teacher in the Court. Teacher in the Court. جیسے اعلان کیا جاتا ہے، اور وہ سارے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ منشی، تھانیدار، عمل دار جتنے بھی تھے، اور اس نے حکم دیا کہ Chair should be brought for the teacher has come to the court.
اب وہ کٹہرا چھوٹا سا، میں اس کو پکڑ کر کھڑا ہوں۔ وہ کرسی لے آئے۔ حکم ہوا کہ تو Teacher ہے، کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تو پھر اس نے ایک بانی بڑھنی شروع کی۔ جج نے کہا کہ اے معزز استاد! اے دنیا کو علم عطا کرنے والے استاد! اے محترم ترین انسان! اے محترم انسانیت! آپ نے ہی ہم کو عدالت کا، اور عدل کا حکم دیا ہے، اور آپ ہی نے ہم کو یہ علم پڑھایا ہے، اور آپ ہی کی بدولت ہم اس جگہ پر براجمان ہیں۔ اس لیے ہم آپ کے فرمان کے مطابق مجبور ہیں۔ عدالت نے جو ضابطہ قائم کیا ہے، اس کے تحت آپ کو چیک کریں، باوجود اس کے کہ ہمیں اس بات کی شرمندگی ہے، اور ہم بے حد افسردہ کہ ہم ایک استاد کو جس سے محترم، اور کوئی نہیں ہوتا، اپنی عدالت میں ٹرائل کر رہے ہیں، اور یہ کسی بھی جج کے لیے انتہائی تکلیف دہ موقع ہے کہ کورٹ میں، کٹہرے ایک استادِ مکرم ہو اور اس سے Trail کیا جائے۔ اب میں شرمندہ اپنی جگہ پر یا اللہ یہ کیا شروع ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، حضور جو بھی آپ کا قانون ہے، علم یا جیسے کیسے بھی آپ کا ضابطہ ہے، اس کے مطابق کریں، میں حاضر ہوں۔ تو انہوں نے کہا، ہم نہایت شرمندگی کے ساتھ، اور نہایت دکھ کے ساتھ، اور گہرے الم کے ساتھ آپ کو ڈبل جرمانہ کرتے ہیں۔ ڈیڑھ روپیہ ہو گیا۔ اب جب میں اٹھ کے اس کرسی میں اس کٹہرے میں سے نکل کر شرمندہ، باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ جو جج، اس کا عملہ تھا، اس کے منشی تھے، وہ سارے جناب میرے پیچھے پیچھے (Ateacher in the court) جا رہے تھے کہ ہم احترام فائقہ کے ساتھ آپ کو رخصت کرتے ہیں۔ میں کہوں، میری جان چھوڑیں۔ یہ باہر نکل کر میرے ساتھ کیا کریں گے۔ آگے تک میری موٹر تک چھوڑ کے آئے۔ جب تک میں وہاں سے سٹارٹ نہیں ہو گیا، وہ عملہ وہاں پر ایسے ہی کھڑا تھا۔ اب میں لوٹ کے آیا تو میں سمجھا یا اللہ میں بڑا معزز آدمی ہوں، اور محلے والوں کو بھی آکر بتایا کہ میں ایسے گیا تھا، اور وہاں پر یہ یہ ہوا۔ وہ بھی جناب، اور میری جو لینڈ لیڈی تھی، وہ بھی بڑی خوشی کے ساتھ محلے میں چوڑی ہو کے گھوم رہی تھی کہ دیکھو ہمارا یہ ٹیچر گیا، اور کورٹ نے اتنی عزت کی۔ اس کی عزت افزائی ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ اس کے ساتھ ساتھ میری تنخواہ میں بھی اضافہ ہو گا، دیسی آدمی جو ہے نا وہ چاہے ٹیچر بھی ہو، وہ گریڈ کا ضرور سعچے گا۔ کتنی بھی آپ عزت دے دیں، کتنا بھی احترام دے دیں، وہ پھر بھی ضرور سوچے گا کہ مجھے کہیں سے چار پیسے بھی ملیں گے کہ نہیں، میں نے اپنے ریکٹر سے پوچھا، تو اس نے کہا، نہیں تنخواہ یہاں پروفیسر کی اتنی ہی ہے جتنی تمہارے پاکستان میں ہے۔ وہ کوئی مالی طور پر اتنے بڑے نہیں ہیں، لیکن عزت کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ رتبہ ان کا بہت زیادہ ہے، اور کوئی شخص یہاں کوئی بیورو کریٹ ہو، یہاں کوئی جج ہو۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ یہاں کا تاجر ہو، یہاں کا فیوڈل لارڈ ہو، وہ استاد کے رتبے کے پیچھے اسی طرح چلتا ہے، جیسے روم کے دنوں میں غلام اپنے آقا کے پیچھے چلتے تھے۔ مالی طور پر وہ بھی بے چارے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے کہ مالی طور پر کمتر ہیں، لیکن رتبے کے اعتبار سے بہت اونچے ہیں۔ جیسے سقراط جو تھا، وہ اپنے کھنڈروں میں، اور فورم میں کھڑا ہو کے ننگے پاؤں بات کرتا تھا، لیکن اس کا احترام تھا۔ وہ کوئی امیر آدمی نہیں تھا۔ میرا باس کہا کرتا تھا۔
You have changes your profession for a handfull silver.