شمشاد
لائبریرین
ایک معصوم بیٹی کی کہانی
اتنی ساری بیٹیوں کی موجودگی میں آدمی کا دل بہت خوش ہوتا ہے اور اس کو ہمیشہ بڑی تقویت ملتی ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ بیٹا مطلوب ہوتا ہے، اور بیٹی لاڈلی ہوتی ہے۔ اس کی جگہ وہ نہیں لے سکتی اور اس کی جگہ وہ نہیں لے سکتا، لیکن اگر حساب لگا کر دیکھو اعداد و شمار کے مطابق تو بیٹی کا نمبر ہمیشہ اوپر ہی رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ طے شدہ بات ہے کہ عورت کا احترام بہت ہے۔ جب آپ باہر نکل کر دیکھیں تو ہر ایک شے کے اوپر آپ کو ماں کی دعا لکھا ہوا ملے گا۔ پپو کی دعا کہیں بھی نہیں۔ ایک بھی رکشہ پر نہیں لکھا ہوتا۔ عورت ماں کے روپ میں ہو، بیٹی کے روپ میں، بہن کے روپ میں ہو، عورت کی بڑی عزت دلوں میں ہوتی ہے۔ جھگڑے وگڑے ہو جاتے ہیں، لیکن بابا کو اپنی بیٹی اور بیٹیاں ہمیشہ بہت پیاری اور بہت لاڈلی ہوتی ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ یورپ کے کچھ ملک یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہاں پر عورت کی عزت نہیں ہے اور اس کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا جاتا ہے، اور کچھ ادارے انہوں نے اس طرح کے بنا دیئے ہیں کہ چیک کرنے کے لیے کہ کیا واقعی بُرا برتاؤ ہوتا ہے۔
کافی دیر کی بات ہے کہ میرے دفتر میں آیا ایسے ہی ایک ادارے کا آدمی، وہ بڑا بھلا سا نیک سا نوجوان تھا، جرمنی کا۔ اور جرمنی کے لوگ تحقیق کے معاملے میں اتنے ضدی، اتنے کڑوے اور اتنے کسیلے نہیں ہوتے۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچ کے اس کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیکن وہ بیچارہ آیا تھا بہت سارے تصورات لے کر اپنے ذہن میں کہ میں پاکستان جا رہا ہوں اور اس کے بارے میں یہ یہ کہانیاں موجود ہیں۔ تو اس نے میرے دفتر میں مجھ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ سر You don't mind if I ask you direct question کہ آپ اپنی بیوی کو صبح کے وقت مارتے ہیں یا شام کو مارتے ہیں؟ تو میں نے کہا، شام کے وقت۔ میں دفتر سے تھکا ہارا جاتا ہوں تو ٹھیک طرح سے مار نہیں سکتا اس لیے میں صبح جب میں فریش ہوتا ہوں تو بانو قدسیہ کو “ کھڑکا “ جاتا ہوں۔
بے چارے کو بڑی کوفت ہوئی۔ کہنے لگا، آپ تو بڑے اچھے آدمی لگتے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہیں۔ ویسے ہماری جو محبت آپس کی ہے وہ چلی آ رہی ہے۔ چاہے آپ کتنا بھی ہمارے خلاف پروپیگنڈا کریں، اس کا اثر مجھ پر یا میری بچیوں پر یا میرے بچوں پر نہیں ہو گا۔
ایسے ہی بارہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ یہ بچے بڑے پیارے لوگ ہوتے ہیں، اور بڑے اڑیل ہوتے ہیں، بڑے ضدی ہوتے ہیں، اور بہت زمین پر پاؤں مار کر اپنی بات منوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ میں چونکہ اس عمر میں ہوں، اور میں نے بہت سے زمین پر پاؤں بجتے سنے ہیں، اور میں نے اس کے آگے سر جھکایا ہے، تو میرے دفتر میں پانچ چار نوجوان طالب علم آ گئے۔ ان مین تین لڑکیاں تھیں اور دو لڑکے تھے، اور وہ پولیٹیکل سائنس کے 6th year میں تھے۔ اسے آپ کیا کہتے ہیں، Second Part کے سٹوڈنٹ تھے۔ ان میں ایک تھی، اس کا نام کلثوم تھا۔ ایک کا یاسمین، ایک کا مجھے یاد نہیں، اسے ببلی ببلی کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ کچھ زیادہ بولی نہیں، اور دو لڑکے تھے، نوجوان بڑے اچھے تھے پیارے خوش شکل۔
کلثوم ان کی لیڈر تھی، اور اس کے چہرے کے اوپر کچھ نشان تھے۔ لڑائی جھگڑے کے دھبے۔ جب یہ لوگ میرے دفتر میں آئے تو کلثوم آتے ہی دھم سے صوفے پر بیٹھ گئی، اور کہنے لگی، انکل ہم نے دیکھا ہے، آپ کا معاشرہ، اور ہم نے دیکھا ہے آپ کا مذہب، اور سب لوگ جو ہیں بڑے چالاک اور بے ایمان، اور سخت ہوتے ہیں۔ ہم لڑائی کر کے آئے ہیں۔ میں نے کہا، کیا ہو گیا۔ اس نے کہا، میرا نام یہ ہے، اور یہ میرے ساتھ میری کلاس فیلو، ان کا نام یہ ہے، اور ان کی نام یہ ہے۔ تو تعارف کرانے کے بعد اس نے کہا، آپ بڑے مامے بنتے ہیں اخلاقیات کے اور دین کے۔ میں نے کہا، ہو کیا گیا؟ کہنے لگی، ہم سپہنوں ( خواتین پولیس اہلکار) سے لڑ کے آئے ہیں۔ انہوں نے جلوس وغیرہ نکالا ہو گا۔ آگے سپہنیں ہوتی ہیں۔ بے چاری اچھی ہوتی ہیں۔ ان کو حکم جو ہوتا ہے، ان کو روکو تو ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ ہمارے لاہور میں ایک جگہ ہے جہاں یہ T.V وغیرہ بہت بکتے ہیں، ہال روڈ۔ اس کے اوپر جھگڑا تھا۔ میں نے کہا، جھگڑا کس بات پر ہو گیا؟ تو اس نے کہا، جی یہ کیا قانون بنایا ہے آپ نے، لوگوں سے خوامخواہ کہا کہ ہمارے حقوق آدھے ہیں، مردوں کے پورے۔ کہنے لگی یہ کیا بات ہوئی کہ عورت قتل ہو جائے تو آدھی دیت اور مرد قتل ہو جائے تو زیادہ۔ میں نے کہا، تم نے اس پر جلوس کیوں نکالا، یہ تو مجھے جلوس نکالنا چاہیے تھا۔ میں نکالوں گا کل سے جلوس، یہ تو کمال کی بات ہے۔ وہ غصے میں تھی، کہنے لگی۔ آپ کیوں جلوس نکالیں گے۔ میں نے کہا، میں اس لیے جلوس نکالوں گا کہ یہ بڑی زیادتی کی بات ہے کہ میں مر جاؤں گا تو بانو قدسیہ کو ایک لاکھ روپیہ مل جائے گا۔ وہ مرے تو مجھے پچاس ہزار ملیں گے۔ یہ تو الٹا ہو گیا کام۔ کہنے لگی، ہاں ہم تو پھر جلوس نکال کے آئے ہیں۔ میں نے تو یہ الٹا جلوس نکال دیا تمہارا۔ میں تو یہ چاہوں گا کہ اگر میری بیوی خدانخواستہ قتل ہو جائے تو مجھے چار پانچ لاکھ ملیں۔ میں مارا جاؤں تو میری بیوی کو 25-26 روپے مل جائیں۔ تا کہ اس کو کوئی سزا ملے۔ اس کی ساتھی کہنے لگی، دیکھو یاسمین میں نے تم سے کہا تھا نا کہ انکل کے پاس نہیں جانا۔ یہ ہمیشہ ایسی الٹ بات کرتے ہیں۔ میں تو اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تو کہنے لگی، یہ ہم نے دیکھا ہوا ہے۔ آپ کا یہ سب فلسفہ، میں آپ کی پرواہ نہیں کرتی۔ میں اپنی زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔ ہم سارے اپنی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پرانے دقیانوسی دھات، پتھر کے زمانے کی چیزیں، اس زمانے کی آپ نے اخلاقیات میں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ سب میں نے کنڈم کر دی ہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ کنڈم کرتی ہیں تو کریں، تمہیں پورا حق پہنچتا ہے۔ وہ کہنے لگی، میں آپ کو بتاؤں ایک بات، اور آپ کان کھول کے سن لیں کہ میں نے دوزخ میں جانا ہے۔ میں نے بالکل نہیں جانا بہشت وغیرہ میں، مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ غصے میں تھی بیچاری۔ بڑی پیاری سی تھی، اور اچھی طاقت تھی اس میں، بہت خوبصورت بازو چڑھائے ہوئے تھے۔ اس کے ارادے مضبوط تھے۔ ہنسنے والی لڑکی تھی۔ میں نے تو دوزخ میں جانا ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں آپ کی۔۔۔۔ میں نے کہا، نہیں نہیں، تو نے دوزخ میں جا کر کیا کرنا ہے۔ دفع کرو۔ کہنے لگی نہیں میں نے تہیہ کر لیا ہوا ہے میں نے دوزخ میں جانا ہے۔ میں نے کوئی قانون نہیں ماننے۔ میں نے نہ دین کے، نہ اسلام کے۔ میں نے اپنی مرضی سے رہنا ہے۔ میں نے کہا، بیٹی دوزخ میں جانا بڑا مشکل کام ہے۔ تو کیسے جائے گی۔ دوزخ میں جانے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس نے کہا، جی کیسی محنت کیا؟ وہ جی میرا، اور اس کا جھگڑا ہو گیا۔ بڑا زبردست۔ میں نے کہا، تو نہیں جا سکتی۔ کہنے لگی میں جا کے دکھاؤں گی۔ اتنا جھگڑا ہو گیا کہ میں نے کہا کہ تو دوزخ میں تو ۔۔۔۔۔؟ “تو کیہہ تیرا پیؤ نہیں جا سکدا“۔ میں نے کہا بڑا لمبا کام ہوتا ہے۔ اس میں کئی مصیبتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ پھر جا کے کہیں بندہ ہوتا ہے دوزخی۔ پہلے جا کے تو شرک کر۔ پھر اللہ کی زمین پر فساد پھیلا، پھر جائے گی۔ کسی کی چیز چرا لے گی، پنسل کالج سے لے آئے گی، یا کسی کا دوپٹہ کھسکا لے گی تو اس سے تو نہیں جائے گی دوزخ میں۔ کہنے لگی نہیں بس میں نے تہیہ کر لیا ہوا ہے۔ میں نے کہا، نہ نہ بچے، غصہ تھوک دے، کوئی بات نہیں۔ ہم ایسے کریں گے کہ تجھ پر بوجھ نہیں پڑنے دیں گے، تو تم کو آسانی سے چلنے دیں گے۔ مجھے یہ بتاؤ جس زمانے میں ہم ایم اے میں پڑھتے تھے، اس وقت پرچے میں پانچ سوال ہوتے تھے، بیس بیس نمبر کے، اور وہ پانچ کرنے ہوتے تھے، کہا جاتا تھا کہ آؤٹ آف Eight کوئی پانچ سوال کریں۔ اب سمسٹر سسٹم چل گیا ہے، جس کی مجھے کچھ سمجھ نہیں ہے۔ کہنے لگی، سنیں، سمسٹر سسٹم چلا تھا، وہ پھر کینسل ہو گیا۔ اب پھر پیپر ہی ہوتا ہے۔ اور پانچ سوال ہی کرنے ہوتے ہیں، اور پانچوں سوال بیس بیس نمبر کے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا، اور تیرا بھلا ہو جائے اسلام میں بھی پانچ ہی سوال ہوتے ہیں۔ وہ بھی بیس بیس نمبر کے ہوتے ہیں۔ کہنے لگی ہیں، یہ کیا؟ میں نے کہا۔ دیکھ اب تو ایسے کریں گے۔ تو ہے غصے والی بیٹی، تو تیرا انتظام ایک اور طرح سے کرنا چاہیے کہ ہم ایسے کریں گے کہ تم کو لڑکیوں کو بہت شوق ہوتا ہے ڈائٹنگ کرنے کا، اور اپنی Figure ٹھیک رکھنے کا، ٹھیک ہے نا، ہم ایسے کریں گے تجھے سال میں ایک مہینہ ڈائٹنگ کرائیں گے ٹھیک ہے نا۔ صبح کھلا دی روٹی سارا دن پانی بھی میں نے پینے نہیں دینا اور کھانا بھی نہیں کھانے دینا۔ کہنے لگی Oh yhou are talking of Ramzan۔
میں نے کہا، اب تم جو مرضی نام دے لو اس کا۔ کہنے لگی، انکل وہ تو جو رمضان ہے نا وہ تو روزے میں رکھتی ہوں سارے۔ کہنے لگی گھر میں تو کوئی بھی نہیں رکھتا لیکن میں رکھتی ہوں سحری کھا کے۔ مالی بابا اور اس کی فیملی جاگی ہوئی ہوتی ہے، میں ان کے کوارٹر میں چلی جاتی ہوں۔ بڑے مزے کی روٹیاں پکائی ہوتی ہیں ماسی نے تو میں سحری کھا کے آ جاتی ہوں، تو میرا روزہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا تیرے بیس میں سے بیس نمبر آ گئے، ٹھیک ہے نا۔ پھر میں نے کہا تم جیسی لڑکیوں کو بڑا شوق ہوتا ہے سیر و تفریح ک، بہت مرتی ہیں، ایسے تصویریں دیکھتی ہیں، کیلنڈر دیکھتی ہیں۔ کہتی ہیں ہائے ہائے ملیشیا جائیں گے۔ یہ امریکا کا ساحل ہے، یہ دیکھو یہ ڈزنی لینڈ ہے، اس جگہ جانا چاہیے، شوق ہوتا ہے۔ میں ایسا بندوبست کروں گا۔ میں ہوں تو غریب آدمی لیکن میں تمہیں پاسپورٹ بنوا کے دوں گا اور میں تمہیں ملک سے باہر بھیجوں گا، اور تمہیں بڑا شاندار نظارہ ملے گا، جو تمہیں دنیا میں کہیں اور نہیں نظر آئے گا۔ کہنے لگی، کیسی جگہ۔ میں نے کہا، ایک ایسی جگہ جہاں آدمیوں کا بڑا ہجوم ہو گا۔ اتنا بڑا ہجوم دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ وہ کہنے لگی، آپ حج کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، ہاں۔ کہنے لگی، انکل وہ تو مجھے شوق ہے دیکھنے کا، کیونکہ دینا میں سب سے بڑا ہجوم۔ وہ کہنے لگی، آپ مجھے نہ دیں پاسپورٹ، اور نہ دیں ٹکٹ۔ وہ تو میں انشاء اللہ خود جاؤں گی۔ وہ میرا پکا تہیہ ہے وہ تو میں نے طے کیا ہوا ہے۔ لیکن میں اپ کے اسلام وغیرہ کو نہیں مانتی۔ غصے میں تھی نا۔ تو بار بار ایسے کہتی تھی۔ میں نے کہا چلو بیس نمبر تیرے یہ ہو گئے، چالیس ہو گئے۔ تو میں نے کہا کہ تم نیو کیمپس میں کیسے آتی ہو۔ کہنے لگی نیو کیمپس میں ابو کار میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کئی دفعہ نہیں آتے تو میں خود کار لے کر آ جاتی ہوں۔ اگر دونوں میں سے کوئی صورتِ حال نہ ہو تو ڈیڈی مجھے دس روپے دیتے ہیں۔ میں 83-1984 کی بات کر رہا ہوں۔ تو اس زمانے میں ڈیڑھ روپیہ آنے جانے میں لگتا تھا۔ ہماری بس ہوتی ہے۔ میں نے کہا اگر میں تجھے کہوں یہ جو تجھے دس روپے ملتے ہیں، ان میں سے تھوڑے سے پیسے اٹھنی اس سے بھی کم یہ ایک طرف رکھ کے Put by کر کے ایک طرف رکھ دے تو دے دیا کر کسی غریب کو۔ تو کہنے لگی۔ آپ مجھے پھنسا رہے ہیں۔ میں نے کہا، میں آپ کو کہاں پھنسا رہا ہوں، تو میرے پاس آئی ہے، اتنی محبت کے ساتھ، تیرا بابا اتنی محبت سے تم سے بات کرتا ہے، تو پھنسانے کی بات کرتی ہے۔ کہنے لگی، آپ مجھے زکٰوۃ میں پھسانا چاہ رہے ہیں۔ جسے انکل آپ ڈھائی فیصد کہتے ہو۔ یہ تو غلط ہے، یہ تو فلاں نے بنائی ہے ڈھائی فیصد۔ اللہ کا حکم اور ہے۔ میں نے کہا، بھئی وہ کیا ہے۔ کہنے لگی اللہ تو کہتا ہے جو کچھ تمہارے خرچ سے باقی بچے وہ سارے کا سارا دے دو۔ یہ تو میں نے پہلی بار سنا۔ میں نے کہا، اوہ تیرا بھلا ہو جائے تو نے تو مجھے ڈرا دیا۔ ڈھائی فیصد پر میں یقین نہیں رکھتی۔ یہ کیلکولیشن غلط ہے۔ کہیں نظر نہیں آتی۔ میں نے کہا، یہ تو تیری اور کمال کی بات ہو گئی۔ تیرے تو ساٹھ نمبر ہو گئے۔ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ تو اسی طرح میں نے کہا، اب اگلا کام آتا ہے جہاد کا۔ وہ مرد بھی جاتے ہیں عورتیں بھی جاتی ہیں، لیکن ذات کے خلاف لڑنا بھی ایک جہاد ہے۔ خرابی کے خلاف۔ تو وہ تو سامنے ہے۔ کہنے لگی، دیکھو میں کہاں کہاں ماری ماری پھر رہی ہوں۔ تو میں نے کہا 80 نمبر ہو گئے۔ میں نے کہا بے وقوف لڑکی کلثوم بی بی تم نے آج تک اسّی نمبر لیے ہیں کسی پرچے میں۔ کہنے لگی اسّی تو انکل بہت ہوتے ہیں۔ میں تو یہی رو رہا تھا کہ تو دوزخ میں کیسے جائے گی۔ تو تو مصیبت یہ ڈالے بیٹھی ہے۔ تیرا ارادہ دوزخ میں جانے کا ہے۔ کہنے لگی، وہ میں غصے میں کہہ رہی تھی۔ اس کا جھگڑا دین کے ساتھ تو نہیں تھا بے چاری کا۔ آدمی دکھی ہوتا ہے۔ اپنی ماما جی سے اپنی اماں سے اپنے ابو سے لڑتا ہے تو پھر اس کو غصہ آتا ہے۔ پھر جن باتوں کی وہ تلقین کرتے ہیں، جس کے اوپر قائم رہنے کے لیے۔۔۔۔؟ اس کو وہ ہٹ کرتا ہے۔ میں نے کہا، کلثوم بچے اب ایسے کریں گے کہ پھر تمہیں ایک لفظ سکھائیں گے۔ وہ ہے تو مشکل عربی کا لیکن تو ذہین لڑکی ہے۔ میرا خیال ہے تو سیکھ جائے گی اگر مشق کرے تو۔ کہنے لگی وہ کیا ہے۔ میں نے کہا، وہ ہے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کہنے لگی، لو کیا بات کی۔ یہ تو میں صبح منہ دھوتے وقت، صبح سویرے جب پانی ڈالتی ہوں تو یہی پڑھتی ہوں۔ تو میں نے کہا، اب بتاؤ بچے تم نے تو پھنسا دیا، ہم دوزخ کیسے جائیں گے۔ یہ تو تم نے میرے بھی راہ بند کر دی۔ اب میں بھی کلثوم بی بی کا بابا دادا بن کے بیٹھ گیا۔ میں بھی تیرے ساتھ چلوں گا۔ مجھے بھی فائدہ ہو جائے گا۔ باقی رہ گئی نماز کی بات۔ تو میں نے کہا، عید کو لڑکیاں بڑے شوق سے گھر میں مصلٰی ڈالے سروں کے اوپر دوپٹے لپیٹ کر کھڑی ہو جاتی ہیں نا تو تین نمبر تو اس میں بھی آ جائیں گے۔ 83-84 نمبر ہو جائیں گے۔ بیس تیرے کلمے کے ہوئے پڑے ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں خیر نمازیں میں رمضان شریف میں تو ساری پڑھتی ہوں پوری، اور اس کے علاوہ بھی جب بھی موقع لگ جائے، لیکن ریگولر نہیں ہوں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں، تیرے نمبر تو 94-95 سے زیادہ بن رہے ہیں، تو اب تیرا کیا کریں۔ تو اس کی سہیلی یاسمین کہنے لگی، تم اٹھو، میں نے تم سے کہا تھا نا کہ انکل اشفاق کے پاس نہیں جانا یہ بہت چالاک ہیں۔ یہ ہمیں دھوکے سے پھنسا رہے ہیں۔ تو ان کے جو ساتھی لڑکے تھے وہ بڑے غور سے یہ باتیں سنتے رہے اور حیران ہوتے رہے۔ انہوں نے بھی میرے ساتھ تھوڑی سے باتیں کیں کہ سر ہم بھی کچھ تھوڑے سے ایسے ہی تھے۔ گستاخ کچھ الٹے سیدھے الفاظ ہمارے منہ میں بھی، اور ذہن میں بھی آ جاتے ہیں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں۔ ذہن میں آ جاتے ہیں تو بے اختیاری کی بات ہے۔ ذہن کے اوپر کنٹرول نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں، چلتے رہیں، لیکن کہنے لگے، رخ ہمارا البتہ ادھر کا ہو گیا ہے جس طرف کی بات آپ کر رہے ہیں۔ تو کلثوم بی بی اپنی آستین چڑھائے ہوئے غصے میں لٹیں کھلی ہوئی، لیکن وہ ذرا تھوڑی سی ٹھنڈی ہوئی، لیکن اس کا غصہ پورے کا پورا کم نہیں ہوا۔ میں محسوس کر رہا تھا، پولیس نے انہیں تنگ کیا تھا۔ بات بھی اس کی سن لیں۔ جب آپ بات کسی کی سنیں۔ سننے کے لیے کوئی بھی ہو۔ آپ کے گھر میں جھاڑو دینے والی ہے۔ ماسی کھانا پکانے والی ہے۔ اس کی بات ہے۔ کہنے سننے کے لیے آپ کے پاس بھی وقت ہونا چاہیے۔ کلثوم کی اور یاسمین کی بات، اور ان کے ساتھیوں کی بات نہیں سنی گئی تھی؟ اس لیے ان کو غصہ تھا۔ اور غصہ سارا وہ ڈائریکٹ گیا تھا اس دین کی طرف اور اتھارٹی کی طرف، اور بڑوں کی طرف۔ اب اس میں ساری جہالت جو ہے وہ بڑوں کی ہوتی ہے۔ بڑوں کو سنبھالنا نہیں آتا۔ وہ اپنی اتھارٹی میں لگ جاتے ہیں، اور ہمارے ملک میں اتھارٹی کا رواج ذرا ضرورت سے زیادہ ہے۔ ہاں اکیلے بڑوں کی اتھارٹی نہیں۔ آپ بھی جب سوچیں گی، اور آپ جب گھر جا کے غور کریں گی تو آپ دیکھیں گی، آپ اپنی اتھارٹی کو ان معصوموں پر، ان لوگوں پر ضرور استعمال کر جاتی ہیں، جو کہ اپ سے نیچے ہیں۔ لیکن الحمد للہ آپ نے اس بات کو تسلیم کیا۔ لڑکے تو مانتے نہیں، لیکن ہم کیا کرتے ہیں ہمارے ہاں لوگ جو ہیں وہ بھی اپنی اتھارٹی کو بڑی شدت سے، اور بڑی بری طرح سے استعمال کرتے ہیں۔
میں شاید پیچھے بھی بیان کر چکا ہوں۔ مجھے اس بات کا بڑا غصہ تھا۔ یہاں ایک جگہ ہے اچھرہ، اس میں خواتین بہت جاتی ہیں۔ کچھ کپڑے وپڑے لینے کے لیے۔ میں بھی جاتا ہوں، بیگ پکڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ۔ انہوں نے کچھ لینا ہوتا ہے، کچھ سلی سلائی چیزیں۔ تو وہاں پر ایک خاتون کسی سکول کی ٹیچر تھی، اچھی پیاری معزز، سیاہ برقع اس نے اوڑھا ہوا، ہاتھ میں تھیلا پکڑا ہوا۔ ہم جس دکان سے کچھ سودا لے رہے تھے تو اس نے کچھ پوچھا، سرخ رنگ کا کوئی کپڑا، پتا نہیں کیا کہا، لیکن دکاندار نے سنا ہی نہیں۔ پھر اس نے ذرا وضاحت سے کہا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا، تیرے کام کی یہاں چیز نہیں ہے اس دکان پر آگے جا کے پتا کر۔ تو میں غصے میں بھی آیا اور مجھے رونا بھی آ گیا۔ میں نے کہا یہ تو آپ کو حق نہیں پہنچتا۔ اس نے کہا، اشفاق صاحب یہ ایسے ہی ہے کوئی کم پیسوں والی۔ تو یہ اتھارٹی دیکھیں نا، حالانکہ وہ کوئی افسر نہیں ہے۔ کسی بڑی جگہ پر نہیں ہے، لیکن وہ اپنی اتھارٹی بے جا طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اور اگر آپ اپنے ارد گرد دیکھیں گی تو بڑا ظلم چل رہا ہے۔ بہت زیادہ تکبر شامل ہو گیا ہے۔ ہر بندے کے ذہن میں۔ اور تکبر میں اضافہ کرنے کے لیے وہ بہت ساری چیزیں اکٹھی کرتا رہتا ہے، تا کہ دوسروں کو ڈرانے کے لیے تکبر نمایاں کرے۔ یہ بات، خوشی کا اظہار اس لیے کر رہا ہوں کہ تھوڑے دن ہوئے میں اپنے گھر کے لان میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بڑی خوبصورت سی، پیاری، لمبی عورت ایک خوبصورت سے بچہ ٹوپ اس نے پہنا ہوا، اون کے موزے جرابیں، وہ آ گئی۔ آ کے وہ عورت میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ہنسنے لگی اور کہنے لگی اپ نے مجھے پہچانا؟ میں نے کہا، نہیں۔ کہنے لگی انکل میں کلثوم ہوں۔ میں نے کہا، اور تیرا بھلا ہو جائے بیٹھ۔ میں نے کہا، تو اتنی دیر کہاں رہی۔ کہنے لگی میں سیدھی شکاگو سے آ رہی ہوں، اور میں نے آپ کا پتا ڈھونڈ کے سب سے پہلے آپ کے ہاں حاضری دی، میرا خاوند وہاں ڈاکٹر ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ میں آپ سے اپنی پرانی محبت، اپنی برخوداری، اپنی بیٹی ہونے کا ایک چھوٹا سا حق مانگنے آئی ہوں۔ سیدھی آپ کے پاس۔ میں ڈر گیا۔ میں نے کہا، فرمائیں۔ میں تجھ سے بڑا ڈرتا ہوں، اور اتنے سال میرے ڈر میں ہی گزرے ہیں۔ کہنے لگی، یہ میرا بیٹا ہے۔ بہت پیارا ہے، اور بہت صحت مند ہے، اور ہم اس کو صحت اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر پال رہے ہیں۔ یہ روتا بہت ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ کسی طرح اس کا رونا کم ہو، کئی دوائیاں دی ہیں۔ میرے خاوند ڈاکٹر ہیں، لیکن اس کا رونا کم نہیں ہوا تو میں اس کو آپ کے پاس لائی ہوں کہ اس کو دم کر دیں۔ میں نے کہا، اوہ تیرا بھلا ہو جائے۔ میں کوئی نیک آدمی نہیں ہوں۔ میں کیسے دم کروں۔ مجھے دم کرنا نہیں آتا۔ کہنے لگی آپ “ شو “ کر دیں۔ میں نے کہا، نہیں بچے یہ تو ۔۔۔۔۔؟ اب میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مجھے واقعی نہیں آتا دم کرنا کہ کیا پڑھتے ہیں۔ کیسے کرتے ہیں۔ کہنے لگی آپ میرے ساتھ ہمیشہ ۔۔۔۔۔؟ اب پھر وہی غصہ پرانا اس کا کہ میں کتنی دور سے چل کر آئی ہوں، اور کتنی آرزو لے کر آئی ہوں۔ کہنے لگی۔ اب آپ پھر تکبر کے میز کے اوپر چڑھ گئے ہیں۔ اپ کریں اس کو دم۔ میں نے کہا، پیارے بچے ! اگر مجھے کچھ آتا تو میں ضرور کرتا۔ اس نے کہا، آپ جھوٹے ہی کر دیں۔ “ شو شو “ کر دیں۔ اب میں نے کہا، جھوٹی پھوک کیسے ماروں گا۔ پھر میں نے کہا، چل ہمارے مولوی صاحب ہیں۔ مسجد میں، بہت نیک آدمی ہیں۔ میں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں۔ ان سے دم کرواتے ہیں۔ تو کہنے لگی، نہیں آپ سے کرواؤں گی۔ آپ ہی کریں۔ دیکھیں انسانی کوتاہی کیا ہوتی ہے۔ میں بھلا اس کا دل رکھنے کو کر دیتا۔ ایسے ہی “ شو“، لیکن میں رکا رہا۔ میں نے کہا، مجھے نہیں آتا۔ یہ اللہ نے میرے اندر صلاحیت نہیں رکھی ہے۔ میری صلاحیت ہے کہ میں کچھ لکھ لیتا ہوں ڈرامے، لیکن یہ کام نہیں جانتا تو اٹھ کے کھڑی ہو گئی، جس طرح سے میرے دفتر میں اپنا پاؤں مار کے گئی تھی، زور سے، اتنے ہی زور سے اس نے ویسے ہی پاؤں مارا۔ کہنے لگی نانا۔ (بچے کے حوالے سے مجھے نانا کہی رہی تھا) “ بابا یو آر ہولی مین “ یہ اس کا آخری فقرہ تھا۔ اور غصے میں کار میں بیٹھ کے چلی گئی۔ اب بتاؤ میں تم کو کس کھاتے میں ڈالوں۔ تم جو آ گئی ہو ساریاں (ہال میں بیٹھی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے) مجھے ڈر ہے کہ تم بھی اندر سے لڑائی کرو گی۔ کسی نہ کسی دن میرے ساتھ، اور پیاری تم بہت ہوتی ہو۔ یہ آپ اپنے بڑوں سے اپنے بھائیوں سے اپنے ابو سے پوچھیں۔ باوجود اس کے کہ اختلاف ہوتے ہیں۔ اب ہمارے درمیان کوشش ہو رہی ہے کہ ہمارے درمیان ہماری محبت کے درمیان کچھ ایسی دیواریں کھڑی کر دی جائیں، تاکہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔ تو پیارے بچو، میں اب تمہارے سامنے شکایت کرنے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ آپ کو جب بھی ووٹ دینا پڑے، آپ میرے حق میں دینا۔ کلثوم کے حق میں نہ دینا۔ وہ مجھے بہت جھڑکیاں دے کر گئی ہے۔
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔