الشفاء
لائبریرین
غیبت (گزشتہ سے پیوستہ)
غیبت صرف زبان ہی سے نہیں ہوتی :-
غیبت صرف زبانی ذکر ہی کو نہیں کہتے بلکہ ہر وہ عمل غیبت میں داخل ہے جس سے تمہارے بھائی کا عیب کسی دوسرے پر ظاہر ہو جائے، خواہ اشارے سے، کنائے سے، کسی واضح یا غیر واضح حرکت سے۔ غیبت کے سلسلے میں تصریح ، ابہام، قول، فعل، رمز و اشارہ سب حرام اور ناجائز ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک عورت آئی، جب وہ واپس چلی گئی تو میں نے یہ بتلانے کے لیے کہ وہ پستہ قد تھی، ہاتھ سے اشارہ کیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ! تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ (ابن ابی الدنیا) یہی حکم نقل اتارنے کا ہے۔ مثلاً کسی لنگڑے کی چال کی نقل کی جائے بلکہ نقل اتارنا غیبت سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ نقل سے اس شخص کی مکمل تصویر ذہن میں آ جاتی ہے۔
غیبت لکھ کر بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ کتابت بھی زبان کی طرح اظہار کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ کوئی مصنف اپنی کتاب میں کسی متعین شخص کا نام لے کر ذکر کرے اور اس کے عیوب بتلائے تو یہ بھی غیبت ہے الّا یہ کہ کوئی عذر ہو، جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل مذکور ہو گی۔ البتہ یہ کہنا کہ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں، بعض لوگ ایسا کرتے ہیں، غیبت نہیں ، کیونکہ غیبت نام ہے کسی متعین شخص سے تعرّض کرنے کا، خواہ وہ مردہ ہو یا زندہ۔ نبئ رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کسی شخص کی کوئی بات ناگوار گزرتی تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں شخص ایسا کرتا ہے، بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔(ابو داؤد- عائشہ)
بعض اوقات غیبت میں کسی شخص کی پہلے تعریف کی جاتی ہے مثلاً یہ کہ فلاں شخص کتنا اچھا ہے، کس قدر عبادت کرتا ہے لیکن ایک بد خصلت میں مبتلا ہے، اور وہی کیا ہم سب ہی اس خصلت میں مبتلا ہیں اور وہ یہ کہ اس میں صبر اور قناعت کا عنصر بہت کم ہے۔ دیکھیے، بظاہر اس میں اپنی مذمت موجود ہے لیکن مقصد ہر گز اپنے نفس کی مذمت نہیں ہے بلکہ دوسرے کا عیب ظاہر کرنا ہے۔ کبھی اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص بیچارہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہے، اللہ ہمیں اور اسے توبہ کرنے کی توفیق بخشے۔ بظاہر یہ دعا ہے لیکن اللہ باطنی خبث پر مطلع ہے، وہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا بھرا ہوا ہے۔ لیکن وہ اپنی جہالت کے باعث یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اس دعا سے ثواب کی بجائے عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں۔
غیبت سننا اور اس پر تعجب کا اظہار کرنا بھی غیبت ہے، کیونکہ سننے سے اور اس پر تعجب ظاہر کرنے سے غیبت کرنے والے کو غیبت پر شہ ملتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی برائی سن کر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ بھائی تم نے آج عجیب بات بتلائی ہے، ہم تو اسے ایسا نہیں سمجھتے تھے، ہم اسے آج تک اچھا ہی سمجھتے رہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس عیب سے محفوظ رکھے۔ یہ تبصرہ گویا غیبت کرنے والے کی تصدیق ہے اور غیبت کی تصدیق بھی غیبت ہی ہے، بلکہ غیبت سن کر چپ رہنے والا بھی غیبت کرنے والے کا شریک سمجھا جاتا ہے۔ حدیث ہے : نھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم عین الغیبۃ وعن الاستماع الی الغیبۃ۔ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کرنے اور غیبت سننے سے منع فرمایا ہے۔ (طبرانی، ابن عمر)
ہاں، اگر سننے والا زبان سے منع کر دے ، یا زبان سے منع کرنے کا حوصلہ یا قوت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے یا اس مجلس سے اٹھ جائے یا غیبت کرنے والے کو دوسری باتوں میں لگا لے، ان صورتوں میں سننے والے پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر زبان سے منع کیا اور دل میں سننے کی خواہش رہی تو یہ نفاق ہے، اعتبار دل کا ہے۔ گناہ سے اسی وقت محفوظ رہے گا جب دل سے برا سمجھے گا، بلکہ صراحت کے ساتھ منع کرنا اور مذکور کا دفاع کرنا ضروری ہے، ارشاد نبوی ہے:من اذلّ عندہ مؤمن فلم ینصرہ وھو یقدر علی ان ینصرہ اذلّہ اﷲ یوم القیامۃ علی رؤس الخلائق۔ یعنی جس شخص کےسامنے کسی مؤمن کی تذلیل کی جائے اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے تو قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ذلیل کیا جائے گا۔ (طبرانی-سہل بن حنیف)
ایک حدیث میں ہے : من ذَبَّ عن عِرضِ أخيه بالغَيْبةِ ؛ كان حقًّا على اللهِ أن يُعتِقَه من النَّارِ۔ یعنی جو شخص پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرے اللہ عزوجل پر اسے دوزخ سے آزاد کرنا واجب ہے ۔ (احمد، طبرانی-اسماء بنت یزید)
(آگے غیبت کے اسباب ، ان شاءاللہ عزوجل۔۔۔)
غیبت صرف زبان ہی سے نہیں ہوتی :-
غیبت صرف زبانی ذکر ہی کو نہیں کہتے بلکہ ہر وہ عمل غیبت میں داخل ہے جس سے تمہارے بھائی کا عیب کسی دوسرے پر ظاہر ہو جائے، خواہ اشارے سے، کنائے سے، کسی واضح یا غیر واضح حرکت سے۔ غیبت کے سلسلے میں تصریح ، ابہام، قول، فعل، رمز و اشارہ سب حرام اور ناجائز ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک عورت آئی، جب وہ واپس چلی گئی تو میں نے یہ بتلانے کے لیے کہ وہ پستہ قد تھی، ہاتھ سے اشارہ کیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ! تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ (ابن ابی الدنیا) یہی حکم نقل اتارنے کا ہے۔ مثلاً کسی لنگڑے کی چال کی نقل کی جائے بلکہ نقل اتارنا غیبت سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ نقل سے اس شخص کی مکمل تصویر ذہن میں آ جاتی ہے۔
غیبت لکھ کر بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ کتابت بھی زبان کی طرح اظہار کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ کوئی مصنف اپنی کتاب میں کسی متعین شخص کا نام لے کر ذکر کرے اور اس کے عیوب بتلائے تو یہ بھی غیبت ہے الّا یہ کہ کوئی عذر ہو، جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل مذکور ہو گی۔ البتہ یہ کہنا کہ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں، بعض لوگ ایسا کرتے ہیں، غیبت نہیں ، کیونکہ غیبت نام ہے کسی متعین شخص سے تعرّض کرنے کا، خواہ وہ مردہ ہو یا زندہ۔ نبئ رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کسی شخص کی کوئی بات ناگوار گزرتی تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں شخص ایسا کرتا ہے، بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔(ابو داؤد- عائشہ)
بعض اوقات غیبت میں کسی شخص کی پہلے تعریف کی جاتی ہے مثلاً یہ کہ فلاں شخص کتنا اچھا ہے، کس قدر عبادت کرتا ہے لیکن ایک بد خصلت میں مبتلا ہے، اور وہی کیا ہم سب ہی اس خصلت میں مبتلا ہیں اور وہ یہ کہ اس میں صبر اور قناعت کا عنصر بہت کم ہے۔ دیکھیے، بظاہر اس میں اپنی مذمت موجود ہے لیکن مقصد ہر گز اپنے نفس کی مذمت نہیں ہے بلکہ دوسرے کا عیب ظاہر کرنا ہے۔ کبھی اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص بیچارہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہے، اللہ ہمیں اور اسے توبہ کرنے کی توفیق بخشے۔ بظاہر یہ دعا ہے لیکن اللہ باطنی خبث پر مطلع ہے، وہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا بھرا ہوا ہے۔ لیکن وہ اپنی جہالت کے باعث یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اس دعا سے ثواب کی بجائے عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں۔
غیبت سننا اور اس پر تعجب کا اظہار کرنا بھی غیبت ہے، کیونکہ سننے سے اور اس پر تعجب ظاہر کرنے سے غیبت کرنے والے کو غیبت پر شہ ملتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی برائی سن کر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ بھائی تم نے آج عجیب بات بتلائی ہے، ہم تو اسے ایسا نہیں سمجھتے تھے، ہم اسے آج تک اچھا ہی سمجھتے رہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس عیب سے محفوظ رکھے۔ یہ تبصرہ گویا غیبت کرنے والے کی تصدیق ہے اور غیبت کی تصدیق بھی غیبت ہی ہے، بلکہ غیبت سن کر چپ رہنے والا بھی غیبت کرنے والے کا شریک سمجھا جاتا ہے۔ حدیث ہے : نھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم عین الغیبۃ وعن الاستماع الی الغیبۃ۔ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کرنے اور غیبت سننے سے منع فرمایا ہے۔ (طبرانی، ابن عمر)
ہاں، اگر سننے والا زبان سے منع کر دے ، یا زبان سے منع کرنے کا حوصلہ یا قوت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے یا اس مجلس سے اٹھ جائے یا غیبت کرنے والے کو دوسری باتوں میں لگا لے، ان صورتوں میں سننے والے پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر زبان سے منع کیا اور دل میں سننے کی خواہش رہی تو یہ نفاق ہے، اعتبار دل کا ہے۔ گناہ سے اسی وقت محفوظ رہے گا جب دل سے برا سمجھے گا، بلکہ صراحت کے ساتھ منع کرنا اور مذکور کا دفاع کرنا ضروری ہے، ارشاد نبوی ہے:من اذلّ عندہ مؤمن فلم ینصرہ وھو یقدر علی ان ینصرہ اذلّہ اﷲ یوم القیامۃ علی رؤس الخلائق۔ یعنی جس شخص کےسامنے کسی مؤمن کی تذلیل کی جائے اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے تو قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ذلیل کیا جائے گا۔ (طبرانی-سہل بن حنیف)
ایک حدیث میں ہے : من ذَبَّ عن عِرضِ أخيه بالغَيْبةِ ؛ كان حقًّا على اللهِ أن يُعتِقَه من النَّارِ۔ یعنی جو شخص پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرے اللہ عزوجل پر اسے دوزخ سے آزاد کرنا واجب ہے ۔ (احمد، طبرانی-اسماء بنت یزید)
(آگے غیبت کے اسباب ، ان شاءاللہ عزوجل۔۔۔)