غیبت صرف زبان ہی سے نہیں ہوتی :-
غیبت صرف زبانی ذکر ہی کو نہیں کہتے بلکہ ہر وہ عمل غیبت میں داخل ہے جس سے تمہارے بھائی کا عیب کسی دوسرے پر ظاہر ہو جائے، خواہ اشارے سے، کنائے سے، کسی واضح یا غیر واضح حرکت سے۔ غیبت کے سلسلے میں تصریح ، ابہام، قول، فعل، رمز و اشارہ سب حرام اور ناجائز ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک عورت آئی، جب وہ واپس چلی گئی تو میں نے یہ بتلانے کے لیے کہ وہ پستہ قد تھی، ہاتھ سے اشارہ کیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ! تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ (ابن ابی الدنیا) یہی حکم نقل اتارنے کا ہے۔ مثلاً کسی لنگڑے کی چال کی نقل کی جائے بلکہ نقل اتارنا غیبت سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ نقل سے اس شخص کی مکمل تصویر ذہن میں آ جاتی ہے۔
غیبت لکھ کر بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ کتابت بھی زبان کی طرح اظہار کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ کوئی مصنف اپنی کتاب میں کسی متعین شخص کا نام لے کر ذکر کرے اور اس کے عیوب بتلائے تو یہ بھی غیبت ہے الّا یہ کہ کوئی عذر ہو، جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل مذکور ہو گی۔ البتہ یہ کہنا کہ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں، بعض لوگ ایسا کرتے ہیں، غیبت نہیں ، کیونکہ غیبت نام ہے کسی متعین شخص سے تعرّض کرنے کا، خواہ وہ مردہ ہو یا زندہ۔ نبئ رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کسی شخص کی کوئی بات ناگوار گزرتی تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں شخص ایسا کرتا ہے، بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔(ابو داؤد- عائشہ)
بعض اوقات غیبت میں کسی شخص کی پہلے تعریف کی جاتی ہے مثلاً یہ کہ فلاں شخص کتنا اچھا ہے، کس قدر عبادت کرتا ہے لیکن ایک بد خصلت میں مبتلا ہے، اور وہی کیا ہم سب ہی اس خصلت میں مبتلا ہیں اور وہ یہ کہ اس میں صبر اور قناعت کا عنصر بہت کم ہے۔ دیکھیے، بظاہر اس میں اپنی مذمت موجود ہے لیکن مقصد ہر گز اپنے نفس کی مذمت نہیں ہے بلکہ دوسرے کا عیب ظاہر کرنا ہے۔ کبھی اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص بیچارہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہے، اللہ ہمیں اور اسے توبہ کرنے کی توفیق بخشے۔ بظاہر یہ دعا ہے لیکن اللہ باطنی خبث پر مطلع ہے، وہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا بھرا ہوا ہے۔ لیکن وہ اپنی جہالت کے باعث یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اس دعا سے ثواب کی بجائے عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں۔ غیبت سننا اور اس پر تعجب کا اظہار کرنا بھی غیبت ہے، کیونکہ سننے سے اور اس پر تعجب ظاہر کرنے سے غیبت کرنے والے کو غیبت پر شہ ملتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی برائی سن کر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ بھائی تم نے آج عجیب بات بتلائی ہے، ہم تو اسے ایسا نہیں سمجھتے تھے، ہم اسے آج تک اچھا ہی سمجھتے رہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس عیب سے محفوظ رکھے۔ یہ تبصرہ گویا غیبت کرنے والے کی تصدیق ہے اور غیبت کی تصدیق بھی غیبت ہی ہے، بلکہ غیبت سن کر چپ رہنے والا بھی غیبت کرنے والے کا شریک سمجھا جاتا ہے۔ حدیث ہے : نھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم عین الغیبۃ وعن الاستماع الی الغیبۃ۔ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کرنے اور غیبت سننے سے منع فرمایا ہے۔ (طبرانی، ابن عمر)
ہاں، اگر سننے والا زبان سے منع کر دے ، یا زبان سے منع کرنے کا حوصلہ یا قوت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے یا اس مجلس سے اٹھ جائے یا غیبت کرنے والے کو دوسری باتوں میں لگا لے، ان صورتوں میں سننے والے پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر زبان سے منع کیا اور دل میں سننے کی خواہش رہی تو یہ نفاق ہے، اعتبار دل کا ہے۔ گناہ سے اسی وقت محفوظ رہے گا جب دل سے برا سمجھے گا، بلکہ صراحت کے ساتھ منع کرنا اور مذکور کا دفاع کرنا ضروری ہے، ارشاد نبوی ہے:من اذلّ عندہ مؤمن فلم ینصرہ وھو یقدر علی ان ینصرہ اذلّہ اﷲ یوم القیامۃ علی رؤس الخلائق۔ یعنی جس شخص کےسامنے کسی مؤمن کی تذلیل کی جائے اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے تو قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ذلیل کیا جائے گا۔ (طبرانی-سہل بن حنیف)
ایک حدیث میں ہے : من ذَبَّ عن عِرضِ أخيه بالغَيْبةِ ؛ كان حقًّا على اللهِ أن يُعتِقَه من النَّارِ۔ یعنی جو شخص پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرے اللہ عزوجل پر اسے دوزخ سے آزاد کرنا واجب ہے ۔ (احمد، طبرانی-اسماء بنت یزید)
غیبت کے اسباب بے شمار ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی وہ گیارہ اسباب کے ضمن میں آ جاتے ہیں۔ ان میں سے آٹھ کا تعلق عوام سے ہے۔ عوام سے متعلق غیبت کے آٹھ اسباب: -
پہلا سبب- کینہ و غضب: یعنی کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے جو دل میں غصہ کی آگ بھڑکا دے، جب دل میں غصہ کی آگ بھڑکتی ہے تو وہ غصہ دلانے والے کے عیوب کے ذکر ہی سے ٹھنڈی ہوتی ہے، خواہ خود کرے یا دوسرے کریں۔ اس کی تحریک طبیعت کے تقاضے سے ہوتی ہے بشرطیکہ کوئی دینی مانع موجود نہ ہو۔ بعض اوقات آدمی بظاہر غصے پر قابو پا لیتا ہے لیکن دل میں کینہ باقی رہتا ہے۔ کینہ غصے سے بدتر ہے کیونکہ دل میں کینہ رہنے سے ہمیشہ کے لیے برا کہنے کی بنیاد پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کینہ اور غضب دونوں ہی غیبت کے سبب ہیں۔ دوسرا سبب- موافقت: یعنی دوستوں اور ہم نشینوں کی تائید و تصدیق کرنا اور ان کی دیکھا دیکھی خود بھی غیبت میں لگ جانا اور غیبت میں ان کی معاونت و موافقت کرنا۔ چنانچہ جب اہل مجلس کسی شخص کی عزت سے کھیلتے ہیں اور اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کا انکار کیا اور ان سے اتفاق نہ کیا یا گفتگو کا موضوع بدلا یا مجلس سے اٹھ کر چلا گیا تو یہ لوگ ناراض ہوں گے اور مجھ سے نفرت کرنے لگیں گے۔ اسی خیال سے وہ ان کی تائید کرتا ہے اور اسے حسن معاشرت اور ملنساری کی اہم بنیاد تصور کرتا ہے۔ تیسرا سبب- احتیاط اور سبقت: کبھی کسی شخص کو یہ گمان ہوتا ہے کہ فلاں شخص میری تاک میں ہے۔ وہ فلاں بڑے آدمی کے یہاں میری برائی کرے گا یا میرے بارے میں ہرزہ سرائی کرے گا یا فلاں معاملے میں میرے خلاف شہادت دے گا۔ وہ ان اندیشوں کے پیش نظر خود ہی سبقت کرتا ہے اور اس کی برائی شروع کر دیتا ہے اور اس کو ہدف تنقید بناتا ہے تاکہ جو بات وہ کہنے والا ہے اس کا اثر زائل ہو جائے، اور وہ جو گواہی دینے والا ہے اس کا اعتبار ساقط ہو جائے۔ اس پیش بندی اور احتیاط سے وہ یقیناً محفوظ رہ جائے گا، کیونکہ دوسرا شخص اول تو اس کی برائی کرنے کی ہمت نہ کرے گا اور اگر اس نے ہمت کی بھی تو اس کی ہرزہ سرائی کو اہمیت نہ دی جائے گی اور لوگ یقین ہی نہ کریں گے۔ چوتھا سبب- براءت: کبھی کسی کی برائی سے اپنی براءت مقصود ہوتی ہے۔ اس صورت میں دوسرے شخص کا حوالہ دے کر وہ یہ کہتا ہے کہ تنہا میں نے ہی یہ کام نہیں کیا بلکہ فلاں شخص بھی کر چکا ہے یا وہ بھی میرے ساتھ شریک تھا۔ حالانکہ براءت ہی مقصود تھی تو اپنا عذر بیان کرنا چاہیے تھا، دوسرے کا حوالہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن کیونکہ دوسرے کے ذکر سے اپنا موقف مضبوط ہوتا ہے اس لیے دوسرے کو بھی شامل کر لیا۔ پانچواں سبب- مفاخرت اور بڑائی کا اظہار: وہ اس طرح کہ دوسرے شخص میں عیب نکال کر اپنی برتری ظاہر کرے ، مثلاً یہ کہے کہ فلاں شخص جاہل ہے، اس کی سمجھ ناقص ہے، اس کا کلام کمزور اور لچر ہے۔ اس تنقید سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخاطب پر اپنی فضیلت کا اظہار کرے اور یہ ثابت کرے کہ میں اس کے مقابلے میں زیادہ علم رکھتا ہوں اور میری گفتگو عمدہ ہے۔ اور یہ تنقید اس لیے ہوتی ہے کہ کہیں لوگ میری طرح اس کی بھی تعظیم نہ کرنے لگیں اور معاشرے میں اسے بھی نمایاں مقام نہ حاصل ہو جائے۔ چھٹا سبب- حسد : کبھی جذبہ حسد غیبت پر ابھارتا ہے، یہ دیکھ کر کہ لوگ محسود کی بے حد تعریف کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اس سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اس سے یہ نعمت سلب کر لی جائے، لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور اس کی عزت باقی نہ رہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ محسود کے عیب ظاہر کرتا ہے۔ حسد کینہ اور غضب کے علاوہ ایک جذبہ ہے۔ غضب اور کینہ اس وقت ہوتا ہے جب دوسرا شخص کچھ زیادتی کرتا ہے۔ دراصل یہ دونوں جذبے انتقام کا مظہر ہیں۔ حسد میں یہ بات نہیں ہے۔ بعض دفعہ آدمی اپنے محسن دوست اور مونس رفیق سے بھی حسد کرنے لگتا ہے۔ ساتواں سبب- دل لگی : یعنی دوسرے کے عیب اس لیے کیے جاتے ہیں کہ محفل میں دل چسپی کی فضا پیدا ہو اور اہل مجلس کے ہنسنے ہنسانے کا موقع ملے اور وقت اچھا گزرے۔ آٹھواں سبب- تحقیر : کبھی اس لیے برائی کی جاتی ہے کہ دوسرے شخص کی تحقیر و تذلیل ہو، یہ متکبرین کا شیوہ ہے۔ اس میں موجودگی اور غیر موجودگی کی بھی قید نہیں ہے۔ بعض لوگ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی ہی کو اپنی تنقید اور مذاق کا ہدف بنا لیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح کس قدر رسوائی ہو گی۔ نیز اگر وہ اس کی جگہ ہوتے تو خود ان کا کیا حشر ہوتا۔
غیبت کا علاج :- علم و عمل کا معجون: تمام اخلاق فاسدہ اور عادات رذیلہ کا علاج علم و عمل کے معجون سے ہوتا ہے۔ یعنی نہ تنہا علم سے ان امراض کا علاج ممکن ہے اور نہ محض عمل سے۔ پھر ہر مرض کی دوا اس کے سبب کے مخالف ہوتی ہے، چنانچہ اگر مرض کی بنیاد حرارت ہے تو علاج برودت سے ہو گا اور برودت ہے تو حرارت سے۔ اولاً ہمیں غیبت کے اسباب و عوامل کا پتا چلانا چاہیے اور پچھلے صفحات میں اس موضوع پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔
زبان کو غیبت سے روکنے کے دو طریقے ہیں، ایک اجمالی اور دوسرا تفصیلی۔ اجمالی طریقہ علاج: اجمالی طریقہ یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت پر یقین رکھے کہ غیبت کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے، نیز یہ کہ غیبت کی وجہ سے قیامت کے دن نیکیاں ضائع ہو جائیں گی کیونکہ غیبت آدمی کی نیکیوں کو اس شخص کی طرف منتقل کر دیتی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ اگر اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں نہ ہوں تو دوسرے کی برائیاں اس کی برائیوں میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں انسان اپنے بھائی کی غیبت کر کے مردار کھانے والے سے مشابہ ہو جاتا ہے، یہ کتنی بڑی رسوائی ہے۔ کسی شخص نے حضرت حسن سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ میری غیبت کرتے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میری نظر میں تمہاری یہ حیثیت نہیں ہے کہ اپنی نیکیاں تمہارے حوالے کر دوں۔ بہرحال جب آدمی ان روایات پر نظر ڈالے گا اور ان وعیدوں پر غور کرے گا جو غیبت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں تو مارے خوف کے اس کی زبان غیبت پر آمادہ نہیں ہو گی۔ یہ تدبیر بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے کہ آدمی غیبت کرنے سے پہلے اپنے باطن پر بھی نگاہ دوڑا لے، شاید کوئی ایسا ہی عیب اپنے اندر بھی مل جائے۔ اگر ایسا ہو تو دوسرے کی غیبت کر کے گناہ کمانے کی بجائے اس کے ازالے کی فکر کرے، اور حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو یاد کرے کہطوبیٰ لمن شغلہ عیبہ عن عیوب الناس ۔ یعنی اس شخص کے لیے خوشخبری ہو جسے اس کا عیب لوگوں کے عیوب (پر تنقید کرنے) سے روک دے۔ (بزار-انس)۔
تفصیلی طریقہ علاج: تفصیلی طریقہ علاج یہ ہے کہ ان اسباب پر نظر ڈالے جن سے غیبت پر تحریک ہوتی ہے۔ ہر مرض کا علاج اس کے سبب کا خاتمہ کر کے ہی ممکن ہے۔ غیبت کے اسباب و محرکات ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں، چنانچہ اگر غیبت کا سبب غضب ہو تو اس کا علاج اس طرح کرنا چاہیے کہ اگر میں نے غصہ کیا اور اس پر قابو نہ پایا تو اللہ تعالیٰ غیبت کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہوں گے کیونکہ اس نے مجھے غیبت سے منع کیا ہے اور میں نے غیبت کر کے اس کی نافرمانی کی ہے اور اس کے حکم کو غیر اہم تصور کیا ہے۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جہنم کا ایک دروازہ ایسا ہے جس میں صرف وہ شخص داخل ہو گا جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اپنا غصہ نکالا ہو۔ (بزار، نسائی، بیہقی-ابن عباس)۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص غصہ نکالنے پر قدرت رکھنے کے باوجود پی جائے ، قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے سامنے بلائیں گے اور اسے اپنی پسندیدہ حور منتخب کرنے کا اختیار دیں گے۔ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ-معاذ بن انس)۔
غیبت کا دوسرا سبب موافقت ہو تو سوچنا چاہیے کہ اگر میں نے مخلوق کی رضا مندی حاصل کر بھی لی تو مجھے کیا فائدہ ہو گا، اس صورت میں جب کہ باری تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ کون بے وقوف یہ چاہے گا کہ غیر کی خوشنودی کے لیے اپنے آقا کو ناراض کر دے۔
غیبت کا تیسرا سبب تنزیہہ نفس ہے یعنی گناہ کی نسبت دوسرے کی طرف کر کے اپنی براءت کرنا اور اپنے نفس کی پاکی بیان کرنا۔ اس موقع پر سوچنا چاہیے کہ باری تعالیٰ کی ناراضگی کے سامنے لوگوں کی ناراضگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پھر غیبت سے باری تعالیٰ کی ناراضگی تو یقینی ہے لیکن ان لوگوں کی خوشنودی یقینی نہیں ہے جن کے سامنے اپنے نفس کی براءت مقصود ہے۔ نیز یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ جن لوگوں کی طرف گناہ کی نسبت کی جا رہی ہے لوگ انہیں برا تصور بھی کریں گے یا نہیں۔ دنیا کی سرخروئی ظنی اور وہمی ہے، ملے یا نہ ملے لیکن آخرت کی رسوائی اور ذلت و خسارہ قطعی اور یقینی ہے جو غیبت کے نتیجے میں مل کر رہے گی۔ کتنی بڑی جہالت اور نادانی ہے کہ لوگوں کی رضا حاصل کرنے کے لیے جس کا حاصل ہونا ضروری بھی نہیں، باری تعالیٰ کی ناراضگی خرید لی جائے۔
اگر غیبت کا سبب دوسروں پر اپنی برتری کا اظہار ہو تو اس کا علاج اس فکر سے کرے کہ باری تعالیٰ کے نزدیک میرا جو کچھ مرتبہ تھا وہ تو اس غیبت سے باقی نہ رہا۔ اب اگر دوسروں کی غیبت کرنے سے مجھے کچھ دنیاوی اعزاز و اکرام مل بھی گیا تو اس کی حیثیت ہی کیا ہے۔ پھر اس کا ملنا یقینی بھی تو نہیں ہے۔ کیا معلوم لوگ میرا اعتبار کریں یا نہ کریں، اگر اعتبار نہ کیا تو رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے گی اور لوگ جھوٹا سمجھیں گے۔
حسد کی وجہ سے غیبت کرنے میں دوہرا عذاب ہے، ایک عذاب تو حسد کی وجہ سے کہ وہ دنیا کی نعمتوں پر حسد کر رہا ہے حالانکہ یہ نعمتیں زوال پذیر ہیں ، دوسرا اس کے ساتھ آخرت کے عذاب کا بھی اضافہ کر لیا، یعنی اس کی غیبت بھی شروع کر دی۔ حسد سے اس شخص کا کچھ نہیں بگڑتا جسے نعمتیں میسر ہیں ، بلکہ یہ خود ہی جسمانی اور ذہنی عذاب میں گرفتار رہتا ہے۔ اس میں دنیا کا بھی نقصان ہے اور دین کا بھی۔ یاد رکھو غیبت اس شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی جس کی تم غیبت کرتے ہو بلکہ خود تمہیں نقصان پہنچاتی ہے، تمہاری نیکیاں اس کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں اور اس کی برائیاں تمہارے حصے میں آ جاتی ہیں۔ تم نے حسد کی خباثت کے ساتھ حماقت بھی ملا لی ہے۔
اگر غیبت کا محرک استہزاء ہے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دوسرے لوگوں کو رسوا کر کے اور طنز و تضحیک کا نشانہ بنا کر تم خود اللہ کے یہاں رسوائی مول لے رہے ہو۔ اگر تم اپنے انجام پر نظر ڈالو اور دیکھو کہ قیامت کے دن کتنی زبردست ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی، ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے تم دوزخ کی طرف قدم بڑھا رہے ہو گے جن کی دنیا میں ہنسی اڑائی تھی۔ اگر تم اس انداز سے سوچو گے تو یقیناً دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو گا اور کسی کا مضحکہ اڑانے کی ہمت نہ ہو گی۔
(آگے دل کی غیبت یعنی بدگمانی کی حرمت، ان شاءاللہ تعالیٰ۔۔۔)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا بنیادی موضوع زبان کی آفات ہے لیکن غیبت کے باب میں انہوں نے بدگمانی کو بھی شامل کیا ہے اور اس کو دل کی غیبت کا نام دیا ہے۔ اگرچہ یہاں بھی انہوں نے نہایت شرح و بسط سے بیان فرمایا ہے لیکن حسب معمول ہماری کوشش ہو گی کہ اس کو بھی مختصراً پیش کر دیا جائے۔ دل سے غیبت کرنے کی حرمت:-
سُوء ظن (بدگمانی): بدزبانی کی طرح بدگمانی بھی حرام ہے، یعنی جس طرح یہ جائز نہیں کہ تم اپنی زبان سے کسی دوسرے کے عیوب بیان کرو اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ تمہارے دل میں کسی کے متعلق غلط خیال آئے یا اس کی طرف سے بدگمان ہو۔ بدگمانی سے ہماری مراد یہ ہے کہ کسی شخص کو قصداً برا نہ سمجھنا چاہیے، البتہ خواطر اور حدیث نفس کے طور پر اگر کسی کی برائی کا خیال دل میں آ جائے تو یہ معاف ہے، بلکہ شک بھی معاف ہے۔ ممنوع ظن ہے اور ظن نام ہے دل کے میلان اور قصد کا۔ اسی ظن کی مخالفت قرآن کریم میں وارد ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۔ یعنی اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔ سورۃ الحجرات،
آیت نمبر 12۔ سُوء ظن کی حرمت کی وجہ : یہ ہے کہ دلوں کے اسرار سے علاّم الغیوب (اللہ تعالیٰ) کے علاوہ کوئی واقف نہیں، اس لیے کسی بندے کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی شخص کے متعلق اپنے دل میں غلط خیال جمائے ۔ ہاں اگر برائی اس طرح ظاہر ہو جائے کہ نہ انکار کی گنجائش باقی رہے اور نہ تاویل و توجیہہ کی، اس صورت میں بلاشبہ اپنے علم و مشاہدے کے مطابق کسی غلط خیال کا دل میں آنا اور راسخ ہونا ممکن ہے۔ جن دلائل سے کسی مسلمان کا خون اور مال جائز ہوتا ہے انہی دلائل سے اس کے بارے میں بدگمانی کرنا بھی جائز ہو گا ، اور وہ دلائل ہیں آنکھ سے مشاہدہ یا کسی ثقہ کی شہادت۔ بدگمانی کا علاج : اگر یہ دلائل موجود نہ ہوں ، اور دل میں کسی کے بارے میں بدگمانی راہ پائے تو اس کے ازالے کی تدبیر کرنی چاہیے اور نفس کو سمجھانا چاہیے کہ اس شخص کا حال تجھ پر مخفی ہے۔ جس واقعے کو بنیاد بنا کر تو بدگمان ہو رہا ہے اس میں شر اور خیر دونوں ہی کا احتمال ہے، تو کیا یہ ضروری ہے کہ تو خیر کے احتمال کو چھوڑ کر شر کے احتمال کو ترجیح دے۔ سُوء ظن کی پہچان : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدمی کے دل میں شکوک پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور طرح طرح کے خیالات بھی سر اٹھاتے رہتے ہیں، ان شکوک اور خیالات کے ہجوم میں یہ بات کس طرح معلوم ہو کہ فلاں خیال سُوء ظن ہے اور فلاں خیال سُوء ظن نہیں بلکہ شک یا حدیث نفس ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سُوء ظن علامت سے پہچانا جاتا ہے ، اور وہ علامت یہ ہے کہ تمہارا دل اس شخص سے بدل جائے جس کے بارے میں بدگمان ہو۔ مثلاً پہلے اس سے محبت کرتے تھے، اب نفرت کرنے لگو، یا اس کی خاطر داری اور تعظیم کرنے میں پہلا سا نشاط اور مسرت باقی نہ رہے۔ قلب کی اس تبدیلی سے سمجھنا چاہیے کہ فلاں شخص سے بدگمان ہوں۔
بہرحال اگر کبھی کوئی غلط گمان دل میں آ بھی جائے تو نہ اسے ٹھہرنے یا جمنے کا موقع دے اور نہ اعضاء کے ذریعہ سے اس کا اظہار کرے۔ قلب میں جمنے کی صورت تو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے کراہت یا نفرت کرنے لگے، اور ظاہری اعضاء کے ذریعہ بدگمانی ظاہر کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس سے دل کے ظن کے مطابق اعمال صادر ہونے لگیں۔ شیطان معمولی سی بات کو بہانہ بنا کر دل میں لوگوں کی طرف سے برائی ڈالتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرا دیتا ہے کہ ہم کتنے عاقل و دانا ہیں کہ برائی کا کتنی جلد ادراک کر لیتے ہیں واقعتاً مؤمن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ شخص اللہ کے نور سے نہیں بلکہ شیطان کے فریب کی تاریکی میں دیکھتا ہے۔
سُوء ظن کے پہلو سے تجسس جنم لیتا ہے اور مزید تحقیق کے لیے تجسس میں مشغول ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں تجسس سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم کی ایک ہی آیت (مذکورہ) میں غیبت، سُوء ظن اور تجسس سے منع کیا گیا ہے اور تجسس کے معنی یہ ہیں کہ جس شخص کے عیوب پر اللہ عزوجل نے پردہ ڈال رکھا ہے اس کے حالات دریافت کیے جائیں۔
(آگے غیبت کے باب میں رخصت کے مواقع، ان شاءاللہ عزوجل۔۔۔)
غیبت کے باب میں رخصت کے مواقع:-
اگر کسی شخص کی غیبت کرنے میں کوئی صحیح دینی مصلحت پوشیدہ ہو اور وہ مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہوتا ہو تو غیبت کرنا گناہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض مواقع پر شریعت نے غیبت کی اجازت بھی دی ہے۔ یہ کل چھ مواقع ہیں۔ اول۔ ظلم کی داد رسی کے لیے : مثال کے طور پر کوئی مظلوم حاکم سے یہ شکایت کرے کہ فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا ہے، میرے ساتھ خیانت کی ہے یا مجھ سے رشوت لی ہے، تو یہ غیبت نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ مظلوم نہیں تو یہ شکایت غیبت سمجھی جائے گی، اور اس کا گناہ ہو گا۔ مظلوم کے لیے اجازت کی وجہ یہ ہے کہ وہ حاکم کو صحیح واقعہ بتلائے بغیر اپنا حق حاصل نہیں کر سکتا۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :فإنَّ لِصَاحِبِ الحَقِّ مَقَالًا۔ یعنی حق والا بولا ہی کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم- ابوہریرہ) دوم- منکر کے ازالے، اور معصیت کے دور کرنے پر مدد حاصل کرنے کے لیے : جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت عثمان اور بعض روایات کے مطابق حضرت ابو طلحہ کے پاس سے گزرے اور انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ان کی شکایت کی۔ حضرت ابو بکر بذات خود تشریف لائے اور ان دونوں میں صلح کرائی۔ صحابہ کے نزدیک اس طرح کی شکایتیں غیبت میں داخل نہیں تھیں کیونکہ ان سے مصالحت مقصود ہوتی تھی۔
اسی طرح حضرت عمر کو یہ اطلاع پہنچی کہ ابو جندل ملک شام میں شراب نوشی کرتے ہیں۔ آپ نے انہیں ایک خط لکھا جس میں ایک آیت تھی جس کا ترجمہ ہے "حم۔ کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہوا ہے جو زبردست ہے، خبردار ہے، گناہ بخشنے والا ہے، توبہ قبول کرنے والا ہے اور سخت عذاب دینے والا ہے۔" ابو جندل کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے فوراً ہی توبہ کی اور شراب نوشی ترک کر دی۔ ظا ہر ہے ابو جندل کی شراب نوشی کی خبر کسی دوسرے شخص نے حضرت عمر کو دی تھی جس کا مقصد غیبت کرنا نہ تھا اور نہ ہی حضرت عمر نے اس کی حالت بیان کرنے کو غیبت تصور کیا۔ بلکہ خبر دینے والے نے یہ سوچا تھا کہ اگر اس کی شکایت حضرت عمر سے کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ وہ نصیحت کریں گے اور ان کی نصیحت میری نصیحت سے زیادہ مؤثر ہو گی۔ اور یہی ہوا بھی کہ حضرت عمر کے ایک مختصر سے مکتوب نے انہیں توبہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ سوم- فتویٰ حاصل کرنے کے لیے : مثلاً کسی مفتی یا عالم سے جا کر یہ دریافت کرنا کہ مجھ پر میرے باپ ، بھائی یا بیوی نے یہ ظلم کیا ہے، میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ استفتاء میں کنائے سے کام لے ، یعنی اس طرح دریافت کرے کہ اگر کسی شخص پر اس کا باپ، بھائی یا بیوی ظلم کرے تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ تاہم ان مواقع پر صراحت اور تعیین بھی گناہ نہیں ہے۔ چہارم - مسلمان کو شر سے بچانے کے لیے : مثلاً تم کسی فقیہ کو بدعت کی طرف مائل دیکھو، یا کسی شخص کو فسق میں مبتلا دیکھو اور یہ اندیشہ ہو کہ اس کی بدعت اور اس کا فسق کسی دوسرے مسلمان کی طرف تعدی کر جائے گا، اس صورت میں تمہارے لیے جائز ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کو فقیہ کی بدعت اور فاسق کے فسق سے آگاہ کر دو۔ اس غرض کے علاوہ کسی دوسری غرض کے لیے آگاہ کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ بڑے دھوکے کا مقام ہے، کبھی جذبہ حسد بھی آدمی کو دوسرے کی برائی کرنے پر اکساتا ہے اور شیطان اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ وہ محض مخلوق پر شفقت اور معاصی سے ان کی حفاظت کے لیے بدعتی کی بدعت اور فاسق کے فسق سے مطلع کر رہا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو نوکر رکھنا چاہے اور تم اس نوکر کے کسی عیب، مثلاً چوری کی عادت سے واقف ہو تو مالک کو ضرور مطلع کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس میں نوکر کا ضرر ہے لیکن مالک کا مفاد مقدم ہے۔ اکابرین سلف کہتے ہیں کہ تین آدمیوں کی برائی غیبت نہیں ہے، ایک ظالم حاکم ، دوسرا بدعتی، تیسرا کھلا فاسق۔ پنجم- عرفیت کی وجہ سے : اگر کسی شخص کا کوئی عیب معروف ہو گیا ہو اور لوگ اسے اسی عیب کے حوالے سے بلاتے ہوں ، مثلاً اندھا، کانا، لنگڑا وغیرہ، اس صورت میں تم بھی اگر اسی نام سے بلاؤ یا غائبانہ میں اس کا نام لو تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں میں اس طرح کی اسناد منقول ہیں۔ مثلاً جیسے ابو زناد نے اعرج (لنگڑے) سے روایت کی ہے اور سلیمان نے اعمش (چندھے) سے۔ علماء نے اس کی اجازت پہچان کی وجہ سے دی ہے۔ خود وہ لوگ بھی ان ناموں سے شہرت پانے کے بعد برا نہیں مناتے، البتہ اگر ان کے ناموں کا کوئی بہتر بدل مل جائے یا کسی دوسرے لفظ کے ذریعہ ان کا تعارف کرانا ممکن ہو تو یہ زیادہ اچھی بات ہے۔ ششم- کھلے فسق کی وجہ سے : اسی طرح اگر کوئی شخص کھلم کھلا فسق کا ارتکاب کرتا ہے مثلاً مخنث ، شراب خور، یا لوگوں سے بھتہ اور رشوتیں وصول کرنے والے لوگوں کی برائیاں عموماً لوگوں پر عیاں رہتی ہیں ، بلکہ بعض لوگ ان برائیوں کے مظاہر میں بھی کوئی عیب نہیں سمجھتے اور نہ ان عیوب کی اپنی طرف نسبت پر برا مناتے ہیں، ایسے لوگوں کی غیبت کرنا جائز ہے۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : مَن ألْقى جِلْبَابَ الحَيَاءِ عَنْ وَجْهِهِ فَلَا غِيبَةَ لَهُ ۔ یعنی جو شخص اپنے چہرے سے حیا کا نقاب اتار پھینکے اس (کی برائی ) کا ذکر کرنا غیبت نہیں ہے۔ (ابن عدی، انس)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فاجر کے لیے کوئی عزت و احترام نہیں۔ فاجر سے مراد انہوں نے وہ شخص لیا ہے جو علی الاعلان فسق و فجور میں مبتلا رہتا ہو، چھپ کر کرنے والے کا یہ حکم نہیں ہے۔ اس کی عزت و احترام کی پاسداری اور رعایت ہونی چاہیے۔
غیبت کا کفّارہ :- معاف کرانا ، دعائے خیر کرنا: غیبت کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ اپنے فعل پر نادم ہو، تاسف کا اظہار کرے اور توبہ کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حق سے بری الذمہ ہو جائے۔ پھر اس شخص سے معاف کرائے جس کی غیبت کی ہے۔ صرف زبان سے معافی کی درخواست کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا متاسف اور غمگین و نادم ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ ریاکار بظاہر اپنا قصور معاف کراتا ہے لیکن دل میں ذرہ برابر بھی ندامت نہیں ہوتی، اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے متقی و پرہیزگار سمجھیں، یہ ایک دوسری مصیبت ہے۔ غیبت کا گناہ تو ذمے تھا ہی کہ اب ریا کاری کو گناہ بھی سر پر پڑ گیا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ غیبت کا گناہ معاف کرانا ضروری نہیں ہے بلکہ اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کرنا کافی ہے جس کی غیبت کی ہو۔ انہوں نے حضرت انس بن مالک کی اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ کفارہ من اغتبتہ ان تستغفر لہ۔ یعنی جس کی تم نے غیبت کی ہے اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے لیے دعائے مغفرت کرو۔ (ابن ابی الدنیا)۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی کا گوشت کھانے کا کفارہ یہ ہے کہ اس کی ثنا کی جائے اور اس کے لیے دعائے خیر کی جائے۔ عطاء بن ابی رباح سےپوچھا گیا کہ غیبت سے توبہ کرنے کا کیا طریقہ ہے، انہوں نے جواب دیا ، اس طرح کہ تم اس شخص کے پاس جاؤ جس کی غیبت کی ہو اور اس سے کہو کہ میں نے تمہارے متعلق جھوٹ کہا، تم پر ظلم کیا اور تمہیں تکلیف پہنچائی، اگر تم چاہو تو اپنا حق وصول کر لو اور چاہو تو معاف کر دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت سے جس نے کسی عورت کو طویل دامن والی کہہ دیا تھا فرمایا کہ اس سے اپنا قصور معاف کراؤ، تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معاف کرانا ضروری ہے بشرطیکہ یہ ممکن ہو، لیکن اگر وہ شخص مر گیا ہو یا مفقود الخبر ہو گیا ہو تب بلاشبہ اس کے لیے بکثرت دعائے خیر کرنی چاہیے اور نیک کاموں کا ثواب اسے پہنچانا چاہیے۔ کیا معاف کرنا ضروری ہے؟: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے شخص کو معاف کرنا واجب ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ معاف کرنا واجب نہیں ہے بلکہ یہ تبرّع ہے اور تبرع مستحسن ہوتا ہے واجب نہیں ہوتا۔ معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی خوب تعریف کرے، اس سے قریب ہو اور زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارے تاکہ اس کا دل صاف ہو جائے اور قصور معاف کر دے۔ اگر اس کا دل صاف نہ ہو اور وہ قصور معاف کرنے پر رضا مند نہ ہو تب بھی معافی کے لیے یہ تگ و دو ، اور دوستی و قربت حاصل کرنے کے لیے یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ اس کا ثواب ملے گا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیبت کے مقابلے میں یہ عمل نیکی بن جائے۔ معاف کرنا افضل ہے : اس میں شک نہیں کہ معاف کر دینا افضل ہے ۔ چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دن اقوام عالم باری تعالیٰ کے حضور گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے ہوں گے تو ندا آئے گی کہ وہ لوگ اٹھیں جن کا اجر اللہ جل شانہ پر باقی ہو، اس وقت صرف وہ لوگ اٹھیں گے جو دنیا میں لوگوں کے قصور معاف کر دیا کرتے تھے۔
(غیبت کا بیان ختم ہوا۔ وباللہ التوفیق)
(آگے زبان کی سولہویں آفت، ان شاء اللہ تعالیٰ)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍO هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍO اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے۔ (جو) طعنہ زَن، عیب جُو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لئے چغل خوری کرتا پھرتا ہے۔ سورۃ القلم، آیت نمبر 11-10۔
رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ نَمَّام ۔ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری و مسلم- ابو حذیفہ)
ایک مرتبہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا میں تمہیں شر پسند لوگوں سے آگاہ نہ کردوں؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ، آگاہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا : چغلی کرنے والے، دوستوں کے درمیان فساد پیدا کرنے والے اور بے عیبوں کے عیب تلاش کرنے والے۔ (احمد-ابو مالک اشعری)
کعب الاحبار سے روایت ہے کہ جب بنی اسرائیل پر قحط سالی کا عذاب نازل ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے متعدد مرتبہ بارش کی دعا مانگی لیکن بارش نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ اے موسیٰ، تمہاری اور تمہارے رفقاء کی دعا اس لیے قبول نہیں ہوتی کہ تم لوگوں میں ایک شخص موجود ہے جو چغلی پر اصرار کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: الہٰی مجھے بتائیے وہ شخص کون ہے تاکہ میں اسے اپنے درمیان سے نکال باہر کروں۔ وحی آئی کہ اے موسیٰ کیا یہ مناسب ہو گا کہ میں تمہیں غیبت کرنے سے منع کروں اور خود غیبت کروں۔ ان سب نے توبہ کی ، تب بارش ہوئی اور اس عذاب سے چھٹکارا ملا۔ چغل خوری کی تعریف اور علاج : عام طور پر چغلی کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ کسی کا قول اس شخص سے نقل کر دے جس کے بارے میں کہا گیا ہو، مثلاً یہ کہہ دے کہ فلاں شخص تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا تھا، لیکن چغلی کی حقیقت اسی میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی تعریف یہ ہے کہ جس چیز کا ظاہر کرنا برا ہو اسے ظاہر کر دے، خواہ اسے برا لگے جس نے کہا، یا اسے جس کے بارے میں کہا گیا یا کسی تیسرے شخص کو۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کا اظہار زبان ہی سے ہو، بلکہ کتابت اور رمز و کنایہ بھی زبان ہی کے قائم مقام ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ اس چغلی کا تعلق کلام سے ہو یا عمل سے ہو یا منقول عنہ کے کسی عیب اور نقص سے، غرض کہ چغلی ناپسندیدہ بات کے اظہار کا نام ہے۔ بہرحال جب کسی کی نظر لوگوں کی ناپسندیدہ بات یا مکروہ احوال پر پڑے تو اسے سکوت کرنا چاہیے، البتہ اگر کسی مسلمان کا فائدہ یا کسی گناہ کا ازالہ مقصود ہوتو بولنا چاہیے۔ چغلی کے محرکات: چغلی کا محرک یا تو جس کی بات نقل کی جائے اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ ہوتا ہے یا جس سے بات کی جائے اس سے محبت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یا محض دل لگی اور لغویات میں پڑنے کی عادت چغلی کھانے پر اکساتی ہے۔ اگر کسی شخص کے سامنے چغلی ہو اور یہ کہا جائے کہ فلاں شخص تمہارے بارے میں یہ کہتا ہے یا تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس صورت میں اس شخص کو چاہیے کہ وہ ان چھ باتوں پر عمل کرے ، اولاً یہ کہ اس کا اعتبار نہ کرے کیونکہ چغل خور فاسق ہوتا ہے ، اس کی شہادت بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔ ارشاد ربانی ہے کہ اے ایمان والو! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا بیٹھو۔(سورۃ الحجرات، آیت نمبر 6)۔
ثانیاً یہ کہ اسے چغلی کھانے سے منع کرے، نصیحت کرے اور اس کے عمل کی برائی واضح کرے۔ ثالثاً یہ کہ اس سے اللہ کے واسطے بغض رکھے ، کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ہے۔ رابعاً یہ کہ اس کے کہنے سے اپنے غیر موجود بھائی کے متعلق بد گمان نہ ہو۔ خامساً یہ کہ جو کچھ اس کے سامنے نقل کیا جائے اسے سن کر مزید معلومات کی جستجو نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے۔ سادساً یہ کہ جس بات سے چغل خور کو منع کرے اس میں خود مبتلا نہ ہو یعنی اس کی چغلی کسی دوسرے سے نقل نہ کرے۔
روایت ہے کہ کسی دانشور کے پاس اس کا کوئی دوست بغرض ملاقات آیا اور کسی دوسرے دوست کے متعلق کچھ کہنے لگا۔ دانشور نے اس سے کہا کہ تم اتنے دنوں بعد آئے اور آتے ہی تین جرم کر بیٹھے۔ پہلا یہ کہ تم نے میرے دوست سے بغض پیدا کر دیا، دوسرا یہ کہ میرے مطمئن اور خالی دل و دماغ کو اضطراب اور بے چینی سے بھر دیا، تیسرا یہ کہ اپنی دیانتداری کو مجروح کر دیا۔ ایک شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سامنے کسی کی چغلی کی، آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم تیری بات کی تحقیق کریں گے ، اگر سچ ہوئی تو تجھ سے ناراض ہوں گے، جھوٹ نکلی تو تجھے سزا دیں گے اور اگر تو معاف کرانا چاہے تو معاف کر دیں گے۔ اس نے عرض کیا: امیرالمؤمنین ، مجھے معاف فرما دیجیے۔حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں تجھے چند عادتیں اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ، اگر تو نے ان عادتوں کو اپنایا تو تجھے بلندی اور سرداری ملے گی اور اس وقت تک حاصل رہے گی جب تک تو ان عادتوں پر کاربند رہے گا۔ ہر قریب و بعید کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آ، ہر شریف سے اپنی جہالت پوشیدہ رکھ، لوگوں کی حرمت کی حفاظت کر، اقارب سے صلہ رحمی کر اور ان کے خلاف کسی چغل خور کی چغلی مت سن، انہیں بھڑکانے والوں کے شر اور فساد برپا کرنے والوں کی سازش سے مامون رکھ، اس شخص کو اپنا بھائی اور دوست سمجھ جو جب جدا ہو جائے تو نہ تیری برائی کرے اور نہ تو اس کی برائی کرے۔
سترہویں آفت۔ نفاق (دو رُخا پن) :-
کلام کا نفاق بھی بہت بڑا عیب ہے۔ دو رُخی زبان رکھنے والا شخص دو شمنوں کی دشمنی سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے، جس سے ملتا ہے اسے ہی اپنے خلوص اور حمایت کا یقین دلاتا ہے اور دوسرے فریق کو برا کہتا ہے۔ ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص دو مخالفوں سے ملے اور ان دونوں کے موافق بات کہنے سے بچا رہے، یہ عین نفاق ہے۔ حضرت عامر بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مَنْ کَانَ لَہٗ وَجْھَانِ فِی الدُّنْیَا کَانَ لَہٗ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ جس شخص کے دنیا میں دو چہرے ہوں گے قیامت کے دن اس کے منھ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ (بخاری الادب المفرد)
اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ دو شخصوں سے دو رخی ملاقات کرنا نفاق ہے۔ نفاق کی بے شمار علامتیں ہیں ، ان میں ایک علامت دو رخا پن بھی ہے۔ روایت ہے کہ کسی صحابی کی وفات ہوئی تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ ایک صحابئ رسول وفات پا گئے اور آپ نے ان کے جنازے میں شرکت نہیں کی؟ انہوں نے کہا، امیر المؤمنین، یہ شخص ان ہی (منافقین) میں سے تھا۔ آپ نے پوچھا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ میں تو ان میں سے نہیں ہوں ۔ انہوں نے فرمایا ، نہیں بخدا نہیں۔ دو رُخے پن کی تعریف: اگر ایک شخص دو شخصوں سے ملے اور ہر ایک سے اچھی طرح پیش آئے، اور جو بات کہے سچی کہےتو اس سے نہ وہ دو رخا کہلائے گا اور نہ ہی اسے منافق قرار دیا جائے گا۔ اس لیے کہ دو دشمنوں سے سچ بول کر دوستی رکھنا ممکن ہے، اگرچہ اس طرح کی دوستی پائیدار نہیں ہوتی اور نہ اخوت کی حد تک وسیع ہوتی ہے۔ کیونکہ حقیقی دوستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ دوست کے دشمن سے دشمنی رکھی جائے جیسا کہ ہم نے آداب صحبت و اخوت کے باب میں بیان کیا ہے، البتہ اگر کسی نے ان دونوں کا کلام ایک دوسرے سے نقل کیا تو وہ دو رخا کہلائے گا اور دو رخا پن چغلی سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ چغل خور تو ایک شخص کی بات نقل کر کے فتنہ برپا کرتا ہے، یہاں تو دونوں طرف کی بات ایک دوسرے سے کہی جاتی ہے۔ پھر دو رخے پن میں ایک دوسرے کا کلام نقل کرنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اگر ہر فریق کی اپنے مخالف کی دشمنی پر تحسین کرے اور اسے اپنی حمایت کا یقین دلائے تو یہ بھی دو رخا پن ہے۔ اسی طرح ایک شخص کی موجودگی میں اس کی تعریف کرے اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو اس کی برائی شروع کرے ، یہ بھی دو رخا پن ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آدمی سکوت اختیار کرے یا دو فریقوں میں سے اس کی تعریف کرے جو حق پر ہو، اور یہ تعریف اس کے منھ پر اور پیٹھ پیچھے یکساں ہونی چاہیے، بلکہ دشمن کے سامنے بھی ہونی چاہیے۔
اگر کوئی شخص امراء اور حکام کے یہاں آمدو رفت رکھنے سے مستغنی ہو، پھر خواہ مخواہ چلا جائے اور ان کے خوف سے حق بات نہ کہے بلکہ ان کی خوشامد اور جھوٹی تعریف کرنے بیٹھ جائے تو یہ نفاق ہے، اس لیے کہ اس نے خود اپنے آپ کو اس دروغ گوئی پر مجبور کیا ہے، اگر وہ تھوڑے پر قانع ہوتا تو اسے ان کے درباروں میں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جاہ و مال کے حصول کے لیے گیا اور جھوٹی تعریف کرنے پر مجبور ہوا ، یہ کھلا نفاق ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ان امیروں اور حاکموں کے پاس کسی اشد ضرورت کے تحت گیا اور خوف کی وجہ سے ان کی تعریف کی تو معذور ہے، کیونکہ شر سے بچنا جائز ہے۔ حضرت ابوالدرداء کہتے ہیں کہ ہم بعض ایسے لوگوں کے لیے مسکرا دیتے ہیں جن پر ہمارے دل لعنت کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاضری کی اجازت مانگی، آپ نے لوگوں سے فرمایا اسے آنے دو، آنے والا شخص معاشرے کا بد ترین فرد تھا لیکن آپ نے اس سے نرم لہجے میں گفتگو فرمائی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دریافت کیا ، یا رسول اللہ، یہ شخص اس نرمی کا مستحق نہ تھا ، آپ تو اس کے متعلق کچھ اور فرماتے تھے۔ آپ نے فرمایا :یا عائشة ان شر الناس الذي یکرم اتقاء لشره - اے عائشہ، بدترین آدمی وہ ہے جس کی تعظیم اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے۔ (بخاری و مسلم) لیکن یہ اجازت بھی متوجہ ہونے ، ہنسنے اور مسکرانے کے سلسلے میں ہے، جہاں تک مدح و ثنا کا تعلق ہے یہ جائز نہیں، یہ صریح جھوٹ ہے اور صریح جھوٹ بولنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کوئی ضرورت اس پر مجبور نہ کرے جیسا کہ جھوٹ کے بیان میں اس کی تفصیل آ چکی ہے۔
اٹھارہویں آفت۔ مدح :-
بعض موقعوں پر مدح (تعریف) بھی جائز نہیں۔ مدح میں چھ آفتیں ہیں، ان میں سے چار کا تعلق مدح کرنے والے سے ہے اور دو کا تعلق اس شخص سے ہے جس کی مدح کی جائے۔ مدح کرنے والے سے متعلق چار آفتیں: پہلی آفت یہ ہے کہ کبھی وہ تعریف کرنے میں اس قدر افراط کرتا ہے کہ جھوٹ ہو جاتا ہے۔ خالد ابن معدان کہتے ہیں کہ جو شخص کسی کی تعریف میں ایسی بات کرے جو ممدوح میں نہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کی زبان لڑکھڑاتی ہوگی۔
دوسری آفت یہ ہے کہ کبھی تعریف میں ریا بھی شامل ہو جاتی ہے۔ یعنی تعریف اگرچہ سچی ہوتی ہے لیکن مادح اس تعریف سے ممدوح کے واسطے اپنی محبت ظاہر کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس کے دل میں محبت نہیں ہوتی، یا وہ ممدوح کی ان تمام خوبیوں کا دل سے معترف نہیں ہوتا جن کا وہ محض نمائشی محبت کے لیے اظہار کرتا ہے اس طرح وہ ریاکار اور منافق ہو جاتا ہے۔
تیسری آفت یہ ہے کہ بعض اوقات وہ ایسی باتیں بیان کرتا ہے جن کی نہ اسے تحقیق ہوتی ہے اور نہ علم و اطلاع۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کسی دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو اس سے پوچھا: کیا تو نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے پوچھا ، کیا تو اس کی صبح و شام کا پڑوسی ہے؟ اس نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔ حضرت عمر نے فرمایا: اللہ کی قسم میرے خیال میں تو اسے نہیں جانتا، علم و تحقیق کے بغیر تعریف کر رہا ہے۔
چوتھی آفت یہ ہے کہ مدح کرنے والا اپنی مدح سے ظالم اور فاسق ممدوح کے خوش ہونے کا موقع دیتا ہے جب کہ یہ ناجائز ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : ان اللہ تعالیٰ یغضب اذا مدح الفاسق۔ یعنی جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔ (ابن ابی الدنیا، بیہقی، انس)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی ظالم کو درازئ عمر کی دعا دی اس نے گویا اس خواہش کا اظہار کیا کہ اللہ کی زمین میں اس کی نافرمانی کا سلسلہ دراز رہے، ظالم اور فاسق شخص مذمت اور ہجو کا مستحق ہے تاکہ غمگین ہو اور اپنے ظلم و فسق سے باز آئے، وہ تعریف کا مستحق نہیں۔ ممدوح سے متعلق دو آفتیں: پہلی آفت یہ ہے کہ تعریف و ستائش سے اس کے دل میں کبر اور عجب پیدا ہوتا ہے، یہ دونوں صفتیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حلقے میں دُرہ لئے بیٹھے تھے، اتنے میں جارود ابن المنذر آئے، حاضرین میں سے کسی نے کہا یہ ربیعہ قوم کے سردار ہیں۔ حضرت عمر اور مجلس میں موجود لوگوں نے بھی یہ جملہ سنا اور جارود ابن المنذر نے بھی۔ جب وہ قریب آئے تو آپ نے انہیں آہستہ سے کوڑا لگایا ، انہوں نے عرض کیا، امیر المؤمنین، مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی؟ فرمایا ، کیا تو نے سنا نہیں فلاں شخص تیرے بارے میں کیا کہہ رہا تھا۔ عرض کیا جی ہاں سنا ہے۔ فرمایا ، مجھے یہ خوف ہوا کہ یہ بات سن کر کہیں تو مغرور نہ ہو جائے۔
دوسری آفت یہ ہے کہ دوسرے کی تعریف سے خوش ہو گا اور یہ غلط ٍفہمی دل میں راسخ ہو جائے گی کہ میں اچھا ہوں اسی لیے لوگ میری تعریف کرتے ہیں۔ یہ خوش فہمی اسے عمل میں سست بنا دے گی اور خود پسندی کے مرض میں مبتلا کر دے گی اور یہ احساس پیدا کرے گی کہ اب عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے : اذا مدحت اخاک فی وجھہہ فکانما مررت علیٰ حلقہ موسیٰ رمیضا۔ یعنی جب تو نے اپنے بھائی کی تعریف اس کے منھ پر کی تو گویا اس کی گردن پر تیز اُسترا پھیر دیا۔ (عبداللہ بن مبارک فی الزہد والرقائق- یحیٰ بن جابر)
مدح کی اجازت : اگر مدح مذکورہ بالا آفات سے محفوظ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس طرح کی تعریف مستحب ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد صحابہ کرام کی تعریف فرمائی ہے۔ مثلاً فرمایا : لو وزن ایمان ابی بکر بایمان العالم رجح۔ یعنی اگر ابوبکر کا ایمان تمام دنیا کے ایمان سے تولا جائے تو ان کی ایمان ہی بھاری ٹھہرے۔ ایک حدیث میں فرمایا : انا سید ولد آدم ولا فخر۔ یعنی میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور یہ کوئی شیخی کی بات نہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ۔ ابو سعید الخدری)
یعنی یہ بات میں بطور تفاخر نہیں کہہ رہا ہوں جیسا کہ دوسرے لوگ اپنی خوبیاں گنا کر فخر کیا کرتے ہیں۔ حضور کا افتخار تو اللہ عزوجل کی قربت کی وجہ سے تھا، نہ کہ اس لیے کہ آپ بنی نوع انسان کے سردار تھے یا آپ کی تخلیق ان سب سے پہلے ہوئی۔ اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آ گئی ہو گی کہ احادیث میں مدح کی مذمت کیوں فرمائی گئی، اور بعض مواقع پر اس کی اجازت و ترغیب کیوں دی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ جب کچھ لوگوں نے کسی مردہ شخص کی تعریف کی تو آپ نے ارشاد فرمایا ؛ وجبت (یعنی جنت واجب ہو گئی، بخاری و مسلم-انس) اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کرنا چاہیے خاص طور پر مردہ لوگوں کا ،کیونکہ مؤمنوں کی شہادت سے اس کے درجے بلند ہوتے ہیں۔ ممدوح کی ذمہ داری : ممدوح کو چاہیے کہ وہ اپنی تعریف پر نازاں نہ ہو اور کبر و عجب کا ہلکا سا غبار بھی اپنے دل کی سطح پر نہ پڑنے دے۔ اور یہ بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب وہ تعریف کے وقت یہ سوچے کہ دنیا سے رخصت ہونے کی گھڑی انتہائی نازک اور خطرناک ہے۔ ریا اور اعمال کی بے شمار آفتیں تاک میں ہیں، ذرا سی دیر میں نیکیاں خاک میں مل سکتی ہیں۔ ممدوح کو اپنے ان عیوب کا جائزہ لینا چاہیے جس سے تعریف کرنے والا واقف نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کسی نے تعریف کی ۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ، میرے جن گناہوں سے یہ لوگ واقف نہیں، انہیں معاف فرما، جو اچھائیاں میری طرف منسوب کرتے ہیں ان پر مؤاخذہ مت کر، اور جیسا یہ مجھے سمجھتے ہیں ایسا ہی کر دے۔
انیسویں آفت- کلام کی غلطیوں سے غفلت:-
کلام میں دقیق غلطیوں سے غفلت برتنا بھی بڑی آفت ہے۔ خاص طور پر ان باتوں میں جن کا تعلق باری تعالیٰ کی ذات و صفات سے ہو اور دین سے مرتبط اور متعلق ہوں۔ دین سے متعلق الفاظ کو صحیح طریقے پر علماء اور فصحاء ہی ادا کر سکتے ہیں۔ علم اور فصاحت سے محروم لوگوں کا کلام لغزشوں سے خالی نہیں ہوتا۔ البتہ متکلم کی جہالت کے باعث اللہ تعالیٰ ایسی لغزشیں معاف فرما دیتا ہے۔ اس طرح کی غلطیوں کی مثال حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لا يقولن أحدكم: ما شاء الله وشئت، ولكن ليقل: ما شاء الله، ثم شئت ۔ یعنی تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ اور میں چاہوں بلکہ یوں کہے کہ جو اللہ نے چاہا پھر میں نے چاہا۔ (صحیح بخاری و مسلم)۔
یہ کہنا اس لیے صحیح نہیں ہے کہ مطلق عطف میں غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک کرنے کا عمل پایا جاتا ہے اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ارادہ و خواہش میں یہ دونوں برابر ہیں، یہ بات احترام اور ادب کے منافی ہے۔ بلکہ پہلے باری تعالیٰ کی مشیت بیان کرے، پھر اپنا ارادہ و خواہش۔
بعض لوگ یہ کہنا برا جانتے تھے کہ اے اللہ ہمیں دوزخ سے آزاد کر، اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ آزاد کرنا دوزخ میں داخل کرنے کے بعد ہو گا۔ اس لیے کیا ضروری ہے کہ ہم یہ الفاظ بولیں ، یوں کیوں نہ کہیں کہ اے اللہ، ہمیں دوزخ سے بچا۔ ایک شخص نے یہ دعا کی " اے اللہ ، مجھے ان لوگوں میں سے کر جنہیں قیامت کے دن حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی"۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مؤمنین کو حضور اکرم کی شفاعت کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ آپ کی شفاعت امت کے گنہگاروں کے لیے ہو گی۔ حضرت ابرہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو گدھا یا سؤر کہہ کر پکارے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ بتا کیا میں نے اسے گدھا بنایا تھا ، کیا میں نے اسے خنزیر بنا کر پیدا کیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے بعض آدمی ایسا شرک کرتے ہیں کہ کتے تک کو شریک بنا دیتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں کہ اگر یہ کتا نہ ہوتا تو آج رات ہمارے گھر میں چوری ہو گئی ہوتی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہر گز یہ نہ کہے کہ یہ میرا بندہ ہے، یہ میری لونڈی ہے، تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمہاری تمام عورتیں اسی کی لونڈیاں ہیں۔ بلکہ یہ کہا کرو کہ یہ میرا غلام ہے، یہ میری باندی ہے، یا یہ میرا لڑکا یا لڑکی ہے۔ غلام بھی اپنے آقا کو رب یا ربّتہ (حقیقتاً پرورش کرنے والا) نہ کہے ، بلکہ آقا یا سردار کہے ، اس لیے کہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور پالنے والا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ میں اسلام سے بری ہوں، اگر وہ سچا ہے تو ایسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا اور جھوٹا ہے تو اسلام کی طرف اس کی واپسی سلامتی نہ ہو گی۔ (نسائی، ابن ماجہ-بریدہ)
یہ چند مثالیں ہیں جن سے کلام کی ان غلطیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جن پر عام آدمی کی نظر نہیں جاتی، حالانکہ ان پر مؤاخذہ ہوتا ہے۔ ان غلطیوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب تک ہم نے زبان کی جن آفتوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ زبان آزاد رکھنے میں سلامتی نہیں ہے۔ اور حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک حکمت سے پُر ہے کہ مَنْ صَمَتَ نَجَا ، یعنی جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔ (سنن ترمذی)۔ بولنے میں خطرہ ہی خطرہ ہے، الّا یہ کہ فصاحت ، علم ، تقویٰ اور مراقبہ کی صلاحیت رکھتا ہو۔
بیسویں آفت ۔ عام لوگوں کے سوالات:-
یہ بھی بڑی آفت ہے کہ عوام الناس اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں اور اس کے کلام اور حروف و الفاظ کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ حادث ہیں یا قدیم، حالانکہ عوام کا حق صرف اتنا ہے کہ وہ قرآن کریم کے احکام کی تعمیل کریں ، لیکن کیونکہ عمل نفس پر شاق گزرتا ہے اور فضول بحثوں میں کام و دہن کو لذت محسوس ہوتی ہے اس لیے وہ لوگ بھی علم کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جنہیں اس سے ادنیٰ درجے کی مناسبت نہیں ہے۔ شیطان انہیں اکساتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ تم عالم ہو، صاحب فضل و کمال ہو ، تمہاری ایک رائے ہے، تمہیں اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات وہ ان خود ساختہ عالموں کی زبان سے ایسی باتیں نکلوا دیتا ہے جو صریح کفر ہوتی ہیں اور انہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا بک گئے ہیں۔ عامی کے لیے کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بہ نسبت علمی بحثیں زیادہ خطرناک ہیں، خاص طور پر وہ بحثیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے ہو۔ ان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ جو کچھ قرآن کریم میں نازل ہوا ہے اس پر بلا چوں و چرا ایمان لائیں اور عبادات میں مشغول ہوں۔ کسی ایسے دقیق علمی مبحث پر گفتگو کرنے والا بھی عامی کی طرح ہے جسے اس کا ذہن سمجھنے سے قاصر ہو، اگرچہ وہ دوسرے مباحث پر اچھی گفتگو کیوں نہ کرتا ہو۔ اسی لیے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا : ذَرُونِي ما تركتُكُمْ ، فإنَّما هلَكَ مَنْ كان قبْلكُمْ بِكثرةِ سُؤالِهِمْ ، و اخْتلافِهِمْ على أنْبيائِهِمْ ، فإذا أمرتُكُمْ بِشيءٍ فأْتُوا مِنْهُ ما استطعتُمْ ، و إذا نهيْتُكُمْ عن شيءٍ فدَعُوهُ۔ جو بات میں نے تمہیں نہیں بتلائی اسے مجھ ہی تک رہنے دو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے ہیں کہ وہ بکثرت سوال کیا کرتے تھے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کیا کرتے تھے۔ میں جس کا چیز کا تمہیں حکم دوں اسے جتنا تم سے ہو سکے بجا لاؤ اور جس چیز سے تمہیں منع کردوں اس سے رک جاؤ۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز صحابہ نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ سوالات کیے۔ آپ سوالات کی کثرت سے ناخوش ہوئے اور اسی حالت میں منبر پر تشریف لا کر لوگوں سے فرمایا : پوچھو، خوب پوچھو، جو سوال تم کرو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر دریافت کیا: یا رسول اللہ، میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا، تیرا باپ حذیفہ ہے۔ اس کے بعد دو نوجوان کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنے باپ کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا: تمہارا باپ وہ ہے جس کی طرف تمہاری نسبت کی جاتی ہے۔ پھر ایک شخص اٹھا اور اس نے دریافت کیا کہ میں جنت میں جاؤں گا یا دوزخ میں؟ آپ نے فرمایا ، دوزخ میں۔ جب لوگوں نے آپ کی ناراضگی محسوس کی تو خاموش ہو گئے اور کسی نے کوئی سوال نہ کیا۔ سوالات کا سلسلہ منقطع ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور ( دو زانو ہو کر) اعلان کیا : " رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا " کہ ہم اس پر راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین ہے اور محمد صل اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا اے عمر تو بیٹھ جا، اللہ تجھ پر رحم کرے ، مجھے معلوم ہے کہ تجھے توفیق ارزانی ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم)۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :یوشک الناس یتساءلون حتٰی یقولوا قد خلق اللہ الخلق، فمن خلق اللہ؟ فاذا قالوا ذالک فقولو قل ھواللہ احد اللہ الصمد حتٰی تختمو السورۃ تم لیتھل احدکم عن یسارہ ثلاثا و یستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ یعنی مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ سوالات کرتے کرتے یہ کہنے لگیں گے کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے۔ اگر لوگ یہ پوچھیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے (پوری سورۃ اخلاص سنا دو) پھر تم میں سے ایک بائیں طرف تھوک دے اور شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگے۔ (صحیح بخاری و مسلم ۔ ابو ہریرہ)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بلا ضرورت سوال نہ کرنا چاہیے، حضرت خضر نے اپنے ساتھ لے جانے سے پہلے حضرت موسٰی پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ اپنے طور پر کچھ نہ پوچھیں یہاں تک کہ میں خود ہی ذکر نہ کر دوں۔ جب انہوں نے کشتی میں سوراخ کر دینے پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے اس کی وجہ معلوم کی تو حضرت خضر نے ان کا وعدہ یاد دلایا ، حضرت موسیٰ نے معذرت کی، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا، بالآخر حضرت خضر نے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
دین کے اسرار اور غامض امور کے بارے میں عوام کا کچھ دریافت کرنا عظیم ترین آفت ہے، اس سے فتنے پیدا ہو سکتے ہیں۔ قرآنی الفاظ و حروف کے قدیم یا حادث ہونے کے سلسلے میں ان کا بحث کرنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے فرمان پر عمل کرنے کے بجائے اس کاغذ پر غور کرنے لگے جس پر وہ فرمان لکھا ہوا ہے، یا ان الفاظ کی ترکیب پر بحث کرنے بیٹھ جائے جن سے حکم عبارت ہے۔ اس کا کام صرف عمل کرنا تھا، عمل اس نے کیا نہیں اور ایک ایسے کام میں مصروف ہو گیا جو اس سے مطلوب نہیں، ایسا شخص یقیناً سزا کا مستحق ہو گا۔۔۔
(تمت آفات اللسان، الحمدللہ۔۔۔)
اللہ کے کرم سے زبان کی آفتوں سے متعلق ہمارا یہ سلسلہ مکمل ہوا۔ اللہ عزوجل اسے سب کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے اور ہمیں یہ باتیں یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔
پہلی آفت- لایعنی (بے فائدہ) کلام:-
بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے الفاظ کی ان تمام آفات سے حفاظت کرے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہیں یعنی غیبت، چغل خوری،جھوٹ اور خصومت وغیرہ۔ اور صرف وہ بات کہے جو جائز ہو اور جس میں نہ بولنے والے کے لیے کوئی ضررہو اور نہ کسی مسلمان بھائی کے لیے۔ جائز اور ضرر نہ دینے والی بعض باتیں ایسی بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ لایعنی اور بے فائدہ باتیں ہیں۔ ان میں وقت کا ضیاع بھی ہے اور آخرت کا محاسبہ بھی ہے۔ اور بہتر کے عوض کمتر کو حاصل کرنے کا عمل بھی ہے کیونکہ اگر متکلم بولنے کی بجائے اپنے قلب و دماغ کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں فکر کرنے کی طرف مائل کرتا تو یہ اس کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔ بہت ممکن تھا کہ اس فکر کے نتیجے میں اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے کھل جاتے اور قلب کو انشراح نصیب ہو جاتا۔ جو شخص خزانہ حاصل کر سکتا ہو اگر وہ پتھر جمع کرنے بیٹھ جائے تو اسے بدبختی کے علاوہ کیا کہا جائے گا۔ یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر ترک کر کے کسی لا یعنی اور بے فائدہ مگر مباح کام میں مشغول ہو جائے ۔ اگرچہ وہ گنہگار نہیں ہے لیکن یہی نقصان کیا کم ہے کہ اسے نفع عظیم حاصل نہیں ہو سکا۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہمِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ ۔ آدمی کے اسلام کے اچھا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی کام ترک کر دے۔ (ترمذی و ابن ماجہ)